اسلام آباد(ویب ڈیسک) سپریم کورٹ نے پاناما کیس میں وزیراعظم نواز شریف کی تقاریر اور عدالتی موقف میں تضاد پر وضاحت طلب کر لی۔سپریم کورٹ میں پاناما لیکس کیس کی سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بنچ نے کی۔ اس موقع پر وزیراعظم نواز شریف کے وکیل مخدوم علی خان نے بینک ٹرانزیکشن کے حوالے سے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ تمام ٹرانزیکشن بینک کے ذریعے ہوئیں اور بچوں کو تمام تحائف بینک کے ذریعے دیئے گئے جبکہ ٹیکس بینک کے علاوہ ادائیگیوں پر لاگو ہوتا ہے۔ مخدوم علی خان نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ حسین نواز ٹیکس دیتے ہیں اور ان کا نیشنل ٹیکس نمبر بھی موجود ہے اور اس حوالے سے ان پر لگائے گئے تمام الزامات جھوٹ پر مبنی ہیں۔ مریم نواز والد کے زیر کفالت نہیں ہیں جبکہ وزیراعظم نے مریم نواز کو تحائف بینکوں کے ذریعے دیئے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ کے موکل پر الزام ہے انہوں نے رقوم غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک بھیجیں، رقوم کی منتقلی کے حوالے سے آپ کو تفصیلات دینا ہوں گی۔ جس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ کسی تیکنیکی نکتے کے پیچھے چھپنے کی کوشش نہیں کروں گا، درخواست گزار نے ویلتھ ٹیکس چوری کا الزام عائد کیا لیکن تحقیقات کی عدم موجودگی میں آرٹیکل 184 کے تحت سماعت نہیں ہو سکتی جبکہ منی لانڈرنگ تحقیقات میں نامزد ملزمان کو شامل نہیں کیا گیا۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ اس معاملے کی پہلے بھی تحقیقات ہو چکی ہیں اور تحقیقات میں بعض افراد کے نام بھی سامنے آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلیک منی کو وائٹ کرنے کے لیے منی لانڈرنگ کی جاتی ہے، منی لانڈرنگ کر کے وہی رقم واپس پاکستان بھجوائی جاتی ہے، بلیک منی کو وائٹ کرنے والی بات نواز شریف کے حوالے سے نہیں کی بلکہ رحمان ملک کی رپورٹ میں حوالہ اور ہنڈی سے رقم باہر بھیجنے کا ذکر ہے۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ منی لانڈرنگ بیرون ملک بھی ہو تو حکام یہاں رابطہ کرتے ہیں، درخواست گزار نے خود تحقیقات کا مطالبہ کیا لیکن تحقیقات سے قبل آرٹیکل 63 کے تحت نااہلی کیسے ہو سکتی ہے؟