نگراں حکومت پنجاب نے گزشتہ دنوں صوبے میں اسموگ کی بگڑتی صورتحال پر قابو پانے کے لئے مصنوعی بارش برسانے کا فیصلہ کیا ہے۔
نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے اہم اجلاس میں 28 نومبر کو لاہور شہر میں اسموگ کے خاتمے کے لیے مصنوعی بارش برسانے کا فیصلہ کیا۔
اسموگ کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے بعد لاہور کا مجموعی ایئر کوالٹی انڈیکس 300 سے بھی تجاوز کر گیا ہے اور محکمہ موسمیات کے مطابق اگلے ہفتے بارش کے امکانات بھی بہت کم ہیں۔
تاہم اس صورتحال کے پیش نظر صوبائی حکومت کی جانب سے مصنوعی بارش برسانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
لاہور میں گذشتہ دنوں ہونے والی ہلکی بارش سے آلودگی میں تھوڑی کمی ہوئی مگر ماہرین کے مطابق یہ عارضی راحت ہے اور آلودگی کا سلسلہ اتنی آسانی سے ختم نہیں ہوگا۔
مصنوعی بارش کا طریقہ کار کیا ہے؟
مصنوعی بارش برسانے کا عمل کافی دلچسپ ہوتا ہے جس میں کیمیکلز کے ذریعے بادلوں کو بھاری کیا جاتا ہے، اس عمل کو کلاؤڈ سیڈنگ بھی کہتے ہیں۔
کلاؤڈ سیڈنگ میں عام طور پر سلور آئیوڈائیڈ، پوٹاشیم آیوڈائیڈ، سوڈیم کلورائیڈ (ٹیبل سالٹ) یا ڈرائی آئس جیسے کیمیکلز کا استعمال کیا جاتا ہے۔
کلاؤڈ سیڈنگ میں خصوصی ہوائی جہاز یا زمین سے راکٹ اور مخصوص آلات کے ذریعے بادلوں پر کیمیکل چھڑکے جاتے ہیں جو بادلوں میں سنو فلیکس کی تشکیل کے لیے بنیاد فراہم کرتے ہیں۔
سیڈنگ کے عمل کے بعد بادلوں میں بننے والے برف کے کرسٹلز بادلوں کو وزنی بنا دیتے ہیں، جس کے بعد بارش ہونے لگتی ہے۔
کیا پاکستان میں مصنوعی بارش کرنا ممکن ہے؟
محکمہ موسمیات کے ریجنل ڈائریکٹر شاہد عباس کے مطابق مصنوعی بارش برسانا کوئی مشکل عمل نہیں، لیکن اس تجربے کے کامیاب ہونے کے لیے کافی صورتیں ہیں جن کے بغیر مصنوعی بارش برسانا ناممکن ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مؤثر کلاؤڈ سیڈینگ کے لیے کم از کم 40 فیصد بادلوں کا ہونا اور ہوا میں کم سے کم 70 فیصد نمی ہونا ضروری ہے۔
اس کے علاوہ ہوا کی رفتار بھی بہت معنی رکھتی ہے جو کہ 30 سے 50 کلومیٹر فی گھنٹہ کے درمیان ہونی چاہیے اور جب تک یہ صورتیں مکمل نہ ہوں تو مصنوعی بارش کا تجربہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔
ریجنل ڈائریکٹر محکمہ مومسیات کا کہنا تھا کہ مصنوعی بارش کا تجربہ اگر کامیاب بھی ہو جائے تو اس کو آلودگی ختم کرنے کے لیے مستقل حل تصور نہیں کیا جاسکتا کیونکہ بارش کے بعد آلودگی کم تو ضرور ہوگی مگر اس کی کوئی گارنٹی نہیں کہ اس میں دوبارہ اضافہ نہیں ہوگا۔