برکلے، کیلیفورنیا: (ویب ڈیسک) ماہرین نے پودوں میں اربوں سال سے جاری ضیائی تالیف (فوٹوسنتھے سز) کے عمل کو بہتر بنایا ہے جس کی بدولت اب وہ رات کے وقت بھی نشوونما پا سکتے ہیں۔
ضیائی تالیف یا فوٹوسنتھے سز کا عمل پودوں اور درختوں کے لیے آبِ حیات ہوتا ہے۔ سورج کی روشنی میں وہ کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے، آکسیجن خارج کرتے ہیں اور نشاستہ (اسٹارچ) یا شکریات کی صورت میں پودے خود اپنے لیے غذا بناتے اور بڑھتے رہتے ہیں۔
اس کا سب سے بڑا فائدہ خلا اور دیگر سیاروں پر پودوں کی افزائش کی صورت میں سامنے آسکے گا۔ اگرچہ پودوں پر پڑنے والی دھوپ کا 3 سے 6 فیصد حصہ ہی توانائی اور غذا میں بدلتا ہے لیکن اب ماہرین نے ایک پیچیدہ عمل سے ضیائی تالیف کے عمل کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ بایو انجینیئرنگ سے پودے اور درخت مکمل تاریکی میں بھی اپنی غذا بنا کر پروان چڑھتے رہتے ہیں۔
امریکہ میں جامعہ کیلیفورنیا، ریورسائڈ کے سائنسدانوں نے سرکے کا اہم جزو ’ایسیٹیٹ‘ لے کر اسے پودوں کو ڈالا جس نے کاربن ڈائی آکسائیڈ کی جگہ لے لی اور ضیائی تالیف کے عمل کو پھلانگا گیا۔ پھر اسے کئی پودوں اور غذائی اجزا یعنی خمیر، خردنامیوں، سبز الجی، مٹر، تمباکو، چاول، کینولہ اور چنے وغیرہ پرآزمایا گیا۔
ایسیٹیٹ کی بدولت سارے پودے مکمل تاریکی میں پروان چڑھے اور بعض نے تو سورج کی روشنی کے مقابلے میں بہتر افزائش ظاہر کی۔ مثلاً االجی کی نشوونما چار گنا تیزی سے ہوئی اور خمیر 18 گنا تیز رفتار پیداوار دینے لگا۔
سائنسدانوں نے مطابق ایسیٹیٹ پودوں کے بڑھوتری کے بنیادی اینٹ کا کام کر رہا ہے۔ لیکن یاد رہے کہ زمین پر بعض ایسے مقامات ہیں جہاں دھوپ کم ہوتی ہے اور مصنوعی ضیائی تالیف وہاں بہت مفید ہوسکتی ہیں ان میں بادلوں سے گھرے علاقے اور مصروف شہر بھی شامل ہیں۔
اس منصوبے کو ناسا نے بھی بہترین قرار دیتے ہوئے رقم فراہم کی ہے جسے ’اسپیس فوڈ چیلنج‘ کا نام دیا گیا ہے۔