تازہ تر ین

منظور پشین فوج میں انتشار پھیلانے کی سازش میں ملوث ،آئین شکنی پر گرفتار کیا جائے

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ سچی بات یہ ہے کہ میری سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی کہ گزشتہ روز سے اچانک ہی پاکستان کے بیشتر سیاستدانوں کے پیٹ میں کیوں مروڑ اٹھ رہے ہیں اچانک ہی جو نئی پختون مہم شروع ہوئی ہے اس کی حمایت کا کیوں خیال آیا اور سب سے بڑی بات یہ کہ پرسوں پہلے تو مریم نواز نے ٹویٹ کیا کہ ان کے جلسے پر پابندی لگانا یہ بہت غلط بات ہے۔ حالانکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ پنجاب میں جس حکومت نے شروع میں ان کو اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا وہ جناب شہباز شریف صاحب چلا رہے ہیں۔ اور اگرچہ وہ کراچی میں تھے لیکن پنجاب کے وزیراعلیٰ وہی ہیں اب مریم نواز کھل کر اور واضح طور پر اپنے چچا کے خلاف علم بغاوت بلند کر رہی ہیں۔ دوسری طرف بات یہ ہے کہ نہ صرف انہوں نے بلکہ بلاول بھٹو صاحب نے بھی ان کی حمایت کی کہ جناب کہ منظور پشین کو تقریر کرنے کا حق ہونا چاہئے اور ان کی بات سنی جائے۔ ہم نے کوشش کی ہے سننے کی۔ اس سے پہلے اچکزئی صاحب ہمارے چادر پوش جن کے بھائی آج بھی گورنر ہیں بلوچستان میں اور جن کا آدھا خاندان حکومت میں ہے یا اسمبلیوں میں ہیں کیونکہ وہ نواز شریف صاحب کے حمایتی شمار ہوتے ہیں۔ انہوں نے ہی موجودہ فتنہ ہے اس کو شروع کیا تھا۔ فتنہ اس لئے کہا کہ مجھے ہر گز ہرگز پختونوں کی کوئی تنظیم یا کوئی جماعت اس کی بات سننی چاہئے لاہور میں ان کو جلسہ کرنے کا موقع دینا چاہئے بلکہ سر آنکھوں پر لیکن دیکھنا یہ ہے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ اگر وہ کوئی ایسی بات کہہ رہے ہیں جو پاکستان کے مفاد کے خلاف ہے تو پھر بغیر سوچے سمجھے بلاول صاحب بلکہ مریم بی بی تک ان کو اچانک یہ کہاں سے اشارہ آیا کہ۔ کیا یہ اشارہ امریکہ سے آیا ہے برطانیہ سے آیا ہے یا نوازشریف صاحب سے آیا ہے کس طرف سے اشارہ آیا ہے کہ اچکزئی صاحب کا جو بغل بچہ اب سامنے آیا ہے تین مہینے پہلے تک جس کا کوئی نام تک نہیں جانتا تھا کہ منظور پشین کون ہے۔ سب سے پہلے مطالبہ ہوا کہ لاہور میں ان کو جلسہ کرنے دیا جائے تو میں رپورٹر سے پوچھا تو پتہ چلا کہ پہلے پولیس نے انہیں جلسہ کی اجازت دینے سے کرنے سے انکار کیا۔ بعد میں ان میں تین یا چار آدمی گرفتار کر لئے تھے بعد میں اوپر سے حکم آیا کہ ان کو چھوڑ دو تو پولیس نے ان کو چھوڑ دیا۔ پھر منظور پشین نے تقریر کی اور نعرے بھی لگوائے اور پاکستان کی فوج کے نعرے لگوائے۔ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی خدمت کی جا سکتی ہے پاکستان کی فوج کوئی سیاسی جماعت نہیں، یہ اس ملک کی نیشنل آرمی ہے۔ کل پھر ایک طرف مریم نواز کا منظور پشین کے حق میں پھر ٹویٹ آیا اس کے بعد بلاول بھٹو کے بیانات دہرائے گئے جو ان کے حق میں تھے۔ جو اچکزئی صاحب نے ان کی مہم کے شروع میں ان کی حمایت کی تھی وہ سامنے آئی اور اس کے بعد بعض اکا دکا سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کی حمایت کہ ان کی بات سننی چاہئے۔ ہمارے صحافت میں دوست ہیں وسعت اللہ خان صاحب پی پی پی کے لئے کالم بھی لکھتے ہیں ان کا ایک مضمون آیا ہے کہ جی ان کی بات سنیں تو سہی۔ کوئی خرج نہیں سننا چاہئے۔ میں نے بھی سننے کی کوشش کی ہے۔ وسعت اللہ صاحب میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں آپ جو بھی نقطہ نظر ہو کم از کم میں یہ ماننے کو تیار نہیں کہ آپ اس ملک کی مخالفت کریں گے۔ آپ یہ فرمایئے کہ ان کی بات سننے کا مشورہ دیا ہے۔ ہم یہ مضمون چھاپ بھی رہے ہیں ہم آپ کی بات توجہ سے سنتے ہیں لیکن آپ یہ بتایئے کہ جناب وسعت اللہ صاحب، جناب بلاول بھٹو صاحب، محترمہ مریم نواز صاحبہ جتنے دانشور ٹوٹے پھوٹے اس ملک کے جو اے کلاس، بی کلاس اینکر ہیں جن کوبہت تکلیف اٹھ رہی ہے کہ منظور پشین کی بات ضرور سننی چاہئے۔ اب منظور پشین تھیلے میں سے بلی باہر آ گئی ہے وہ بھی یوں باہر آیا ہے کہ سی این این کی طرف سے میں نے یہ نہیں سنا۔ میں غلط بیانی نہیں کرتا لیکن مجھے پاکستان کے باہر سے فون آئے ہیں اور اسلام آباد سے بھی دو دوستوں نے فون کیا ہے کہ منظور پشین صاحب نے آج سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ کہا ہے کہ انہوں نے پاکستان کی آرمی کے بارے میں کچھ پیغامات دیئے ہیں میں ان کو دہرا نہیں سکتا۔ میرے خیال میں وہ غیرقانونی ہیں غیر آئینی ہیں اور ان کو فوری طور پر گرفتار ہونا چاہئے ان پر آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ چلنا چاہئے کیونکہ انہوں نے پاکستانی فوج میں صوبے کے لیول پر اور لسانی بنیادوں پر انتشار پھیلانے کا منصوبہ پیش کر دیا ہے۔ یہ پہلی دفعہ ہوا ہے کہ جب سے پاکستان بنا ہے۔ اور میں نے ہر دور میں مارشل لاﺅں میں اور سول حکومتوں میں بھی کبھی کسی نے یہ ہمت نہیں کی تھی کہ وہ پاک فوج کو جو نیشنل آرمی ہے اس کو صوبائی ازم میں اور صوبے کی مخصوص اصطلاح کے طور پر وہ ان کو الگ الگ کرنے میں اور اپنی لیڈر شپ کی بات کی بجائے علاقائی گروہی اور لسانی جو ہے تنازعات میں ان کو بڑنے کی تجویز دی گئی ہے اور میں سب سے بڑی بات جو کرنا چاہتا ہوں کہ الطاف حسین کے خیالات سے ہم سب واقف ہیں لاہور ہائی کورٹ نے اسی لئے ان پر پابندی بھی لگائی تھی جو اب تک برقرار ہے کہ ان کی تقریر کو پورا نہیں سنا سکتے ان کے بیانات پورے اخبار میں نہیں چھاپ سکتے ان کے جو کسی انٹرویو سوشل میڈیا پر لندن سے چلتے ہیں جس کو ایم کیو ایم لندن کہا جاتا ہے ان کو بھی نہیں دکھا سکتے۔ لیکن انتخابات تو کر سکتے کہ الطاف نے منظور پشین سے کہا ہے کہ آپ کے خیالات سے مجھے سو فیصد اتفاق ہے۔ کس بات سے اتفاق ہے پاکستان کی فوج کو لسانی اور گروہی حصوں میں تقسیم کرنے کی جو شاندار منصوبہ لے کروہ آئے ہیں۔ لعنت میں ان پر بھیجتا ہوں اور ہر اس شخص پر لعنت بھیجتا ہوں جو پاکستان کی وحدت کے خلاف بات کرتا ہے جو پاکستان کی فوج کو بھی لسانی بنیاد پر ایک دوسرے سے برسرپیکار دیکھنا چاہتا ہے اور الطاف حسین نے خیر مقدم کیا۔ منظور پشین کا اور کہا ہے کہ آپ فلاں تاریخ کو کراچی آئیں۔ میرے ساتھ کراچی آئیں۔ میرے ساتھ کراچی میں آپ کے لئے چشم براہ ہوں گے۔ اور ہم آپ کے پروگرام کی سو فیصد حمایت کرتے ہیں۔ حکومت اور عدلیہ دونوں اداروں یہ اس سے بڑی کوئی سازش پاکستان کے خلاف نہیں ہو سکتی اور میں اپیل کرتا ہوں آصف زرداری سے کہتا ہوں کہ وہ اپنے صاحبزادے کی طرف سے انڈورسمنٹ کے اعلان کو واپس کروائیں۔ بلاول بھٹو صاحب ابھی آپ کی عمر اتنی نہیں ہے کہ آپ کو یہ بھی یاد ہو کہ پاکستان کیسے بنا تھا کن کن مراحل سے گزرا، مشرقی پاکستان کیسے ہم سے ٹوٹا تھا اور دوسرے خاص طور پر بلوچستان میں علیحدگی کی کیسے تحریکیں جو ہیں دنیا میں انڈیا کی مدد سے چلائی جا رہی ہیں اس لئے بلاول صاحب کو اپنا بیان واپس لینا پڑے گا مریم نواز صاحب کو اپنا بیان واپس لینا پڑے گا اور شہباز شریف صاحب کی حکومت نے اگر ان پر ان کو جلسہ نہ کرنے کی شروع میں اجازت نہیں دی تھی بعد میں دے دیت ان کو مریم نواز صاحبہ جو اپنے چچا صاحب کو مشورہ دے رہی ہیں براہ کرم وہ مشورہ اپنے پاس رکھیں اور شہباز شریف صاحب آپ اپنے دماغ سے سوچیں کہ آپ کی بھتیجی کیاچاہتی ہےں۔ بلاول صاحبب کیاچاہتے ہیں۔ الطاف ان کو کیوں کراچی میں بلا رہے ہیں۔ ایک ہی بات پر سب کی سوئی جو ہے وہ آ کے اٹکی ہوئی ہے کہ یہ ہے وہ بہادر شخص جو پختون قومیت کے نعرے کی آڑ میں فوج کے درمیان ایک لسانیت اور صوبائیت کے جراثیم کو ابھارنا چاہتا ہے۔ اس سے بڑا جرم کوئی اور نہیں ہو سکتا ہے۔ اور جناب آرمی چیف قمر جاوید باجوہ صاحب اب یہ آپ کا فرض بنتا ہے کہ جس فورس کی آپ قیادت کر رہے ہیں اس میں جو زہریلے جراثیم داخل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اس کا سختی سے نوٹس لیں اور یہ جو کل نعرے لگائے گئے کیا پاکستان فوج نے، کون سی پختون تنظیم کو پاک فوج نے نقصان پہنچایا۔ کیا خیبر پختونخوا میں نقصان پہنچایا کیا آئی ایس پی آر کے ہمارے دوست میجر جنرل آصف غفور جو کل بیٹھ کر جرگہ میں بیٹھے فاٹا میں صلح صفائی کرانے کی کوشش کر رہے تھے۔ کیا یہ قصور ہے پاک فوج کا۔ کیا قصور ہے کہ اس نے ملک میں دہشت گردی کے خلاف 50 ہزار سے زیادہ جانیں عام آدمی نے قربان کی ہیں اور سات ہزار سے زیادہ شہادتیں پاک فوج نے پیش کی ہیں۔ تو کیا آپ اس کو ختم کرکے کیا آپ یہ بیانیہ لانا چاہتے ہیں کہ پاکستان میں دہشتگردی کی بنیاد جو ہے وہ اللہ معاف کرے ان شہیدوں کے جن کے بیوی بچے بھی روتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک پاکستان کے لئے اور متحدہ پاکستان کے لئے اور پرامن پاکستان کے لئے ہمارے بابا نے ہمارے بیٹے نے جو جان دی اگر ہمارے پاس تین اور ہوتے ہم ان کو بھی فوج میں بھیج دیتے۔ اگر تو آپ اس بنیاد پر پاکستان کی فوج کو، ان کی ساری قربانیوں کو ایک طرف رکھ کر گالی دلوانا چاہتے ہےں تو لاہور کے شہریو! پنجاب کے باسیو پاکستان کے حب وطن لوگو، کراچی کےلوگو، کوئٹہ کے لوگو اور خیبر پختونخوا کے لوگو، آزاد کشمیرکے لوگو اس گھناﺅنی سازش کے سامنے ڈٹ جائیں اور اپنے لیڈروں کو مجبور کریں کہ چند گنتی کے ووٹ لینے کے لئے اچکزئی کی جھولی میں سے پاکستان کی فوج کے اندر انتشار پھیلانے کی کوشش نہ کریں۔ اب تک شہباز شریف نے بڑی دانشمندی کامظاہرہ کیا ہے انہوں نے پاک فوج کے خلاف کسی قسم کی نعرہ بازی کو روکا اور اپنے لوگوںکو سمجھانے کی کوشش کی کہ عدلیہ کے خلاف مہم جوئی ختم کریں لیکن تب جب یہ وقت آنے والا ہے شہباز شریف صاحب کہ آپ کو دو انتہاﺅں کے درمیانن یہ بیچ میں بڑے آرام سے چلنے والی پالیسی زیادہ دیر تک آپ کے لئے ممکن نہیں رہے گی وہ کہتے ہیں کہ ’یا اپنا گریباںچاک یا دامن یزداں چاک‘ یہ فیصلہ آپ کو کرنا ہے جناب شہباز شریف صاحب۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ پاکستان کے حق میں فیصلہ کریں گے مسلم لیگ کے حق میں فیصلہ کریں۔ پنجاب جو امن کا ہمیشہ گہوارہ رہا ہے اور جس نے ہمیشہ پاکستان کی سرحدوں کے لئے خون دیا ہے۔
ضیا شاہد نے کہا کہ وزیراعظم شاہد خاقان نے آج جو کے الیکٹرک کو گیس فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو یہی فیصلہ وہ 2 ہفتے پہلے بھی کر سکتے تھے، لندن میں تھے تو وہاں سے بھی حکم جاری کر سکتے تھے۔ کیا وجہ تھی کہ دو ہفتے تک کراچی کے عوام کو سخت گرمی کے رحم و کرم چھوڑے رکھا گیا اور وہ بیچارے ہاتھوں میں دستی پھنکیاں لئے صوبائی و وفاقی حکومت پر لعن طعن کرتے رہے۔ کیا وزیراعظم صاحب اس بات کے انتظار میں تھے کہ کراچی کے عوام پھٹ پڑیں احتجاج شروع کر دیں تو پھر آپ وہاں جائیں اور شاہی فرمان جاری کریں اور بجلی آنا شروع ہو جائے۔ حکمران کیا عوام کو جانور سمجھتے ہیں کہ 2 ہفتے تک ان کی زندگی اجیرن کئے رکھی کیا یہ طرز حکمرانی ہوتا ہے۔ آج پہلی بار وزیراعظم نے اپنی ہی پارلیمانی پارٹی کو بوگس قرار دیا ہے جو افسوسناک ہے۔ وزیراعظم یہ کیوں بھول رہے ہیں کہ اس پارلیمنٹ نے انہیں منتخب کیا اگر یہ پارلیمنٹ بیکار ہے تو آپ بھی بیکار ہیں۔ آپ فیصلہ کریں کہ اس پارلیمنٹ جو بیکار ہے کو ختم کر کے نئے الیکشن کا اعلان کر دیں آپ کو ایسا تو اختیار حاصل ہے۔ بیگم کلثوم نواز کی طبی رپورٹ پڑھی تو افسوس ہوا اس لئے اس بارے مضمون بھی لکھا جس پر بہت سے لوگوں کے پیغامات بھی آئے، بیگم کلثوم کی صحت کے لئے دُعا گو ہوں، گھر کا کوئی فرد بیمار ہو جائے تو گھر والوں پر کیا گزرتی ہے اس سے بخوبی آگاہ ہوں، میری اہلیہ بھی پانچ سال بیمار رہیں اور ان کی کیموتھراپی ہوتی تھی جو اتنا تکلیف دہ عمل ہے کہ مریض خود کو اپنے ہی دانتوںسے کاٹتا ہے، پھر اللہ نے میری اہلیہ کو صحت دی۔ بیگم کلثوم کی بیماری کے حوالے سے مضمون انسانیت کے جذبے کے تحت لکھا اس میں سیاست کا کوئی عمل دخل نہیں، میں نوازشریف کی موجودہ طرز سیاست سے اختلاف کرتا ہوں تاہم یہ سمجھتا ہوں کہ ان کے خلاف کیسز مالی معاملات کے ہیں جس میں ان کے وکلا بھی عدالت میں پیش ہو سکتے ہیں، ان حالات میں نواز شریف کو عدالتی حاضری سے استثنیٰ دے دینا چاہئے کہ وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ وقت گزار سکیں۔ عدالتیں اور نظام انسان کے لئے ہے انسان ان کے لئے نہیں ہے میں انسانیت کے تحت کوشش جاری رکھوں گا کہ نواز شریف اور مریم نواز کو حاضری سے استثنیٰ مل جائے خاص طور پر بیٹی کو کہ وہ جا کر اپنی ماں کی دیکھ بھال کر سکے۔ آرمی چیف، چیف جسٹس، احتساب جج اور نیب سربراہ سے گزارش کرتا ہوں کہ انسانی ہمدردی کے تحت نوازشریف اور مریم نواز کو عدالت حاضری سے استثنیٰ دیا جائے۔ ن لیگ کی رہنما اور ممبر قومی اسمبلی تہمینہ دولتانہ نے کہاکہ یہ حقیقت ہے بیگم کلثوم نواز کی حالت بہت سنجیدہ ہے، نواز شریف اور بیگم کلثوم آج تک ہمیشہ اکٹھے رہے ہیں کبھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوئے اس وقت تو دونوں کو ایک دوسرے کی اشد ضرورت ہے۔ نواز شریف اور مریم نواز کئی کئی گھنٹے عدالت میں بٹھائے رکھا جاتا ہے۔ 5 ماہ بعد صرف ایک ہفتہ کے لئے لندن جانے کی اجازت دی گئی۔ انسانیت کو نہیں بھولناچاہئے۔ عدالت کو چاہئے کہ مریم نواز کو جانے کی اجازت دے تا کہ وہ ماں کی خدمت کر سکے۔ نواز شریف پر بھی لندن آنے جانے کی کوئی پابندی نہیں ہونی چاہئے۔ ایک بیمار خاتون کو سب سے زیادہ ضرورت خاوند اور بچوںکی ہوتی ہے کیونکہ ان سے زیادہ ایسے وقت میں کوئی سہارا نہیں بن سکتا۔ عدالت سے درخواست ہے کہ ہم سب انسان ہیں، بیماری تو کسی پر بھی کسی وقت بھی آ سکتی ہے، انسانیت کے ناطے باپ بیٹی کو اس معاملے میں حاضری سے استثنیٰ دیا جائے۔ میرے اپنے والد بھی کینسر کے مریض تھے اس لئے میں اس مرض کی تکلیف سے آگاہ ہوں۔

 


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain