لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل فائیو کے پروگرام ”مرحبا رمضان“ میں گفتگو کرتے ہوئے مذہبی سکالر عبدالرزاق میاں نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوبؑ کو بے شمار دولت عطا فرمائی تھی۔ آپؑ بڑے ہی صابر و شاکر تھے۔ اللہ نے اپنے بندے کو آزمایا تو سب سے پہلے ان سے دولت چھین لی لیکن حضرت ایوبؑ کے ماتھے پر شکن تک نہیں آئی۔ پھر ان سے ان کی اولاد چھین لی۔ آپؑ نے پھر بھی کوئی گلہ شکوہ نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو بیماری دے دی، بیماری کی وجہ سے لوگوں نے ان کو شہر بدر کر دیا۔ بھائیوں نے بھی ان کو چھوڑ دیا۔ بیماری کی وجہ سے ان کے بدن سے بدبو آتی تھی جس کی وجہ سے کو ئی ان کے نزدیک نہیں آتا تھا۔ سگے بھائیوں نے ان کی حالت دیکھ کر کہا کہ تم نے ضرور کوئی غلط کام کیا ہے جس کی یہ سزا مل رہی ہے۔ حضرت ایوبؑ یہ سن کر سجدے میں گر پڑے اور دعا کی ”یا اللہ میں اس وقت تک سجدے سے نہیں اٹھوں گا جب تک تو مجھے شفا نہیں دے گا“۔ اللہ نے فرمایا کہ ”اپنے پاﺅں کو زمین پر مار“۔ انہوں نے پاﺅں زمین پر مارا تو چشمہ پھوٹ پڑا۔ اللہ نے فرمایا ”اس چشمے میں نہاﺅ اور اسی کو پیو“۔ آپؑ نے اس پانی سے غسل کیا اور پانی کو پیا تو اللہ نے صحت عطا فرما دی۔ پھر دولت بھی واپس کی اور اولاد کو بھی دگنا کر کے عطا فرمایا۔ مفتی محمد آصف نے کہا ہے کہ حضرت ایوبؑ کی وہ آزمائش ہے جسے پانے کےلئے 70 انبیاءکرام نے دعا کی لیکن اللہ نے فرمایا کہ اس کو حضرت ایوبؑ کےلئے خاص کر دیا گیا ہے۔ اللہ نے حضرت ایوبؑ کو بے شمار دولت، زمینیں اور مویشی عطا فرمائے تھے اس کے باوجود آپؑ ساری ساری رات اللہ کی عبادت کرتے تھے۔ روایات میں ہے کہ شیطان نے کہا کہ اے اللہ میں حضرت ایوبؑ کو تیری عبادت سے روکوں گا، پھر ان کی دولت کو آگ لگائی گئی پھر اولاد کو ختم کر دیا۔ تفسیروں میں ملتا ہے کہ آپؑ کو لگنے والی بیماری کے باعث آپ کا جسم بالکل ختم ہو گیا تھا ماسوائے دل و دماغ کے۔ قرآن مجید میں حضرت ایوبؑ کو ”صابر“ کہا گیا۔ حضرت ایوبؑ نے کبھی علاج و معالجے کی طرف توجہ نہیں دی بلکہ دل و دماغ میں اللہ کی عبادت کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا صبر دیکھتے ہوئے ان کو صحت عطا کر دی۔ مال و اولاد سے بھی دوبارہ نواز دیا۔ ان کی فرمانبردار زوجہ کو بھی دوبارہ جوان کر دیا۔ مسلم لیگ ق کی رہنما سیمل کامران نے کہا ہے کہ حکومت کو مدت پوری کرنے کا پورا موقع دیا ہے۔ عوام بھی سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔ کبھی بھی پیسوں کی سیاست نہیں کی۔ جب بھی موقع ملا عوام کو ڈیلیور کیا۔ سیاست میں لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ ناراضی بھی چلتی رہتی ہے۔ میڈیا اس کو کبھی ”چھانگا مانگا“ کبھی ”فارورڈ بلاک“ اور کبھی ”میثاق جمہوریت“ کے نام سے مشہور کردیتا ہے۔ کارکن اسمبلی کے اندر جانے کےلئے پارٹی چھوڑ کر جاتے ہیں۔ اسمبلی سے باہر آنے کےلئے کوئی پارٹی نہیں چھوڑتا۔ اینکر پرسن بیرسٹر فاطمہ شاہین نے کہا ہے کہ نوجوان وکلاءمیں صبر و برداشت نہیں ہے۔ ہمیشہ تبدیلی خود سے شروع ہوتی ہے، وکلاءکو بھی صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ بچپن اور آج کی عید میں فرق عیدی نہ ملنے کا ہے۔ عیدی اکٹھا کرنا بڑا زبردست لگتا تھا اب تو عیدی دینے کے دن آ گئے ہیں۔ پروگرام میں نعت خواں انور اللہ مصطفی فرید اور حافظ مصباح شوق نے دعا ”کرم مانگتا ہوں عطا مانگتا ہوں“ اور اے سبز گنبد والے منظور دعا کرنا“ پیش کیں۔