لاہور (خصوصی رپورٹ) ہمارے معاشرے میں عورت کا بڑا مقام ہے۔ بیٹیاں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں‘ ان کے دکھ سکھ کیلئے والدین ساری زندگی دعائیں کرتے رہتے ہیں۔ بیٹیوں سے اس قدر محبت کرنے والے والدین کسی کی بیٹی کو جب بہو بنا کر لاتے ہیں تو بھول جاتے ہیں کہ یہ بھی ہماری بیٹیوں جیسی ہے۔ ماں باپ اپنی بیٹی کو بڑے چاﺅ اور بھاری جہیز اور دعائیں دے کر گھر سے رخصت کرتے ہیں کہ ان کی بیٹی کو دنیا بھر کا سکھ نصیب ہو۔ آخر ایسی کیا وجوہات پیدا ہو جاتی ہیں کہ چاﺅ سے لائی ہوئی بہو ایک آنکھ نہیں بھاتی‘ شاید اس کی وجہ ایک دوسرے سے زیادہ امیدیں باندھنا ہے جن کے پورے نہ ہونے کی وجہ سے نئے رشتوں میں دراڑیں پڑ جاتی ہیں۔ گھر بسنے سے قبل ہی اجڑ جاتے ہیں۔ بھاری جہیز لانے کے باوجود اور شوہر کی فرمائشیںپوری کرنے کے بعد بھی میاں بیوی اور ساس بہو میں سرد جنگ جاری رہتی ہے جس کا نتیجہ ایک دن انتہائی خوفناک صورت میں نکلتا ہے۔ پہلے بہوﺅں کو مٹی کے تیل کے چولہا سے جلا کر مارا جاتا تھا‘ مگر اب بہوﺅں سے جان چھڑانے کیلئے کسی چولہے کی نہیں بلکہ گلا دبا کر‘ زہر دے کر اور گولی مار کر قتل کیا جاتا ہے۔ بہوﺅں کو راستے سے ہٹانے کا یہ سلسلہ تیزی سے جاری ہے۔ ہیومن رائٹس کی رپورٹ کے مطابق مارچ 2017ءایک ماہ میں 15سے زیادہ خواتین جن میں نئی نویلی دلہنیں شامل ہیں کو ان کی ساس‘ شوہر اور نندوں نے جہیز نہ لانے‘ فرمائشیں پوری نہ کرنے‘ زیورات نہ ڈالنے اور ناپسندیدگی کی وجہ سے قتل کردیا اور یہ لہر پورے پاکستان میں جاری ہے۔ انتظامیہ کے کرپٹ ہونے اور قوانین پر عملدرآمد نہ کرنے کی وجہ سے کئی بیٹیوں کو موت کے منہ میں جانا پڑا۔ والدین دہائی دیتے رہ جاتے ہیں‘ انہیں کہیں سے انصاف نہیں ملتا۔ سروے کے مطابق قتل کے ان واقعات نے سنسنی اور خوف کی فضا کو جنم دیا ہے۔ اعلیٰ روایات‘ تہذیب‘ قانون‘ عدم برداشت کسی چیز کی بھی پاسداری ممکن نظر نہیں آتی۔ ڈاکٹر نوشین حامد‘ ثوبیہ کمال نے کہا کہ یوں تو حکومت عورتوں کو ان پاور کرنے کیلئے قانون سازی کر رہی ہے تو دوسری جانب عورتوں کے جرائم میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے۔ ملزم پکڑے نہیں جاتے‘ جو پکڑے جاتے ہیں ضمانتوں پر رہا ہو جاتے ہیں۔ قانون کی بالادستی قائم نہیں ہوتی۔ ان واقعات میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ غریب والدین کو مایوسیوں کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ کنول نعمان‘ شمیلہ اسلم نے کہا کہ نئی نویلی دلہنوں کو قتل کرنے کی وارداتوں میں اضافہ نے معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ والدین کو چاہئے کہ سوچ سمجھ کر تسلی سے رشتہ طے کریں۔ گھریلو خواتین بلقیس عارف‘ روبینہ محمود اور یاسرہ احمد نے کہا کہ نئی نویلی دلہنوں کے قتل کو روکنا سب کی ذمہ داری ہے‘ جہاں ریاستی ادارے اپنا کام کریں وہاں والدین کو بھی چاہئے کہ وہ بیٹے کی شادی کرتے ہوئے لڑکی والوں سے زیادہ ڈیمانڈ نہ کریں۔ اب تو گاڑیاں اور گھر کی بھی ڈیمانڈ کی جاتی ہے۔ لالچ‘ عدم برداشت‘ والدین کا دباﺅ اور جنریشن گیپ بھی ان واقعات کا سبب ہیں۔ نسیم گلزار اور غزالہ پروین نے کہا کہ والدین اپنے بچوں کی بہتر تربیت کریں۔ میاں بیوی ساس بہو نند کی لڑائی گھر گھر کی کہانی ہے۔ یہ ٹسل برصغیر کے معاشرے کا حصہ ہے۔ اس میں زیادہ سے زیادہ برداشت کی ضرورت ہے۔ جمیلہ انعام اور سعدیہ شریف‘ ممتاز بانو نے کہا کہ والدین شادی سے قبل اپنے بچوں کی پسندناپسند کو مدنظر رکھیں۔ اسلام جہیز کے نام پر قیمتی تحائف لینے‘ کار کوٹھی کی فرمائشیں کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ سمیرا شاہد‘ یاسمین اعجاز نے کہا کہ شادی جیسے مقدس رشتے کو نبھانے کیلئے جھوٹ کا سہارا نہیں لینا چاہئے۔ دینی سکالر ڈاکٹر عبیرہ نعیمی نے کہا کہ زندگی کی تمام بدمزگیاں صحیح راستے سے بھٹکنے کی وجہ سے ہیں۔