عبدالباسط خان
پاکستان میں ایک طویل عرصے کے بعد صوبائی دارالحکومت لاہور کے ایک مشہور اور مصروف بازار انارکلی میں دہشت گردی کی واردات ہوئی جس میں تین سے زائد افراد شہید اور درجنوں افراد زخمی ہوئے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق میڈیا نے اس دھماکے کو سلنڈر دھماکے سے منسوب کیا مگر بعد ازاں سکیورٹی اداروں کی مشاورت اور تصدیق کے بعد پلانٹڈ ڈیوائس کے ذریعے جس کی شدت ایک اور ڈیڑھ کلو گرام بتائی گئی اس بات کا اعلان کیا گیا۔
دھماکہ ایک بج کر چالیس منٹ پر ہوا اور پورے پاکستان میں خوف و فکر کی لہر دوڑ گئی کیونکہ گزشتہ کئی سالوں سے ٹی ٹی پی پاکستان کے خلاف غیر اعلانیہ جنگ کئے ہوئے ہے اور ہمارے سینکڑوں فوجی بھائی اور افسران بارڈر پر اس جماعت کی دہشت گردی کا شکار ہو چکے ہیں لہٰذا شہری لوگوں کے خلاف دہشت گردی اور خصوصاً پنجاب کے صوبائی دارالحکومت میں دھماکہ کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے کہ کیا ہمارے دشمن بارڈرز اورسرحدوں سے ہمارے شہری علاقوں تک پہنچ گئے ہیں۔ مقامی انتظامیہ نے عمومی طور پر دہشت گردی کے خلاف انتظامات میں دفاعی پوزیشن اختیار کی جب کہ ہمارے وزیر داخلہ شیخ رشید صاحب نے واشگاف الفاظ میں اس بات کا اعلان کردیا کہ ملک کو پھر دہشت گردی کی بھینٹ چڑھانے میں ٹی ٹی پی سمیت علیحدگی پسند گروپ ملوث ہیں۔ اس موقع پر انہوں نے خصوصی طور پر دو دن پہلے دہشت گردی کی ایک کارروائی جس میں ہمارے اسلام آباد کے ناکے پر پولیس کے جوانوں کی ہلاکت کا تفصیلی ذکر کیا اور ٹی ٹی پی کے ملوث ہونے کی تصدیق کی۔
پاکستان دہشت گردی کی تاریخ افغانستان میں روسی حملے کی بدولت شروع میں ہوئی اور ہم امریکہ اورروس کی سرد جنگ کے نتیجے میں اور ملٹری ڈکٹیٹر ضیاء الحق کی غلط پالیسی کے فیصلے سے اس خطے میں خون اور آگ کی لپیٹ میں آئے اور مذہبی انتہا پسندی نے ہمارے تمام اداروں کو متاثر کیا۔ دہشت گردی کی دو اہم وجوہات ہیں ایک داخلی یعنی اندرونی اور دوسری بیرونی ہے۔ داخلی طور پر ہم افغان وار کے بعد سیاسی سماجی معاشرتی اور اقتصادی لحاظ سے مفلوج اور متاثر ہوئے اگرچہ نیشنل ایکشن پروگرام اور مدرسوں میں اصلاحات کا تمام پارٹیوں نے اجتماعی طور پر معاہدہ کیا مگر چند جماعتوں نے مذہب کی آڑ میں ان پر کسی قسم کی اصلاحات اور فیصلے کو رد کر دیا جس سے ہم نہ صرف مذہبی شدت پسندی کا شکار ہو گئے بلکہ عمومی طور پر پاکستان کی ایک کثیر تعداد جس میں مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس شامل ہیں کئی مذہبی تنظیموں کے آلہ کار بن گئے۔ اندرونی اسباب میں ہماری اقتصادی صورتحال ایک بہت بڑی وجہ ہے۔
ناانصافیوں، غربت اور انصاف کے حصول میں ناکامی کے بعد ہمارے صوبوں میں مکمل ہم آہنگی، اتفاق اور یک جہتی کا فقدان نظر آتا ہے۔ ہمارے ناعاقبت اندیش سیاستدانوں نے ہمیشہ علاقائی سوچ کی وکالت اور ترجمانی کی جب کہ بعض صوبے جس میں بلوچستان، کے پی کے (KPK) اور سندھ میں وہ اصلاحات نافذ نہ ہو سکیں جس سے وہاں کے لوگوں کو اور بالخصوص نوجوانوں جو نہ تو روزگار مل سکا اور نہ ہی ترقی کے مواقع حاصل ہو سکے۔ این ایف سی ایوارڈ میں آبادی کے بناء پر وسائل کی تقسیم ایک ناانصافی اور تفریق کا باعث بنتی رہی ہے مگر ہم نے ہمیشہ پنجاب کو سرفہرست رکھا یہاں پر میٹرو اور گرین لائن ٹرین جیسے منصوبے شروع کئے جبکہ قائد کے شہر کو تباہ وبرباد کردیا گیا بلوچستان میں آج بھی 1947ء جیسے حالات ہیں۔ وہاں ہمارے لیڈروں نے کبھی توجہ نہیں دی جس کی بناء پر وہاں کے نوجوانوں نے بغاوت کی اور پنجاب کو اپنے وسائل بشمول سوئی گیس و دیگر ریکوڈک جیسے منصوبوں کو لوٹنے کا ذمہ دارٹھرایا۔
حال ہی میں گوادر میں ہونے والی جماعت اسلامی کے ایک لیڈر کی تحریک جس میں چین کا پاکستان کا استحصال کرنے کا ذمہ دارٹھہرایا گیا۔ اس کی ایک زندہ مثال ہے لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچستان صوبے کے عوام کو ان کے حقوق یعنی روزگار، ملازمت اور سیاسی طور پر خود مختاری دینے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ مگر وہاں پر عوامی سہولتوں اور تفریحی کاموں کا فقدان ہے اگر ہم بیرونی طور پر دیکھیں تو پاکستان دو اہم بین الاقوامی ایشوز کی بناء پر معاشی اور سیاسی طور پر غیر مستحکم ہوا۔
کشمیر کا مسئلہ 1947ء سے آج تک پاکستان اقوام متحدہ کے ہر فورم پر اٹھا چکا ہے مگر اس پر آج تک کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں ہو سکی۔ ماضی میں جنرل ضیاء الحق نے ہندوستان کے خلاف کشمیر کی آزادی کیلئے غیرعلانیہ جنگ کی جس کا ہندوستان کی قیادت کو سخت غصہ اور عناد تھا۔ اس مسئلے کی وجہ سے 1965ء کی جنگ اور 1971ء کا المیہ، کارگل وار اوردیگر فوجی مہم جوئی سے دونوں ملکوں کے درمیان دشمنی اور عداوت کو بہت فروغ ملا لیکن ہندوستان نے پاکستان کی کشمیر پر سیاست کو بلوچستان میں مداخلت اور بیرونی طورپر دہشت گردی اسٹیٹ اور ایف اے ٹی ایف جیسے اہم مسائل سے دوچار کیا۔ دنیا کی بڑی معیشت کے حوالے سے سعودی عرب جیسا ملک بھی ہندوستان کی حمایت کرتا نظر آتا رہا۔ واقعات بتاتے ہیں کہ افغانستان میں کوئی بھی حکومت بشمول طالبان ڈیورنڈ لائن کے مسئلے پر ہمیشہ پاکستان کی مخالف رہی ہے۔
طالبان کی حکومت کے آنے کے بعد بھی آج ہماری جنوبی سرحد محفوظ نہیں ہے تو گویا مشرقی اور مغربی سرحدوں پر خطرات اوروہاں سے دہشت گردی ہماری خارجہ پالیسی اور معیشت کو مفلوج اور تباہ کر رہی ہے اس لحاظ سے موجودہ حکومت نیشنل سکیورٹی پالیسی ڈاکٹرائن ایک بہت مثبت اور راست قدم ہے جس میں ہندوستان سے سو سالہ نووار پیکٹ اور ایران افغانستان، ہندوستان اور چین سے ازسرنو تعلقات کو استوار کرنا ایک ترجیح ہے امریکہ کوہم نے ریسٹ آف ورلڈ میں شامل کی ہے۔ ہندوستان نے تاہم اس سلسلے میں مثبت جواب نہیں دیا مگر اگر جنرل باجووہ اس سلسلے میں حکومت پاکستان کی پیشکش کو دہرا دیں تو شاید ہندوستان کے لئے اس پیشکش کو ٹھکرانا مشکل ہو جائے گا۔
(کالم نگارمختلف موضوعات پرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭