تازہ تر ین

سانحہ ساہیوال ،گاڑی میں اسلحہ تھا نہ مزاحمت ہوئی ،نہتوں کو تسلی سے مارا گیا

ملتان (رپورٹ:میاںغفار، آصف خان،رانا وحید،عمران نذیر، تصاویر: صفدر اعوان) اگرسانحہ ماڈل ٹاﺅن میںملوث پولیس اہلکاروں کو سزامل جاتی اور 14افراد کے قتل میں ملوث افسران حکم جاری کرنے والے بااختیار انصاف کے کٹہرے میںپہنچتے تو ساہیوال جیسا واقعہ رونما نہ ہوتا۔ تمام ایجنسیاں،تمام ادارے، موقع پر موجود لوگ اس سانحہ کے عینی شاہدین اور خود سی ٹی ڈی والے تسلیم کرچکے ہیں کہ گاڑی میں اسلحہ نہ تھا اور سفر کرنے والے تمام نہتے تھے پھر اگر کلبھوشن کو پکڑا جاسکتا ہے تو یہ نہتے لوگ بھی پکڑے جاسکتے تھے جن کو قتل کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ ذیشان ٹیکسی ڈرائیور کے علاوہ لاہور میں کرائے پر مکان دلوانے کا کاروبار کرتا تھا جبکہ خلیل کی پرچون کی دکان تھی، دونوں آپس میںگہرے دوست تھے۔ لاہور سے 19جنوری بروز ہفتہ صبح 4گاڑیاں گگومنڈی کےلئے روانہ ہوئیں، گگومنڈی کی ارائیں فیملی سے تعلق رکھنے والا خاندان اس میں سوار تھا، جب افراد بڑھ گئے اور گاڑیاں کم پڑ گئیں تو ذیشان کی گاڑی کرائے پر لی گئی جو کہ خلیل کا دوست تھا۔ لاہور سے گاڑی چلی، ساہیوال اور اوکاڑہ کی سرحد پر پہنچی، ٹال پلازہ کراس کیا تو ان کے انتظارمیں کھڑی سی ٹی ڈی کی گاڑیاں ان کے پیچھے لگ گئیں، قادرآباد اور یوسف والا کے درمیان ٹال پلازہ سے اڑھائی کلومیٹر کے فاصلے پر جب سڑک نے دو ٹرن لئے اوروہاں تمام گاڑیوں کی رفتار آہستہ ہوجاتی ہے تو سی ٹی ڈی کی گاڑی سے آلٹو گاڑی نمبر ایل ای اے 6683-12 ماڈل 2012ءرنگ سفید ہزار سی سی کے اگلے ٹائر پر برسٹ مارا گیا جس سے ٹائر پھٹ گیا، گاڑی کنٹرول سے باہر ہوئی اور دائیں طرف کو گھوم گئی اور ڈیوائڈر سے ٹکرا گئی، گاڑی میں سے سی ٹی ڈی کے 9افراد اترے، 3سی ٹی ڈی والوں نے اوکاڑہ سے ساہیوال جانے والی ہرقسم کی ٹریفک کو روک لیا جبکہ 3اہلکاروں نے دوسری جانب ملتان سے لاہور جانے والی سڑک پر ہرقسم کی ٹریفک کو روک لیا۔ باقی تین اہلکاروں نے گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ شروع کردی۔ اس موقع پر ایک شخص ہدایات دیتا رہا، گاڑی پر سب سے پہلے فائرنگ فرنٹ سے کی گئی اور فرنٹ پر بیٹھے دونوں افراد خون سے نہا گئے، عورتوں اور بچوں کے چیخنے کی آوازیں دونوں طرف کھڑی گاڑیوں میں بیٹھے لوگوں تک پہنچیں جو سارے اس سین کو دیکھ رہے تھے، فرنٹ سے فائرنگ کے بعد ایک شخص گاڑی کے دائیں جانب آگیا اور اس نے سیٹ بیلٹ میں بندھے ذیشان پر فائرنگ کی تو وہ خلیل کی گود کی طرف جھک گیا، پھر وہ فائرنگ کرنے والا اہلکار دوسری جانب آیا اور اس نے پہلے سے مردہ خلیل پر فائرنگ کی جبکہ تیسرے اہلکار نے پیچھے بیٹھی خاتون پرفائرنگ شروع کردی، خاتون چاروں بچوں پر جھک گئی، خاتون گاڑی کی لیفٹ سائیڈ پر بیٹھی تھی جبکہ چاروں بچے بائیں طرف تھے۔ خاتون نے آگے جھک کر تمام گولیاں اپنے اوپر لے لیں اور بچی کو گود میں چھپانے کی کوشش کی مگر اس دوران بچی کے دل میں گولی پیوست ہو چکی تھی، تین بچے معجزانہ طور پر بچ گئے۔عمیر مقتولہ اریبہ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا،ایک گولی عمیر کے کولہے میں لگی، ان چاروں کو تسلی سے قتل کرنے کے بعد سی ٹی ڈی اہلکاروں نے 3بچوں کو گاڑی سے نکالا تو ایک بچی کے ہاتھ میں دودھ کا فیڈر تھا، انہیں سی ٹی ڈی کے ڈالے کے فرنٹ پر بٹھایا اور وہاں سے تقریباً ایک کلومیٹر دور بائیں جانب واقع قادرآباد فلنگ سٹیشن کے قریب ٹرانسفارمر والے ایک کھمبے کے نیچے پھینک دیا اور گاڑی بھگا دی۔ وہاں لکڑیاں اکٹھی کرتی دو خواتین نے شور مچا دیا جس پر پٹرول پمپ کے لڑکے آئے اور دو بچیوں اورایک بچے کو پٹرول پمپ پرلے گئے جہاں انہوں نے 1122کو کال کرکے مدد مانگ لی۔ عمیر کی زخمی ٹانگ پر کپڑا باندھا گیا، عمیر نے روتے ہوئے پٹرول پمپ کے کیشیئر سے کہا کہ میری بہنیںصبح سے بھوکی ہیںِ، ان کو کھانے کےلئے کچھ دے دیں، تھوڑی دیر بعد 1122کی گاڑی آگئی جس نے انہیں ہسپتال پہنچا دیا۔ اس دوران چاروں افراد کو قتل کرنے والی گاڑی جائے وقوعہ پر پہنچ گئی۔ انہوں نے اگلی سیٹوں سے دونوں افرادکی لاشیں نکال کر زمین پر لٹا دیں اور پیچھے بیٹھی نبیلہ کی لاش کو گاڑی سے گھسیٹا تو اس کی شلوار اتر گئی، بعد میں بچی کی لاش گاڑی سے گھسیٹی گئی پھر ان لاشوں کو گاڑی میںڈال دیا، جونہی گاڑیاں وہاں سے لاشیںلیکر رخصت ہوئیں تو پیچھے سے خلیل کے ساتھ چلنے والی چوتھی گاڑی بھی پہنچ گئی، اس سے قبل دو گاڑیاں آگے نکل چکی تھیں جن میں ایک ساہیوال بائی پاس کے قریب اور دوسری ہڑپہ کے قریب تھی۔ سی ٹی ڈی والوں نے پہلا مو¿قف یہ اختیار کیا کہ انہوں نے اغوا کاروں کے چنگل سے 3بچوں کو بازیاب کرا کر چاروں اغوا کاروں کو ماردیا ہے۔
روزنامہ ”خبریں“ کی خصوصی ٹیم نے جائے وقوعہ سے جومعلومات اکٹھی کیں اور ساہیوال شہر میں مختلف افراد سے رابطہ کرکے جومعلومات لیںان کی تفصیلات درج ذیل ہےں۔
(1)چاروں افراد پرفائرنگ کرنے والی ٹیم سی ٹی ڈی ساہیوال کی تھی انہیں کہیں سے ہدایات مل رہی تھیں اور وہ گاڑی کے ٹول پلازہ پر پہنچنے سے نصف گھنٹہ پہلے وہاں پہنچ کر گاڑی کا انتظار کررہے تھے۔اہلکاروں نے ٹول پلازہ پر گاڑی میں بیٹھے تمام افراد کا مکمل جائزہ لیا، جب گاڑی روانہ ہوئی تو اہلکار اس کے پیچھے روانہ ہوگئے۔ یہ بات روزنامہ ”خبریں“کو ٹول پلازہ پر موجود ایک شخص نے بتائی۔
(2)خلیل کو 10گولیاں لگیں، ذیشان کو 13گولیاں لگیں، نبیلہ کو 4 جبکہ 13سالہ اریبہ کو سر میںگولی لگی۔ خلیل کے سر میں لگنے والی گولی اس کے دماغ کو پھاڑ کر عقب میں بیٹھی اس کی اہلیہ کو لگی۔ فائرنگ سے قبل خلیل کی پولیس والوں سے بات بھی ہوئی جبکہ ذیشان خاموش رہا، جب خلیل کی بات چیت ہورہی تھی تو گن مین پوزیشن لئے کھڑے تھے۔ گاڑی کے اگلے شیشے کھلے ہوئے تھے جبکہ پچھلے شیشے بند تھے جو فائرنگ کی وجہ سے ٹوٹے جبکہ گاڑی کے شیشوں پر کسی قسم کا پیپر نہیں لگا ہوا تھا۔ البتہ تھانہ یوسف والا کے احاطے میں جو گاڑی کھڑی تھی اسکی پچھلی سیٹ پر 4جعلی سکرینیں پڑی تھیں اور چاروں صحیح سلامت تھیں جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ جس وقت سی ٹی ڈی اہلکاروں نے گاڑی پر فائرنگ کی، گاڑی کو سکرینیں بھی نہیںلگی ہوئی تھیں، اگر گاڑی کے شیشے رنگین ہوتے تو گاڑی میں چار سکرینیں رکھنے کی ضرورت نہیں تھی جو پولیس والے نکال ہی نہیں سکے۔
(3)گاڑی نمبر 6683ایل ای اے کی پہلی مالک اوکاڑہ کی ثمینہ مقدر زوجہ مقدر حسین، دوسرا مالک شوکت علی ساجد ولد محمد انور ساکن اوکاڑہ جبکہ تیسرا مالک عظیم لیاقت نئی آبادی نمبر2 بیڈن روڈ لاہور شناختی کارڈ نمبر 35201-1708163-1 تھا۔ یہ گاڑی 2012ءمیں رجسٹرڈ ہوئی اور اس گاڑی کی نمبر پلیٹ کی فوٹیج پورے ملک میں وائرل ہو چکی ہے، اس کے باوجود تھانہ یوسف والا نے ان چاروں افراد کا جو مقدمہ درج کیا اس میں گاڑی کا نمبردانستہ درج نہیں کیا حالانکہ گاڑی تھانے میں موجود تھی تاہم اس کی نمبرپلیٹ اتار لی گئی تھی۔
(4)تھانہ سی ٹی ڈی میں جو ایف آئی آر درج ہوئی اس کا نمبر 02/19 ہے اور یہ ایف آئی آر سی ٹی ڈی ضلع لاہور میں درج ہوئی اس میں گاڑی کا نمبر 6663ایل ای آر لکھا گیا اور توجہ طلب امر یہ ہے کہ ”آر“ سیریز صرف اور صرف موٹرسائیکلوں کےلئے مختص ہے۔ ”خبریں“ نے جب 6683ایل ای آر 12کا ریکارڈ نکلوایا تو یہ کسی موٹرسائیکل کا نمبر تھا جو محمداکرم ولد محمد شفیع ساکن کینال پارک گلبرگ لاہور کے نام رجسٹرڈ ہے جبکہ 6663ایل ای آر 12جوکہ لاہور کی سی ٹی ڈی ایف آئی آ ر میں لکھاگیا وہ ایک شخص محمداشرف ولدمحمدحیات ساکن سرگودھا کے نام رجسٹرڈ ہے۔
(5)گاڑی میں مرنے والی نبیلہ اور اس کی بیٹی 13سالہ اریبہ کی جوفوٹیج بنیں اور سوشل میڈیا پر وائر ل ہوئیں ان میں ان کے کانوں میں سونے کی بالیاں صاف نظر آرہی ہیں مگر 7گھنٹے44منٹ بعد جب چاروں لاشیں پوسٹ مارٹم کیلئے ڈسٹرکٹ ہسپتال ساہیوال لائی گئیں توان کے کانوں سے بالیاں اترچکی تھیںاور تمام وقت یہ لاشیں پولیس کے قبضے میں رہیں۔
(6)صبح 11بجکر 40منٹ کے قریب یہ واقعہ ہوا جبکہ 7گھنٹے44منٹ بعد یہ لاشیں ساہیوال کے سرکاری ہسپتال پہنچائی گئیں۔ جہاں پرپوسٹمارٹم ہوناتھا۔ ”خبریں“ کوبتایاگیا کہ چاروں لاشیں لاہور منتقل کردی گئیں اورلاہور سے پوسٹمارٹم کرانے کی کوشش کی گئی اور لاہور کے دونوں بڑے ہسپتال کے ڈاکٹرز نے پوسٹمارٹم کرنے سے یہ کہہ کرانکارکردیاکہ وقوعہ ساہیوال کاہے اورکورٹ کیس ہے لہٰذا اس کا پوسٹمارٹم صرف ساہیوال میں ہی ہوسکتا ہے اڑھائی سے چاربجے تک یہ لاشیں لاہورمیں پھرائی جاتی رہیں پھرواپس ساہیوال لے جائی گئیں تو مقتولین کے لواحقین بورے والا ،گگومنڈی اورہڑپہ سے سینکڑوں کی تعدادمیں ڈسٹرکٹ ہسپتال پہنچ چکے تھے۔ جہاں4گھنٹے 44منٹ بعد ان کاپوسٹمارٹم شروع کیاگیا۔
(7)فائرنگ 9ایم ایم اورایس ایم جی رائفل سے کی گئی اور فائرنگ کرنیوالے 3اہلکار جبکہ ان کی رہنمائی کرنے والے موقع پر 2افراد تھے یہ بات ”خبریں“ کو عینی شاہدین نے بتائی۔ فائرنگ کی پہلی فوٹیج بس کے اندر بنائی گئی جس میں فائرنگ کی آواز کوبھی سناجاسکتا ہے۔
(8) چاروں افراد کو قتل کرنے کے بعد اوربچوں کو لیکرلاشیں وہیں چھوڑ کر سی ٹی ڈی پولیس بوکھلاہٹ میں روانہ ہوگئی بچوں کو پمپ پراتار کر واپس آئی تودرجنوں لوگ گاڑیوں میں موجود لاشوں کی فوٹیج بناچکے تھے۔ پولیس نے آکرتمام لوگوںکو ہٹایا اور لاشوں کو ڈالے میں منتقل کیا ۔سامان نکالا اور لے گئے۔
(9) پولیس کے قبضے کے دوران ایک نوجوان نے کھلے بیگ کی فوٹیج بنالی جس میں عروسی کپڑے ،بیوٹی بکس ،زیورات، نیل پالش ،جوتی اور پرفیو م تھے۔ ویڈیوبنانےوالے نے اس ویڈیوکواپنے ایک دوست کو بھجوادیا کہ اگرپولیس کی طرف سے بیگ میں کسی بھی قسم کا اورمواد رکھاجائے تو وہ اس ویڈیو کووائرل کردے پولیس کواس بات کاعلم ہوگیا جس پربیگ میں کسی بھی قسم کااسلحہ اوربارودی مواد نہ ڈالا جاسکا اورپولیس کو تسلیم کرنا پڑا کہ گاڑی میں بیٹھے تمام مقتولین نہتے تھے۔
(10)ڈرائیور ذیشان جس کے بارے میں اب دہشت گرد کا ساتھی ہونے کا دعویٰ کیا جارہاہے، گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر سیٹ بیلٹ میں جکڑا ہواتھا، اس کا ایک ہاتھ سٹیرنگ پر تھا جبکہ دوسرا ہاتھ ہینڈ بریک پرتھا، گاڑی کے وائپر چل رہے تھے حالانکہ اس وقت بارش نہیں تھی، ذیشان اور خلیل پر دو اطراف سے فائرنگ کی گئی جبکہ پیچھے بیٹھی ماں بیٹی پر ایک طرف سے فائرنگ کی گئی۔
(11)عینی شاہدین کے مطابق نبیلہ میں زندگی کی رمک باقی تھی کیونکہ اس کے سر اور پیٹ میںگولیاں لگی تھیں، اس پر دوبارہ بھی ایک فائر کیا گیا۔
(12)ایلیٹ فورس اور سی ٹی ڈی کے جوانوں نے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال پر ہرقسم کا داخلہ بند کردیا۔ حتیٰ کہ بچوں کو فرسٹ ایڈ دینے والے ڈاکٹر کو بھی اندر داخلے میں دشواری کا سامنا کرناپڑا۔ ایلیٹ فورس کے نوجوان لوگوں سے بدتمیزی کرتے رہے۔ ساہیوال کے ایک ٹی وی چینل کے نمائندے جاوید شوکت نے زخمی بچوں کی فوٹیج بنانے کی کوشش کی تو پولیس نے ان کو سختی سے روک دیا جس پر جاوید شوکت اور باقی ساتھیوں نے ان کو جھاڑتے ہوئے کہا کہ تم نے ان کے ماں باپ مار دیئے ہیں، اب ان کے علاج میں رکاوٹ تو نہ ڈالو، مرنے والے ہڑپہ کے سابق ایم پی اے کے قریبی عزیز تھے۔ بوریوالا، گگو منڈی ، ہڑپہ اور لاہور سے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال پہنچنے والے لوگوں نے مقامی نمائندگان کو بتایا کہ مرنے والے انتہائی شریف شہری تھے اور وہ کسی قسم کی غیرقانونی سرگرمی میں ملوث نہ تھے۔
(13)وزیراعلیٰ پنجاب رات ساڑھے گیارہ بجے ہسپتال پہنچے تو لوگوں نے شدید احتجاج کیا۔ گگومنڈی کے لوگوں نے احتجاج کیا تو لاہور میں بھی احتجاج شروع ہوگیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب کو میڈیا سے دور رکھا گیا اور وزیراعلیٰ کی ساہیوال آمدپر مقامی پی ٹی آئی کارکن ان کے ساتھ سیلفیاں بنانے لگے۔ وزیراعلیٰ نے صرف زخمی بچوں کی عیادت کی جبکہ لوگوں کے بار بار اصرار کے باوجود وہ ڈیڈ باڈی دیکھنے نہ گئے حالانکہ بم ڈسپوزل سٹاف نے ان تمام کمروں کو کلیئر کر لیا تھا جہاں چاروں لاشیں پڑی تھیں۔ وزیراعلیٰ کے جاتے ہی شدید احتجاج ہوگیااور نعشیںوصو ل کرکے لواحقین دیر تک لاشیں پہنچانے کےلئے کسی گاڑی کے منتظر رہے مگر پولیس ساہیوال انتظامیہ اور ہسپتال کی جانب سے لاشیں منتقل کرنے کےلئے جب کوئی گاڑی بھی نہ دی گئی تو لواحقین چار سٹریچرز پر رکھی لاشیں ہسپتال سے گھسیٹتے ہوئے باہرلے گئے اورکم ازکم دوکلومیٹر تک لاشوں کا سفرچار سٹریچر پر جاری رہا۔ شہرمیں شدید دکھ کا سماں تھا ، جلوس کی صورت میں کھینچے جانے والے چار سٹریچر پرلاشوں کو دیکھ کر لوگ دھاڑےں مار کر رورہے تھے۔
(14)وزیراعلیٰ پنجاب جب لوگوں کو اطمینان دلائے بغیر واپس چلے گئے توشدید احتجاج شروع ہوگیا اور 12گھنٹے تک لاہور ملتان روڈ بند رہا رات ساڑھے بارہ بجے شروع ہونیوالے احتجاج اورجلوس کااختتام اگلے روز ایک بجے ہوا جب تھانہ یوسف ولامیں درج ایف آئی آر کی کاپی لواحقین کودے دی گئی۔

(15) حکومت کی طرف سے جے آئی ٹی بنانے کا اعلان ہوا اورمساجدمیں اعلان کیاگیا کہ 21جنوری دوپہرایک بجے جے آئی ٹی کے لوگ موقع پر لوگوں کے بیان لیں گے۔تقریباً 4سو افراد موجود تھے جن میں بیشترافراد قرآن پاک ہاتھ میں لیے کھڑے تھے کہ وہ قرآن پرہاتھ رکھ کر بیان دیں گے ۔6گھنٹے انتظار کے باوجود جب وہاں سے گزر کر ساہیوال پہنچنے والی جے آئی ٹی کی ٹیم واپس نہ آئی تو6گھنٹے انتظار کرنے کے بعد لوگ واپس چلے گئے۔ وہاں پرموجود پولیس اہلکار یہ اعلان کرتے رہے کہ جوبھی بیان دیناچاہتا ہے اس کاموبائل نمبر بھی نوٹ کیاجائیگا اور موبائل سے تصدیق کی جائے گی کہ وہ موقع پرموجود تھا یانہیں اسکے باوجود لوگ ٹس سے مس نہ ہوئے اور انتظار کرتے رہے تاہم اگلے روز جب جے آئی ٹی موقع پرپہنچی تو بیان دینے والے لوگ بہت کم رہ گئے تھے۔
(16) ایک شخص بابا محمدصادق ولد سلمان نے جے آئی ٹی کوبیان دیتے بتایا کہ گاڑی کے اندر سے کوئی فائر ہوا نہ ہی گاڑ ی میں کوئی اسلحہ تھا۔ بچوں اورلاشوں کو بے دردی سے گھسیٹا گیا اورانہوں نے تمام وقوعہ حرف بہ حرف جے آئی ٹی کو بتادیا۔(17) محمدطیب ولد محمدکبیرعلی کاگھر تو وقوعہ کے بالکل سامنے تھا اس نے بھی تصدیق کی کہ گاڑی میں کسی قسم کااسلحہ نہ تھا اور نہ ہی گاڑی سے فائرنگ کی گئی۔ دیگر بیان دینے والوں میں عمردراز اور محمدبشیر قوم کھوکھر سکنہ 54/5-L ،اللہ دتہ ولد عبداللہ بھٹی سکنہ 55/5-L ،ملک فیاض احمد ولدجہانگیر خان بھٹی چیئرمین یونین کونسل سکنہ چک نمبر55/-5L شامل ہیں۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain