اسلام آباد:
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے کرپٹو کرنسی، ٹیکسیشن، منی لانڈرنگ اور کسٹمز کے کردار پر سخت سوالات اٹھا دیے ہیں اور اجلاس میں کرپٹو کرنسی کی زیادہ تر ڈیلنگ ہنڈی اور حوالے کے ذریعے ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔
اسلام آباد میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس چیئرمین سلیم مانڈوی والا کی صدارت میں ہوا، جس میں ورچوئل ایسٹ بل 2025 پر تفصیلی غور کیا گیا۔
سیکریٹری خزانہ امداد اللہ بوسال نے بتایا کہ پاکستان میں ورچوئل ایسٹ کی کوئی ریگولیشن موجود نہیں تھی، حکومت اب شفافیت اور ریگولیشنز متعارف کروا رہی ہے۔
سینیٹر دلاور خان نے کہا کہ ملک میں مختلف قسم کے ٹیکسز عوام پر بوجھ ہیں، اگر پورے ملک میں یکساں طور پر صرف 5 فیصد ٹیکس عائد کیا جائے تو ٹیکس کی شرح کم ہونے کے باوجود وصولی 40 فیصد بڑھ سکتی ہے۔
کمیٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا نے انکشاف کیا کہ کرپٹو کرنسی کی زیادہ تر ڈیلنگ ہنڈی اور حوالے کے ذریعے ہو رہی ہے، اور پاکستانیوں کی سرمایہ کاری کرپٹو میں دنیا بھر میں آٹھویں نمبر پر ہے۔
سینیٹر انوشہ رحمان نے شکایت کی کہ کوئٹہ سے تفتان تک 23 چیک پوسٹس پر لوگوں سے بھتہ وصول کیا جاتا ہے، اگر کسٹمز سہولت دیتا تو ایسی شکایات سامنے نہ آتیں۔
سینیٹر محسن عزیز نے انکشاف کیا کہ پاکستان میں اغوا برائے تاوان کے کیسز میں بھی کرپٹو کرنسی استعمال ہو رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اب تاوان کے لیے نقد رقم کے بجائے کرپٹو مانگا جا رہا ہے، جس سے منی لانڈرنگ کے خدشات مزید بڑھ سکتے ہیں۔
وزارت قانون کے کنسلٹنٹ نے بتایا کہ بل کے تحت ایک آزاد بورڈ قائم کیا جائے گا۔
اسٹیٹ بینک کے ڈپٹی گورنر نے کہا کہ کرپٹو کرنسی اس وقت قانونی طور پر گرے ایریا میں ہے مگر غیر قانونی نہیں، پاکستانی نوجوان کرپٹو کرنسی کے استعمال میں مہارت رکھتے ہیں۔