پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے 10ویں ایڈیشن کیلئے اپنے ترانے سے سنسنی پھیلانے والے معروف گلوکار علی ظفر کا کہنا ہے کہ میرا مقصد ہمیشہ ایسا ترانہ بنانا ہوتا ہے جو ہر پاکستانی گنگنا سکے۔
کرکٹ پاکستان کو دیئے گئے خصوصی انٹرویو میں معروف گلوکار علی ظفر کا کہنا تھا کہ پاکستان سپر لیگ کے ساتھ میرا جذباتی رشتہ ہے، آغاز سے ہی بھرپور حمایت کی اور اپنے گانے اور پرفارمنسز کے ذریعے رونق کو بڑھایا۔
انہوں نے کہا کہ میں کسی چیز میں خود کو اتھارٹی نہیں سمجھتا بلکہ ایک عاجز فنکار کے طور پر صرف کوشش کرتا ہوں، نتیجہ عوام پر ہے، اس بار ترانے میں صرف میری ہی نہیں بلکہ دیگر فنکاروں کی بھی آوازیں شامل ہیں تاکہ تنوع آئے اور ہر کسی کو اپنا رنگ دکھانے کا موقع ملے
علی ظفر کا کہنا تھا کہ اس بار ترانے میں ریپر طلحہ انجم، نتاشا بیگ اور ابرارالحق کو بھی شامل کیا ہے، طلحہ کا ریپ نہایت جاندار جبکہ نتاشا کی آواز بہت پُراثر ہے، ابرار کی موجودگی نے ترانے میں پنجابی رنگ بھر دیا جس سے یہ ترانہ مختلف طبقات کو متوجہ کرتا ہے، میرا مقصد ہمیشہ ایسا ترانہ بنانا ہوتا ہے جو ہر پاکستانی گنگنا سکے، کوشش ہوتی ہے کہ شاعری میں مطلب ہو اور سننے اور گانے میں آسان ہو، لوگ اسے ڈرائنگ روم، باتھ روم میں یا اسٹیڈیم میں گائیں۔
انہوں نے کہا کہ میرے لیے اس لیگ کی کامیابی کا سفر خواب کی طرح ہے، میں ہمیشہ اس کا حصہ بننے کیلئے تیار رہتا ہوں، سابقہ ترانوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ کسی ایک کو پسندیدہ کہنا مشکل ہوگا کیونکہ کسی گلوکار کیلیے ہر نغمہ اس کے بچے کی مانند ہوتا ہے، البتہ سیٹی بجے گی کو عوام کی پسند اور مقبولیت کی بنیاد پر میں ایک اہم سنگ میل سمجھتا ہوں، مجھے سب سے زیادہ اپنے پچھلے ترانے کھل کے کھیل سے جذباتی لگاؤ ہے۔
علی ظفر نے کہا کہ پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے ترانے کے ساتھ میرا تعلق ہمیشہ خاص رہے گا، میں ہمیشہ اس لیگ کی بھرپور حمایت کروں گا تاکہ پاکستان کرکٹ کو مزید کامیاب بنایا جا سکے۔
گلوکار نے ایک بار پھر پی ایس ایل ترانہ گانے پر اپنے خلاف تنقید کو مسترد کردیا، انھوں نے کہا کہ جب میں نے اپنا گانا چھنوں لانچ کیا اور وہ راتوں رات مقبول ہوا تو بہت سے قریبی دوستوں تک نے میرے خلاف فورمز پر لکھنا شروع کردیا کہ میں موسیقی کے قابل نہیں، میں نے پاکستان کے میوزک کو برباد کردیا ہے، اس وقت مجھے بہت دکھ ہوا لیکن والد نے کہا کہ تمہارا جواب تمہارا کام ہوگا تب سے میں نے ہمیشہ کام کو بولنے دیا۔
انھوں نے کہا کہ جہاں عزت ملتی ہے وہاں کچھ نہ کچھ منفی باتیں بھی سامنے آتی ہیں مگر ان کا مقصد صرف آپ کو الجھانا اور حوصلہ توڑنا ہوتا ہے۔
علی ظفر نے فلسفی سقراط کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جب انسان کے پاس دلیل ختم ہوجاتی ہے تو وہ منفی زبان پر اتر آتا ہے۔