شفقت حسین
مجھے یقین واثق ہے کہ وزیراعظم عمران خان، مشیر خزانہ شوکت ترین یا وہ لوگ جنہیں ان کا قُرب حاصل ہے اور جو کسی انسانی سائے کی طرح ان دونوں محترم شخصیات سے جڑے رہتے ہیں۔ کسی نہ کسی طور میری ذیل میں پیش کی جانے والی معروضات ان تک پہنچ گئیں اور انہیں پڑھ بھی لیا گیا تو مجھے گردن زدنی قرار نہ بھی دیا جائے، مطعون نہ بھی کیا جائے یا میاں محمد نواز شریف کی طرح ملک کے ایک بڑے قومی معاصر کی انتظامیہ پر کچھ صحافیوں کے اخراج کے مطالبے کی طرح راقم کے اخراج کے لئے دباؤ نہ بھی ڈالا جائے تو بھی یہ معروضات ناگوار ہی گزریں گی چونکہ حکمران طبقات ہمیشہ ”سب اچھا ہے“ کی رپورٹ ہی سننے اور پڑھنے کے خوگر ہوتے ہیں اور یہ کام ان کے میڈیا منیجرز بخوبی سرانجام دینے میں ماہر ہوتے ہیں۔ چاہے وہ پندرہ بیس اخبارات ہی چھپوا کر اپنے حکمرانوں کو پیش کیوں نہ کریں، یوں بھی ایک بڑے قومی معاصر میں لکھنے والے کسی صحافی کا ایک لفظ بھی توجہ حاصل کئے بغیر نہیں رہتا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ آخر قوم کو کب تک وعدہئ فردا پر ٹرخایا جاتا رہے گا۔
اچھے دنوں کی آمد کے وعدے کے انتظار میں قوم کب تک سولی پر لٹکتی رہے گی۔ بدقسمتی ہماری یہ رہی کہ آج تک ہمہ مقتدر سمجھے جانے والے حاکم یا مطلق العنان حکمران نے بھی دودھ اور شہد کی نہریں بہانا تو درکنار نہروں کی کھدائی تک نہیں کی یہاں تک کہ اس نیک مقصد کے حصول یعنی نہروں کی کھدائی کے لئے زمین تک Locateکرنا بھی گوارا نہیں کیا جو بھی حکمران آئے اپنا تمام تر عرصہئ اقتدار اپنے سابقین کو کوستے کوستے اور انہیں تمام خرابیوں کی جڑ قرار دیتے دیتے یادش بخیر سرے سے اس دنیائے فانی سے رخصت ہو گئے اور جو بچ گئے وہ سابق صدر پرویز مشرف اور میاں محمد نواز شریف کی طرح علاج کے بہانے بیرونی ممالک کے پُرفضا مقامات پر بعد ازصبح کی سیر پُرتکلف ناشتے، دوپہر کے ظہرانے میں انواع و اقسام کے کھانے سہ پہر عصرانے کے دوران ہلکے پھلکے سنیکس اور چائے کافی اسی طرح رات کے عشائے میں پرہیزی کھانوں سے لطف اندوز ہورہے ہیں گویا قوم کی آنکھوں میں دھول جھونک کر عیاشیاں مار رہے ہیں جبکہ ملک کے بیس بائیس کروڑ حشرات الارض جنہیں عرف عام میں عوام کہا جاتا ہے مہنگائی اور افراتفری کی سامنے ایستادہ مضبوط چٹانوں بلکہ پہاڑوں سے اپنے سروں کو پٹخ رہے ہیں اور حرف شکایت زبان پر لائیں بھی تو نہ سننے والا کوئی ماضی میں تھا اور نہ ہی بدقسمتی سے ان کے آنسو پونچھنے والا آج موجود ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہم چیزوں کو ترتیب دینے کی بجائے، اتھل پتھل کو درست حالت میں لانے کی بجائے اور سانپ کے نکل جانے کے بعد ہمیشہ سے لکیر پیٹنے کے عادی رہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے کہ میاں محمد نواز شریف تو ججز کانفرنس میں خطاب کے بعد لندن میں آرام کر رہے ہیں اور یہاں حکمران طبقات ججز کانفرنس کا اختتام ایک مفرور کی تقریر سے ہونے کو ججوں اور عدلیہ کی توہین قرار دے کر دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم کوئی نتیجہ خیز اور ثمر آور کام نہیں کر پاتے بلکہ ہمارے حکمران ہمیشہ قوم کو لولی پاپ دینے میں ضرور ماہر اور مشاق ہیں۔ کیا یہ لولی پاپ سے کم بات ہے کہ منی بجٹ تو تیار ہے جب حکومت چاہے گی پیش کر دیا جائے گا لیکن اس کا اثر عام یعنی غریب آدمی پر نہیں پڑے گا لیکن 350 ارب روپے کے ٹیکسز کا بوجھ بھی عوام کی گردن پر ڈال دیا گیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ عوام کو لگائے جانے والے شاک کی پہلی قسط اکتوبر کے بجلی کے بلوں میں چار روپے چوہتر پیسے فی یونٹ اضافی طور پر وصول کرنے کا وہ فیصلہ ہے جو ہم رواں ماہ کے آغاز ہی میں سن چکے ہیں۔ ڈالر کی اونچی سے اونچی ہوتی ہوئی اڑان ہماری سٹاک مارکیٹ کو کریش کرنے میں یکسوئی سے اپنا کام کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملکی سرمایہ کاروں کے سٹاک مارکیٹ میں لگائے گئے 332 ارب روپے چشم زدن میں ڈوب گئے اور آج بھی ڈالر 180 روپے کے بالکل قریب پہنچ چکا ہے اور ہمارے روپے کی ناقدری کی حالت پوری ملکی تاریخ میں اس قدر سنگین نہیں ہوئی جس قدر موجودہ حکومت میں ہوئی ہے۔
گورنر پنجاب چودھری سرور نے اپنے دورۂ لندن کے دوران میں یہ کہہ کر قوم کے کان کھڑے کئے تو ایسا شاید حب الوطنی کے جذبے کے زیراثر ہی کیا ہو اگرچہ انہیں حکومت کی جانب سے سائیڈ لائن نہ بھی کیا گیاہو تو بھی ہم انہیں دروغ گو نہیں کہہ سکتے کہ آئی ایم ایف نے ہم سے محض چھ ارب ڈالرز کے عوض ہمارا سب کچھ لکھوا لیا ہے۔ اگر چودھری سرور لب کشائی نہ کرتے تو قوم آئی ایم ایف سے اندرکھاتے جو کچھ ہوا ہے اس سے ناآشنا ہی رہتی۔ پانچ کڑی شرائط تسلیم کرنے کا علم تو ہمیں پہلے ہی ہو گیا تھا سب کچھ لکھوالئے جانے کا بھلا ہوچودھری محمد سرور کا انہوں نے بتا دیا۔ اب ایک اور سوال پیدا ہوا ہے کہ سعودی عرب سے ملنے والے تین ارب ڈالر کے عوض ہم سے کیا کچھ لکھوا لیا گیا ہے اس کا کوئی علم پاکستانی قوم کو نہیں۔ پانچ ہزار پانچ سو پچانوے ارب روپے کی سرکاری اراضی پر سیاسی لینڈ مافیا کا قبضہ ہے جس کا علم جناب وزیراعظم کو تین ساڑھے تین سال بعد ہوا ہے اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ان نام نہاد سیاسی شرفا کے نام بھی ظاہر نہیں کئے جا سکے اور یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ ان کے زیر قبضہ سرکاری اراضی کب تک واگزار کروالی جائے گی نیز یہ کہ آئندہ ان پر دوبارہ قبضے کی جرأت کسی ناجائز قابض کو نہیں ہو سکے گی۔ یہ بھی کہ ان زمینوں پر سجادہ نشین اور گدی نشین کون کون ہیں اور کب سے قابض ہیں۔ وزیراعظم کو اپنے حق پر کھڑے ہونے کی طاقت کا بھی زُعم ہے اور وہ ہمہ دانی کے بھی مدعی آج نہیں ہمیشہ سے رہے ہیں لیکن جناب! ہسپتال بنانا یا ورلڈ کپ جیتنا اور بات ہے جبکہ لوگوں کے دلوں کو مسخر کرنا دوسری بات ہے۔ بلاشبہ وزیراعظم ایک سیاسی راہنما ہیں۔ یہ بھی تسلیم ہے کہ ہمارے ہاں کرپشن کو برائی کبھی سمجھا ہی نہیں گیا۔ یہ بھی درست ہے کہ برائی اوپر سے نیچے تک آتی ہے اور اخلاقی طور پر کوئی پست شخص ہی چوروں سے ڈیل کرتا ہے لیکن ایسے اوصاف سے متّصف کوئی سیاسی راہنما تو کہلانے کا مستحق ہو سکتا ہے قائد اور مدّبر ہونے کا اعزاز وہی شخص حاصل کر سکتا ہے جو اپنی بکھری ہوئی اور منتشر قوم کو کسی کے پنجہئ استبداد سے نجات دلاتے ہوئے ایک نیا ملک حاصل کر کے اس کے سپرد کرے۔
کیا یہ جھوٹ ہے کہ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے پہلی بار قوم کو ایک متفقہ اور تمام سیاسی جماعتوں کے لئے قابل قبول آئین دیا۔ انہوں نے ہمارے ازلی اور ابدلی دشمن بھارت کا منہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کرتے ہوئے ہمیں ایٹمی پروگرام پلیٹ میں رکھ کر پیش کیا۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں دنیائے اسلام کے عظیم ترین قائدین کو لاہور میں اکٹھا کیا اور اسلامی سربراہی کانفرنس کے انعقاد کااعزاز حاصل کیا۔ یہ ان کا اعزاز تو تھا ہی پاکستانی قوم بھی اس اعزاز کی حامل بنی۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ایک غریب ملک میں ایک بہت بڑی اسٹیل انڈسٹری جسے پاکستان سٹیل ملز کہا جاتا ہے کراچی میں قائم کی اور بیروزگاری کے خاتمے میں ایک بڑا اور نظر آنے والا مرکزی کردار ادا کیا لیکن جسے بعد میں آنے والے سیاسی بونوں نے تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ملک کے دفاع کو مضبوط سے مضبوط ترین بنانے کے لئے ہیوی ٹیکسلا انڈسٹری کے قیام کا خواب شرمندۂ تعبیر کیا۔ لیکن کیا موجودہ وزیراعظم دل پر ہاتھ رکھ کر بتا سکتے ہیں کہ آپ کے عہد میں ماسوائے کرپشن کے خاتمے کی باتیں کرنے کے (جو ختم بھی تاحال نہ ہو سکی) اور کیا ہوا۔ میں بھٹو صاحب کا ہر گز ہرگز شیدائی اور ان کا جیالا نہیں ہوں لیکن یہ امر واقعہ کا اظہار ہے جو کیا جانا ضروری تھا۔ میں تو عمران خان کا بھی مخالف یا خدانخواستہ دشمن نہیں ہوں لیکن آپ کے آنے سے قوم کو میرے سمیت ایک امید ضرور بندھی تھی جو تاحال پوری نہیں ہو سکی۔ مجبوریاں اپنی جگہ لیکن بشری کمزوریاں تو دور کی جا سکتی ہے۔ مجبوری کے پیش نظر ہی تو آپ کو اپنے وزرا کو بیرونی ممالک کے دوروں سے منع کرنا پڑا اور آئندہ کے تین ماہ اہم قرار دیتے ہوئے اپنے اپنے دفاتر میں موجود رہنے کا پابند بنانے کی نوبت آئی ہے کیونکہ آپ کے علم اور مشاہدے کے مطابق وفاقی وزرا اسلام آباد میں مارگلہ کی پہاڑیوں پر گپ شپ کرتے چائے کافی پیتے اور ہلکی واک کرتے مصروف نظر آتے ہیں۔ جناب! وزیراعظم قوم کو آج بھی آپ سے ہمدردی ہے لہٰذا اس ہمدردی کو ضائع ہونے سے بچائیے۔
(کالم نگار سیاسی‘سماجی اورمعاشرتی موضوعات پرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭