لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) معروف صحافی، دانشور، تجزیہ کار، اینکرپرسن حسن نثار نے کہا ہے کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ ووٹ کو عزت دو وہ خود پارلیمنٹ پر لعنت بھیجتے ہیں اور وہاں جاتے ہیں تو جھوٹ بولتے ہیں، شریف خاندان سیاسی معاشرے میں کینسر کی طرح گھسا ہوا ہے پی ٹی آئی میں انتظامی کمزوریاں ضمنی الیکشن میں شکست کا سبب ہیں، دوسری طرف ن لیگ شریف خاندان کا جٹ جپھا بڑا خطرناک ہے ان میں نیچے سے اوپر تک چالاکی اور جوڑتوڑ کی سیاست ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے چینل ۵ کے پروگرام ضیا شاہد کے ساتھ میں چیف ایڈیٹر خبریں ضیا شاہد کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کیا۔ انٹرویو سوالاً جواباً پیش ہے۔
ضیا شاہد: حسن نثار صاحب! آپ کے ساتھ ذہنی سوچ کے گہرے رشتے رہے ہیں کہ اب یوں لگتا ہے کہ ایک زمانے سے اپنے ہی آپ سے گفتگو کر رہا ہوں۔ میں خاص طور پر صبح سویرے میں اور میرا بیٹا عدنان شاہد الگ الگ گاڑیوں میں دفتر کے لئے نکلتے تھے تو عدنان کبھی وقت پر آفس نہیں پہنچتے تھے اور دو اڑھائی گھنٹے دیر سے دفتر پہنچتے تھے تو میں ہمیشہ انہیں ڈانٹتا تھا کہ راستے میںکدھرغائب ہو گئے تھے تو وہ ہمیشہ بڑے پیار سے آپ کے بارے میں کہتے تھے کہ بابا جی کی طرف تھا۔ ہمارا آپس میں اتنا گہرا رشتہ رہا ہے اور سب سے بڑا رشتہ سوچ اور فکر کا ہوتا ہے۔ ہم نے ہمیشہ پاکستان میں کرپشن سے فری سوسائٹی کے خواب دیکھے اور آپ نے ہمارے ہی اخبار سے اپنے زبردست کالموں کا آغاز کیا جن میں اس دور میں ڈکشن ہوتا تھا کہ بی بی اور بابو یعنی بی بی بینظیر بھٹو کے بارے میں اور بابو محمد نوازشریف کے بارے میں اور آپ کی دونوں قسم کی سیاستوں سے جس کی بنیاد ہمارے خیال سے کرپشن بیسڈ سسٹم ہوتا تھا اس کے خلاف تھے لہٰذا میں پولیس سے اپنی گفتگو کا آغاز کروں گا اور آپ کو یاد دلواﺅں گا کہ ہم نے اپنے اپنے طور پر جس حد تک ممکن ہو سکا شاید آپ کا بڑا زبردست رول ہے کہ اپنی تحریروں سے آپ نے پورے ملک میں اس شعور کو کام کیا اور میں نے جس حد تک ممکن ہو سکا کبھی حمیدگل، محمد علی کی احتساب موومنٹ سے اور کبھی جناب قاضی حسین احمد کی زیر سرکردگی احتساب تحریک سے ہم نے ہمیشہ اس آئیڈیے کی بھرپور حمایت کی کہ جب تک ملک سے احتساب پورا نہیں ہوتا اور جب تک انتخابات میں حصہ لینے والوں کے اپنے کچے چٹھے پورے طور پر نہیں سامنے لائے جاتے اور جو لوگ کسی طور پر ملزم قرار پاتے ہیں ان کو سیاسی نظام سے باہر نہیں کیا جاتا شاید اس ملک کے مسائل حل نہیں ہوسکتے اس مختصر سی تمہید کے بعد میں پوچھنا چاہوں گا کہ میرے عزیز، میرے دوست میرے بھائی حسن نثار صاحب آج آپ کیاسمجھتے ہیں کہ جو سفر ہم نے برسوں پہلے جس کا خواب دیکھا تھا آج ہم اس سفر میں کہاں تک پہنچے ہیں۔
حسن نثار: اس پر فخر کے ساتھ اس وقت کا بھی اظہار کروں گا کہ یہ ہمارے معاشرے میں بالکل ختم ہوتی جا رہی ہے رشک بھی نہیں رہ گیا حسد ہے کسی کے کام کو سراہنے کی جو صلاحیت وہ ختم ہو گئی ہے۔ حالانکہ ضیا شاہد!سچی بات یہ ہے کہ جس طرح کا مار دھاڑ والا سلسلہ جتنا میں ایگریشن کے ساتھ میں نے شروع کیا تھا اگر آپ کو پوری قوت کے ساتھ پروٹیکٹ نہ کر رہے ہوتے ڈیفنڈ نہ کر رہے ہوتے اس کو ان ہانس نہ کر رہے ہوتے تو وہ سارا صرف گفتگو کی حد تک رہ جاتا۔ خبریں کے کالم میں آج بھی مس کرتا ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے Captain of the team so Brave مجھے یاد ہے میری پہلی کتاب کی لانچنگ پر حنیف رامے مرحوم زندہ تھے آپ موجود تھے۔ جسے پاسبان والوں نے آرگنائز کیا تھا۔ اس میں لوگوں نے اس بات پر بڑے ٹربیوٹ مجھے کہنے سے زیادہ اس بات ٹربیوٹ آپ کو پیش کیا تھا کہ کبھی ایک لائن تو کیا ایک لفظ بھی نہیں کاٹا۔ یہ ایک بڑے حوصلے کی بات تھی کالم نگاری میں اس طرح کا ایگریشن کی جارحیت موجود نہیں تھی۔ آپ نے اسے دیکھا تو پوری طرح سے اس کا دفاع کیا۔ اسے بٹنائز کیا اسے پروموٹ کیا۔ میری زندگی کے دو بہت خوبصورت تجربے ہیں۔ ایک تو وہ سرور سکھیرا صاحب جن کو میں آج بھی سرور بھائی کہتا ہوں ان کے ساتھ میرا آج بھی محبت احترام کا رشتہ ہے۔ آپ کو بھی ضیا صاحب تو میں نے بہت ہی کم کہا ہو گا۔ ضیا بھائی کہا ہے ہمیشہ۔ وہ میری زندگی کا شاندار تجربہ تھا۔ آج عجیب اتفاق ہے کہ میں نے آج لکھا ہے کہ جو کام تقریباً 25 برس پہلے شروع کیا تھا وہ آواز آج عام ہونے لگ گئی ہے یہ مردود جمہوریت کی شیم ڈیموکریسی تو یہ لگتا ہے کہ مجھے میری محنت کا اجر اور ثمر ہے۔ ٹھیک ہے کہ میں اس میں جنرلی، میں اگر یہ بات بارا بار بات نہ کروں تو میرے ذہن کو سکون ملے گا اس لڑائی میں میں اچھے (واریئر) جنگجو کے طور پر لڑا ہوں لیکن یوں جیسے ایک جنگجو جرنیل کی طرح ہم نے بار بار دھوکے کھائے ہیں میں نے چند دن پہلے خبریں کا ایک کالم ڈیٹ کے ساتھ ری پروڈیوس کیا جنگ میں اس کی عمر 22 سال بنتی تھی۔ میں نے تاریخ بھی اور لکھا کہ 22 سال پرانا احتساب کا حساب کتاب وہ ایک زمانہ تھا جب آپ کو بہت اچھی طرح یاد ہو گا اس کا شور مچا تھااور آخر میں نکلا کچھ نہیں۔ میں نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ اس بار بھی امیدیں غارت جائیں اور خوابوں کو تعبیر نہ ملے لیکن الحمدللہ بے شمار چیزیں جو زبان زد عام ہیں۔ دیکھیں کمپین چلائی اس وقت بہت ایگریسو۔ کسی کا اس ملک میں مسئلہ ہی نہیں تھا۔ یہ ناپاک دودھ، ملاوٹ والی غذائیں، جعلی دوائیں، کرپشن، یہ نان ایشو تھا۔ جب خبریں نے یہ کمپین شروع کی ہے اس طرح بے شمار لاتعداد موضوعاتت جو آج اس ملک میں زبان زدِ عام ہیں۔ یہ میرا چیلنج ہے کہ یہ پروٹوکول یہ سکیورٹی یہ جو اس طرح کی بدمعاشیاں دھاندلیاں اور غلاظتیں ہیں۔ یہ کرپشن سے لے کر رویوں اورملاوٹ سے لے کر جعلی ادائیگیوں تتک اپنی اخلاقیات کے انحطاط کے ماتم تک میرا خیال ہے جوکچھ کنٹیبیوٹکیا ہے یہ تاریخ میں یاد رکھنے والی ہیں۔ یہ میری خواہش ہے کوئی خبریں کے اس پہلو، اس رول میں سوسائٹی بھی رول بالکل سال بہ سال سامنے رکھ کر کہ کس طرح بتدریج ہوا۔ مثال کے طور پر سیاست کو ایکسپوز کرنا یہ شیم ڈیموکریسی ہے یہ پاکٹ نوروز کی اور روئم بوروز کی، (میں آج کل ایک اور طریقے سے اس کو ایکس پلین کر رہا ہوں) جیسے ہمارے ہاں کہا جاتا ہے کہ میرا حلقہ، فلاں کا حلقہ، کسی کے ماں کے جہیز میں تو نہیں آیا اس میں انسان بستے ہیں۔ تیرا کیسے ہو گیا۔ یہ انیسویں صدی میں انگلینڈ کے اندر کسی کو پاکٹ بروز اور روکی بروز وغیرہ کہتے تھے اور درست بھی تھا کہ ووٹ لینے والے جو اس کی لائلٹی ووٹر کے ساتھ نہیں اپنے سیاسی سرپرست اور سرغنے کے ساتھ ہوتی ہے۔ زبان شاید آج مختلف استعمال کر رہا ہوں۔ وقت کے ساتھ چیزوں کو مزید بڑھا مزید چیزوں کو سمجھنے کی کوشش کی اس وقت بھی ہمارے یہی ایشوز تھے تو اس پر بھی مجھے بات کرتے ہوئے جھجک سی محسوس ہوتی ہے کہ چونکہ یہ بنیادی طور پر یہ آپ کا Leading the whole things میں جیسے لکھتا گیا۔ جیسے پنجابی میں نہیں کہتے کہ ”چھتر دی طرح پھیلائے جاناں“ میں پھیلتا چلا گیا۔ آپ نے اس پھیلاﺅ کو اور وسعت دی۔ اور اس کو پروموٹ کیا۔ آج میں بہت سی آوازیں سنتا ہوں وسیم بادامی صاحب آئے تھے انٹرویو کرنے۔ مجھے کہتے کہ جمہوریت کو ولاں ہو گیا میں چپکر گیا۔ کہ کچھ اور لوگ بھی بات کر رہے ہیں۔ آج میں نے لکھا ہے کہ وہ کل شائع ہو گا کہ بھائی جب ہم نے شیم ڈیموکریسی کو سرعام للکارا اور گالی دی اس وقت یہ سیاسی گناہ سمجھا جاتا تھا جمہوریت کے بارے اس میں کیڑے ڈالنا اس پر بات کرنا، اس کو صحیح کرنا اس کی سرجری کرنا آپ نے خود اسے بہتر طور پر ایکس پلین کر سکتے ہیں۔
ضیا شاہد: میں کچھ باتوں کے بعد عمران فیکٹر پر آﺅ گا کیونکہ میرے خیال میں پاکستان میں عمران خان کی آمد کرپٹ سسٹم میں ایک نیا سنگ میل تھا۔ لیکن اس سےپہلے دو واقعات مجھے یاد آئے آپ جو لکھتے تھے اس پر لوگوں میں ردعمل ہوتا تھا اور جو اخبارات کی مختلف سٹوریوں میں جہاں جہاں کوئی خرابی ہوتی تھی اس کی نشاندہی کرتے تھے ان دونوں چیزوں نے مل کر اتنا لوگوں میں اس کا بڑا تاثر بنا۔ یہ ٹھیک ہے کہ سیاسی جماعتیں اس کو لے کر آگے چلنے والی نہیں ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ مال روڈ پر اسمبلی ہال کے بالکل سامنے قاضی حسین احمد کی جماعت نے بڑا مظاہرہ کیا جس میں ٹرک پر سوار تھے اور وہ تحریک احتساب چلا رہے تھے اس تحریک احتساب میں اور کبھی آپ ٹرک کے نیچے ابھی پہنچے تھے کہ نوجوانوں نے ہمیں پکڑ کر ٹرک پر پہنچا دیا اور جس جذبات کے ساتھ قاضی حسین احمد نے آپ کو گلے لگا کر آپ کا ماتھا چوما اور جس طرح مجھے گلے لگایا کہ احتساب کے اصل ہیرو آپ لوگ ہیں۔ خاص طور پر آپ کا تو ہاتھ پکڑکر کھڑا کیا۔ دوسرا واقعہ یہ ہے کہ عمران خان جب آئے تو میرے ہی دفتر میں (وہ ہمیشہ مانتے ہیں) کہ میری سیاست جو تھی ان کے دفتر میں ساری رات وہ رہے۔ ہم نے اور آپ سب لوگوں کے مشورے نے سیاست میں آمد کا ان کا پہلا سیاسی بیان بنایا اور اگلے دن ہالیڈے میں ان کی پریس کانفرنس رکوائی آپ نے جب تحریک انصاف کا نام حسن نثار نے تجویز کیا حسن نثار نے اس کے نعرے بنائے۔ اس کی سلوگن بنائے۔ حسن نثار نے اس کا سارا چوکٹا بنایا جس پر اس کی بنیاد رکھ کر عمارت بنائی گئی۔ ایک تو میں حراج تحسین پیش کروں گا۔ عمران خان کو اگر وہ کرکٹ کا کھلاڑی نہ ہوتا تو کبھی 18 سال تک اور رنز نہیں آ رہے تھے تو وہ وکٹ پر مضبوطی سے کھڑا رہا اور دوسری بات یہ ہے کہ آپ نے اس جماعت کو اس تحریک کو فکری قیادت جو تھی عمران خان کر رہے تھے مگر اس کی بنیاد فراہم کی حسن نثار نے۔ اور میں اس پر آپ کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ اور یاد کرانا چاہتا ہوں کہ پچھلے 18 برس مڑ کر دیکھیں تو ہمارا دوست جو ہے اس کو سب سے بڑا کریڈٹ یہ جاتا ہے کہ کسی قسم کی مایوسی اور کسی قسم کی کامیابی نہ ہونے کے باوجود وہ ہمت نہیں ہارا۔
حسن نثار: بنیادی بات یہ ہے کہ میں بہت کم زندگی میں میرا اندازہ غلط ہوا ہے۔ جن میں سرفہرست یہ ہے کہ جب پی ٹی آئی ٹھیک طریقے سے ٹیک آف نہیں کر سکی تو یاد ہو گا کہ خبریں میں لکھا کرتا تھا اسکاچ کارنر اور جانی واکر۔ آپ کو بھی یاد ہو گا۔ کہ نہیں آیا تھا کہ مجھ پر بھی خاص طرح کا این جی اوز ٹائپ کا کراﺅڈ تھا جس نے عمران خان کو گھیر رکھا تھا تواس کا نتیجہ کا جو پارٹی اس وقت بھی ٹیک آف کر سکتی تھی وہ نہیں کر سکی۔ چونکہ اکثریت لوگوں کی جس قسم کے لوگوںکی موجودگی میں ٹیک آف ممکن نہیں تھا۔ وہ جب کام ڈھیلا پڑ گیا تومیرا خیال تھا کہ آپ یہ ٹیک آف نہیں کر سکے گی۔ ممی ڈیڈی اور برگر ٹائب لوگوں نے وغیرہ وغیرہ۔
ضیا شاہد: ایک ایسا شخص جس کے بارے خیال تھا کہ یہ بے داغ و محنتی ہے۔ جب دیکھتے تھے کہ وہ جس طرف چل رہا ہے، جن لوگوں نے اسے گھیر رکھا ہے تو مایوسی ہوتی تھی لیکن اوپر والے پر یقین تھا اس نے ہماری سن لی۔ اس پر بھی یقین تھا کہ عمران خان میں تکبر وغرور نہیں، وہ پیچھے نہیں ہٹے گا۔ اس کا مقصد ہے کرپشن فری سوسائٹی کا خواب، وہ بڑے بڑے بتوں کو منظر عام پر لے آیا۔ اس نے ننگی و بیہودہ سیاست کو بے نقاب کر دیا جس نے پاکستان کو جکڑا ہوا تھا۔ عمران خان کے بڑے مجمعے بھی ہوتے ہیں، واہ واہ بھی نظر آتی ہے لیکن جب الیکشن ہوتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ پنجاب میں اور کوئی نہیں جیت سکتا۔ حلقہ این اے 120 کی طرح ہر الیکشن میں نون لیگ کامیاب ہو جاتی تھی اور ہو جاتی ہے۔ یہ میں صرف آپ سے شیئر کرسکتا ہوں، پاکستان میں اور کوئی قابل شخص نہیں جس سے یہ سوال کروں کہ لوگ کہتے ہیں کہ میاں صاحب نے پیسے کھائے ہوں گے، باہر بھی لے گئے ہوں گے لیکن کام بہت کروائے ہیں۔ اس کا کیا مطلب نکالیں کیا پاکستان کا عام آدمی ذہنی طور پر کرپشن کو پسند کرتا ہے؟
حسن نثار: ”کچھ اور نہیں وعدہ تعبیر کے بدلے
ہم خواب فروشوں سے کوئی خواب خریدے“
یہی کہا تھا اس زمانے میں پی ٹی آئی اور عمران خان کو کہ چاہئے کچھ نہیں ہمارے یہ خواب لے لو معاوضے کے طور پر اس کی تعبیر دے دو۔ ضمنی انتخابات میں شکست پی ٹی آئی کا انتظامی فیلئر اور کمزوری ہے۔ جس پر غالباً وہ تیزی سے قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دوسری طرف یہ شریف خاندان بہت خوفناک لوگ ہیں۔ اس کی وجہ ہے کہ یہ بہت نیچے سے شروع ہو کر بہت اوپر جا پہنچے۔ بہت رنگ باز، چالاک، جوڑ وڑ، پاﺅں یا گریبان پکڑتے ان کو شرم نہیں آتی۔ ان کے ڈی این اے میں جھوٹ ہے۔ ہر ادارے کو برباد کر دیا، پی ٹی وی کو بھی معاف نہیں کیا۔ شریف خاندان معاشرے کے سیاسی بدن میں خون کے کینسر کی طرح گھسا ہوا ہے، ان کا خون تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ صرف ایک ادارہ جو جاندار ہے، جس کے پاس مارنے کو جوتے تھے ورنہ نوبت یہاں تک آ گئی تھی کہ یہ ایک رقعہ بھیجتے کہ حامل ہذا کو بطور بریگیڈیئر تعینات کیا جائے، یہ نہیں ہو سکا۔
ضیا شاہد: عمران ہوں یا دوسرے سیاستدان، ہمیشہ سے کہتے آئے ہیں کہ موجودہ الیکشن کمیشن کی موجودگی اور اس کی تشکیل کا طریقہ کار بدلنے تک صاف و شفاف انتخابات نہیں ہو سکتے۔ مطالبات کے باوجود الیکشن کمیشن وہی ہے، قومی اسمبلی میں اسحاق ڈار کی سربراہی میں بننے والی انتخابی اصلاحات کمیٹی نے بھی کوئی رپورٹ دی نہ کوئی اصلاحات ہوئیں۔ ہم کیسے سوچ سکتے ہیں کہ اب انتخابات صاف و شفاف ہوں گے؟
حسن نثار:آپ کی بات سے اختلاف کی گنجائش نہیں۔ حیرت انگیز بات ہے کہ سب کچھ جوں کا توں ہے لیکن کچھ بھی جوں کا توں نہیں۔ ملک کا سب سے طاقتور آدمی بیٹی کے ساتھ عدالتوں میں دھکے کھا رہا ہے۔ چند ماہ پہلے تک اس کا تصور نہیںتھا کہ فواد حسن فواد کو گھسیٹا جائے گا، وعدہ معاف گواہوں کی لمبی لائن ہو گی، احد چیمہ اندر ہو گا، کیسز پر کیسز کھلتے چلے جا رہے ہوں گے۔ میرا وجدان کہتا ہے کہ پاکستان کسی اور فیز میں داخل ہو چکا ہے۔ نون لیگ کا وجود اب آگے نظر نہیں آتا۔
ضیا شاہد: اسلام آباد میں کہا جاتا ہے کہ نوازشریف بعض معاملات میں بہت زیادہ منظر عام پر آ گئے ہیں اس لئے ان کو مائنس کر دیا گیا یا کر دیا جائے گا لیکن ان کے بھائی جو کبھی کبھی فوج و عدلیہ کے حق میں بھی بولتے ہیں۔ کیا اس کو تبدیلی کہا جائے گا؟ اگر شہباز شریف وزیراعظم بن جائیں تو کیا آپ اسے تبدیلی کہیں گے؟
حسن نثار: ذاتی طور پر نہیں سمجھتا۔ شہباز شریف ایک مِس گائیڈڈ میزائل ہے۔ انہوں نے 10 سال میں جتنے کھربوں ڈالرز برباد کیسے اس کی ایک چوتھائی سے آج مریض نہ رُل رہے ہوتے، سکولوں میں خاک نہ اڑ رہی ہوتی۔ تعلیم و صحت ہی دو بنیادی مسائل ہیں۔ ان کی ترجیحات ٹھیک نہیں۔
ضیا شاہد: اگر عمران خان چاہتا ہے کہ ملک میں تبدیلی آئے تو اسے بیک وقت ساری سیاسی جماعتوں سے نہیں لڑنا چاہئے، خاص طور پر وہ جو کہتے ہیں کہ آصف زرداری سے اتحاد کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بعض لوگوں کے خیال میں یہ سیاسی طور پر خودکشی ہو گی کیونکہ اس وقت دو گروپس کو مل کر نون لیگ کا راستہ روکنا چاہئے۔ کوئی فرق نہیں پڑتا کہ حکومت کون سی ہو گی۔ عمران خان شروع اس نقطہ نظر پر چلے ہیں کہ جہاں کرپشن ہے اس کی مخالفت کی جائے، اس پر ان کو قائم و دائم رہنابھی چاہئے۔ آپ کیا کہتے ہیں؟
حسن نثار: اگر عمران خان سمجھتے ہیں کہ اتنی سکت نہیں کہ پی پی سے اتحاد کر لیا جائے تو پھر ان کا یہ طریقہ کار ہی ٹھیک ہے لیکن اگر وہ حود کو پراعتماد سمجھتے ہیں تو پھر آگے بڑھنا چاہئے۔ سرے محل سے پانامہ تک کو بے نقاب کرے، ملک کی اس گند سے جان چھڑائے، یہی ایک اصل کام ہے۔ ورلڈ کپ سے لوگوں کی تقدیریں نہیں بدلتیں۔
ضیا شاہد: گیس، بجلی و پانی کا بحران، نظم و نسق ختم، حکومتیں نظر نہیں آتیں، سرکاری مشینری بالکل تباہ ہوچکی، ان حالات میں پاکستان دنیا کو اپنے قرضے کیسے ادا کر سکتا ہے۔ جن لوگوں نے سرمایہ باہربھیجا، کہتے ہیں کہ وہ اتنا زیادہ ہے کہ اگر اس کا چوتھائی حصہ بھی ملک میں واپس آ جائے تو سارے قرضے اتر سکتے ہیں۔ اس آخری منظر کو حاصل کرنے کے لئے ایک پاکستانی کسی طرح آخری جنگ میں اپنا حصہ ڈالے؟ قصور میں زینب کیس کے بعد اخبارات میں روزانہ ایسے کیسز سامنے آ رہے ہیں۔ بچے و بچیوں پر مجرمانہ حملوں میں کمی کے بجائے روز کامعمول بن گیا ہے۔ منگل کے روز ایک 12 سالہ بچی کو زیادتی کے بعد آگ لگا کر جلا دیا گیا۔ کیا کسی زندہ ملک، مہذب قوم میں ایسا ہوتا ہے؟ کیا وجہ لوگ کیوں نہیں کھرے ہوتے، گھروں میں کیوں بیٹھے رہتے ہیں؟
حسن نثار: یہاں انسانوں کو انسان نہیں رہنے دیا گیا۔ بنیادی طور پر انسان کو انسان تعلیم و تربیت بناتی ہے۔ غریب آدمی کے پاس روزگار نہیں وہ اپنے بچے کو تعلیم کیا دلوائے گا۔ یہاں جانور پیدا ہو رہے ہیں۔ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جا رہا ہے۔ اگر سعودی عرب کا شاہی خاندان اپنے ہی خاندان کے لوگوںکو الٹا لٹکا سکتا ہے تو ایسا یہاں کیوں نہیں ہو سکتا۔ 90 دن کے لئے سارے کرپٹ میرے حوالے کر دیں، ریکوری نہ کروں تو حود اپنا گلہ کاٹ لوں گا۔ 90 دن تو دور کی بات یہ سب 90 گھنٹے کی مار ہیں، الٹا لٹا دیں ریکوری ہو جائے گی۔
