تازہ تر ین

”اسلام آباد ہائی کورٹ کا سوشل میڈیا کیخلاف ایکشن انوشہ رحمن ضروری قوانین بنوائیں“ نامور تجزیہ کار ضیا شاہد کی چینل ۵ کے مقبول پروگرام میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کو سوشل میڈیاپر گستاخانہ مواد کے معاملے پر نوٹس لینے پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ آئی ٹی کی وزیر انوشہ رحمان، وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم نواز اور وزارت مذہبی امور سے درخواست ہے کہ ایسے معاملات کو صرف عدالت پر نہ چھوڑیں بلکہ خود بھی ایکشن لیں اور اس پر قابو پانے کا حل تلاش کریں۔ اداکارہ میرا ویڈیو کیس کا اتنے سال گزرنے کے باوجود تاحال کوئی فیصلہ نہیں ہوا، یہ کیسا عدالتی نظام ہے؟ جب بھارتی فلموں اور چینلز پر پابندی تھی اس وقت بھی شوشل میڈیا پر بھارتی فلمیں دیکھی جا سکتی تھیں۔ اس کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے کوئی پائیدار حل نکالنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے خواتین کے حقوق کے لئے موجود قوانین پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ تمام سیاسی جماعتوں کے امیدوار آپس میں فیصلہ کر لیتے ہیں کہ کسی سیٹ پر خاتون امیدوار کو ووٹ دیں گے اور کس پر نہیں دیں گے۔ ملک بھر میں ملتان میں صرف ایک سنٹر موجود ہے جہاں اگر کوئی شوہر اپنی بیوی کو گھر سے نکال دے تو بچوں کے ساتھ وہاں جا کر رہ سکتی ہے، اس کا مکمل خیال رکھا جائے گا۔ پشاور کے ایک کالج کی پرنسپل نے مجھے فون کر کے کہا کہ آپ خواتین کے عالمی دن کے موقع پر خواتین پر تشدد کے حوالے سے بھی بات کریں۔ اس نے کہا کہ میں کالج کی پرنسپل ہوں، میرا خاوند ایک اعلیٰ سرکاری افسر ہے لیکن ہفتے میں 3,2 بار وہ میری پٹائی کرتا ہے۔ بعض لوگوں نے فون کر کے اس پر بھی بات کرنے کو کہا کہ بچی کی شادی ہو جاتی ہے، بچے بھی ہو جاتے ہیں مگر پھر بھی شوہر پر جب کوئی برا وقت آتا ہے تو وہ بیوی کو میچے بھیج دیتا ہے کہ میرا کاروبار ٹھپ ہو گیا ہے۔ لہٰذا پیسے لے کر آﺅ۔ کوئی مدد دوسری، تیسری شادی کر لیتا ہے تو پہلی بیوی سے اجازت لینے کے بجائے اسے دھمکاتا ہے کہ اگر کسی سے بات کی تو طلاق دے د وں گا۔ ہر تیسرے گھر میں خواتین کو زدو کوب کیا جاتا ہے، مارا پیٹا جاتا ہے اور وہ بیچاری ظلم سہتتی رہتی ہے۔ خواتین کے حقوق کے لئے کسی قانون پر عمل نہیں ہوتا۔ چند روز قبل ایک دفتر میں ایک مرد نے سارے سٹاف کے سامنے اپنی ایک کلیگ کو مارا، اس کا گلا دبانے کی کوشش کی، جس کی سزا یہ ملی کہ اسے صرف نوکری سے نکال دیا گیا۔ میں نے اس مظلوم لڑکی کو صوبائی محتسب کے پاس جانے کا مشورہ دیا تو اس نے مزید بدنامی کے ڈر سے جانے سے انکار کر دیا۔ میں نے اسے خود کہا کہ ایسے ظالم شخص کو اس طرح نہ چھوڑیں لیکن جب کوئی قانون ہی اس کا تحفظ نہیں کرے گا تو ظاہر ہے وہ بدنامی کے ڈر سے کوئی کارروائی نہیں کرانا چاہے گی۔ انہوں نے کہا کہ طیبہ تشدد کیس میں اس کے والد نے دباﺅ میں آ کر یا پیسے لے کر معاف کر دیا ہے، جس پر عدالت ٹھیک کہتی ہے کہ کارروائی آگے کیسے بڑھائیں لیکن ہیومن رائٹس کیا کر رہی ہے، ایسے ظالم لوگوں کے محلے دار کیوں نہیں ان کے خلاف کھڑے ہو جائے، ان کا بائیکاٹ کر دینا چاہئے۔ اگر سوسائٹی ایسے اقدامات نہیں اٹھائے گی تو پھر اس جرم میں ہم برابر کے شریک ہیں۔ نمازیں پڑھ کر ماتھے پر مہراب بنانے سے کچھ نہیں ہو گا اگر ہم محلے داروں کے دکھ، درد میں شریک نہیں ہوتے۔ ہمارا دین ہمیں رات کو سونے سے پہلے ہمسائیوں، پڑوسیوں کی خبر لینے کا درس دیتا ہے۔ محلے کے مولوی اس لئے کسی ظالم و بدمعاش کی نشاندہی نہیں کرتے کیونکہ وہ خود چندہ خور ہوتے ہیں۔ پیشہ ور مولوی خیرات پر پلنے والی ایک مخلوق ہے۔ اسلام میں اذان دینے، نماز یا نماز جنازہ پڑھانے سمیت کسی بھی دینی کام کے پیسے لینے کی اجازت نہیں۔ اسلام دین کو بیچنے کی اجازت نہیں دیتا۔ پورا دن حقوق اللہ اور حقوق العباد پر مشتمل ہے۔ یہاں کے قانون سے تو کسی نہ کسی طرح بچ جائیں گے لیکن ایک دن پروردگار کو بھی منہ دکھانا ہے۔ افغانستان حملہ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے تجزیہ کار نے کہا کہ حدیث ہے کہ جس کے ہاتھ سے کسی مسلمان کی جان، مال، عزت محفوظ نہیں وہ ہم میں سے نہیں۔ دین کے نام پر کسی کی گردن نہیں کاٹ سکتے۔ جماعت اسلامی کے سابق امیر منور حسن نے ایک بار کہا تھا کہ ”طالبان اور ہماری منزل ایک ہے، صرف راستے جدا جدا ہیں“ ان کے اس بیان کو ان کی دینی جماعت کی اکثریت نے ناپسندیدہ سمجھا تھا اور اس وجہ سے وہ دوسری بار امیر منتخب نہیں ہو سکے تھے۔ انہوں نے کہا کہ خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹ کے مطابق 1300 میں سے 200 سے زائد دینی مدارس کے خلاف ثبوت موجود ہیں، حساس اداروں کے پاس ان کی ٹیپ موجود ہے۔ اللہ کا دین پھیلانے والوں کو سلام کرتا ہوں لیکن وفاق المدارس کے سربراہ حنیف جالندھری سے درخواست ہے کہ جو دینی ادارے غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے ہیں ان کے خلاف تو ایکشن لیں۔ اسلام کے نام پر کسی کو قتل کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain