پاکستان پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما خورشید شاہ نے کہا کہ ضرورت پڑی تو پیپلزپارٹی کابینہ کا حصہ بنے گی، شہبازشریف کی حکومت کو مکمل سپورٹ کریں گے، کابینہ میں ہمارے نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، ہم ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وزارتوں کے پیچھے نہیں بھاگتے۔
آج نیوز کے پروگرام “روبرو “ میں اینکر پرسن شوکت پراچہ کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سابق اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا کہ الیکشن کے لیے بھاگ دوڑ بھی کی جاتی ہے، خوش نصیبی ہے کہ آصف زرداری صدارت کا الیکشن لڑرہے ہیں، آصف زرداری دوسری بار سویلین صدر بننے جارہے ہیں، اکھاڑے میں اترنے والے پہلوان داؤ پیچ سے جیتتے ہیں۔
خورشید شاہ نے کہا کہ ہم عوامی مفاد میں ہونے والی قانون سازی کے حق میں ہیں، چاہتے ہیں کہ ضرورت کے مطابق آئین میں ترمیم ہو، بلدیاتی قانون سازی پورے پاکستان کے لیے ایک جیسی ہونی چاہیئے، بلاول بھٹو نے ملکہ برطانیہ کا ذکر مذاقاً کیا تھا۔
پیپلز پارتی کے رہنما کا مزید کہنا تھا کہ صدارت کے لیے آصف زرداری کے پاس اکثریت ہے، حکومت اور اپوزیشن ایک گاڑی کے 2 پہیوں کی طرح چلیں، ہم نے بھٹو ریفرنس میں صبر کا دامن نہیں چھوڑا، ہماری جدوجہد کے باعث جوڈیشل مرڈر تسلیم کیا گیا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم نے سیاست میں بہت اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں، انہوں نے صرف اپ دیکھا ہے ڈاؤن اب دیکھ رہے ہیں، بھٹو کی پھانسی کے بعد کوئی سوچ نہیں سکتا تھا کہ پیپلز پارٹی پھرحکومت بنائے گی۔
خورشید شاہ نے کہا کہ خیبرپختونخوا حکومت پر 1200 ارب روپے کا قرض ہے، خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کی تیسری بار حکومت آئی ہے، بانی پی ٹی آئی نے وہ نہیں دیکھا جو پیپلزپارٹی نے دیکھا ہے، عمران خان صرف اپنے بارے میں سوچتے ہیں، دیکھنا ہوگا کہ معیشت، امن وامان کو کیسے درست کرنا ہے۔
پیپلز پارٹی کے رہنما کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے شفاف انتخابات کے لیے قانون سازی کی تھی، ماضی میں ایک ایک آدمی کے کئی کئی ووٹ ہوتے تھے، ہم الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم کی طرف جارہے تھے، ہم چاہتے تھے کہ کوئی بھی کہیں بھی ووٹ کاسٹ کرسکے، عوام کو پولنگ اسٹیشن ڈھونڈنے سے بچانا چاہتے تھے، یہ لوگ اپنے لیڈر کو بچانے کے لیے دھاندلی کا شور کررہے ہیں، ہم سب کے لیے فیئر ٹرائل چاہتے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم زراعت پر توجہ دے کر چین کو فوڈ سپلائی کرسکتے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ سب کو ساتھ لے کر چلیں، وفاقی حکومت کو عوام کے لیے کوششیں جاری رکھنا چاہئیں، کل وزیراعظم خیبرپختونخوا گئے، وزیراعلی نہیں آئے، علی امین گنڈا پور کے نہ آئے سے کوئی فرق نہیں پڑا۔
خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ چاہتے ہیں پارلیمنٹ میں اپوزیشن کو بھی بولنے کا موقع ملے، عمر ایوب بولتے ہیں کہ ہم خاموشی سے سنتے ہیں، ہماری باری پر اپوزیشن شور شرابا شروع کردیتی ہے۔
سابق اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی نے کہا کہ شہبازشریف کی حکومت کو مکمل سپورٹ کریں گے، کابینہ میں ہمارے نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، ہم ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وزارتوں کے پیچھے نہیں بھاگتے، ضرورت پڑی تو پیپلز پارٹی کابینہ کاحصہ بنے گی۔
شوکت پراچہ نے سوال کیا کہ کیسے معلوم ہوگا کہ پیپلزپارٹی کی کابینہ میں ضرورت ہے؟ جس پر خورشید شاہ نے جواب دیا کہ وزیراعظم شہبازشریف خود ہی ہمیں بتائیں گے، ہم کسی چیز کو بیچ کر بہتر کرنے کے حق میں نہیں۔
پیپلز پارٹی کے رہنما نے مزید کہا کہ پی ٹی اے کا 800 بلین کا قرض ہے، بیچنے کا فائدہ نہیں ہوگا، بلوچستان کا بڑا دکھ احساس محرومی ہے، پیپلزپارٹی نے احساس محرومی کے خاتمے کے لیے اقدامات کیے، موجودہ حکومت بلوچستان میں پیسہ خرچ کرے، بلوچستان میں ایگری کلچر کو فروغ دیا جاسکتا ہے، بڑے لوگوں کے بجائے کسانوں کو سبسڈی ملنی چاہیئے، بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے سب کو بیٹھانا ہوگا، بلوچستان صوبہ منرلز سے مالامال ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم مولانافضل الرحمان کی بہت عزت کرتے ہیں، مولانا کا ووٹ بینک خیبرپختونخوا میں ہے، مولانا کے ساتھ دھاندلی کس نے کی ہے؟ مولانا کو ہرانے والوں نے کس کو جتوایا، پی ٹی آئی کو کراچی اور پنجاب میں دھاندلی نظرآتی ہے۔