لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ یہ انکشاف سامنے آ رہا ہے کہ نواز شریف کے لئے جیل میں کھانا پنجاب ہاﺅس سے بن کر جا رہا تھا۔ اللہ معاف کرے کوئی انتہا ہوتی ہے نالائقی کی، ناجائز کاموں کی، وہ جیل میں ہیں پکڑے گئے ہیں پھر بھی بیورو کریسی میں اتنا ہولڈ ہے ان کا کہ جیل میں بیٹھے ہوئے بھی ان کا کھانا سرکاری ادارے میں بنتا ہے اور اس کے لئے سب وسائل سرکاری استعمال ہوتے ہیں۔ 130 ارب کوئی معمولی رقم نہیں جو صوابدیدی فنڈ کے طور پر استعمال کی گئی۔ ہمارے حکمران ملکی دولت کو باپ دادا کی دولت سمجھنے والی بات ہے۔ جب چودھری نثار علی پنجاب ہاﺅس میں بیٹھتے تھے تو میں نے اس میز پر کہا تھا کہ وہ کیوں ادھر ہوتے ہیں ہر وقت۔
علی ظفر نے کہا کہ اگر اس بات میں سچائی ہے کہ پنجاب ہاﺅس سے کھانا بن کر جا رہا تھا تو بالکل نامناسب بالکل غیر قانونی ہے لیکن میں آپ کو اپنا امپریشن ضرور بتاتا چلوں کہ میں نے دیکھا تھا، میرا تاثر یہ تھا کہ بہت ساری بیورو کریسی ایسی تھی جو کہ ابھی تک نوازشریف صاحب کی ہمدرد تھی ہو سکتا ہے کہ آپ جو بات بتا رہے ہیں اس میں سچائی بھی ہو کہ کھانا پنجاب ہاﺅس سے بن کر جاتا ہو لیکن یہ اگر ہوا ہے تو بہت علط بات ہے اور اس کی میرے مطابق تحقیقات ہونی چاہئیں اگر یہ کسی نے کہا ہے تو اس کو شوکاز ہونا چاہئے۔ اور اس سے وضاحت طلب کرنی چاہئے کہ کس طرح کیا اور کیوں کیا۔ انہوں نے کہا کہ صوابدیدی فنڈ مختلف حکومتیں استعمال کرتی آ رہی ہیں کسی نے اس کو بہت زیادہ، کسی نے کم استعمال کیا اور یہ ہوتا رہتا کہ جو فنڈ سے وزیراعظم کو ایک طرح سے اختیارات تھے کہ وہ ایم پی اے یا ایم پی اے کو ڈریلپمنٹ سکیم کے لئے دیتے تھے۔ اب اس کی ڈویلپمنٹ کتنی ہوتی تھی کتنی نہیں ہوتی تھی، یا یہ فنڈ دینے کا کوئی کرائی ٹیریا تھا ایک طرح سے حکمران کی صوابدید تھی وہ کس کو جتنا چاہے ڈویلپمنٹ کے لئے کتنا پیسہ دے دے، اور کسی کو نہ دے۔ امید ہے کہ اب یہ حکومت اس کو روکے گی یا پھر۔ مثال کے طور پر ایک فنڈ ہوتا ہے ڈیزاسٹر فنڈ یہ ہوتا ہے کہ ہر صوبے کو وفاقی حکومت کے ذریعے دیا جاتا ہے میں نے ایک میٹنگ کال کی تھی جس میں دیکھا گیا کہ اربوں روپے دیا گیا پنجاب حکومت کو لیکن وہ ڈیزاسٹر فنڈ کی جگہ نہیں لگا وہ دوسرے ڈویلپمنٹ پر لگا دیا گیا۔ جس مقصد کے لئے دیا گیا وہ پیسہ اسی مقصد پر نہیں لگایا گیا۔ میں نے اس پر نوٹ لکھ کر آنے والی حکومت کے لئے چھوڑا تھا کہ آپ اس کی تحقیقات کریں کہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ ایک فنڈ ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے لئے دیں اور اس کو استعمال کسی اور چیز کے لئے کر لیا جائے۔ ضیا شاہد نے کہا یہ جو پنجاب ہاﺅس سے کھانا جانے والا معاملہ ہے۔ مجھے حیرت بھی ہوتی ہے۔ میں تو کتاب مکمل کر کے بیٹھا ہوں اور چھپ رہی ہے میں نے تو اس میں کہا ہے کہ نوازشریف جو ہیں ان کو سکیورٹی کے لئے دو گاڑیوں کی ضرورت تھی گاڑیاں خریدی گئیں اور ان کو رجسٹریشن نہیں کروائی گئی۔ یہ ڈالا جو پیچھے سے کھلا ہوتا ہے اور متعلقہ سکیورٹی اہلکاروں نے اس کا نوٹس لیا کہ رجسٹریشن نہیں ہوئی۔ رجسٹریشن اس لئے نہیں کروائی جاتی کہ اس وقت لیڈر آف اپوزیشن تھے نوازشریف تو 90 ہزار روپے صرف ایک گاڑی کے لگتےے تھے۔ زیادہ بڑی رقم نہیں تھی۔ ایک لاکھ 90 ہزار بچانے کے لئے اس پر دو موٹر سائیکلوں کے نمبر جو تھے اس کی نمبر پلیٹس لگا دی گئیں۔ بات پیسوں کی نہیں۔ نیت اگر بدنیت ہے پھر 90 ہزار بھی بڑی رقم ہے لیکن یہ ان کے پاس 90 ہزار نہیں ہے۔ کیا یہ بدنیتی نظر نہیں آئی کہ آپ جیل میںبیٹھے ہوئے ہیں اور کھانا منگوا رہے ہیں اور کھانا منگوا رہے ہیں پنجاب ہاﺅس سے۔
ضیا شاہد نے کہا ہے کہ میں کسی کا نام نہیں لیتا لیکن مولانا فضل الرحمن کی پارٹی جو تھی جمعیت علمائے ہند نام تھا پاکستان بننے سے پہلے، پھر جب پاکستان بنا تو جمعیت علمائے اسلام رکھا گیا اور اس کے کئی لوگ ایسے تھے جو فخر سے پاکستان بننے کے بعد بھی یہ کہتے رہے کہ ”خدا کا شکر ہے کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں تھے۔“ فضل الرحمن 13 سال سے کشمیر کمیٹی کی گیدڑ سنگھی ان کے پاس رہی ہے۔ مفت کا گھر کوٹھی ملی ہوئی ہے۔ دنیا بھر کی سیر کرنے جاتے رہے اتنی باتیں کی جاتی تھیں۔ لیکن سعید احمد ہی نیشنل بنک کے صدر ہوتے تھے۔ مجال ہے کسی نے ہٹانے کی زحمت گوارا کی ہو۔ اسد عمر جس دن آئے تھے سب سے پہلا کام یہ کرنا چاہئے تھا۔ لگتا ہے اس ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز تھی ہی نہیں 130 ارب میں سے ایک صوبے کو 117 ارب اور ایک صوبے کو 13 ارب دے دیئے گئے۔ غلط بخشی کی بھی کوئی حد ہے۔اصل میں کسی ساری چیزیں ایسی جمع ہو رہی ہیں۔ میرا خیال ہے میں اسلام آباد جاﺅں اور خان صاحب سے ملوں کیونکہ لوگ بڑے سوال کرتے ہیں اور پنجاب کے وزیراعلیٰ کے حوالہ سے روزانہ کوئی نہ کوئی نئی کنٹرورسی جنم لیتی ہے خدا کرے یہ سب غلط باتیں ہوں لیکن جو مجموعی طور پر ٹیم منتخب کی ہے عمران خان صاحب نے پنجاب میں وہ اچھی ہے سوائے وزیراعلیٰ کے۔ حقائق کے سامنے کھڑا نہیں ہو سکتا۔ وزیراعظم جس کفایت شعاری سادگی سے کام لے رہے ہیں کوئی پروٹوکول نہیں لے رہے۔ اب ان کے ایک صوبے کا وزیراعلیٰ بڑے ٹھاٹ باٹ سے سب کچھ لے رہا ہے تو لوگ باتیں تو کریں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جے آئی ٹی ہونی چاہئے اور حقائق سامنے آنے چاہئیں اس کے بعد جو بھی اس کی زد میں آتا ہے اس کو جواب دینا چاہئے۔
عمران خان صاحب نے بڑی انقلابی تجاویز دی ہیں۔ پروٹوکول کا سسٹم تھا اس کو چیلنج کر دیا، جو زیادہ سے زیادہ سہولیات اپنے لئے مخصوص کرنے کا سسٹم تھا۔ چنانچہ آج پنجاب ہاﺅس سے کھانا بن کر جیل جانے کا انکشاف ہوتا ہے اس قسم کی بے قاعدگیوں کا انکشاف ہوتا ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ ایک آدھ بات وزیراعلیٰ پنجاب جناب محترم عثمان بزدار کے حوالہ سے آئی ہے۔سنا ہے آپ نے بڑا جسٹی فائی کیا ہے آپ فرد کی بجائے اصولوں کو کریں۔ آپ خود ہمیشہ حق اور سچ کی بات کہی ہے۔ اچھا نہیں کہ آپ اپنے چیف کو بچانے کے لئے بات کریں آپ صحیح، سچ اور حق کی بات کریں۔اگر وزیراعلیٰ نے کوئی غلط کام کیا ہے تو ضرور ان کی پکڑ ہونی چاہئے۔
نمائندہ قصور روزنامہ خبریں جاوید ملک نے کہا ہے کہ ویڈیو سکینڈل کے ملزمان کو پولیس نے عدالت سے چھڑوا لیا ہے۔ ماسوائے 2 کے تمام ملزمان واپس آ چکے ہیں۔ جنہوں نےاب ضلع قصور میں اپنی بالادستی و حکومت قائم کر رکھی ہے اور ان لوگوں کو سزا دینے لگے ہیں جو ان کے خلاف بولے تھے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ویڈیو سکینڈل کے ایشو کو خبریں نے اٹھایا تھا اور 2017ءمیں ملزمان کی گرفتاری و مقدمات کے اندراج بارے بھی چھاپا تھا۔ ویڈیو سکینڈل یہ تھا کہ 300 سے زائد ججوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا اور پھر ویڈیو کے نام پر ان کے گھر والوں کو 4,3 سال تک بلیک میل کیا جاتا رہا تھا۔ پولیس نے خود مدعی بن کر یا کسی اپنے کو بنوا کر تمام ملزمان کو انسداد دہشتگردی عدالت سے بری کروا لیا ہے۔