لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ الیکشن قریب ہے، پری الیکشن پریڈ چل رہا ہے، ان حالات میں عمومی طور پر سیاسی جماعتوں کی آپس میں محاذ آرائی بڑھ جاتی ہے۔ گزشتہ روز قومی اسمبلی میں بھی عابد شیر علی، مراد راس و امجد نیازی کی ایک دوسرےے کو دھکم پیل اسی زمرے میں آتی ہے۔ مارکٹائی سے اسمبلیوں کا وقار مجروح ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ کی عزت کرنے کا کہنے والے پہلے خود کو عزت کے قابل بنائیں۔ اسمبلی میں مارکٹائی، دھکم پیل کی خبریں خوش کن نہیں، اس سے اسمبلی کا ماحول پرامن، شائستہ اور باوقار نہیں رہتا جو افسوسناک بات ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ شہباز شریف وزیراعلیٰ کے ساتھ اب حکومتی پارٹی کے صدر بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ عرصہ سے بلوچستان، خیبر پختونخوا اور کراچی تو بار بار جا رہے ہیں۔ سندھ میں نون لیگ کو آرگنائز کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ نون لیگ 5 برس سے اقتدار میں رہنے کے باوجود سندھ میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ کراچی سے ایک نہال ہاشمی سنیٹر منتخب ہوتے تھے جو جوشِ جنوں میں ایسا بولے کہ سپریم کورٹ سے سزا ملی۔ شہباز شریف کو بطور پارٹی صدر سندھ اور خاص طور پر کراچی میں بڑی کڑی محنت کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے ان کو وہاں پنے کچھ حلیف تلاش کرنے پڑے۔ اس سلسلے میں اے این پی ان کو میسر ہوئی ہے، شاہی سید ان کے ساتھ مل کر فاروق ستار و خالد صدیقی والی ایم کیو ایم کے پاس گئے لیکن فی الحال ایم کیو ایم کی کراچی میں پہلی جیسی پوزیشن نہیں اب وہ 3 حصوں میں تقسیم ہو گئی ہے۔ متحدہ اب کسی کو جتوا نہیں سکتی بہرحال الیکشن میں اصل صورتحال سامنے آئے گی۔ شہباز شریف کی کراچی میں اچھی کوشش ہے کیونکہ سندھ میں نون لیگ کی صورتحال کوئی زیادہ حوصلہ افزاءنہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ نون لیگ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ عمران خان و زرداری کے درمیان کوئی خفیہ مفاہمت ہے، بظاہر ایک دوسرے کے خلاف بیانات دیتے ہیں لیکن اندر سے ایک ہیں۔ نواز و شہباز کا یہی بیانیہ ہے۔ اس میںکتنی صداقت ہے یہ آئندہ الیکشن میں پتہ چلے گا اگر الیکشن میں تحریک انصاف و پیپلزپارٹی ایک دوسرے کا مقابلہ کرتی ہیں تو پھر ”خفیہ مفاہمت“ والا بیان اہمیت نہیں رکھے گا۔ ابھی یہ صرف ایک الزام ہے جس کو فی الوقت ثابت نہیں کیا جا سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ خواجہ آصف یہاں سے بھی اور باہر سے بھی تنخواہ لیتے رہے، سپریم کورٹ ضرور جائیں ان کا قانونی حق ہے لیکن وہاں ان کو ثابت کرنا پڑے گا کہ الزامات علط ہیں ان کے پاس اقامہ ہے نہ ہی تنخوا لیتے تھے۔ خواجہ آصف صاحب جب تک کسی مجاز عدالت سے اپنے حق میں کوئی فیصلہ حاصل نہیں کر لیتے اس وقت تک آپ کو اچھا لگے یا بُرا بہر حال نااہلی کے فیصلے کو ہی تسلیم کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ شیریں مزاری کی صاحبزادی ایمان مزاری ماڈرن خیالات کی ہیں، ان کی سوشل میڈیا پر لڑکوں کے ساتھ قابل اعتراض تصاویر آتی ہیں۔ انہوں نے فری سیکس پر بھی اظہار خیال کیا تھا کہ یہ ہونا چاہئے۔ ایمان مزاری بالغ و انگلستان میں رہتی ہیں ظاہر ہے ایسے ہی خیالات رکھتی ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ مجھے تہمینہ دولتانہ نے فون پر بتایا ہے کہ لندن رابطہ ہوا ہے، کلثوم نواز واقعی تشویشناک حالت میں ہیں۔ دُعا ہے کلثوم نواز صحت یاب ہوں، اپنا مطالبہ دوبارہ دہراتا ہوں کہ کم سے کم مریم نواز کو والدہ کے پاس جانے کی اجازت دینی چاہئے۔ لندن سے ہمارے نمائندہ وجاہت علی خان نے بھی چند روز قبل بتایا تھا کہ فیملی کے لوگ مایوس ہو گئے ہیں۔ خاک کربلا عراق سے منگوائی گئی ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔ میں نے ہسپتالوں میں بھی بہت سارے مریضوں کو دم درود کراتے دیکھا ہے۔ دُعا ہے کہ کسی کے دم درود سے کلثوم نواز کو شفا ملے۔ میاں شریف بڑے مذہبی خیالات کے تھے، اس وقت طاہرالقادری ان کے ساتھ ہوا کرتے تھے۔ بے نظیر بھٹو تو آکسفورڈ سے تعلیم یافتہ تھیں، ان کو کسی نے کہا تھا کہ آپ کے اقتدار کو طوالت مل سکتی ہے، مانسہرہ میں ایک پیر صاحب ہیں جو چھڑی مارتے ہیں اور مراد پوری ہو جاتی ہے۔ محترمہ ان پیر صاحب کے پاس بھی گئی تھیں۔ نواز شریف کو معلوم ہوا تو وہ بھی اس پیر کے پاس گئے تھے، اب پتہ نہیں کہ پیر کی دُعا سے یا ان کی اپنی کوششوں سے ہوا بہر حال وہ 3 دفعہ وزیراعظم بنے۔ جب نواز شریف وزیراعظم تھے۔ عمران خان و قادری کے اسلام آباد دھرنے کے دوران بھی کسی پیر صاحب نے ان کو مشورہ دیا کہ عمران خان کی شہرت ورلڈ کپ سے ہوئی لہٰذا کرکٹ کے مقابلے میں کرکٹ کولائیں۔ کرکٹ کو مضبوط بنائیں وہاں اپنا بندہ لگائیں۔ پھر نجم سیٹھی کو کرکٹ کی بادشاہت سونپ دی گئی، جن کو اس بارے کچھ معلوم ہی نہیں، مصباح الحق جب کپتان تھے تو کسی روحانی عمل والے نے نواز سے کہا کہ جب تک مصباح الحق و نجم سیٹھی کرکٹ میں رہیں گے آپ کے اقتدار کو کوئی خطرہ نہیں۔ یہی وجہ تھی کہ مصباح نے 3 دفعہ استعفیٰ دینے کی کوشش کی لیکن منظور نہیں کیا جاتا تھا۔ تازہ معلومات کے مطابق اب کسی ستارے یا نجوم کا علم رکھنے والوں نے نواز کو کہا ہے کہ سرفراز احمد کو کپتانی سے ہٹا دیں اور نجم سیٹھی کو فوری فارغ کردیں تو آپ کے اقتدار کی واپسی ہو سکتی ہے اور سیاست میں کامیابی ملے گی۔ اب دیکھتے ہیں کہ نجم سیٹھی کی چھٹی ہوتی ہے یا نہیں۔ اپوزیشن لیڈر پنجاب محمود الرشید نے کہا ہے کہ ایمان مزاری کے بیانات پر اظہار افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ شیریں مزاری کہتی ہیں کہ ان کا کوئی کنٹرول نہیں۔ ایسی باتوں سے عوام پر ایک غلط تاثر ضرور جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ پنجاب اسمبلی میں 6,5 بہنیں ہیں جو زبردست کردار ادا کرتی ہیں، انہوں نے کبھی ایسی شکایت نہیں ہونے دی۔ انہوں نے کہا کہ مزاری باہر سے تعلیم یافتہ ہیں، جس ماحول میں ان کی پرورش ہوئی انہیں خود ہی تھوڑا احساس کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ شیریں مزاری سے کہوں گا کہ ایسے بیانات سے مسلمانوں، پاکستانیوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ ریذیڈنٹ ایڈیٹر خبریں اسلام آباد، عبدالودود قریشی نے کہا کہ بجٹ تقریر کے موقع پر قومی اسمبلی کا ماحول مارکٹائی والا تھا۔ تحریک انصاف کے مراد راس نے نون لیگ پر سخت جملے کہے جس پر عابد شیر علی انہیں مارنے کے لئے لپکے۔ پی ٹی آئی و نون لیگ کے ارکان ایک دوسرے کو مارنے کے لئے لپک رہے تھے۔ بزرگ ارکان نے کردار ادا کرتے ہوئے انہیںالگ کیا۔ سابق وزیرخزانہ سلمان شاہ نے کہا ہے کہ پورا بجٹ پیش کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ آئندہ حکومت آئے گی تو پچھلی حکومت کی کارکردگی سامنے آ جائے گی۔ ایسی کوئی پابندی نہیں کہ موجودہ اسمبلی اس وقت بجٹ نہ دے۔ ہو سکتا ہے اسے چیلنج کیا جائے لیکن اس وقت تک یہ منظور ہو چکا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ پیش کرنے کے لئے پچھلے سال کا سپلیمنٹری بجٹ اسمبلی سے منظور کرانا پڑتا ہے، نون لیگ نے سوچا ہو گا کہ اپنی اسمبلی سے ہی منظور کروا لیتے ہیں اگر آنے والی حکومت نے منظور کیا تو بڑے سوال پوچھے جائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے پچھلے دنوں واٹر پالیسی پر بیان دیا تھا، بجٹ میں اس کی ہوا بھی نظر نہیں آئی۔ سرکلر ڈیڈ سمیت دیگر چیزوں کے بارے بجٹ میں کوئی بات نہیں کی گئی۔ بہت ساری چیزوں پر فوکس نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اقتصادی سروے کے حوالے سے آئندہ حکومت آنے کے بعد اصل کہانی سامنے آئے گی۔ نظر آ رہا ہے کہ پاکستان کے گھمبیر مسائل کو اتصادی سروے و بجٹ نے نہیں دیکھنا۔ ٹیکس و سرمایہ کاری اصلاحات، پاور سیکٹر، کرپشن، چوری، سی پیک عملدرآمد سمیت دیگر کاموں پر 10 سال سے اصلاحات پر کسی نے توجہ نہیں دی۔