اس جہان رنگ وبو میں صرف تغیر کو ہی ثبات ہے۔یہی اس دنیا کا دستور اوریہی قانون قدرت ہے کہ یہاں کچھ بھی جامد نہیں رہتا۔ دن اوررات کا آپس میں تبدیل ہونا۔ہر روز سورج کا نئے سرے سے طلوع ہونا اور مسلسل سفر میں رہنا بغیر کسی مقام پر ٹھہرے آگے بڑھ جانا یہ سب کچھ ہمیں زندگی کے سبق سکھانے کے لیے ہی تو ہے۔ہم اس وقت ہمہ جہتی بحران کا شکار ہوگئے ہیں۔ہماراغصہ،ہماری نفرت ہمیں مجبورکررہی ہے کہ ہم اسی لمحہ موجود میں اس وقت تک ٹھہرے رہیں جب تک ہم مخالف سے بدلہ نہ لے لیں ۔اپنی جیت کا اعلان نہ کرلیں ہم اسی بحران میں خود بھی رہیں اور اپنے ارد گرد کو بھی اسی گرداب میں پھنسائے رکھیں ۔یہ سوچ قدرت کے اصولوں کے خلاف ہے اور پھر ہم کو آگے بڑھنے کی ضرورت ہے ورنہ ہمارا غصہ ہمیں ہی کھاجائے گا ۔یہ ہمارا مسقبل اور ہماری نسلوں کو کھاجائے گا۔
مجھے لگتا ہے کہ اس سیاسی ،معاشی اور معاشرتی سنگین بحرانی کیفیت سے نکلنے کے لیے ہمیں پاکستان کو ’’ری سیٹ‘‘کرنے کی اشد ضرورت ہے۔آپ کو یاد ہے نا جب کوئی مشین ہینگ ہوجائے ۔کسی جگہ پھنس جائے آگے نہ بڑھ رہی تو اس کوری اسٹارٹ کروایا جاتا ۔ روزمرہ ہم اپنے کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ کے ساتھ یہ عمل کرتے ہیں۔ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی سافٹ و یئر کمپیوٹر سسٹم کو سست کرتا ہویا چلنے میں رکاوٹ بن رہا ہوتو ری اسٹارٹ کرنے سے اس کے فنکشن کو بریک لگ جاتی ہے اور دوبارہ چلانے پر ہمارا کمپیوٹر چلنا شروع ہوجاتا ہے۔اور پھر ہمارے اسمارٹ فون کا بھی تو یہی حال ہوتا ہے ۔بلکہ اسمارٹ فون تو زیادہ تنگ کررہا ہوتو ہم اس کو ’’فیکٹری ری سیٹ‘‘مار دیتے ہیں۔اور یہ فیکٹری ری سیٹ موبائل فون میں قدرتی فیچر کے طورپرشامل کیا جاتا ہے۔فیکٹری ری سیٹ کرنے سے موبائل میں موجود نیا پرانا۔ اچھا،برا سا را ڈیٹا ڈیلیٹ ہوجاتا ہے اور فون ایک بار پھر شروع سے کام کرنا شروع کردیتا ہے۔ہم دوبارہ سے ساری ایپس ڈاؤن لوڈ کرتے ہیں اور اس کے استعمال میں محتاط ہوجاتے ہیں وہ غلطیاں نہیں دہراتے جن کی وجہ سے یہ فون پہلے اس حالت کو پہنچاہوتا ہے ۔ اسی طرح مجھے لگتا ہے کہ ہمارے پیارے پاکستان میں بھی اس وقت نفرت،تقسیم اور غصے کا اتنا ڈیٹا جمع ہوگیا ہے کہ یہ ہماری ریاست کو چلنے ہی نہیں دے رہا۔آگے ہی نہیں بڑھنے نہیں دے رہا۔ہمیں اپنا فون ری سیٹ کرتے ہوئے بھی بڑی تکلیف ہوتی ہے کیونکہ اس میں ہمارا کچھ اہم ڈیٹا بھی ہوتا ہے لیکن جب اس کو استعمال کرنا ہوتاہے ۔اس فون کی اشد ضرورت ہوتی ہے تو مکینک پوچھتا ہے کہ فیصلہ کریں فون چاہئے یا ڈیٹا تو ہمارا فیصلہ فون کے حق میں ہی ہوتا ہے۔آج ہمیں بھی اپنا غصہ ، گلہ ،شکوہ ،شکایات اورنفرت کا ڈیٹانہیں پاکستان کی ضرورت ہے اس کے لیے ہمیں پاکستان کو ری سیٹ کرنا پڑے گا۔
اب ایسا نہیں ہے کہ ہم کوئی ہمیشہ سے جامد ہی رہے ہیں ۔ہم ہمیشہ بڑے بڑے بحرانوں کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھتے رہے ہیں ۔ ہم بڑی ہی محنتی اور جی دار قوم ہیں۔ہم نے آج سے بھی زیادہ بڑے اور سنگین اختلافات میں بھی آگے بڑھنے کا راستہ نکالا ہے۔پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی قائد اعظم کی رحلت کا سانحہ ہوگیا لیکن ہم نے وہ سانحہ برداشت کیا اور آگے بڑھے۔ ہمارے ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو بھرے جلسے میں گولی مارکرشہید کردیا گیا ہم نے اس کو بھی برداشت کیا اور آگے بڑھ گئے۔1971کے سانحے سے بڑا بھی کوئی سانحہ کسی قوم کے ساتھ کیا بھلاہوسکتا ہے؟ہمارا ملک ہی دو ٹکڑے ہوگیا ۔ وجوہات جو بھی تھیں ہم سب کے سامنے ہیں لیکن ہم نے اس مشکل ترین صورتحال کا بھی سامنا کیا۔ ٹوٹی ہوئی قوم کو دوبارہ کھڑا کیا۔ جو پاکستان بچ رہا اس کو بچایا اور نئے سرے سے شروعات کیں۔اس ملک میں جمہوریت کا سفر روکا گیا۔ مارشل لالگائے گئے ۔ آج تک کوئی وزیراعظم مد ت پوری نہیں کرسکا ۔ وزرائے اعظموں کو گھر بھیجا گیا۔عمران خان صاحب تو آئینی طریقے سے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے نکالے گئے اس کے باوجود غصے میں آئے اور ایسے آئے کہ ملک کی اینٹ سے اینٹ بجاڈالی لیکن اسی ملک میں وزرائے اعظم کو ایگزیکٹوآرڈرکے ذریعے گھر بھیجاجاتا رہا۔ عدالت کے ذریعے وزیراعظم پلک جھپکتے ہی عہدوں سے ہاتھ دھوتے رہے نوازشریف ہوں، بے نظیر ہوں یا یوسف رضا گیلانی سب اپنے ساتھ ہوئی زیادتیوں کو پیچھے رکھ کر آگے بڑھتے رہے ۔کیا ان لوگوں کو اقتدار سے نکالے جانے پر غصہ نہیں آیا ہوگا۔کیا ان کی پارٹیاں عوام میں مقبول نہیں تھیں۔کیا ان کی پارٹی کے کارکنوں کوریاست یا عدلیہ پر غصہ نہیں آیا تھا۔ آیا تھا ۔سب کچھ ہوا تھا لیکن سب نے اسی سسٹم کے ساتھ مفاہمت کی اورسسٹم نے ان کو دوبارہ موقع دیا۔ بے نظیر دو بار وزیرزعظم بنیں تو نوازشریف تین بار اس عہدے پرآئے ۔اب بھی اگر چاہتے تووزیراعظم بن سکتے تھے لیکن نہیں بنے یہ ان کی مرضی لیکن اگر وہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی پر خاموش رہے تو سسٹم نے ان کا خیال رکھا۔
اس وقت ملک مشکل ہی نہیں انتہائی مشکل میں ہے۔ پی ٹی آئی کو اقتدار جانے کا غصہ تھا جو غصہ بڑھتے بڑھتے اس ملک اور سسٹم سے نفرت میں بدل گیا۔ اسی غصے کے نتیجے میں نومئی کا سانحہ ہوگیا۔اس وقت پی ٹی آئی کے ساتھ جو بھی کچھ ہورہا ہے اس کامحرک سانحہ نو مئی ہے۔وہ چاہے عمران خان کا جیل میں ہونا ہو یا ان کے کارکنوں کی گرفتاریاں ہوں یا ان کے قائدین کامفرور ہونا ہو۔اس وقت ملک کا مسئلہ ان واقعات کا حل نکالاجانا ہے۔
اقتدار اوراورطاقت کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ ہر طاقتورمضبوط رہنا چاہتا ہے ۔ہمیشہ اقتدار میں رہنا چاہتا ہے۔ یہ ہمیشگی اس سے غلطیاں کرواتی ہے کیونکہ یہ قانون قدرت کے خلاف ہے ۔ قانون قدرت تغیر کانام ہے۔تغیر تبدیلی اورآگے بڑھنے کا نام ہے ۔اقتدار میں جوبھی ہوتا ہے وہ اپنے پیچھے اقتدار میں آنے اور دعویدار کودشمن کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور ویسا ہی سلوک کرنے کا متمنی رہتا ہے۔جس دن یہ تسلسل ٹوٹ گیا ہمارے آدھے مسئلے حل ہوجائیں گے ۔مفاہمت کی ابتدا طاقتورنے کرنی ہوتی ہے لیکن طاقتور مفاہمت کو اپنی کمزوری سمجھتا ہے ۔اور اپوزیشن سے ہاتھ ملانے کو اپنے ہاتھ کاٹ کر اس کے ہاتھ میں دینے کے مترادف سمجھتا ہے ۔یہ سوچ اپوزیشن کو دیوار میں چنوانے کی طرف لے جاتی ہے۔
اس وقت جھگڑا کیا ہے؟ یہی جھگڑ اہے نا کہ عمران خان صاحب کو کیوں ہٹایا گیا اور اب کیوں نہیں لایاگیا؟کیااس کے علاوہ بھی کوئی جھگڑا ہے؟ پی ٹی آئی عمران خان کو جیل سے نکال کر دوبارہ اقتدار میں بٹھاکر اپنے اندر موجود تفاخر اور فتح کے جذبے کی تسکین چاہتی ہے حالانکہ جانتی وہ بھی ہے کہ اقتدار میں آنے کا مطلب سیاسی ذلالت سے زیادہ کچھ نہیں ۔اس وقت پی ٹی آئی کا جھگڑا اسٹیبلشمنٹ سے ہے ۔یہ لڑائی پاکستان کو ہڑپ کرتی جارہی ہے ۔ملک ان حالات میں آگے نہیں بڑھ سکتا۔اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کا مسئلہ کسی طرف لگائے بغیر اس مملکت کو سکون کی طرف لے جایا جاسکتا ہے تو وہ میرے خیال میں غلطی پر ہے۔اب اس مسئلے کا حل کیا ہے ؟ یہ سوال ہے جس پر سب کو سوچنے کی ضرورت ہے ۔کیا اس مسئلے کا حل عمران خان کو جیل میں رکھنا ہے ؟ نہیں یہ حل نہیں ہے۔کیا ان کو مزید سزائیں دلوانا ہے ؟ یہ بھی حل نہیں ہے۔کیونکہ اس پارٹی کے ووٹر ایک بڑی تعدادمیں اس ملک میں موجود ہیں اور جب تک ان کے لیے کو ئی قابل قبول حل نہیں نکالا جاتا یہ ایشواسی طرح ہمیں نقصان پہنچاتا رہے گا۔اس وقت پاکستان کو ایک بار پھر آگے بڑھنے کا فیصلہ کرنا ہے ۔اس بحرانی صورتحال سے نکلنے کا فیصلہ کرنا ہے ۔یہ فیصلہ کرنے کے لیے وسیع ترمفاہمت کی ضرورت ہے ۔اقتدار،اپوزیشن اوراسٹیبلشمنٹ کو ایک ایک قدم پیچھے ہٹ کر چیزوں کو سوچنا ہوگا۔جو کچھ ہوچکا اس کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھنے کا فیصلہ کرنا پڑے گا ۔ یہ بہت ہی مشکل اورتھکادینے والا ،اکتادینے والا، ممکن ہے بہت زیادہ غصہ دلانے والا کام ہو لیکن اس کو کیے بغیر آگے بڑھناممکن نہیں ہوگا۔غلطیاں سب نے کی ہیں ، جب سب ہی غلطیوں میں شریک ہیں تو پھر معافی بھی سب کو مانگنی پڑے گی ۔اسی لیے میں کہتا ہوں کہ پاکستان کو آگے بڑھانے کے لیے اس کو ’’فیکٹری ری سیٹ‘‘ کرنا پڑے گا۔اس پراسس میں سب کی پرانی یاداشت کا ڈیٹا ڈیلیٹ کرکے نئی میموری کے ساتھ ملک کو آگے لے جانا پڑے گا۔کیاہم یہ کرسکیں گے؟مستقبل کا فیصلہ اسی سوال پر ہے۔