تازہ تر ین

راحیل شریف واپس آئیں ،ملک میں نئی بحث شروع ہوگئی، نامورتجزیہ نگار ضیا شاہد کی چینل ۵ کے مقبول پروگرام میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تبصروں اور تجزیوں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ وفاقی دارالحکومت میں مجلس وحدت المسلمین کا بڑا اجتماع ہوا جس میں پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی، تحریک انصاف، سنی تحریک اور خانہ پری کے طور پر ن لیگ کے بھی رہنما شامل ہوئے جس کے بعد وحدت المسلمین صرف شیعہ طبقہ کی آواز نہیں رہی اس اجتماع میں جنرل راحیل کو واپس بلانے کا مطالبہ کیا گیا اور یوم القدس کے نام پر ملک بھر میں مظاہرے کرنے کا اعلان کیا گیا۔ القدس کا صرف نام ہی استعمال ہوا ہے۔ اصل میں یہ مظاہرے سعودی عرب کے خلاف ہوں گے۔ سعودی سفیر نے بھی پریس کانفرنس کی اور کہا کہ ہم یمن کا محاصرہ نہیں کر رہے، نوازشریف سے کسی قسم کی بات نہیں ہوئی۔ وزارت خارجہ سے اس معاملے پر موقف لیا جانا چاہئے۔ پچھلے ماہ اسلامی ممالک کے وزرا خارجہ کا اجلاس ہونا تھاوہ بھی نہیں ہوا معاملہ کچھ گڑ بڑ لگتا ہے۔ جنرل نعیم خالد نے پروگرام میں بتایا کہ اسی طرح کے اتحاد میںپہلے فوجیں مل کر مشقیں کرتی ہیں ہتھیاروں سے واقفیت بڑھتی اور ایک دوسرے سے ربط اور ضابطہ بنایا جاتا ہے، اس طرح کی کھچڑی نما فوج کو اگر بغیر جنگی مشقیں کرانے کسی ٹارگٹ پر بھیجا جائے تو ناکامی ہو گی اور پوری دنیا میں مشہور کیا جائے گا کہ مسلم امہ کی فوج شکست کھا گئی۔ سینئر صحافی نے کہا کہ سعودی عرب میں بادشاہت کا نظام ہے فرمانروا کی عمر 80 سال سے زیادہ ہے اس عمر میں آدمی زیادہ فعال انداز میں معاملات نہیں چلا سکتا۔ سابق ولی عہد کو وزارت خارجہ سے بھی الگ کر دیا گیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہاں ہیجانی کیفیت ہے۔ اب سعودی فرمانروا نے اپنے بیٹے کو ولی عہد مقرر کیا ہے جن کے بارے میں سنا گیا ہے کہ وہ زیادہ انتہا پسند ہیں۔ سعودی عرب عملاً امریکہ کی کالونی بن چکا ہے سعودیہ وہ ملک تھا کہ جہاں اسلامی حدود، اسلامی قوانین کے خلاف کوئی قدم نہ اٹھایا جا سکتا تھا اب وہاں امریکی کالونیاں آباد ہیں جہاں پہ یورپ جیسا کھلا ڈلا ماحول ہے۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ جے آئی ٹی نے رپورٹ عدالت میں جمع کرا دی ہے اب آخری رپورٹ جمع ہونا ہے الیکشن کمیشن اور تحریک انصاف میں کافی عرصہ سے محاذ آرائی چل رہی ہے دونوں ایک دوسرے پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہیں الیکشن کمیشن کا موقف ہے کہ تحریک انصاف ان کی نہیں مانتی اور توہین کرتی ہے حکومت کی بی ٹیم قرار دیتی ہے دوسری جانب تحریک انصاف والے جواب میں الزامات کی ایک طویل فہرست سامنے لاتے ہیں جن سے بہرحال یہی ظاہر ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن وہی کرتا ہے جو حکومت چاہتی ہے۔ دنیا بھر میں جمہوری ممالک میں الیکشن کمیشن انتہائی مضبوط ادارہ ہوتا ہے جس پر انگلی نہیں اٹھائی جا سکتی لیکن بدقسمتی سے ہمارے یہاں معاملہ الٹ نظر آتا ہے۔ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی نام نہاد مفاہمت کے نتیجے میں بہت سے معاملات خراب ہوئے جن میں الیکشن کمشنر کی تقرری والا معاملہ بھی تھا۔ آئینی طور پر الیکشن کمیشن کی تشکیل کا طریقہ کار یہ ہے کہ تمام صوبائی حکومتیں ایک ایک بندے کو نامزد کر کے بھیجتی ہیں اس طرح سے نامزد کردہ بندوں سے کیسے نیوٹرل رہنے اور انصاف کرنے کی توقع کی جا سکتی ہے جبکہ خود ان کا چناﺅ بھی سیاسی جماعتوں نے کیا ہے۔ الیکشن کمشنر یا اٹارنی جنرل بارے کہا جاتا ہے کہ انہیں بالکل غیر جانبدار ہونا چاہئے تاہم زمینی حقائق اس کے الٹ ہیں سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ ہمارے یہاں حکومتوں کا مزاج ہمیشہ یہی رہا ہے کہ سچ نہ بولو، پاکستان اور امریکہ والا معاملہ بھی ”اب کے مار“ والا بن چکا ہے۔ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے، دنیا کا بہترین میزائل نظام موجود ہے کیا یہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ہم نے ایسے ہی ڈرتے رہنا ہے۔ ڈرون حملے جاری رہیں گے اور حکومت ایسے میں احتجاج کرتی رہے گی۔ وزارت خارجہ بھی آج کل پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے کسی قسم کا جواب دینے سے گریزاں ہے۔ وہ جواب کیا دے کیونکہ جواب تو حکومت نے دینا ہوتا ہے اور وزیراعظم بھی عمرے کیلئے سعودی عرب میں ہیں۔ وزیراعظم واپس آ کر پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے اپنی پالیسی وضع کریں، قومی اسمبلی اور سینٹ میں اس پر بحث کرائی جائے، تمام سیاسی جماعتوں کی اے پی سی بلائی جائے اور بتایا جائے کہ امریکہ نے ڈرون حملے کرنے کا کہا ہے اس پر کیا پالیسی ہونی چاہئے۔ اگر تمام سیاسی جماعتیں متفق ہوں کہ حملے نہیں کرنے دیں گے، قوم ساتھ کھڑی ہو تو پھر امریکہ کیلئے ڈرون حملے کرنا ممکن نہ ہو گا تاہم اس کے لئے ایک مربوط پالیسی بنانا ہو گی۔ پاک فوج کے ترجمان نے تو کافی عرصہ قبل بیان دیا تھا کہ پاکستان کسی بھی قسم کے ڈرون کو گرانے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔ تحریک انصاف کے ترجمان نعیم الحق نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کو تویہی پتہ نہیں ہوتا کہ اس کے وکیل نے عدالت میں کیا بیان دیا ہے، کیا یقین دہانی کرائی ہے۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے ایک اور کیس میں عدالت سے کہا کہ ہم اس وقت تک فیصلہ نہیں کریں گے جب تک عدالت فیصلہ نہیں کر دیتی۔ کیونکہ دونوں کیسز میں الزامات ایک جیسے ہیں۔ دفاعی تجزیہ کار مکرم خان نے کہا کہ 2015ءمیں سعودی عرب میں فوجی مشقیں ہوئی تھیں جن میں وزیراعظم نوازشریف اور جنرل راحیل شریف نے بھی شرکت کی، اس وقت جنرل راحیل کو اسلامی اتحادی فوج کا سربراہ بنانے کا منصوبہ پیش کیا گیا جس کو نوازشریف کی تائید حاصل تھی۔ اب حکومت صرف عالمی اور خطے کے حالات کے تناظر میں اس سے لاتعلقی کا اظہار کر رہی ہے۔ اسلامی اتحادی فوج کا معاملہ بھی بیچ میں ہی ہے۔ کچھ ممالک گو مگو کا شکار، کچھ کے تحفظات اور بعض کو تو بلایا ہی نہیں گیا۔ پاکستان کی عوام کو باور کرایا جا رہا ہے کہ وزیراعظم اور آرمی چیف جنرل باجوہ نے جو حالیہ دورے کئے ان کا پس پردہ مقصد کچھ اور تھا حالانکہ میڈیا پر یہ بات آ چکی ہے کہ سعودی عرب نے ان کا ثالثی کردار قبول نہ کیا اور رد کر دیا۔ سعودی سفیر نے بھی پریس کانفرنس میں پاکستانی عوام کا ذہن صاف کرنے کی کوشش کی ہے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain