کراچی (رپورٹ: صابر فیاض) ملک کی ممتاز سیاسی شخصیات، دانشوروں، صحافیوں، وکلاءاور ادیبوں کا کہنا ہے کہ آج بھی زبان اور نسل کی بنیاد پر پاکستان کے خلاف سازشوں کا سلسلہ جاری ہے ، آزادی کے فوراََ بعد بھارت نے ملک توڑنے کی سازش شروع کردی تھی ، پاکستان کو مضبوط بنانا ہے تو سب کو برابر کے حقوق دینا ہوں گے ، شیخ مجیب الرحمن اورجی ایم سید غدارنہیں تھے انہیں غدار بنایا گیا ، خان آف قلات اور ریاست بہاولپور کے تحفظات دور کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی گئی ، غربت او ر احساسِ محرومی کے سبب سازشیں پنپ رہی ہیں ، بھارت میں مسلمان دلتوں سے بری زندگی گزار رہے ہیں جس نے ایک بار پھرثابت کردیا کہ دو قومی نظریہ آج بھی زندہ ہے ،مغرب بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کو سازش کا شکار بنانا چاہتا ہے ، اس سے چوکنا رہنا ہوگا ۔ قائداعظم نے جاگیرداری نظام مسترد کردیا تھا مگر آج پاکستان پر جاگیردار مسلط ہیں اور اندرونِ سندھ اور جنوبی پنجاب کے لوگ جانوروں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ، ممتاز دانشور اور اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین ہارون ، پیپلزپارٹی کے رہنماءسینیٹر تاج حیدر، پاک سرزمین پارٹی کے رہنماءرضاہارون، وسیم آفتاب ، جناح مسلم لیگ کے سربراہ آزاد بن حیدر، سینئرصحافی سعواے ساحر، ممتاز صحافی وقار یوسف عظیمی ، اے پی این ایس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹرڈاکٹر تنویر اے طاہر ، سی پی این ای کے نائب صدر عامرمحمود،جماعت اسلامی کے رہنماءبرجیس احمدنے ان خیالات کا اطہارمقامی ہوٹل میں سی پی این ای کے صدر ، روزنامہ خبریں کے چیف ایڈیٹر ، کہنہ مشق صحافی اور ادیب ضیاشاہد کی کتاب ”پاکستان کے خلاف سازش“کی تعارفی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ تقریب کے مہمانِ خصوصی ممتاز دانشور اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین ہارون نے اپنے خطاب میں دورحاضر میں پاکستان کے خلاف جاری عالمی سازشوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور کہا کہ ضیاشاہدنے پاکستان کے خلاف سازشوں کو بے نقاب کرکے ایک انتہائی اہم کام کیا ،پاکستان کے خلاف سازشوں کا سلسلہ جاری ہے اور مغرب بلوچستان اور خیبرپختونخواہ کو افغانستان کے ذریعے نشانہ بنانے کی سازش کررہاہے ، افغانستان اس وقت پاکستان کے لئے بڑا خطرہ بنا ہواہے اور اس معاملے کو مذاق نہ سمجھا جائے ، دوقومی نظریہ ابھی تک زندہ ہے اور بھارت کے جسٹس سجا د کی رپورٹ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ہندوستان میں مسلمان دلتوں سے بھی بدتر جانوروں جیسی زندگی گزاررہے ہیں ، اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیاہے کہ پاکستان کے دو علاقے جنوبی پنجاب اور خیرپختونخواہ جہاں غربت کی شرح سب سے زیادہ تھی وہاں طالبان نے زور پکڑا ، عرب اسپرنگ کے نام پر تیونس کے بن علی ، مصر کے حسنی مبارک اور لیبیا کے کرنل قذافی کو ہٹادیا گیا مگر آج تک کوئی نہیں بتارہا کہ ان کی دولت کہاں گئی ؟ مغرب نے پوری اسلامی دنیا کو جنگوں میں دھکیل دیاہے ، شام میں 500سال بعد استحکام آیا تھا شیعہ ، سنی ، یہودی ، عیسائی سب امن سے رہ رہے تھے ، مگر اسے عراق اور افغانستان کی طرح عدم استحکام کا شکارکردیا گیا ، 9ملین افراد نے ہجرت کی مگر حالات نہیں سدھرے ۔ آئندہ 100سال تک جنگ کا یہ سلسلہ جاری رہ سکتا ہے ۔ حسین ہارون نے کہا کہ افغانستان کے حالات خراب ہونے میں منشیات کا بڑا کردار ہے ، افغانستان میں منشیات کی کاشت سے جو پیسہ بنایاگیا اس سے کراچی اور پاکستان کو عدم استحکام کا شکار بنایا گیا ، پاکستان کے خلاف کاروائیوں میں افغانستان کی اسٹبلشمنٹ ملوث ہے ، وہ بھارت کے ساتھ ملکر کام کررہی ہے ، ملک میں نہ کوئی خارجہ پالیسی ہے نہ فارن آفس کا کوئی رول نظر آتا ہے ، افغانستان کسی غلط فہمی میں نہ رہے ، ڈیورنڈ لائن کے اس پار کا علاقہ امیرِ افغانستان نے بیچا تھا ، یہ ہانگ کانگ نہیں کہ وہ واپس مانگ لیں ، آج اچکزئی جیسے لوگ کہہ رہے ہیں کہ وہ افغان ہیں،جب اس وقت قبائل نے امیر افغانستان سے شکایت کی کہ آپ نے ہمیں بیچ دیا ہے تو امیر نے جواب دیا تھا آپ کچرا ہو ، جو ہم نے الگ کردیا ، حسین ہارون نے سی پیک کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے سی پیک کی خوشی ہے مگر اس کے ساتھ گھبراہٹ بھی ہے کہیں ایسٹ انڈیا کمپنی والا کام نہ ہو جائے، ہم پاکستانی بچھ جاتے ہیں مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ 14فیصد سود پر قرض حاصل کیا جارہا ہے اگر ادا نہ کیاگیا تو پھر کیا ہوگا ؟ کہیں وہ ایسا نہ کردیں جیسا ایسٹ انڈیا کمپنی نے کرناٹک میں کیا تھا ، ہم مالی زلزلے کی طرف جارہے ہیں ، سی پیک کو رقم کی ادائیگی کیسے کریں گے، پاکستان کی خود مختیاری سب سے اہم ہے۔ حسین ہارون نے حکومتی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ہمارے یہاں کوئی پلاننگ نہیں ہے کوئلہ تھر سے نکلا ہے مگر اس کے لئے پلانٹ ساہیوال میں لگایا گیا ہے، قطر سے ایل این جی لی دنیا میں سب سے مہنگے داموں لی جارہی ہے انہوں نے کہا کہ گوادر فیروزخان نے عمان سے قیمتاََ خریدا تھا ، بھٹو نے جو آئین بنایا اس پر بہاولپور کے دو ایم این ایز نے دستخط نہیں کئے تھے ، 18ویں ترمیم کے بعد بھی سندھ حکومت چیخ رہی ہے ، دوبارہ سازشیں ہورہی ہیں اور جہاں توازن نہیں ہوتا وہاں سازشیں شروع ہوجاتی ہیں ، یورپ میں لوکل باڈیز سسٹم تبدیل ہوئے بغیر چل رہا ہے ، خان آف قلات نے پہلے پاکستان کی مخالفت کی پھر وہ مان گئے تھے مگر ان کے ساتھ ظلم کیا گیا ، فائنل ایگریمنٹ میں پٹھانوں اور لسبیلہ کو سندھ سے کاٹ کر ان کے سروں پر بٹھادیا گیا ۔جب ضیاءالحق کشمیر کے موضوع پر ڈیپتھ پرسیپشن کی بات کررہے تھے تو میں نے کہا کہ آپ وقت ضائع کررہے ہیں، میں نے تجویز دی تھی کہ آپ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اپنے کشمیر میں استصواب رائے کروادیں ، کارٹر آپ کے دوست ہیں اور دیگر کئی عالمی مبصرین بلالیں ، 99فیصد آپ کے حق میں آئے گا ، بھارت نہیں کرواسکے گا مگر آپ بھارت پر دباو¿ ڈال سکیں گے ، مگر انھوں نے وقت ضائع کردیا، حسین ہارون نے کہا کہ مجھے کینیڈا میں شیخ مجیب الرحمن نے بتایا تھا کہ دورانِ قید ایک بریگیڈیئر آئے اور انھوں نے کہا کہ ہم تمہیں بنگلہ دیش بھیج رہے ہیں ، اس وقت مجھے پتہ چلا کہ اب بنگال بنگلہ دیش میں تبدیل ہورہا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ زمیندار صرف پیسہ کمانے کے لئے سیاست میں آتے ہیں ، پی آئی اے اور ریلوے کا ستیا ناس کردیا گیا ہے ،کراچی کی صفائی کا ٹھیکہ چینی کمپنی کو دے رہے ہیں ایک زمانے میں پورا کراچی پانی سے دھلتا تھا ، پانی اور بجلی نہیں ہے اور ہمارے یہاں منفی سوچ کا غلبہ ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنماءسینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ میں ضیاشاہد کو شاندار کتاب پر خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں یہ بہت اہم موضوع ہے ، مکالمہ جتنا بڑھائیں گے اس سے ملک مضبوط ہوگا اور اختلافات کا خاتمہ ہوگا ، دوقومی نظریہ آج بھی زندہ ہے ، سرسید نے مسلمانوں کو ایک واضح شناخت دی ، مذہب ، زبان اور کلچر کی بنیاد پر جب الگ وطن وجود میں آئی تو مسلمان دو حصوں میں بٹ گئے اور 70میں تین حصوں میں بٹ گئے، پاکستان بننے کے بعد سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری تھی کہ وہ قوم میں اتفاقِ رائے پیداکرتیں مگر ایسا نہیں ہوا ، شیخ مجیب الرحمان نے اپنے 6نکات سے ایک سینٹی میٹر بھی پیچھے ہٹنے سے انکارکردیا تھا ، اس سانحہ کے بعد ملنے والے سبق کے بعد پاکستان کی اکثریتی جماعت سب کو ساتھ لے کر بیٹھی ، ولی خان ، پروفیسر غفور اور مذہبی لیڈروں نے مل کر دستور تشکیل دیا ، ہم اسلامی دنیا کا حصہ ہیں اور استعمار ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے ، 74میں اسلامی کانفرنس کا انعقاد ایک تاریخی موقع تھا جس میں تیل کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کا فیصلہ ہوا ، اس کے بعد انتقام لیا گیا ، پوری اسلامی دنیا کو استعمار نے تقسیم کیا مسلمانوں کی گولیوں سے مسلمان مارے گئے ، امریکہ ، اسرائیل اور ہندوستان کا ملٹری الائنس بن رہا ہے یہ عالمی امن کے لئے بڑا خطرہ ہے ، پاکستان ایک فیڈریشن ہے جہاں صوبے مل کر کام کررہے ہیں، اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبے مضبوط ہوئے ہیں، قائداعظم نے جاگیرداری اور مغربی سرمایہ داری نظام کو مسترد کردیا تھا انہوں نے اسلامی سوشلزم کی بات کی تھی ہم اس وژن سے ہٹ گئے اور بار بار ہٹے ، جب لوگوں کو احساس ہوگا کہ وہ برابر کے شہری نہیں ہیں تو پاکستان مضبوط نہیں ہوگا ، سب کو برابر کے حقوق دینا ہوں گے ، میں سوال کرتا ہوں کہ جس ملک میں 97فیصد مسلمان ہوں کین ان کا مسئلہ کفر و اسلام ہے؟، یہاں کفر واسلام کی جنگ کا سوال نہیں بلکہ ظالم اور مظلوم کا ہے ، دونوں مسلمان ہیں، اصل مسئلہ استحصال اور حقوق کا ہے ، یہاں حقوق سلب ہورہے ہیں ۔ پاک سرزمین پارٹی کے رہنماءرضاہارون نے کہا کہ ضیاشاہد بڑے دانشور ہیں اور ان کی کریڈیبلیٹی کسی شک و شبے سے بالاتر ہے ۔ دوقومی نظریہ جہاز کا ون وے ٹکٹ تھا جو ہمیں ہندوستان سے پاکستان لے آیا ، جہاز رن وے تک تو آگیا مگر گھر نہیں پہنچا ، جب دو قومی نظریہ کا مقصد پورا ہوگیا اور الگ ملک بن گیا تو پھر ایک قومی نظریہ شروع کیا جانا تھا ، پاکستان کو مضبوط کرنے کے لئے ، آج کے نوجوان سے انٹر ایکشن کی ضرورت ہے ، یوتھ پرانی تاریخ میں دلچسپی نہیں لے رہی، آج کی دنیا میں کوئی بات ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ بڑی قومیں اپنے لوگوں پر انویسٹ کرتی ہیں ، میں آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 8سے40تک کا مطالعہ کرتا ہوں تو خوش ہوجاتا ہوں کیونکہ اس میں شہریوں کو ان کے حقوق کی گارنٹی دی گئی ہے ، آرٹیکل 41حکمرانوں کا معاملہ شروع ہوجاتا ہے وہ آئینِ پاکستان میں لوگوں کے حقوق والے آرٹیکل پڑھتے ہی نہیں۔ کسی حکومت نے آج تک لوکل باڈیز سسٹم نہیں بنایا ، ہم نے عام آدمی کو اہمیت ہی نہیں دی، اس کے حقوق کی بات ہی نہیں کی، پاکستان کے خلاف جو سازش ہورہی ہے اس کا محرک احساسِ محرومی کے بوجھ تلے دبے لوگ ہیں۔ غربت کے سبب لوگ ملک کے خلاف سازشوں کے آلہ کار بن جاتے ہیں ، پاکستان میں اختیارات نچلی سطح پر لائے جائیں ، ہم آج تک لوکل باڈیز سسٹم نہیں بناسکے ہیں، رضاہارون نے کہا کہ ہرپارٹی میں الطاف حسین ہے، عدالت میں الطاف حسین ہے ، بیورورکریسی میں الطاف حسین موجود ہیں ، میں تو اپنی جماعت کے الطاف حسین کے خلاف کھڑاہو گیا ، ان کے خلاف کون کھڑاہو گا ؟ اس قوم کے پاس کچھ نہیں ہے ، پروفیشنل تک نہیں ہیں ، تعلیمی ادارے اور مقامی حکومتوں کا نظام تک نہیں ہے ، ہم آج تک قوم نہیں بنا سکے لوکل باڈیز کے الیکشن بھی سپریم کورٹ نے کروائے ہیں کسی جمہوری حکومت کو اس کی توفیق نہیں ہوسکی ، مردم شماری بھی سپریم کورٹ کو ڈنڈے کے زور پر کروانا پڑی ہے ، ہماری جمہوری حکومتیں تو لوگوں کو گننے کے لئے بھی تیار نہیں ہیں ۔ نیب آرڈیننس کو ختم کرنے کے بجائے بہتر بنانا چاہیئے تھا ۔ اس موقع پر اپنے خطاب میں جناح مسلم لیگ کے سربراہ آزاد بن حیدر ایڈوکیٹ نے کہا کہ شیخ مجیب الرحمان اور جی ایم سید غدار نہیں تھے انھیں غدار بنایا گیا تھا، خان آف قلات اور نواب آف بہاولپور کے تحفظات تھے مگر کوئی انھیں سننے کے لئے بھی تیار نہیں تھا ، جی ایم سید نے پاکستان کے لئے جدوجہد میں حصہ لیا ، پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی ہندوستان نے سازشوں کا آغاز کردیا تھا ، 1947ءمیں کراچی میں تعینات انڈین ہائی کمشنر نے اندرونِ سندھ کے دورے کئے اور اس نے لوگوں کو اکسایا کہ وہ کراچی کو دارالخلافہ بنانے کی مخالفت کریں اس وقت لیاقت علی خان مرحوم نے اس ہائی کمشنر کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر ملک سے نکالا ، مئی 1948میں سکھر میں نیشنل کنونشن ہوا جس میں ایک پارٹی وجود میں باچا خان کو اس پارٹی کا صدر اور جی ایم سید کو جنرل سیکریٹری بنایا گیا اور اس پارٹی نے پاکستان توڑنے کا کام شروع کیا ۔ جی ایم سید نے اقوام متحدہ کو درخواست دی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ سندھ کو ایک الگ ملک بنایا جائے اور علی احمد تالپور اس کے پہلے صدر ہوں گے ، ہم نے اس کے جواب میں کراچی صوبہ تحریک شروع کی ، اس کے جواب میں جی ایم سید اور ہمارے درمیان مذاکرات ہوئے جس کے بعد انھوں نے مجھے اپنی پارٹی میں عہدے کی پیشکش کی ۔ پاک سرزمین پارٹی کے رہنماءوسیم آفتاب نے کہا کہ ضیاءشاہد کی کتاب ایک بہترین دستاویز ہے ضیا شاہد نڈر اور بے باک صحافی ہیں اور ملک کے لئے ان کی بے پناہ خدمات ہیں، پاکستان میں بدقسمتی سے جن لوگوں کو اقتدار ملا انھوں نے اس ملک کے لئے کچھ نہیں کیا، ہندوستان ہمارا سب سے بڑادشمن ہے مسلمان کو مسلمان سے لڑوایا گیا، ملک کے مسائل آج بھی وہی ہیں ، آج بھی لوگ بھوکے مررہے ہیں ،ریاست نے آج تک یہ کوشش نہیں کی کہ لوگوں کو ایک بنایاجائے ،حکمرانوں نے لوگوں کو تقسیم کیا ، تاکہ ان کی حکمرانی مضبوط ہو، اقتدار میں آنے والوں نے ملک کے خلاف سازشیں کیں، انہوں نے ملکی سلامتی کے لئے کوئی لائن ڈرا نہیں کی ، تھر میں بچے بھوکے مررہے ہیں ، کراچی میں لوگوں کے ساتھ زیادتیاں ہورہی ہیں، آج لوگ اس لئے ظلم کے کخلاف باہر نہیں نکل رہے کہ آج کا حبیب جالب ، افتخارعارف اور عبیداللہ بیگ اپنا قلم بیچتا ہے، الفاظ کی حرمت بک گئی، ملک کو لوٹنے والے کچھ بھی کرجائیں آج کا دانشور کچھ نہیں کہتا ، قوم کو فرقوں اور زبان کی بنیاد پر تقسیم کردیا گیا ہے ، ملک میں قومی نظرئیے کو فروغ دینے کی ضرورت ہے ۔ سینئرصحافی سعود اے ساحر نے کہا کہ جن علاقوں میں پاکستان بن رہا تھا وہاں مسلم لیگ کا وجود نہیں تھا اور جہاں مسلم لیگ تھی وہاں پاکستان نہیں بن رہا تھا ، مشرقی پاکستان میں مسلم لیگ کی اکثریت تھی وہ غدار ہوگئے اور ہم وفادار ٹہرے ، پاکستان میں لوگوں نے ووٹ بینک بنائے مگر سیاسی جماعتیں نہیں بنائیں کوئی جماعت گراس روٹ لیول تک آرگنائز نہیں ہے ۔ پیپلز پارٹی کو گراس روٹ لیول تک آرگنائز کیا گیا مگر بھٹو نے اپنی جماعت کو خود ہی تتربتر کردیا ، سیاسی جماعتیں اپنی حکومتوں کو غلط کاموں سے روکتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ضیاشاہد ، الطاف حسین قریشی ور مجیب الرحمان شامی یک دور میں جیل گئے مگر آج مادر پدرصحافتی آزادی کا دور ہے ، ملک کی اصل خرابی جاگیرداری ہے جب تک جاگیرداری ختم نہیں ہوگی ملک میں بہتری نہیں آئے گی ، جنوبی پنجاب اورسندھ کا ایم این اے غلاموں کے ووٹوں سے آتا ہے ، جاگیردار ، بیوروکریسی اور فوج ملک پر قابض ہے ، اور وزیراعظم کوئی بھی ہو ، بے نظیر جیسی وزیراعظم کو اسلم بیگ نے کہا کہ پہلے میرے گھر آو¿ پھر وزیراعظم نامزد کریں گے ۔ سی پی این ای کے نائب صدر عامر محمود نے کہا کہ ضیاشاہد نڈر اور بے باک صحافی ہیں انھوں نے اپنی کتاب میں دو قومی نظرئیے کے حوالے سے بہت سارے چہرے بے نقاب کئے ہیں ، 1970کے بعد آج پھر ملک اسی کرائسز میں ہے ، فوجی آمروں اورسول حکمرانوں نے اس ملک کے ساتھ انصاف نہیں کیا ،سیاستدان اس ملک کی صورتحال سے کسی بھی طور بری الذمہ نہیں ہے ، ان پارٹیوں نے صرف جمہوریت کا راگ الاپا ہے ، مگر انصاف نہیں کیا، اس ملک میں کیا کچھ نہیں ہوا ، بھٹو کا جوڈیشل مرڈر کیا گیا ،ایم کیو ایم بھی انصاف کی منتظر ہے ، دوقومی نظریہ مکمل طور پر بھلادیا گیاہے ، ہم آج بھی غلامانہ سوچ کا شکار ہیں ، سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے سے ٹکرارہی ہیں، کسی سیاسی جماعت نے ڈلیور نہیں کیا ، پیپلز پارٹی نے سندھ میں دودھ کی نہریں نہیں بہائیں، اس ملک میں فساد کا بیج بویا جاتا ہے، کراچی مسائل کا گڑھ بناہواہے ،یہ شہر ملک کو 70فیصد ریونیو دیتا ہے مگر کیسی کیسی اس شہر کے ساتھ زیادتیاں کی گئی ہیں ، میڈیا تقسیم ہے ، مجھے نیب کے قانون کے خاتمے کا بیحد دکھ ہے ، اس ملک سے خرابیوں کے خاتمے کے لئے ضیاشاہد کو دوسوکتابیں اور لکھنا پڑیں گی ۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اے پی این ایس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکتر تنویر اے طاہر نے کہا کہ میں ضیاشاہد صاحب کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں کہ انھوں نے کتابوں کا سلسلہ شروع کیا ہے ، مگر مجھے اس کتاب میں شامل کوئی چہرہ ملک دشمن نظر نہیں آتا ، میں سمجھتا ہوں انھیں ملک دشمن بنایا گیا ہے ، جی ایم سید کبھی ملک دشمن نہیں رہے ، بلکہ پاکستان بنانے میں ان کا کلیدی کردار رہا ، جی ایم سید نے سندھ میں مسلم لیگ کو قائم کیا،وہ اچانک کیوں ملک دشمن ہوگئے ، اس کی وجہ تلاش کی جائے ، پاکستان بنانے والی جماعت کے تضادات تھے ، مسلم لیگ کی تشکیل منفی تھی ،پاکستان کی تشکیل دراصل اقلیت کی اکثریت سے بغاوت تھی ، 1947میں جو لوگ غالب آئے ان کا تعلق اقلیتیصوبوں سے تھا ، ان میں سے 87فیصد اقلیتی صوبوں کے اردو اسپیکنگ تھے ، مسلم لیگ اقتدار میں آئی تو ساڑھے تین فیصد اردو اسپکنگ پورے ملک پر حکومت کررہے تھے ۔ جی ایم سید کو اس لئے نکالا گیا کہ وہ لیاقت علی خان کے مرضی کے امیدوار نہیں لارہے تھے ۔ ہمیں یہ بات ماننا ہوگی کہ اقلیت کا راج اکثریت پر نہیں ہوسکتا ، اس کے نتیجے میں بغاوتیں اور سازشیں جنم لیتی ہیں ، پاکستان نے صوبوں کو نہیں بنایا بلکہ صوبوں نے پاکستان کو بنایا تھا ۔ معروف دانشور ڈاکٹر وقاریوسف عظیمی نے کہا کہ بھارت کے حالات آج بھی قائداعظم کے نظریئے کو درست ثابت کر رہے ہیں، ملک چلانے کے لئے مذہب کا نام لے کر محض لوگوں کو خوش نہیں رکھا جاسکتا، لوگوں کو حقوق دینا ہوں گے ، بنگالی کو قومی زبان نہ بنانے کے معاملے پر علیحدگی کی تحریک شروع ہوئی ، وڈیرہ ذہنیت ہمارے اوپر حکومت کرتی رہی ہے ، سرداروں اور وڈیروں کی حکومتیں یہاں رہی ہیں ، مڈل کلاس شہری کا فیصلہ سازی میںکوئی حصہ نہیں ہے ، ہرطرف وڈیرہ ذہنیت قابض ہے بیوروکریسی قوم کی خدمت کا جذبہ نہیں رکھتی ، بیوروکریسی میں آنے والے انسانوں کو کیڑے مکوڑے اور جانور سمجھتے ہیں، ہمارے یہاں رورل اور اربن سوسائٹی میں کلیش ہے ، کراچی میں جب بھی کوئی باہر سے آتا ہے وہ اربن سوچ نہیں اپناتا ، رورل سوچ کو مسلط کرتا ہے ، ایم کیو ایم کی کراچی میں کامیابی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے کراچی کے شہریوں کے بہت سے مسائل کو مس ہینڈل کیا گیا ، سب سے زیادہ ریوینیو دینے والے شہر میں لوگ باہر سے آکر حکومت کررہے ہیں ۔ 60کے عشرے میں ایسے ہی ہوا تھا سڑکیں ٹوٹی تھیں اور لوگوں کو حقوق نہیں دیئے گئے ، جس سے دشمنوں کو موقع ملا۔ جو حکومتیں رہی ہیں ان کا حتساب کیا جائے ، سندھ کو پیپلز پارٹی نے تباہ کردیا ہے ، اندرون سندھ اس سے زیادہ تباہی ہے ۔ کتنے اسپتال اور یونیورسٹیاں بنی ہیں ، کیا حقوق ملے ہیں،،،،،، یہاں انسانوں کو مرنے کے لئے چھوڑدیا گیا ہے ۔ جماعت اسلامی کے نائب امیر برجیس احمد نے اس موقع پر کہا کہ پاکستان کے خلاف سازشوں کا سلسلہ جاری ہے ، حقوق کے مسائل اب بھی موجود ہیں یہ تحریکیں پھر ابھریں گی ، باہر کی قوتیں بھی اس میں اپنا حصہ ڈالتی ہیں ، جو ایشوز بنتے ہیں وہ ختم نہیں ہوتے ، اندراندر بہت زیادہ چیزیں چلتی رہتی ہیں ، ایم کیو ایم بننے سے پہلے60ءمیں بھی یہ باتیں کی جاتی تھیں مگر اسے پکنے میں مدت لگی ۔ یہ چیزیں اب بھی موجود ہیں مگر ان کا توڑ کرنے کی ضرورت ہے ۔ عوام کو ایسی قوتوں کے خلاف دباو¿ بڑھانا ہوگا۔
