اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں ابکشاف کیا گیا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی (تحریکِ طالبان پاکستان) کو پاکستان پرحملوں کے لیے القاعدہ، دیگر عسکریت پسند گروپوں اور سب سے بڑھ کر، بظاہرافغان طالبان کی حمایت حاصل ہے۔
یہ الزام داعش، القاعدہ اور طالبان کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے والی ٹیم نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جمع کرائی جانے والی 33 ویں رپورٹ میں عائد کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق معاملہ پاکستان پر حملوں کے لیے اسلحے اور دیگر سامان کی فراہمی تک محدود نہیں بلکہ آن گراؤنڈ سپورٹ بھی دی جاتی ہے۔
پاکستان نے کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کو حملوں سے روکنے کے حوالے سے افغان طالبان کی طرف کچھ بھی نہ کیے جانے پر بارہا تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ افغانستان کی طرف سے کچھ نہ کیے جانے سے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں کشیدگی در آئی ہے۔
پاکستان کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف کابل حکومت کی طرف سے کچھ کرنے سے ہچکچاہت کو اپنی سلامتی کے لیے خطرے سے تعبیر کرتا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کابل میں قائم طالبان حکومت افغانستان کی حدود سے باہر کالعدم ٹی ٹی پی کے حملوں کی مخالف ہے تاہم اس کے باوجود کالعدم گروپ کے ارکان پاکستان پر حملے کرتے رہے ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ افغان طالبان کے بعض ارکان مذہبی فریضہ سمجھ کر کالعدم ٹی ٹی پی سے وابستہ ہوگئے ہیں اور اس کے نتیجے میں گروپ کی سرگرمیوں کا دائرہ وسیع ہوا ہے۔
دوسری طرف کالعدم ٹی ٹی پی کے ارکان اور ان کی فیملیز کو افغان طالبان کی طرف سے امداد باقاعدگی سے ملتی رہی ہے۔ اس سے کالعدم گروپ کے لیے افغان طالبان حکومت کی تائید و حمایت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق کالعدم ٹی ٹی پی کے 70 تا 200 ارکان کو عارضی طور پر حراست میں لیے جانے اور جنگجوؤں کو پاک افغان سرحد علاقوں سے دور شمال کی طرف بھیجے جانے کو پاکستان کی توجہ منتشر کرنے کے اقدام کے طور پر دیکھا گیا۔
2023 کے وسط میں کالعدم ٹی ٹی پی نے خیبر پختونخوا میں ایک نیا اڈا قائم کیا جہاں بہت بڑے پیمانے پر خود کش بمبار تیار کیے گئے۔ تربیت فراہم کرنے میں القاعدہ کا کردار بہت اہم رہا ہے۔ اسی نے نظریاتی راہ نمائی بھی کی ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عسکریت پسندوں کے نیٹ ورک آپس میں کس حد تک جڑے ہوئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق القاعدہ نے کالعدم ٹی ٹی پی کو وسائل بھی فراہم کیے ہیں۔
علاوہ ازیں کالعدم ٹی ٹی پی کو کور دینے کے لیے تحریکِ جہاد، ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ، ترکستان اسلامک پارٹی اور مجید بریگیڈ کا قیام پاکستان کو لاحق کثیر الجہات خطرات کی نوعیت بیان کرتا ہے۔
سلامتی کونسل میں جمع کرائی جانے والی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی ریزرو فورس کی حیثیت سے نوجوانوں بھرتی کرنے کے ساتھ ساتھ خواتین کو بھی بھرتی کرکے دہشت گردی کی تربیت کر رہی ہے۔ اس صورتِ حال کے باعث علاقائی ممالک میں خاصی تشویش پائی جاتی ہے۔
ایک ملک کی طرف سے جمع کرائی جانے والی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ القاعدہ کا ایک دھڑا بڑے پیمانے پر تربیت فراہم کر رہا ہے جبکہ مجید بریگیڈ بلوچستان میں دہشت گردی میں ملوث ہے۔ اس گروپ کے جنگجو ارکان کی تعداد 60 تا 80 ہے اور یہ خواتین خود کش بمبار بھرتی کرنے پر زیادہ توجہ دے رہی ہے۔ مجید بریگیڈ نے پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں اور چینی باشندوں پر متعدد حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔