افضل عاجز
سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے خالد بھائی کو گھر میں خصوصی اہمیت حاصل تھی۔اماں جہاں بھی جاتیں خالد بھائی ان کے پلو سے بندھا رہتا۔سو ہمارے مقابلے میں ٹانگری اور پتا شوں سے اس کا منہ اور جیب بھرا رہتا ہم بھی کبھی منت سماجت اور کبھی دھونس دھاندلی سے کچھ نہ کچھ جھپٹ لیتے ابا شام کو باقاعدگی سے ولایت کی برفی لاتے جس میں ہمارا حصہ تو ہوتا مگر حق ملکیت خالد کے پاس ہوتا کبھی تو مسکراتے ہوئے دے دیتا اور کبھی رلا رلا کے۔
اماں کی بڑی خواہش تھی کہ خالد کی شادی دنیا دیکھے خالد اپنی شادی کے نام پر شرم سے انگارے کی طرح سرخ ہو جاتااور مجھے کہتا لالہ ایک بات یاد رکھنا میں اپنی بیوی کو سائیکل پر اپنے ساتھ بٹھا کے گھر تک نہیں لے جاؤنگا۔ سائیکل پر بیوی بٹھا کے لے جانے کا قصہ بہت دلچسپ تھا جب میری شادی ہوئی تو ہماری منت سماجت کے باوجود بس والے بس ٹیلوں میں سے گزار کر لے جانے پر رضا مند نہ ہوئے پریشانی کے اس عالم میں ابا کو کچھ اور نہ سوجھی تو انہوں نے قریب سے محلے کے ایک نوجوان کو سائیکل سے گزرتے ہوئے دیکھا تو اس سے سائیکل پکڑ کر میرے ہاتھ میں پکڑاتے ہوئے کہا یہ پکڑو سائیکل اور اپنی بیوی کو گھر لے جاؤ مگر ہمارے آنے سے پہلے گھر کے اندر داخل نہیں ہونا کیونکہ گھر میں داخلے سے پہلے کچھ رسمیں ادا کرنی ہیں سو ہم بیگم کو لے کر گھر کے دروازے پر بیٹھے رہے جب باقی بارات پہنچی تو ہم بیگم سمیت گھر میں داخل ہوئے سو ہمارے اس عمل کے چرچے بہت عرصے تک خاندان میں ہر زبان پہ رہے خالد بھائی کا اشارہ اسی طرف تھا۔
سو ہم نے اماں اور خالد بھائی کی خواہش کو پورا کرنے کی کوشش کی خالد کی شادی ہوئی اور پورے پندرہ دن تک شادیانے یوں بجائے گئے کہ ہر رات میوزیکل نائٹ قرار پائی دور نزدیک کے ہر ایک دوست نے ایک ایک رات کیلئے محفل سجائی اور خوب سجائی آخری رات ہمارے عطا اللہ عیسیٰ خیلوی نے فن کا جادو جگایا اور ایسا جگایا کہ پورے پنجاب سے لوگ پنڈال میں نظر آئے ایک عرصے تک خالد بھائی کی شادی کے چرچے ہوتے رہے ابھی یہ گونج دھیمی نہیں ہوئی تھی کہ شادی کے دوسرے سال ایکسیڈنٹ میں دنیا چھوڑ کے چل دیئے مگر ایک بیٹی اور بیٹا نشانی چھوڑ گئے۔
ناصر بھائی کی شادی بھی میں نے اپنے ہاتھوں سے کی محدود وسائل کے باوجود تمام تر معاملات کو انجام تک پہنچایا۔ناصر بھی مجھ سے چھوٹے اور خالد سے بڑے تھے مزاج کے تھوڑے تیز لڑکپن میں ایک بار میری وجہ سے ایک لڑکے کی کمر کو بلیڈ سے لہو لہان کر دیا ہوا یوں کہ ہم چند لڑکے کبڈی کھیل رہے تھے اور روایتی کھیل میں دونوں کھلاڑی ایک دوسرے کو طمانچے مارتے ہیں اتفاق سے ناصر بھائی میدان میں آئے تو ایک کھلاڑی ہم پہ طمانچوں کی بارش کیے ہوے تھا ناصر بھائی نے مجھے پٹتے دیکھا تو جھٹ سے بلیڈ نکالا اور اور اس لڑکے کی کمر کو لہو لہان کر دیا اچھا خاصا ہنگامہ کھڑا ہوگیا دشمنی کا نتیجہ نہ جانے کیا نکلتا محلے کے بزرگوں نے بچے ہیں اور غلط فہمی کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا کہ کہہ کے معاملہ نپٹا دیا۔
ناصر بھائی پورے خاندان کیلئے ایک نعمت سے کم نہیں تھے دکھ سکھ میں پہلی صف میں کھڑے نظر آتے خاندان کے بچوں کی تو اس میں جان تھی دس دس کے نوٹ ہر وقت ان کی جیب میں پھڑکتے رہتے اور بچے ہر دس منٹ بعد ان کی طرف لپکتے رہتے میرا بہت احترام کرتے کوئی بھی خاندانی فیصلہ میرے مشورے تک اٹکا رہتا عمومی طور پر وہ اس فیصلے پر جمے رہتے جو انہوں نے کر رکھا ہوتا تھا میں اگر اس فیصلے کو تسلیم نہ کرتا تو اس کے اندر سے ایک وکیل برآمد ہوتا جو جب محسوس کرتا کہ دلائل کام نہیں دکھا رہے تو پھر ہماری بیگم کے ذریعے اپنی بات منوانے کی کوشش کرتا جو ہم کبھی مان لیتے اور کبھی نہیں بھی مانتے تھے۔کوئی سات سال پہلے ان کے دل کے معاملات گڑ بڑ ہوتے تو میں انہیں لاہور لے آیا دوتین ماہ کے علاج کے بعد ان کی طبیعت سنبھل گئی تو ہم نے ان کے ہر طرح کے کام پر پابندی لگا دی اور ان کے کھانے پینے کے معاملات پر بھی گرفت بڑھا دی مگر جب وہ گاوں یعنی کندیاں چلے جاتے تو تو پھر انہیں روکنے والا کوئی پیدا ہی نہیں ہوا تھا۔
ادھر لاہور میں رہتے ہوئے ان کا دم گھٹتا تھا اور ہر وقت کی نگرانی سے خاصے تنگ رہتے مگر جب آجاتے تو پھر میرے نواسے نواسیاں ایک دو مہینے تک ان کو واپس گاؤں کم ہی جانے دیتے تھے اور عموماً سالگِرہ کے نام پراسے روکے رکھتے تھے بچوں کی سالگِرہ منانے کیلئے وہ ہر وقت تیار رہتے جیب سے پیسے نکالتے اور دیکھتے ہی دیکھتے گھر میں جھنڈیاں کیک اور باربی کیو کا انتظام ہو جاتا اور وہ اس موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تمام تر پرہیز اور پابندیاں ہوا میں اڑا دیتے طبیعت خراب ہوتی تو پھرکہتے دراصل بچوں کے کہنے پر انہوں نے بد پرہیزی کی ہے حالانکہ سگریٹ پر سخت پابندی کے باوجود وہ بہانے سے نکلتے اور گلی میں کھڑے ہو کے سگریٹ نوش فرماتے مگر ہماری بیگم کے چھاپہ مارنے پر سخت شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے بھائی کو نہ بتانا کی درخواست کرتے۔
دو بڑے بیٹے بیاہ چکے تھے اب چھوٹے بیٹے اور بیٹی کے بیاہ کیلئے بہت متحرک تھے بیٹی کیلئے ایک رشتہ پسند آیا تومجھے میانوالی آنے کو کہا ہم پہنچے تو مشورہ دیا یہاں رشتہ مناسب رہے گا رشتہ داری بھی ہے اور لوگ بھی اچھے ہیں بہت خوش تھے دو دن پہلے بچی کے سسرال گئے اور اگلے ہفتے منگنی کے انتظامات میں مصروف تھے بظاہر طبیعت میں کوئی پریشانی نہیں تھی قریب کی دکان سے کچھ سودا سلف خریدنے گئے مسکراتے ہوئے گھر داخل ہوئے چارپائی پر بیٹھے اوردوبارہ نہ اٹھے۔ان کی وفات کے بعد دل بہت بوجھل ہے وہ صحیح معنوں میں پورے خاندان کیلئے ایک برکت تھے مجھے کسی بھی طرح کے کسی خاندانی معاملے میں کوئی فکر نہیں تھی وہی سب کو جوڑے رکھتا اب احساس ہوا ہے کہ
بھائیاں باج محمد بخشا کون کرے دلجوئی……
(کالم نگارمعروف شاعر اورادیب ہیں)
٭……٭……٭