تازہ تر ین

سرخ بتی پر نہ رکنے اور سبز پر نہ چلنے والی قومیں کبھی کامیاب نہیں ہوتیں

لاہور (کرائم رپورٹر) چیف ایڈیٹر روز نامہ خبریں اور سیمینار کے میزبان ضیاشاہد نے خطاب کرتے ہوئےکہا کہ پولیس کی عزت احترام اور خدمت کرنے والے شہریوں کے بارے میں بھی ایک بہت ہی عجیب سی رائے قائم کرلی جاتی ہے جس کی مثال کچھ اس طرح سے ہے کہ ایک دفعہ خبریں گروپ کی جانب سے سڑکوں اور چوراہوں پر کھڑے ٹریفک اہلکاروں کیلئے دن میں مختلف اوقات میں ٹھنڈا شربت بنا کر انہیں پیش کرنے کا اقدام اُٹھایا گیا تو فلم و سٹیج کے معروف کامیڈین امان اللہ ایک مرتبہ میرے دفتر میں آئے اور مجھے پنجابی زبان میں کہنے لگے کہ ”پا جی ویگناں پالیاں جے“ یعنی کیا آپ نے ٹرانسپورٹ کا کاروبار شروع کر دیا ہے جس پر میں نے کہا کہ نہیں کیوں تو انہوں نے کہا کہ آج کل بڑا ٹریفک پولیس کی خدمت ہو رہی ہے اس لئے پوچھا ہے۔ انہوں نے سی ٹی او لاہور رائے اعجازکے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ بہت خوبصورت اور خوش اخلاق انسان ہیں، ان کو تو پولیس میں ہونا ہی نہیں چاہیے تھا، اگر میں پروڈیوسر ہوتا تو ان کو اپنی فلم میں بطور ہیرو سلیکٹ کرتا جس پر سی سی پی او لاہور سمیت سٹیج پر بیٹھے تمام افسران اور حاضرین قہقہے لگا کر ہنس پڑے۔ انہوں نے کہا کہ ایک مرتبہ میں نے رائے اعجاز احمد سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی تو یہ خود چل کر میرے دفتر میں آگئے کیونکہ یہ ہالینڈ، نیوزی لینڈ یا کسی اور ملک کے افسر نہیں ہیں یہ میرے وطن عزیز کے افسران ہیں اور میرا احترام کرتے ہیں اور میں بھی ان سے بے حد محبت کرتا ہوں۔ بطور صحافی اور سینئر سٹیزن میں ان کو ڈانٹوں گا بھی ، ان کی اصلاح بھی کروں گا ، محکمہ کی کمی بیشیوں کی بھی نشاندہی کر تا رہوں گا لیکن اس میں قطعی ہی یہ عنصر موجود نہیں ہے کہ مجھے اپنی پولیس فورس سے نفرت ہے یا میرا مقصد صرف تنقید برائے تنقید کرنا ہی ہے ۔انھوں بطور چیف ایڈیٹر روز نامہ خبریں اور سی پی این ای کے صدر کی حیثیت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کے شہدا کی کوئی بھی تشہیر بلا معاوضہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ چند ماہ قبل بھی مجھے ایک اشتہار محکمہ پولیس کی جانب سے مجھے موصول ہوا جو کہ پولیس کے شہدا کے حوالے سے تھا جس پر میں نے فوراً ڈی پی آر ٹو آئی جی پنجاب سید نایاب حیدر کو فون کر کے کہا کہ کوئی خدا کا خوف کریں ،میرے پاس ایک اشتہار آیا ہے کہ شہدا کی کوئی تقریب ہورہی ہے اور آپ ایک اشتہاری ایجنسی کے ذریعے اس کو اخبارات میں پرنٹ کروانا چاہتے ہیں ۔ آپ فوراً اس اشتہار کو واپس لیں۔میں کسی بہت امیر ترین ادارے کا مالک تو نہیں ہوں لیکن میں نے کبھی اس طرح کے اشتہارات نہیں لئے ۔ اس طرح کی تقریبات کے حوالے سے جتنے بھی اشتہارات ہوں گے وہ بالکل مفت شائع کیئے جائیں گے۔انھوں نے کہا کہ متعدد سابق آئی جیز پنجاب سمیت اہم پولیس افسران کے ساتھ میرا اچھا تعلق رہا ہے ۔چیف ایڈیٹر ضیاشاہد نے سابق آئی جی پنجاب احمد نسیم کے ساتھ ایک شہدا کی فیملیز کو میڈل دینے کی تقریب میںہونے والے ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ شہدا کے ورثاءکو میڈل دینے کے دوران ایک بڑی عمر کے بزرگ شخص نے میڈل لینے سے انکار کر تے ہوئے اور روتی ہوئی آواز میں کہا کہ مجھے یہ میڈل ، دولت اور کوئی بھی چیز نہیں چائیے ۔ میرا بیٹا پولیس والا تھا اور ڈاکوﺅں سے مقابلے کے دوران ملزمان کی فائرنگ سے شہید ہوگیا ہے جبکہ ملزمان تاحال علاقہ میں دندناتے پھررہے ہیں اور مجھے دیکھ کر قہقہے لگاتے ہیں اور انھوں نے مجھے کھلے عام دھمکی دے رکھی ہے کہ تمہارے باقی بچے بھی نہیں چھوڑیں گے ۔ یہ سامنے آئی جی صاحب بیٹھے ہیں اور آپ بھی ایک اخبار والے ہیں اگر مجھے دینا ہی ہے تو انصاف فراہم کرتے ہوئے ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچا کر میرے شہید بیٹے کی روح کو سکون پہنچائیں اور باقی اہل خانہ کو محفوظ کریں جس پرسابق آئی جی پنجاب احمد نسیم نے کہا کہ جو آپ تقاضہ کر رہے ہیں وہ ہمارے دائرہ اختیار میں نہیں ہے لیکن پولیس نے فیصلہ کیا ہے شہید کے بچوں اور دیگر اہل خانہ کی حفاظت اور انکے اخراجات اور تعلیم وغیرہ کیلئے ہر ممکن اقدام کریگی اورشہید کے بچوں کو اس سے بھی بڑے عہدے پر بھرتی کر نے کیلئے کوششیں کی جائیں گی ۔ان کا کہناتھا کہ پولیس دہشتگردوں ، جرائم پیشہ افراد اور عوام کے درمیان ایک دیوار کی حیثیت رکھتی ہے ۔سانحہ قصور کا ذکر کرتے ہوئے ضیاشاہد کا کہنا تھا کہ زینب کے قاتل بہت پہلے ہی پولیس نے پکڑ لیا تھا لیکن مرگی کے دورے کا بہانا بنایا تو وہاں کے ایس ایچ او نے اسے فوراً رہا کر دیا جس پر جب ایس ایچ او سے چھوڑنے کی وجہ دریافت کی گئی تو اس نے کہا کہ جی اس کو مرگی کے دورے پڑتے ہےں سوچا کہ کہیں ہماری حراست میں ہی مرگیا تو ہمارے اُوپر کاروائی ہوگی اور پھر بعد میں وہی ننھی زینب سمیت 8بچیوں کا قاتل اور عصمت دری کا ملزم نکلا ۔انھوں نے کہا کہ سیاست ہویا پولیس ، میڈیا ہو یا عوامی حلقے ہر جگہ پر کالی بھیڑوں کی موجودگی ہمیشہ رہتی ہے ۔ انھوں نے سی سی پی او لاہور اور دیگر افسران کو مخاطب کرتے ہوئے پنجابی زبان میں کہا کہ “اسی اپنے اندرصفائی کرن دی کوشش کرنے آں ،پائی جی تسی اپنے اندر کرو”۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ جو شہری سکون کی نیند سوتے ہیں اور صبح اُٹھ کر شہر میں ہونے والی وارداتوں اور واقعات کا ذکر کے پولیس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں ان کو بھی یہی سوچنا چاہیئے کہ پولیس ہی کی موجودگی کی وجہ سے لاکھوں کی عوام میں سے صرف درجنوں کے ساتھ کچھ نہ کچھ کرائم ہوا ہے ۔ان کے باوجود جب کسی نہ کسی تھانے کے آگے شہریوں کی جانب سے دادرسی کیلئے واویلا کرتے ہوئے دکھائی دینے والے بے بس اور مجبور چہرے دکھائی دیتے ہیں۔ پولیس کے اُوپر تو صدر پاکستان سے لیکر آئی جی اور دیگر پولیس افسران موجود ہوتے ہیں لیکن اس بے بس شہری کے اُوپر صرف اور صرف اللہ تبارک و تعالی کی ذات بابرکت ہوتی ہے جس کی لاٹھی بے آواز ہے اورہمیں بھی کل کو اللہ کو جواب دہ ہونا ہے ۔میں نے پہلے بھی سی ٹی او لاہور رائے اعجاز سے کہا تھا کہ آپ اپنے طور پر اور میں اپنے اخبار سمیت دیگر سی پی این ای کے ممبر اخبارات میں ایک چھوٹے سائز کا پینل تشکیل دیتے ہیں تاکہ محکمہ پولیس بالخصوص شہدا کے حوالے سے سیمینار وغیرہ بلا معاوضہ منعقد ہوتے رہیں ، ہمیں پیسے نہیں چائیے ہمیں عدل ، انصاف اور قانون کی حکمرانی کا سیلاب چائیے ۔ان کا کہنا تھا کہ قائد اعظم کا ارشاد ہے کہ میرے بنائے ہوئے پاکستان میں غریب کیلئے چھت اور مظلوموں کیلئے انصاف نہیں ہے تو مجھے ایسا پاکستان نہیں چائیے جبکہ علامہ اقبال نے فرمایا تھا کہ (اٹھو میری دنیا کے غریبو ں کو جگا دو ۔ کاخِ امرا کے درو دیوار ہلا دو ۔جس کھیت کے دہقاں کو میسر نہیں روزی ۔ اس کھیت کے ہر خوشئہ گندم کو جلا دو)۔

 


اہم خبریں
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain