تازہ تر ین

برمی فوجیوں کی بچوں کی ماﺅں کے سامنے سنسنی خیز حرکات

ینگون(خصوصی رپورٹ)” میں اپنے دو بچوں کے ساتھ گھر میں تھی کہ اچانک برمی فوجیوں نے ہم پر یلغار کردی۔ 5مسلح اہلکار میرے بچوں کے سامنے ہی مجھے زیادتی کا نشانہ بناتے رہے۔“ اتنا کہہ کہ میانمار کے جہنم کدے سے جان بچا کر بنگلہ دیش پہنچنے والی رنج والم کی تصویر شمائلہ (فرضی نام) کی آواز رندھ گئی اور اس کی آنکھوں سے اشکوں کا سیل رواں ہوگیا۔ دی اسٹار آن لائن کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ نے بنگلہ دیش پہنچنے والی روہنگیا خواتین پر تحقیق کرنے کیلئے ایک فیکٹ فائنڈنگ مشن قائم کیا ہے، جس میں زیادتیوں پر تحقیق کرنے والی اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ (Pramila Patten) بھی شامل ہیں۔ پرامیلا ، بنگلہ دیش میں مہاجرین کے مختلف کیمپوں میں جاکر برمی فوجیوں اور بدھ مت دہشت گردوں کے ہاتھوں زیادتیوں کا شکار ہونے والی خواتین سے بات چیت کرکے ان پر ڈھائے جانے والے مظالم کی روداد لکھت ہیں۔ ان کا کہناہے کہ ”اس ہفتے جو صورتحال دیکھنے میں آئی ہے، اسے دیکھ کر میں انتہائی درجے پریشان ہوچکی ہوں۔ میں درجنوں خواتین کا ڈیٹا اکٹھا کرچکی ہوں۔ میانمار کے دہشت گرد فوجیوں نے معصوم لڑکیوں کے ساتھ جو کچھ کیا ہے، اس سے انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔“ اقوام متحدہ کے مبصرین کا کہنا ہے کہ میانمار سے بڑی تعداد میں ایسی نوجوان خواتین بھی بنگلہ دیش پہنچی ہیں، جنہیں برمی افواج اہلکاروں نے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا۔اقوام متحدہ کے مطابق ایسی لڑکیوں کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے، جنہیں بدھ مت دہشت گرد اور برمی فوجی مسلمانوں کی آبادیوں سے اٹھا کر لے گئے تھے اور تاحال ان کا کچھ پتا نہیں چل سکا۔ شمائلہ ، بنگلہ دیش میں قائم لیڈر مہاجر کیمپ میں مقیم ہے، جہاں اقوام متحدہ کی ٹیم نے ہفتہ کے روز اس سے ملاقات کی۔ وہ تین دن مسلسل پیدل چل کر بنگلہ دیش پہنچی ہے۔ عزت لٹنے کے بعد وہ جان بچانے کیلئے اپنے دو بچوں لیکر بے سروسامانی کے عالم میں گھر سے نکلی تھی۔ اقوام متحدہ کے مبصرین کا کہنا ہے کہ طویل پیدل سفر کی وجہ سے اب بھی شمائلہ کے پیروں سے خون بہہ رہا ہے۔ شمائلہ اپنی چھ سالہ بچی کا ہاتھ تھامے ہوئے تھی اور بتارہی تھی کہ ” ان سب نے باری باری مجھے سے زیادتی کا نشانہ بنایا اور میرے بچے یہ منظر دہشت کے عالم میں دیکھتے رہے۔ میرا شوہر گھر میں نہیں تھا۔ برمی فوجی درندے جب چلے گئے تو میں اپنے دونوں بچوں کو لے کر وہاں سے بھاگ نکلی۔ میرے تین بچے گھر کے باہر کھیل رہے تھے۔ میںنے باہر آکر انہیں ڈھونڈا، مگر ان کا کچھ پتا نہیں چلا۔ اب تک نہ شوہر کا کچھ پتا ہے اور نہ ہی ان بچوںکا۔ شاید انہیں قتل کردیاگیا ہوگا یا زندہ جلا دیا گیا ہوگا“۔ میڈیکل کے شعبے سے تعلق رکھنے والی نورین تسنوپہ ” لیڈامہاجر کیمپ“ میں اقوام متحدہ کے گشتی کلینک سے وابستہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ” ±میں نے جتنی زخمی روہنگیاخواتین کا علاج کیا ہے، ان میں سے اکثر اجتماعی زیادتی کا شکار ہوئی ہیں۔“نورین نے بتایا کہ ”زیادہ تر خواتین اس قسم کی باتوں کو چھپاتی ہیں، تاہم ہماری ٹیم اکتوبر 2016ءسے روہنگیا پناہ گزینوں کے علاج معالجے میں مصروف ہے، اس لئے ہم آسانی سے ایسی متاثرہ خواتین کو شناخت کرکے ان کا علاج کرتے ہیں۔“ 20سالہ بدقسمت عائشہ بھی ان خواتین میں سے ایک ہے جو اجتماعی عصمت دری کا شکار ہوئیں۔ اس کا نورین کے کلینک میں علاج ہورہاہے۔ اس نے بتایا کہ صبح آٹھ بجے بدھ مت دہشت گردوں نے ہمارے گاﺅں پر حملہ کرکے گھروں کو جلانا شروع کیا تو سب گاﺅں والے بھاگنے لگے۔ لیکن مجھے اپنی جان سے زیادہ اپنے بچے کی فکر تھی۔ جب بچے کو لینے کیلئے گھر میں داخل ہوئی تو میرے پیچھے فوجی اہلکار بھی گھر میں گھس آئے اور انہوں نے مجھے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ میرا شوہر بھی گاﺅں والوں کے ساتھ جان بچا کر نکلا تھا۔ میں عزت لٹنے کے بعد وہاں سے نکلی اور اب تک اپنے شوہر سے نہیں مل سکی۔ میں اسے مختلف کیمپوں میں ڈھونڈرہی ہوں۔ مگر تاحال اس کا کوئی سراغ نہیں مل سکا“۔ واضح رہے کہ اس سے قبل بھی بہت سی روہنگیا خواتین سے زیادتی کا انکشاف ہوا ہے۔ جبکہ کئی خواتین کو زیادتی کے بعد قتل بھی کردیا گیاہے۔ بنگلہ دیش کے ضلع کاکس بازار میں اب بنگلہ دیش ڈاکٹر اور کئی بین الاقوامی تنظیمیں روہنگیا خواتین اور بچوں کو طبی امداد فراہم کررہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بہت ساری خواتین انہیں زیادتیوں کے بارے میں خوف اور بدنامی کے ڈر کی وجہ سے بتانے سے کتراتی ہیں، جس کے نتیجے میں انہیں ضروری علاج فراہم نہیں ہوسکتا۔ طبی کارکنوں کا کہناہے کہ اگر متاثرہ خواتین کی نشاندہی اور انہیں طبی سہولیات فراہم نہ کی گئیں تو ان کی صحت پر طویل المدت اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ تاہم فی الوقت اس مسئلے کی شدت کا اندازہ لگانا بھی ایک مشکل کام دکھائی دے رہا ہے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain