لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ضیا شاہد کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ امریکہ جو خود کو سپرپاور کہلاتا ہے۔ وہ ہمیں ڈانٹرہا ہے جس حد تک ہو سکتا ہے وہ ہمیں دبانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ہماری تمام تر قربانیوں کو پس پشت ڈال کر الزام لگا رہا ہے کہ آپ دہشت گردوں کو پناہ دیتے ہیں اور کہہ رہا ہے کہ آپ کا اسٹیٹس واپس لے کر آپ پر پابندیاں لگا دی جائیں گی۔ اس قسم کی دھمکیوں کے بعد وزیرخارجہ کو فوراً امریکہ بھیجنا مناسب نہیں تھا۔ آج کے سلامتی کمیٹی کے اجلاس سے خوش خبری ملی ہے کہ وزیرخارجہ کی وہاں روانگی روک دی گئی ہے۔ پاکستان افریقہ کی چھوٹی موٹی ریاست نہیں بلکہ ایک ایٹمی قوت ہے جس کی تربیت یافتہ فوج دنیا کی مانی ہوئی فوج ہے۔ ہماری نیو کلیئر پاور اور فوج کی تربیت اور اہلبیت سے پوری دنیا واقف ہے۔ ایسے حالات میں ہمیں چپڑاسیوں کی طرح ڈانٹ پلائی جا رہی ہے کہ ہم یہ بھی چھین لیں گے یہ بھی روک دیں گے۔ تو روک لیں۔ قومیں مشکلات کا سامنا کر کے بھی ابھرتی ہیں اور اپنے پاﺅں پر کھڑا ہونے کا موقع بھی اسی رح ملتا ہے۔ وہ لگا دیں جتنی پابندیاں لگا سکتے ہیں۔ جو حکومت آتی ہے وہ کشکول توڑنے کا نعرہ لگاتی ہے حقیقت اس میں کچھ نہیں ہوتی ہمیں نان نیٹو اتحادی کا اسٹیٹس دیا تھا۔ اور کچھ مراعات بھی دی گئی تھیں۔ ٹرمپ بہادر جو چاہیں روکلیں۔ ہم ”سروایوو“ کر کے دکھائیں گے۔ ٹرمپ کو تو ”ویگا بانڈ“ کہا جاتا ہے۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ اس کا دماغ درست نہیں ہے۔ یہ پاگل ہے۔ اس کے فیصلے معقول نہیں ہیں اس کا اپنا ملک پریشان ہے۔ اس قسم کے پاگل آدمی کی دھمکیوں کے بعد وزیرخارجہ کو وہاں بھیجنا بے و قوفی تھی ٹرمپ تو ہمارے وزیراعظم سے نہیں ملتا تو وزیرخارجہ سے کیا ملے گا۔ اگر یہ جاتے بھی تو اس کا نائب اور اس کا نمائندہ ان سے ملنے آتا۔ روس اور چین نے امریکہ کے بیان کی شدید مذمت کی ہے یہ خوش آئند ہے۔ دوست ملک جو ہمارا ساتھ دینے کو تیار ہیں۔ انہیں ساتھ ملانا چاہئے۔ ایک زمانے میں شاہ ایران، علاقے کا ایس ایچ او ہوا کرتا تھا۔ اب انہوں نے سعودی عرب کو تھانے دار مقرر کر دیا ہے۔ ہمارے وزیراعظم نا جانے کیوں امریکہ کے بیان کے فوراً بعد سعودی عرب چلے گئے۔ اس کا اس مسئلے سے کیا تعلق ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ سعودی عرب میں پاکستانیوں کی کیا اہمیت ہے اور اس کے الٹ امریکیوں کو وہ کس طرح دیکھتے ہیں۔ امریکہ کے معاملات میں ہماری سفارتی کمزوریوںکا عمل دخل ہے۔ امریکہ کے اس رویے کی امید پہلے سے تھی۔ ٹرمپ نے آتے ہی جن دو چیزوں پر اپنی پالیسی کی بنیاد رکھی وہ تھی۔ مسلمان دشمنی، دوسرا بھارت کی پشت پناہی۔ پاکستان اسلامی ملکوں میں سب سے مضبوط ملک گنا جاتا ہے۔ اس وجہ سے کسی کو بھی برداشت نہیں ہوتا کہ وہ پاکستان کی مضبوطی کو کس طرح برداشت کرے۔ اقوام متحدہ میں ہماری مندوب ملیحہ لودھی بہت عرصہ سے بیٹھی ہوئی ہے انہیں بینظیر بھٹو لے کر آئی تھیں۔ اس کے بعد تین حکومتیں بدل چکیں۔ لیکن وہ اسی جگہ پر قائم، انہوں نے پاکستان کیلئے کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا۔ نہ ہی امریکہ میں کوئی لابنگ کی جس کا نتیجہ ٹرمپ کی تقریر کی صورت میں ہمیں مل گیا۔ نیب شریف فیملی کو نوٹس پر نوٹس بھیجے جا رہی ہے۔ شریف فیملی کی جگہ کوئی عام آدمی ہوتا تو اب تک نیب نے لٹکا دیا ہوتا۔ لاہور میں ان کا دفتر ”سب جیل“ کی مانند ہے۔ کوئی شخص داخل ہو جائے تو نکلنے کا تصور ہی نہیں ہوتا۔ لاہور ہائی کورٹ نے عدالتوں اور جے آئی ٹی کے خلاف تقریریں کرنے والوں کو روکا ہے اور ایسی بیان بازی سے منع کیا ہے کہ جس سے توہین عدالت ہوتی ہے۔ یہ ایک اچھا اقدام ہے۔ عدالتوں پر کھلم کھلا تنقید کرنا اچھا عمل نہیں ہے۔ ماہر قانون دان کہتے ہیں کہ شریف فیملی کے ساتھ سپریم کورٹ ”ہاتھ بہت ہولا“ رکھا ہے اور سحت رویہ اختیار نہیں کیا۔ نوازشریف صاحب شاید اس نرم رویے سے بھی خوش نہیں ہیں۔ سپریم کورٹ کا کام ہے کہ فیصلہ دیا ہے کہ اس پر عملدرآمد بھی کروائے۔ اعتزاز احسن ایک بڑا قانون دان ہے۔ اس نے بار بار کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے شریف فیملی کے ساتھ ہاتھ بہت ہولا رکھا ہے۔ سابق وزیرخارجہ خورشید محمود قصوری نے کہا ہے کہ ٹرمپ کا ایکشن غیر متوقع نہیں تھا۔ مہینوں سے اندازہ کیا جا رہا تھا کہ اس قسم کا ایکشن ہونے جا رہا ہے۔ امریکہ کے سٹیووبنین کہہ رہے تھے کہ امریکہ کو افغانستان سے فوجیں نکال لینی چاہئیں۔ جبکہ افغانستان میں ”سروو“ کرنے والے جرنیلوں کی رائے مختلف تھی۔ آخر میں فیصلہ یہ ہوا ہے کہ وہاں ٹھک ٹھک جاری رکھی جائے۔ تا کہ اپنی شکست کو چھپایا جا سکے۔ بالکل اسی طرح جیسے ویت نام سے امریکی فوجی بھاگے تھے۔ ہیلی کاپٹروں کے ساتھ لٹک لٹک کر۔ یہ تاریخ کا حصہ ہے۔ وہ جرنیل جو افغانستان میں تعینات رہے۔ اپنے کھاتے میں شکست نہیں لکھوانا چاہتے تھے۔ جرنیل یہاں سے چھتر کھا کر بھاگنے کی بدنامی برداشت نہیں کر پا رہے تھے اسی لئے انہوں نے یہ فیصلہ کیا۔ یہ کوئی غیر متوقع قدم نہیں تھا۔ حالانکہ الیکشن میں وعدہ کیا تھا کہ ہم یہاں سے فوجیں نکال لیں گے۔ یہ ایک ضدی گھوڑا ہے جلدی نہیں مانتا۔ اب انہوں نے لمبے عرصہ کا پلان بنایا ہے پاکستان کو بھی ایسا ہی کرنا ہو گا۔ ہمیں چین، اسلامی ممالک، ترکی بالخصوص سعودی عرب کو اعتماد میں لینا چاہئے۔ سعودی عرب ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس لئے سعودی عرب اس معاملے میں ہمارے لئے اہم کردار ادا کر سکتا ہے کیونکہ امریکہ سعود عرب کے خلاف فیصلہ کر چکا تھا لیکن اس کے باوجود انہوں نے پالیسی بدلی اور سعودی عرب کے سامنے جھک گئے۔ اس کا رابطہ امریکہ سے کلیدی بن چکا ہے۔ اسی طرح برطانیہ اور یورپی یونین کے ذریعے بھی ابھی لابنگ ہو سکتی ہے کیونکہ برطانوی پارلیمنٹ میں کشمیری ہاﺅس آف کامن اور ہاﺅس ااف لارڈ میں ہیومن رائٹس کی لابنگ بھی بڑی مصبوط ہے۔ اسی طرح یورپی یونین میں ہیومن رائٹس کی لابنگ مضبوط ہے۔ ہمارے وزیرخارجہ کو امریکہ نہیں جانا چاہئے۔ ہمیں بتا دینا چاہئے کہ ہماری غیور قوم کسی طرح بھی اسے برداشت نہیں کرے گی۔ اگر عوام ہی راستے روک دے اور ان کی سپلائی کراچی سے ہی نہ جانے دے تو کیا کریں گے عوام گولیاں ماریں گے۔ امریکہ کے ساتھ ہمیشہ اختلافات رہے ہیں۔ ہمیں کہتے تھے ایران پر حملہ کرنا ہے۔ پائپ لائن نہیں بچھانی، عراق پر حملہ کرنا ہے ہم نے شدید مخالفت کی اور اسے ماننا پڑا۔ امریکی حکومت بھی سمجھتی ہے کہ اب مولا جٹ قسم کی انتظامیہ آئی ہے۔ ٹرمپ کی کرتوتوں کی وجہ سے سب اس سے ناراض ہیں۔ یورپ میں بھی اس کی مخالفت بہت بڑھ چکی ہے۔ سابق وزیرخارجہ سردار آصف احمد علی نے کہا ہے کہ ٹرمپ کا اقدام کوئی نئی بات نہیں۔ بل کلنٹن کے دور سے امریکہ کا بھارت کے ساتھ گٹھ جوڑ چل رہا ہے۔ اب کھل کر سامنے آ گئے ہیں اور انہوں نے بھارت کی حمایت کر ڈالی ہے۔ ٹرمپ خود پریشر میں ہے۔ روزانہ کوئی نہ کوئی خبر ٹرمپ کے خلاف واشنگٹن سے آتی رہتی ہے۔ کانگرس نے اپنی ناکامی کو چھپانے کا یہ طریقہ اختیار کیا ہے۔ وہ اپنی 16 سالہ ناکامی کو دہرانا چاہتے ہیں۔ وہ اپنی حماقتوں کو پاکستان کے کھاتے میں ڈال دینا چاہتے ہیں۔ ہماری حکومت کی ناکامیاں ہیں پچھلے چار سال میں وزیرخارجہ ہی نہیں تھا اور ہم نے بھارت کے لئے وہاں لابنگ کھلی چھوڑ دی۔ ٹرمپ اب 4 ہزار فوجی اور بھیج کر کیا کر لیں گے کیا وہ ناکامی کو کامیاب بنا سکیں گے۔ بینظیر دور میں ہم نے بہت کاوش کے بعد مضبوط لابنگ بنائی اور”پاکستان کا کیس“ کے نام سے ایک پالیسی تیار کی۔ جس کے نتیجے میں وہاں ہمارے حق میں آواز بلند ہونے لگی اور ہمارے حق میں لکھا جانے لگا۔ ہم نے میدان خالی چھوڑ دیا۔ پچھلے 4 سال کے دوران وزیرخارجہ ہی موجود نہیں تھا میاں نوازشریف شاید مودی، شاہ سلیمان، شیعوں کو ساتھ اور ترک کے ساتھ دوستی بنانا چاہتے تھے۔ انہوں نے ذاتی دوستیاں بنائیں اور واشنگٹن کو کھلا چھوڑ دیا۔ اور بھارت نے اس میں گھس کر جگہ بنا لی۔ چین ہمارے حق میں بولا۔ اس کا شکریہ ادا کرنے کی بجائے ہم سعودی عرب بھاگ کر گئے سیاسی حکومت جب تک تندہی سے کام نہیں کرے گی سفارتکار کی اتنی اہمیت نہیں ہوتی۔ اس کے لئے وزیراعظم کو ایکٹو رول ادا کرنا پڑتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو سفارتکاری فیل ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں تعینات امریکی سفیر کی کیا اہمیت ہے ہمارے آرمی چیف نے ان سے ملاقات کی لیکن امریکہ نے اس کی کیا ویلیو کی۔






































