وطن عزیزترمیں الیکشن نہیں الیکشن سے پہلے کسی ایک پارٹی کے حق میں بننے یا بنائی جانے والی ہوا اہم ہوتی ہے۔کاغذات نامزدگی کا مرحلہ مکمل ہونے کو آگیا ہے لیکن ابھی تک الیکشن کی ہوا نہیں بن پائی ۔ مسلم لیگ ن کو امید تھی کہ نوازشریف واپس آئیں گے تو یہ ہوائیں آندھی اورطوفان میں تبدیل ہوکر فوری اس کی حمایت میں چل پڑیں گی اورپھر جیت ان کی ہوجائے گی لیکن وہ ہوا جو نوازشریف کی آمد پر چلی تھی وہ بھی رک چکی ہے ۔نوازشریف ٹکٹوں کی تقسیم کے لیے پارٹی کے بورڈکے اجلاسوں میں مصروف ہوگئے تو آصف علی زرداری نے مفاہمتی چراغ رگڑنا شروع کردیا۔یوں لگ رہا ہے کہ ایک ماہ پہلے جو جیت کا نقشہ ن لیگ کی ٹیبل پر رکھا گیا تھا اس میں کافی تبدیلیاں آچکی ہیں۔ایک ماہ پہلے تک سامنے آنے والی تصویر کافی دلکش تھی جس میں نوازشریف پورے ملک کے مقبول اور قابل قبول لیڈرکے طورپردکھائی دے رہے تھے لیکن ن لیگ میں ٹکٹوں کی تقسیم پرجو مسائل سامنے آئے ان مسائل نے ن لیگ کی باقی پارٹیوں کے ساتھ ایڈجسٹمنٹس کوبریک لگوادی ہے۔
گزشتہ دو ہفتوں میں چند ایسے واقعات ہوئے ہیں جن کو دیکھ کر محسوس ہورہا ہے کہ الیکشن کے بعد ن لیگ کی سادہ اکثریت کی خواہش ،خواہش ہی رہ جائے گی ۔ان کے ساتھ باقی پلیئرزکو بھی ان کے دائیں بائیں بٹھادیا جائے گا اور نوازشریف کے پاس ان کو جگہ دینے کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہے گا۔فی الحال پی ٹی آئی سے بلے کانشان واپس لینے کا جو فیصلہ سامنے آیا ہے اس کا فیصلہ بھی سپریم کورٹ نے ہی کرنا ہے اوربہت ممکن ہے کہ سپریم کورٹ کا وہی فیصلہ ہوجو سائفر اورلیول پلینگ کاآیا ہے۔ایسے میں ن لیگ کی مشکلات کم نہیں ہوں گی۔بلوچستا ن میں جو آغاز نوازشریف اور ن لیگ نے کیا تھا وہ ہوا بھی آگے نہیں بڑھ سکی ۔باپ پارٹی کے وہ اہم ارکان جن کے بارے میں کہاجاچکا تھا کہ وہ سب کے سب شیر کی سواری کریں گے اورالیکشن جیت کر بلوچستان میں نوازلیگ حکومت بنائے گی یا اتحادمیں اس کو مرکزی حیثیت حاصل ہوگی اس سلسلے کوبظاہر نہ صرف بریک لگ چکی ہے بلکہ بلوچستان میں زرداری کے نام کے چراغ جلنا شروع ہوگئے ہیں۔عبدالقدوس بزنجو کا ن لیگ کی طرف نہ آنا تو سب کو سمجھ آسکتا ہے لیکن نگران وزیرداخلہ سرفرازبگٹی کا پیپلزپارٹی میں شامل ہوجانا نوازشریف کے سوچنے کا مقام ضروربنتا ہے۔سرفرازبگٹی اور ان جیسوں کے الیکشن لڑنے پر قانونی سوال بہت اہم اور سخت ہے کہ پاکستان کے آئین میں واضح درج ہے کہ نگران حکومت میں وزیربننے والا خود تو بہت دورکی بات اس کے قریبی رشتہ داربھی الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے لیکن سرفراز بگٹی سمیت بلوچستان نگران کابینہ میں شامل کئی لوگ الیکشن شیڈول آنے کے ساتھ ہی مستعفی ہوکر انتخابی میدان میں کود کر پاکستان کے آئین اور قانون کا مذاق اڑانے کے لیے تیار ہیں۔پتہ نہیں سائفر کیس کا فیصلہ ٹرائل کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ سے بھی پہلے سنانے والی سپریم کورٹ کو اس قانون کا علم ہوگا یا نہیں کہ اس ملک کا نگران وزیرداخلہ بلوچستان کے ایک صوبائی حلقے سے الیکشن لڑرہا ہے اور الیکشن سے پہلے ہی اس کو بلوچستان کے وزیراعلیٰ کے طورپر دیکھا جارہا ہے۔پتہ نہیں مائی لارڈ اطہرمن اللہ کی قانونی نظر میں سرفرازبگٹی بھی معصوم ہیں یا کسی آئینی اورقانونی دائرے میں آتے ہیں ۔اطہر من اللہ صاحب نے حیران کن طوپرایک معمولی ضمانت کے کیس میں اتنا وقت نکالا کہ مرکزی فیصلے سے بھی طویل ایک اضافی نوٹ ایک گھنٹے میں ہی لکھ مارا۔حالانکہ اسی پریم کورٹ میں پچاس ہزار مقدمات فائلوں کی دھول تلے دبے پڑے ہیں اور کتنے ہی ایسے مقدمات ہیں جن کے مختصر فیصلے آئے عرصہ گزرچکا لیکن مائی لارڈزکے پاس تفصیلی فیصلے لکھنے کا وقت نہیں ۔
میں نے جسٹس اطہر صاحب کا فیصلے کے ساتھ اضافی نوٹ دیکھا تو مجھے دوہزاراٹھارہ یاد آگیا ۔ جب مائی لارڈ جسٹس صاحب اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج تھے ۔ ان کے سامنے نوازشریف اور مریم نوازکی سزا معطلی کا کیس تھا ۔مدعیوں نے درخواست کی کہ مائی لارڈ عید آرہی ہے آپ کیس کا فیصلہ پہلے سنادیں گے تو مجرموں کی رہائی ہوجائے گی اور وہ عید گھر پر گزارلیں گے لیکن معزز بینچ نے وہ کیس عید کے بعد تک ملتوی کیااورعید کے بیس دن بعد سزامعطلی کا فیصلہ سنایاتھا۔ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں تاریخ کے دامن میں جگہ بنالیتی ہیں۔خیر یہ آج کا موضوع نہیں ہے لیکن کسی نگران وزیرکا مستعفی ہوکر الیکشن میں حصہ لینا آج کا موضوع ضرور ہے اورمجھے یقین ہے کہ میری سپریم کورٹ قانون اور آئین کامذاق اڑانے کی کوشش نہ صرف ناکام بنائے گی بلکہ ایسے کرداروں کا الیکشن لڑنے کا حق بھی صلب کرلے گی۔
سرفزار بگٹی کا پیپلزپارٹی میں جانا ہی کوئی اشارہ نہیں بلکہ ایک دن پہلے فیصل واوڈا کا آصف زرداری سے ملنا اور زرداری صاحب کا واوڈا صاحب کے رخسار پردست شفقت پدری پھیرنا بھی اہم ترین ہے۔فیصل واوڈا کے مطابق بہت جلد کوئی دھماکا ہوگا ۔اب ایسا کوئی بھی دھماکا جو فیصل واوڈا کی صورت میں ہو وہ ن لیگ یا نوازشریف کے حق میں تو نہیں ہوسکتا۔اس دھماکے کا فائدہ پیپلزپارٹی کو ہی ہوگا۔میرے تجزیے کے مطابق آصف زرداری صاحب ’’اندرواندری ‘‘ یا ’’وچوں وچ‘‘ کوئی باریک واردات ڈال رہے ہیں ۔اس واردات کا ہدف ن لیگ یا نوازشریف نہ بھی ہوںلیکن ان کی اپنی پارٹی اوروہ خود ضرورہیں اور پیپلزپارٹی کے فائدے کا مطلب ن لیگ کا نقصان ہی ہوگا۔اور یہ واردات سندھ سے آگے کی ہے کیونکہ سندھ میں آج کے دن تک کوئی بھی پیپلزپارٹی کو چیلنج کرنے والا بحرحال نہیں ہے ۔
سندھ کی بات کریں تو وہ ایم کیوایم جو ایک ماہ پہلے خود بھاگ کر لاہورنوازشریف کے پاس آگئی تھی اب وہ کراچی کی ایک سیٹ ن لیگ کو دینے سے بھی بھاگ رہی ہے ۔ن لیگ اور ایم کیوایم کا سیاسی رومانس بھی ماندپڑگیا ہے۔ن لیگ کی کمیٹی نے کراچی میں ایم کیوایم سے اپنی سیاسی حیثیت سے کافی زیادہ مطالبہ کردیا تھا اس لیے ایم کیوایم نے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا دروازہ فی الحال بندرکھنے کا ہی فیصلہ کیا ہے۔ایم کیوایم کومعلوم ہے کہ اتحاد کی صورت میں ن لیگ کا کچھ بگڑے گانہیں اور شاید ان کے پاس کچھ بچے گا نہیں اورپھر پیپلزپارٹی اس بار کراچی کی آٹھ سے دس نشستوں پرامید لگاکربیٹھ گئی ہے اور اگر ایسا ہوگیا تو پیپلزپارٹی کو تاریخی کامیابی مل جائے گی۔
ن لیگ ایم کیوایم رومانس اگربارآور نہیں ہوا تو ن لیگ اور استحکام پاکستا ن پارٹی کے معاملات بھی رک گئے ہیں۔ ن لیگ کے پاس ایک پنجاب ہی تو ہے جس کے بل پروہ حکومت بنانے کی پوزیشن میں آسکتی ہے اس لیے پنجاب میں انہیں خوب پھونک پھونک کر قدم رکھنے ہیں۔استحکام پاکستان قومی اسمبلی کی چالیس نشستوں پراپنے امیدواروں کی حمایت مانگ رہی ہے اس کا مطلب ہے کہ پنجاب کی ایک سو چوالیس میں سے چالیس سیٹیں خود نکال کر استحکام کو دے دی جائیں ۔اس لیے استحکام کے ساتھ بھی بیل منڈھے چڑھتی دکھائی نہیں دے رہی۔اگر استحکام کے ساتھ ن لیگ کسی سمجھوتے پر نہیں پہنچتی تو اس کا مطلب ہے کہ پنجاب میں استحکام پاکستان کی صورت میں اپنا ایک نیا حریف پیدا کرنا ۔اور پھر مخالف مخالف ہی ہوتا ہے چاہے کمزورہو یا طاقتور۔
باقی بچے نوازشریف تونوازشریف کو ویسے توقانونی ریلیف مل چکا ہے لیکن میرے تجزیے اور معلومات کے مطابق تاحیات نااہلی ان کے راستے کی دیوار ابھی تک ہے اور اس وقت تک رہے گی جب تک سپریم کورٹ اس کیس کا فیصلہ نہیں کردیتی۔سپریم کورٹ دوجنوری کو تاحیات نااہلی کے قانون کا کیس سنے گی ۔اگر تو اس کا فیصلہ دوچار دن میں آگیا تو نوازشریف الیکشن لڑرہے ہوں گے لیکن اگر آئینی تشریح کا معاملہ طویل ہوگیا جس کے امکانات موجود ہیں تو نوازشریف الیکشن سے باہرہوسکتے ہیں ۔حکومت بنانے کے لیے یہ صورتحال گھوم کر وہی بن جائے گی جو عدم اعتماد کے بعد ہوگئی تھی ۔یعنی شہبازشریف وزیراعظم اور باقی تمام پارٹیاں ان کی کابینہ ۔لیکن اس بار زرداری صاحب کی خواہش اور کوشش ہے کہ شہبازشریف والی پوزیشن ان کی ہوجائے۔
