لاہور‘ کراچی‘ ملتان‘ اسلام آباد‘ لاڑکانہ (نمائندگان خبریں ) سابق وزیراعظم شہید بینظیر بھٹو کی 64 ویںسالگرہ منائی گئی ۔ ملک بھر تقریبات کا انعقاد کیا گیا اور کیک کاٹے گئے ۔ تفصیلات کے مطابق سابق وزیراعظم شہید بینظیر بھٹو کا 64 ویںیوم پیدائش منایا گیا اس سلسلے میں ملک بھر میں پیپلز پارٹی کے رہنماوں کی جانب سے تقریبات کا انعقاد کیا گیا اور کیک کا ٹے گئے ۔لاڑکانہ میں پیپلز پارٹی سندھ کے صدر نثار کھوڑو، وقار مہدی، راشد ربانی اور اسلم شیخ نے سابق وزیر اعظم شہید بینظیر بھٹو کے 64ویں یوم پیدائش پر کیک کاٹا۔ اس موقع پر نثار کھوڑونے کہا کہ محترمہ نے آمروں کے خلاف بھرپور جدوجہد کی۔کراچی میں سینیٹر سعید غنی کی رہائش گاہ پر شہید بینظیر بھٹو کی سالگرہ کا کیک کاٹا گیا۔ سینیٹر سعید غنی نے کہا کہ آج پاکستان کو شہید بی بی کی جتنی ضرورت ہے پہلے کبھی نہ تھی۔ ملتان میں سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی سالگرہ کا کیک کاٹا۔ انھوں نے کہا کہ محترمہ نے اپنی جان قربان کر کے پاکستان میں جمہوریت کو بچایا۔ ان کی قائدانہ صلاحیتوں کی وجہ سے جنرل پرویز مشرف یونیفارم اتارنے پر مجبور ہوئے۔ کراچی ڈویژن کے تحت سالگرہ کی تقریب پیپلزسیکرٹریٹ میں منعقد ہوئی اور سالگرہ کاکیک بھی کاٹا گیا جس سے کراچی ڈویژن کے صدر ڈاکٹرعاصم حسین‘ سردار نبیل گبول اورشہلا رضا دیگر خطاب کیا جبکہ اس موقع پر نعمان شیخ سردار خان‘ ذوالفقار قائم خانی‘ اقبال ساند‘ وقاص شوکت‘ مرتضیٰ بلوچ‘ لیاقت آسکان‘ ساجد جوکھیو‘ حبیب الدین جنیدی‘ نادیہ گبول‘ فریدانصاری‘ مظفر شجرہاور دیگر بھی موجود تھے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کراچی ڈویژن کے صدر ڈاکٹر عاصم حسین نے کہا کہ پیپلزپارٹی پروگریسواور لبرل پارٹی ہے۔ ہمارے قائد ذوالفقارعلی بھٹو کو پھانسی دینے والے لوگ طالبان کی سوچ رکھتے تھے ہم پاکستان پر یقین رکھتے ہیںاور آپ ہر پروگریسوپارٹی کو توڑنا چاہتے ہیں۔ انہوں نےکہاکہ اب بہت ہوگیا نوازشریف اورعمران خان سمجھ لیں اپنی حرکتوں سے باز آجائیں لوگ آپ کو جان چکے ہیں عوام کو زیادہ دیر تک بے وقوف نہیں بنایا جاسکتا۔ نبیل گبول نے کہا کہ الیکشن سے صرف تین ماہ پہلے بلاول پنجاب میں نکلیں گے سارا پنجاب ان کے ساتھ ہوگا۔ پیپلز پارٹی پنجاب کی جانب سے تقاریب کا اہتمام کیا گیا ، محترمہ شہید کے درجات کی بلندی کے لیے قرآن خوانی بھی کی گئی اور افطاریاں بھی کرائیں گئیں اکیس جون 1953ء کو سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور نصرت بھٹو کے گھر ننھی پری نے آنکھ کھولی جس کا نام بینظیر رکھا گیا، مگر ذوالفقار علی بھٹو اپنی لاڈلی کو پنکی کہہ کر پکارتے تھے۔ امریکہ اور آکسفورڈ یونیوسٹی برطانیہ سے تعلیم کے مدارج طے کیے، زمانہ طالب علمی میں اپنے والد کے ہمراہ مختلف ممالک کے دورے کیے۔ والد کی حکومت ختم ہونے کے بعد بینظیر نے باقاعدہ طور پر سیاست کے میدان میں قدم رکھا۔ بینظیر کو سیاسی سوچ اور فکر اپنے والد سے ورثے میں ملی۔1978ء میں بے نظیر بھٹو کے والد ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکایا گیا تھا، ا±س کے بعد بے نظیر بھٹو کو نظر بندی اور قید کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں۔ بھٹو کی بہادر بیٹی نے جیل، جلاوطنی اور دیگر مشکلات کی پرواہ نہ کی اور اپنے والد کی جدوجہد کو آگے بڑھاتی گئیں۔ اسی دوران بینظیر بھٹو کو اپنے چھوٹے بھائی شاہ نواز بھٹو کی موت کا صدمہ بھی اٹھانا پڑا۔ بینظیر کی جدوجہد اور قربانیاں رنگ لائیں۔ 1988 ء کے عام انتخابات میں عوام نے بینظیر بھٹو کو وزیر اعظم منتخب کیا۔ مگر ایک سازش کے تحت 1990ء کو ان کی حکومت گرا دی گئی اور میاں نواز شریف وزیر اعظم بن گئے۔ حکومت نے ان پر اور ان کے شوہر آصف علی زرداری پر مقدمات قائم کیے، آصف علی زرداری جیل میں اور محترمہ ننھے بلاول کو گود میں اٹھاائے عدالتوں کی پیشیاں ب±ھگتتی اور جیل کے چکر کاٹتی رہیں1993 کو دوبارہ اقتدار میں آئیں، 1996ءکو ان کے چھوٹے بھائی میر مرتضی بھٹو کو قتل کر دیا گیا، سگے بھائی کے قتل کے بعد اپنے ہی منتخب صدر فاروق لغاری ن ےاسمبلی توڑ کر ان کی حکومت ختم کردی۔ بینظیر اور ان کے ساتھیوں پر مزید مقدمات بنائے گئے، آصف علی زرداری کو ایک بار پھر جیل بھیج دیا گیا، انتخابات ہوئے اور میاں محمد نواز شریف پھر وزیر اعظم بن گئے۔ اس دوران بینظیر اور آصف علی زرداری کو سزا دلوائی گئی ، بی بی شہید نے جلاوطنی اختیار کی۔ ٹیپ سکینڈل کے بعد سپریم کورٹ نے سزائیں کالعدم کر دیں، احتساب کے نام پر مشرف دورمیں ب?ی مقدمات چلتے رہے، آصف علی زرداری 1996ء سے2004ء تک جیل میں رہے۔مشرف دورمیں ہی بینظیربھٹو 18 اکتوبر 2007ء کو وطن واپس آگئیں جہاں کراچی میں ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا اور ان پر پہلا قاتلانہ حملہ بھی اسی استقبال کے دوران ہوا جہاں سینکڑوں جیالوں نے قربانیاں دیں، بھٹو کی بیٹی،عوام کی قائد، دلیری سے دہشتگردوں کو للکارتی رہیں، بم حملے انہیں ڈرا نہیں سکے، وہ میدان میں نکل کر لڑتی رہیں۔ بینظیر پر دوسرا حملہ 27 دسمبر 2007ء کو لیاقت باغ راولپنڈی میں ہوا جس میں انہوں نے جام شہادت نوش کیا، ان کی شہادت کارکنوں کے لیے گہرا صدمہ تھی۔
