بنگلہ دیش میں عام انتخابات کیلئے پولنگ کل اتوار کو ہوگی، ملک کی حزب اختلاف کی بڑی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) نے الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کر رکھا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق بی این پی کے انتخابات میں حصہ نہ لینے کی وجہ سے اتوار کے روز ہونے والے انتخابات کا نتیجہ تقریبا طے شدہ ہے اور وزیر اعظم شیخ حسینہ کی عوامی لیگ کی مسلسل چوتھی مدت میں کامیابی کی توقع کی جا رہی ہے۔
یاد رہے کہ الیکشن سے قبل دیکھا گیا کہ بنگلہ دیش کی حزب اختلاف کی جانب سے حکومتی ناانصافیوں کے خلاف وقتاً فوقتاً مظاہرے کیے گئے، جبکہ شیخ حسینہ کی حکومت نے مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کیا، جس پر مغربی ممالک کو بھی خاصے تحفظات ہیں، شدید دباؤ کے باوجود بنگلہ دیش میں عام انتخابات ہورہے ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق مغربی دباؤ کے باوجود حکمراں جماعت عوامی لیگ نے انتخابات کو مسابقتی رنگ دینے کی کوشش کرتے ہوئے کئی ایسے امیدواروں کو میدان میں اتارا ہے جنہیں وہ خود ’ڈمی امیدوار‘ کہتے ہیں اور انھوں نے بھرپور انتخابی مہم چلائی تھی، یہ انتخابی مہم جمعہ کی صبح ختم ہوئی۔
دوسری طرف بی این پی نے عوام سے ووٹ نہ ڈالنے کی اپیل کرتے ہوئے ہفتہ سے 48 گھنٹے کی ملک گیر ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔
بی این پی کے جوائنٹ سیکریٹری جنرل روح الکبیر رضوی نے جمعہ کے روز میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بنگلہ دیش کے عوام، شہری آزادیوں اور عوام کی بنیادی آزادی کے مفاد میں انتخابات کا بائیکاٹ کریں۔
انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ ڈمی اور یکطرفہ انتخابات کے ذریعے ملک کو خطرے کی طرف نہ دھکیلے اور متنبہ کیا کہ اس طرح عوام کو دھوکا دے کر اقتدار برقرار نہیں رکھا جاسکتا۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش میں جس طرح سے انتخابات ہو رہے ہیں اس سے جنوبی ایشیائی ملک کے مغربی شراکت داروں بالخصوص امریکا کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں۔
امریکا نے انتخابات سے قبل حزب اختلاف سے سختی سے نمٹنے پر بنگلہ دیش کی حکومت کو بار بار تنقید کا نشانہ بنایا اور ستمبر میں منتخب افراد پر ویزا پابندیوں کا اعلان بھی کیا تھا۔
جو بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے جن افراد کیلئے ویزا پابندیوں کا اعلان کیا گیا ان پر جمہوری عمل کو نقصان پہنچانے کا الزام ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق بنگلہ دیش کے پچھلے دو انتخابات بھی موجودہ انتخابات کی طرح (مبینہ دھاندلی زدہ) تھے، حزب اختلاف کی جماعت بی این پی نے 2014 میں انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا ، جبکہ 2018 کے انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کے الزامات لگے تھے۔