: رپورٹر کی ڈائری
مہران اجمل خان
پاکستان میں ہیپاٹائٹس کا بحران 2025 میں بھی اپنی شدت کے ساتھ موجود ہے اور حالیہ اعدادوشمار اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یہ مسئلہ ایک خاموش لیکن تیزی سے پھیلتی ہوئی وبا کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ ملک اس وقت دنیا میں ہیپاٹائٹس سی کے سب سے زیادہ مریضوں کا بوجھ اٹھا رہا ہے، جہاں متاثرین کی تعداد ایک کروڑ کے قریب پہنچ چکی ہے۔ ہیپاٹائٹس بی کے مریضوں کی تعداد بھی 38 لاکھ سے زائد ہے، لیکن سب سے تشویشناک پہلو یہ ہے کہ مجموعی مریضوں میں سے صرف 25 سے 30 فیصد افراد ہی اپنی بیماری سے آگاہ ہیں جبکہ باقی 70 فیصد بغیر کسی تشخیص اور علاج کے روزمرہ زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ صورتحال اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ہمارے نظامِ صحت میں نہ صرف خامیاں موجود ہیں بلکہ بیماری پر قابو پانے کی بنیادی شرائط بھی پوری نہیں کی جا رہیں۔
اگست 2025 میں وفاقی حکومت نے ’’وزیراعظم قومی پروگرام برائے خاتمہ ہیپاٹائٹس سی‘‘ کے نام سے ایک بڑے منصوبے کا اعلان کیا جس کے تحت 12 سال اور اس سے زائد عمر کے 82.5 ملین افراد کی سکریننگ اور 2027 تک 50 لاکھ مریضوں کے علاج کا ہدف مقرر کیا گیا۔ کاغذی طور پر یہ منصوبہ نہایت جامع ہے لیکن اس پر مؤثر عملدرآمد ایک الگ چیلنج ہے۔ ماضی کے صحت پروگراموں کی تاریخ بتاتی ہے کہ پاکستان بڑے اہداف تو مقرر کرتا ہے مگر ان پر مستقل مزاجی سے عملدرآمد کم ہی دیکھنے میں آتا ہے۔ اسی لیے سوال یہ ہے کہ کیا یہ پروگرام کسی حقیقی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکے گا یا یہ بھی محض ایک اعلان تک محدود رہ جائے گا؟
تشخیص کی کمی پاکستان میں ہیپاٹائٹس کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ دیہی علاقوں میں ٹیسٹنگ سہولیات کا فقدان، پرائیویٹ لیبارٹریوں کے بھاری اخراجات اور سرکاری سپتالوں کی محدود گنجائش سکریننگ کو مشکل بنا دیتی ہے۔ لاکھوں ایسے افراد ہیں جنہیں اپنی بیماری کا علم ہی نہیں اور جب تک بڑے پیمانے پر تشخیص نہیں ہوگی علاج کی کامیابی بھی ممکن نہیں۔ قومی پروگرام کی موجودگی کے باوجود ابھی تک کوئی واضح حکمت عملی سامنے نہیں آئی کہ دیہی علاقوں تک موبائل ٹیسٹنگ یونٹس یا تربیت یافتہ عملہ کیسے پہنچایا جائے گا۔
ہیپاٹائٹس کے پھیلاؤ میں انجیکشنز کا غیر ضروری استعمال، ناقص بلڈ ٹرانسفیوژن، عطائی ڈاکٹروں کی بھرمار اور غیر جراثیم سے پاک آلات کا استعمال بنیادی کردار ادا کر رہا ہے۔ پنجاب میں آٹو ڈسبل سرنجز کو لازمی قرار دیا جانا ایک مثبت قدم ہے لیکن زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ اس پر پوری طرح عملدرآمد تاحال نہیں ہو سکا۔ دیہی علاقوں میں آج بھی پرانی یا دوبارہ استعمال ہونے والی سرنجوں کا استعمال عام ہے جبکہ میڈیکل ویسٹ مینجمنٹ کا نظام تقریباً ناکام ہو چکا ہے۔ یہی صورتحال بیوٹی پارلرز اور غیر رجسٹرڈ کلینکس میں بھی نظر آتی ہے جہاں جراثیم کش طریقوں کو اختیار نہیں کیا جاتا۔
2025 کی ایک تحقیق میں بالغ افراد میں ہیپاٹائٹس اے کے کیسز میں اضافہ بھی سامنے آیا جو اس بات کا اظہار ہے کہ ملک میں پینے کے پانی، صفائی کے نظام اور خوراک کے معیار میں شدید مسائل موجود ہیں۔ ہیپاٹائٹس اے اگرچہ بچوں میں عموماً کم خطرناک ہوتا ہے مگر بالغ افراد میں یہ جگر کے شدید نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ نئی پیشرفت ہماری توجہ ایک اور سنگین مسئلے کی طرف دلاتی ہے جس کے نتائج مستقبل میں مزید پیچیدہ ہو سکتے ہیں۔
بلوچستان میں ہیپاٹائٹس کی شرح ملک بھر میں سب سے زیادہ یعنی 25.77 فیصد ہے۔ یہ شرح صرف ایک عدد نہیں بلکہ ایک صوبے کے صحت کے ڈھانچے کی کمزوری اور حکومتی ترجیحات کے فقدان کا آئینہ دار ہے۔ ایسے علاقوں میں جہاں صحت کی بنیادی سہولیات ہی موجود نہیں، وہاں بڑے پیمانے پر اسکریننگ یا علاج کے اہداف صرف کاغذی منصوبے بن کر رہ جاتے ہیں۔
قومی پروگرام کے حوالے سے فنانسنگ کا بحران بھی ایک بڑا سوال ہے۔ وفاق اور صوبے مل کر اس منصوبے کے اخراجات برداشت کریں گے مگر یہ تب ہی ممکن ہے جب دونوں سطحوں پر مالی استحکام اور سیاسی تسلسل موجود ہو۔ پاکستان کے سیاسی حالات اس بات کی ضمانت نہیں دیتے کہ آنے والی حکومتیں بھی اسی رفتار سے پروگرام کو جاری رکھیں گی۔ ماضی کے تجربات بارہا ثابت کر چکے ہیں کہ ایسے صحت پروگرام اکثر سیاسی تبدیلیوں کی نذر ہو جاتے ہیں۔
اگر پاکستان نے عالمی ادارۂ صحت کے 2030 کے اہداف کے مطابق ہیپاٹائٹس کے خاتمے کی طرف بڑھنا ہے تو موجودہ رفتار کے ساتھ یہ ممکن نہیں۔ نہ تشخیص کی رفتار اس قابل ہے، نہ علاج کی رسائی، نہ ہی روک تھام کے اقدامات مؤثر ہیں۔ ہر سال لاکھوں نئے کیسز سامنے آ رہے ہیں جبکہ علاج ہونے والوں کی تعداد اس رفتار سے بہت کم ہے۔ اس صورت میں 2030 نہیں بلکہ 2040 تک بھی ہیپاٹائٹس کے مکمل خاتمے کا ہدف دور ہی دکھائی دیتا ہے۔
اصل ضرورت ایک ایسے مربوط اور سخت گیر نظام کی ہے جس میں انفیکشن کنٹرول قوانین پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے، عطائی ڈاکٹروں کے خلاف مؤثر کارروائیاں ہوں، محفوظ خون کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے، انجیکشن کے غیر ضروری رجحان پر پابندی لگائی جائے اور عوامی آگاہی کو ترجیح دی جائے۔ ہیپاٹائٹس کا خاتمہ صرف سکریننگ مشینوں یا علاج کی گولیوں سے ممکن نہیں ہوگا بلکہ اس کے لیے معاشرے کی مجموعی سوچ اور نظامِ صحت میں بنیادی اصلاحات کی ضرورت ہے۔
پاکستان ایک فیصلہ کن مرحلے پر کھڑا ہے۔ اگر حکومت اور ادارے سنجیدگی سے اپنی ذمہ داریاں نبھائیں تو ملک اس بحران پر قابو پا سکتا ہے لیکن اگر روایتی غفلت، غیر ذمہ داری اور کمزور پالیسیوں کا سلسلہ جاری رہا تو آنے والے برسوں میں ہیپاٹائٹس ایک صحت بحران نہیں بلکہ قومی سانحہ بن سکتا ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم اس بیماری کو پہلی ترجیح سمجھ کر اس کے خلاف حقیقی جنگ شروع کریں، ورنہ اعدادوشمار آگے بڑھتے رہیں گے اور ہم پیچھے رہ جائیں گے۔





































