لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) خبریں گروپ کے چیف ایڈیٹر، سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیاشاہد نے حافظ آباد میں 15 سالہ معذور بچی کے ساتھ استاد کی زیادتی کے واقعے پر انتہائی دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسے درندہ شخص کا منہ کالا کر کے پورے شہر میں گھمانا چاہیے۔ وہاں کے لوگ اپنے ضمیر کو جگائیں اور اس واقعہ پر اٹھ کھڑے ہوں، کہہ دیں کہ اگر ملزم گرفتار کر کے عدالت پیش نہ کیا تو تھانوں کا گھیراﺅ کر لیں گے۔ آئین و قانون میں رہتے ہوئے مظلوم خاندان کو انصاف دلوائیں۔ چینل فائیو کے تجزیوں، تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیاشاہد کے ساتھ“ میں حافظ آباد واقعہ پر گفتگو کرتے ہوئے ضیاشاہد آبدیدہ ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ حافظ آباد واقعہ امریکہ اور روس کے درمیان سرد جنگ سے بڑی خبر ہے۔ مظلوم اور گواہوں کی موجودگی کے باوجود مقدمہ درج ہونے میں 24گھنٹے لگ گئے۔ ملزم تاحال گرفتار نہیں ہوا۔ شاید اس کے پیچھے کسی بڑی شخصیت کا ہاتھ ہو گا۔ ملزم گرفتار ہو بھی گیا تو عدالتی نظام اتنا طویل ہے کہ سماعت میں 8 سے 10 سال لگ جائیں گے اور پھر اگر عدالت اسے مجرم قرار دے بھی دیتی ہے تو وہ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں چلا جائے گا۔ یہاں جس کے پاس کوئی پیسہ اور بڑی سفارش ہو اس کے خلاف کارروائی نہیں ہو سکتی۔ قانون ظالم کےلئے نہیں مظلوم کےلئے ہے۔ ایسے کتنے ہی واقعات پیش آتے ہیں۔ کبھی کسی کے چہرے پر تیزاب پھینک دیا جاتا ہے۔ غریب والدین دباﺅ میں آ کر مقدمہ واپس لے لیتے ہیں کیونکہ وہ غریب ہیں، روٹی کھانے کے پیسے نہیں وکیل کی فیس کہاں سے دیں۔ غربت کے باعث لوگ اپنی 11, 10 سال کی بچی کو کسی کھاتے پیتے گھرانے میں ملازمہ کے طور پر ہزار دو ہزار کے عوض بیچ آتے ہیں کیونکہ انہیں کھانے کو روٹی چاہیے۔ قانون کہتا ہے کہ 11 سال کی بچی کو ملازمت پر نہیں رکھا جا سکتا لیکن سارا قانون صرف کتابوں میں ہی ہے۔ حافظ آباد جیسا کوئی واقعہ جب پیش آتا ہے تو وزیراعلیٰ شہباز شریف اس کے گھر چلے جاتے ہیں تو پھر مجرموں کو سزا کیوں نہیں ملتی، ایسے واقعات ختم کیوں نہیں ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ جب سے خبر سنی نیند نہیں آئی، دل خون کے آنسو رو رہا ہے، حافظ آباد کے لوگوں کو نیند کیسے آگئی؟ اس بچی کی عزت کی حفاظت کرنا ان کی ذمہ داری تھی۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسروں سے پوچھتا ہوں کیا آپ کی کوئی بیٹی نہیں؟ کونسا ریکارڈ ہے جس سے معلوم ہو کہ گھریلو ملازمہ بچیوں پر کیا ظلم ہو رہا ہے، کتنوں کے چہروں پر تیزاب پھینکا گیا، آج تک کسی کو سزا ملی۔ یہاں عام آدمی کےلئے کوئی انصاف نہیں۔ 20کروڑ کی آبادی میں 98 فیصد لوگ مظلوم ہیں، صرف پروردگار سے دعا ہی کی جا سکتی ہے۔ 98 فیصد لوگ عدالت کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔ ظلم کرنے والے 10 فیصد جبکہ مظلوم 90 فیصد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حافظ آباد واقعہ جیسی بے ہودگیوں کی وجہ سے فرانس میں لوگ تنگ آ کر بادشاہ کے خلاف کھڑے ہو گئے تھے۔ پھر مجرموں کی گردنیں کاٹنے میں وقت لگتا تھا تو تاریخ بتاتی ہے کہ ایک آلہ ”گلوئینز“ تیار کیا گیا، اس میں اوپر سے تلوار قسم کی کوئی چیز نیچے گرتی تھی اور گردن کو جسم سے الگ کر دیتی تھی۔ جب بے انصافی حد سے گزر جاتی ہے تو ان معاشروں میں پھر گلوئنیز لگتی ہیں۔ جس سے مجرموں کی گردنیں کاٹی جاتی ہیں۔ یہاں اسمبلی، سینٹ، عدالتیں، قانون سب موجود ہے تو پھر انصاف کہاں ہے۔ قائداعظم نے کہا تھا کہ جہاں مظلوم کو انصاف نہ ملے مجھے ایسا پاکستان نہیں چاہیے۔ اب عوام نے فیصلہ کرنا ہے کہ کیا ان کو ایسا پاکستان چاہیے؟ انہوں نے کہا کہ حافظ آباد کا ڈی پی او واقعے پر بات کرنے کو تیار نہیں، اس کو معلوم ہے کہ میڈیا سمیت کوئی بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا کیونکہ اسے بھی تو کسی تگڑے نے تعینات کیا ہوگا۔ ڈی پی او یہاں جواب نہ دے لیکن یاد رکھے کہ مرنے کے بعد جواب دینا پڑے گا، زندگی مختصر ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکمران شاید عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کے انتظار میں ہیں۔ استاد معذور بچی کو ڈیڑھ سال زیادتی کا نشانہ بناتا رہا اور دھمکیاں دیتا رہا کہ اگر گھر بتایا تو دیکھنا تیرا اور تیرے گھر والوں کا کیا حشر ہوتا ہے۔ ایسے ہی ایک حملے میں جب بچی ہسپتال پہنچی تو شور مچا۔ کسی کے اپنے اختیار میں نہیں ہے کہ وہ معذور یا غریب گھرانے میں پیدا نہ ہو۔ ایسے درندہ صفت شخص کو فوری گرفتار کر کے عبرتناک سزا دینی چاہیے۔ ایک سوال پر ضیاشاہد نے کہا کہ دنیا میں خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ ہم تیسری جنگ عظیم کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک اسرائیل کا یہ کہنا کہ غور کرینگے کہ اقوام متحدہ کے ساتھ کیسے تعلقات رکھنے ہیں، دوسری وجہ امریکہ اور روس کے درمیان سرد جنگ بڑھ رہی ہے۔ ڈی آئی جی آپریشنز ڈاکٹر حیدر اشرف نے کہا ہے کہ حافظ آباد جیسے واقعات پر پولیس حرکت میں آتی ہے لیکن کچھ قانونی تقاضے بھی پورے کرنا ہوتے ہیں۔ ایسے واقعات میں سیمپل لیکر فرانزک کرانا ہوتا ہے جس کی وجہ سے تاخیر ہوتی ہے۔ میڈیکل کروایا جاتا ہے، زیادتی ثابت ہو تو فوری مقدمہ درج کیا جاتا ہے۔ حافظ آباد سے چینل فائیو کے نمائندہ مہر فاروق نے کہا ہے کہ استاد کی زیادتی کا نشانہ بننے والی 15 سالہ بچی گونگی، بہری اور ذہنی معذور ہے۔ استاد اسے شادی کرنے کا کہتا تھا اور اس طرح حیلے بہانوں سے ڈیڑھ سال اسے زیادتی کا نشانہ بناتا رہا۔ انہوں نے کہا کہ ایف آئی آر میں 2نامزد ملزم ایک سکول ٹیچر اور ا یک چپڑاسی شامل ہیں۔ ایس ایچ او سے لیکر ڈی پی او تک کوئی اس واقعے پر بات کرنے کو تیار نہیں۔