لاہور (نیوز چینل ۵) چینل فائیو کے تجزیوں وتبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میںگفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی وتجزیہ کار ضیا شاہد نے اعلان کیا ہے کہ ملک کے جس شہر میں بھی جہاں ہمارا دفتر ہے۔ اگر وہاں فریقین لڑکا اور لڑکی سادہ تقریب میں شادی کرینگے ہماری طرف سے شمولیت ہو گی ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرینگے۔ شادی کے مناظر ٹی وی پر ہیروز کی طرح دکھائیں گے وہ اخبارات میں تصاویر بھی شائع کرینگے۔ جہیز کے تلخ تجربات پر پہلے بھی پروگرام کر چکا ہوں۔ فاٹا میں جو قانون بنے گا وہ تو ابھی بننا ہے لیکن جہیز کے حوالے سے جو قوانین موجود ہیں ان پر عملدرآمد نہ ہونے پر گہرا رنج ہے جہیز کمیٹیاں بجائے اس برائی کا خاتمہ کرنے کے ایک دوسرے سے چندہ اکٹھا کرنا شروع کر دیتی ہیں۔ جہیز پر پابندی کے باوجود لڑکی والے شادی سے 1۔ 2 روز قبل جہیز کا سامان لڑکے کے گھر پہنچا دیتے ہیں تمام نوجوان لڑکے اور لڑکیوں سے التجا ہے کہ وہ عہد کریں کہ جہیز نہ لینے اور دینے پر والدین کو مجبور کریں۔ اسلام آباد، کراچی، لاہور اور ملتان میں اپنے دفاتر کے عملے کو ہدایت کی ہے کہ وہ مذاکرات کروائیں جیسا بھی اچھا یا برا جہیز ایکٹ موجود ہے اس پر عملدرآمد کیوں نہیں ہوتا۔ آخر اس لولے، لنگڑے قوانین پر عمل کیسے کروایا جا سکتا ہے۔ سننے اور پڑھنے والوں سے ہاتھ جوڑ کر درخواست ہے کہ شادی کیلئے سادہ تقاریب کو رجحان دیں۔ امریکہ، برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں امیر ترین لوگ گرجا گھروں میں جا کر انتہائی سادگی سے شادی کی تقریب منعقد کرتے ہیں تو پھر ہمارے ملک میں کیوں نہیں؟ یہاں عام آدمی شادی ہال کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتا اور جو کر سکتے ہیں ان کو بھی چاہیے کہ اچھے اچھے کھانوں اور ملبوسات پر لاکھوں خرچ کرنے کے بجائے وہی پیسہ کہیں اور لگائیں۔ چینلز مالکان سے درخواست ہے کہ وہ صبح کے پروگراموں میں ایسی چیزوں کو بڑھا چڑھا کر پیش نہ کریں جس سے عام آدمی کی احساس محرومی میں اضافہ ہو۔ طاہر القادری، عمران خان، آصف زرداری، شریف برادران، بلاول بھٹو زرداری سے اپیل ہے کہ اعلان کر دیں کہ وہ صرف اس شادی کا خیرمقدم کرینگے جو سادگی سے صرف ایک مشروب کے گلاس پر ہو۔ دوسری کسی شادی میں شرکت نہیں کرینگے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں سستے ملبوستات کو برانڈ کا نام دے کر مہنگے داموں فروخت کیا جاتا ہے کیا تعزیرات پاکستان میں اس کے خلاف کوئی قانون نہیں؟ جو لڑکیاں برانڈز سوٹ نہیں پہن سکتیں اس سے ان کے اور والدین کے دلوں پر جو گزرتی ہے کسی کو اندازہ نہیں ہوتا۔ ایسی محرومیوں کے باعث اب تک نہ جانے کتنے لوگ دلبرداشتہ ہو کر مر چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میرے ایک جان پہچانے والے شخص نے مجھ سے ایک بار کہا کہ وہ ایک بیٹی کی شادی کرنے کے قابل نہیں انکی 5 بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ میں نے ان کو حوصلہ دیا کہ دنیا میں اچھے لوگ بھی موجود ہیں کسی ایسے نوجوان لڑکے کو تلاش کر لیں گے جو سادگی سے شادی کرنے کو تیار ہو۔ انہوں نے جواب میں کہا کہ میں نے بڑی بیٹی سے کہا ہے کہ اگر تم کسی کے ساتھ بھاگ سکتی ہو تو بھاگ جاﺅ۔ ذلت ورسوائی ہو گی لیکن 4 دن چہرہ چھپا کر برداشت کر لیں گے تیرا گھر تو آباد ہو جائے گا میں اسکی استطاعت نہیں رکھتا۔ ضیا شاہد نے کہا کہ جب صرف سرکاری ٹی وی ہوتا تھا تو اس میں نامور، معروف، مصنف وادیب اشفاق احمد کا ایک ڈرامہ چلتا تھا ”استانی راحت کی کہانی فہمیدہ کی زبانی“ جسکا تھیم یہ تھا کہ ایک بہت بڑی کوٹھی میں مالدار لوگ رہتے تھے جسکے سرونٹ کوارٹر میں ایک بیوہ خاتون ایک نوجوان بیٹی کے ساتھ رہتی تھی۔ بیوہ خاتون سکول میں پڑھاتی تھی جبکہ اسکی بیٹی گھر کے کام کاج کرتی تھی۔ گھر والے اسکی بیٹی کو لے کر اپنی بیٹی کے جہیز کی خریداری کیلئے جایا کرتے تھے جب اس غریب لڑکی نے دیکھا کہ کتنی مہنگی مہنگی چیزیں خریدی جا رہی ہیں تو وہ دلبرداشتہ ہو گئی اور دل کا دورہ پڑنے سے مر گئی۔ آخری سین میں بیوہ خاتون قانون کی کتاب لیے ایک وکیل کے پاس بیٹھی بار بار یہ کہہ رہی تھی کہ یہ قتل ہے اس کی کوئی تو دفہ ہو گی مگر وکیل کہتا تھا کہ نہیں اس کی کوئی دفہ نہیں ہے بہت سے لوگوں نے یہ ڈرامہ دیکھا بھی ہو گا۔ مقصد یہ ہے کہ عام آدمی کی طرف کون توجہ دے گا۔ جہیز جیسی برائی کو مکمل طور پر ختم کرنا چاہیے اس کے قوانین پر عملدرآمد ہونا چاہیے۔ تاکہ عام آدمی کو ریلیف ملے اور وہ احساس محرومی کا شکار بھی نہ ہو۔