واشنگٹن(ویب ڈیسک) امریکی صدر کی جانب سے برطانوی خفیہ ایجنسی پر ان کی جاسوسی کے الزامات کے بعد لندن کے شدید احتجاج پر وائٹ ہاﺅس نے برطانوی حکومت سے معذرت کرلی۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکی حکام کا کہنا تھا کہ امریکی قومی سلامتی کے مشیر ایچ آر میک ماسٹر اپنے برطانوی ہم منصب سے بات چیت میں اس تنازع پر امریکی پوزیشن واضح کرچکے ہیں۔حکام کا مزید کہنا تھا کہ وائٹ ہاﺅ س کے پریس سیکریٹری شون اسپائسر بھی واشنگٹن میں موجود برطانوی سفیر کم ڈیروچ سے رابطے میں معاملے پر وضاحت پیش کرچکے ہیں۔ٹرمپ انتظامیہ کے ایک سینئر عہدیدار کے مطابق، ‘میک ماسٹر اور شون اسپائسر برطانوی حکومت سے معذرت کرچکے ہیں۔دوسری جانب لندن میں برطانوی وزیراعظم تھریسا مے کے ترجمان کا صحافیوں سے گفتگو میں کہنا تھا کہ انہیں وائٹ ہاﺅ س سے اس بات کی یقین دہانی کرائی جاچکی ہے کہ ان الزامات کو دہرایا نہیں جائے گا۔اس سوال کے جواب میں کہ کیا وائٹ ہاﺅ س نے معاملے پر باقاعدہ معذرت طلب کی ہے، ترجمان کا کہنا تھا کہ اس معاملے کو ختم کیا جائے، ہمیں یقین دہانی کرائی جاچکی ہے کہ آئندہ ان الزامات کو نہیں دہرایا جائے گا۔خیال رہے کہ اس تنازع کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب 4 مارچ کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ٹوئیٹر پیغامات میں سابق صدر براک اوباما پر اپنی ٹیلی فون کالز اور انٹرنیٹ پیغامات کی جاسوسی کا الزام عائد کیا تھا۔ٹرمپ کا کہنا تھا کہ سابق امریکی صدر نے 2016 میں امریکی صدارتی مہم کے دوران ٹرمپ ٹاور، نیو یارک میں ان کی جاسوسی کروائی۔بعد ازاں اس تنازع میں برطانیہ کی شمولیت اس وقت ہوئی جب وائٹ ہاس کے پریس سیکریٹری شون اسپائسر نے فوکس نیوز کی ایک رپورٹ ہاس میں پڑھ کر سنائی جس میں دعوی کیا گیا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جاسوسی میں برطانوی خفیہ ایجنسی نے براک اوباما کی مدد کی۔اس رپورٹ میں ایک سابق امریکی جج اور قانونی تجزیہ کار اینڈیو نیپولیٹانو کا تبصرہ بھی شامل تھا، جن کا کہنا تھا کہ ‘تین خفیہ ذرائع سے فوکس نیوز کو حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق براک اوباما نے جاسوسی کے لیے قومی سلامتی کے مشیر کا استعمال نہیں کیا نہ ہی سی آئی اے کی مدد لی اور نہ ہی ایف بی آئی یا محکمہ انصاف کی، براک اوباما نے جی سی ایچ کیو کا استعمال کیا۔خیال رہے کہ گورنمنٹ کمیونیکشن ہیڈ کوارٹرز (جی سی ایچ کیو) برطانوی ادارہ ہے جو لندن کے لیے دنیا بھر میں برقی نگرانی کا کام سرانجام دیتا ہے۔جس کے بعد برطانوی حکومت کا فوری ردعمل سامنے آیا اور انہوں نے ٹرمپ انتظامیہ سے اس الزام کو فوری واپس لینے کا مطالبہ کیا۔برطانوی وزیراعظم تھریسا مے نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا تھا کہ ہم امریکی انتظامیہ کو واضح کرچکے ہیں کہ جاسوسی کے یہ یہ دعوے مضحکہ خیز ہیں’۔اس حوالے سے جی سی ایچ کیو کا سخت ردعمل سامنے آیا جس میں شون اسپائسر کے دعوے کو ‘بے معنی’ قرار دیا گیا۔دوسری جانب وائٹ ہاس کی جانب سے وضاحت سامنے آنے کے بعد برطانوی حکومت کے ترجمان کا میڈیا سے گفتگو میں کہنا تھا کہ ‘امریکی وضاحت ثابت کرتی ہے کہ وہ ان الزامات کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔