لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ میاں نوامشریف اب تک پارٹی در ہیں۔ تمام پارٹی کے ارکان نے ان کے پاس جانا ہے شاہد خاقان عباسی بھی پارٹی کے رکن ہیں۔ اعتراضات کرنے والوں کے چند اعتراض قابل فہم ہیں وہ یہ کہ اسلام کا پنجاب ہاﺅس استعمال کرنا۔ وہاں پروٹوکول لینا نوازشریف کا حق نہیں لیکن ان کے چھوٹے بھائی وزیراعلیٰ پنجاب ان کے مقرر کردہ وزیراعظم موجود ہیں۔ میاں صاحب جس پر ہاتھ رکھیں وہی وزیراعظم ہے۔ وہی وزیراعلیٰ ہو گا جسے وہ کہیںگے۔ لہٰذا وہ بادشاہ ہی۔ شاہی خاندان ہی اسی طرح ہوتا ہے۔ وہ جو چاہے، اپنی مرضی کے مطابق کر سکتا ہے۔ میں نے ایک خط وزیراعظم کو لکھا ہے کاپی وزیر مواصلات کو بھی بھیجوں گا۔ تیسری کاپی نیشنل ہائی وے کمیشن کو بھی ہے۔ میں بہاولپور تک سڑک پر گیا راستے میں چھ گاڑیاں الٹی ہوئی یا فٹ پاتھ پر چڑھی ہوئی تھیں۔ میں نے یہ باتیں وزیراعظم کو لکھی ہیں۔ ایسے ایسے ملک ہیں جہاں چھ چھ دن بارشیں، فوگ، برف باری رہتی ہے۔ لیکن ان ملکوں میں بجلی نہیں جاتی۔ ساہیوال سے لاہور تک مجھے 7 گھنٹے لگ گئے۔ ہر بڑے شہر سے پہلے دو، دو ٹول ٹیکس لئے جاتے ہیں۔ لاہور سے ملتان تک کوئی ”ایرو“ یا ”یو ٹرن“ لکھا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔ بندے دھڑا دھڑ مرے جا رہے ہیں اور مولوی عبدالقیوم صاحب، ارب پتی جن کا جنوبی پنجاب سے تعلق ہے۔ وہ کس چیز کا وزیر مواصلات ہے۔ اسے اتنا نہیں پتا کہ این ایچ اے وفاق کے انڈر میں آتا ہے وہ کیا کام کر رہا ہے۔ کسی اور ملک میں اگر ہلاکتیں ہوتیں تو وہ وزیراعظم اور وزیر موصوف پر قتل کا کیس کر دیتے۔ ہائی وے تو ہماری خونی سڑک ہے۔ کوئی سائن بورڈ کوئی ٹرن، کوئی علامت نہیں کہ کس طرح چلیں۔ میں سیاست کی بات ہی نہیں کرتا۔ خدا کرے نوازشریف شہباز شریف ہمیشہ قائم رہیں کم از کم ایشوز تو حل کریں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے درست فیصلہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں کہ اس پر تحقیقات ہونی چاہئیں آپ بار بار مجھ سے کیا پوچھتے ہیں؟ پاکستان میں دو شاہی خاندان اقتدار میں ہیں ان کی باریاں لگی ہوئی ہیں۔ یہاں جمہوریت تو نظر نہیں آتی۔ لہٰذا جمہوریت پر کیا بات کی جائے! ہمارے محکمے کام نہیں کرتے۔ پیسے بٹورتے ہیں۔ کروڑوں روپے وصول کر کے این ایچ اے والے سو رہے ہیں۔ انہیں کوئی حادثہ نظر ہی نہیں آتا۔ ٹول ٹیکس وصول کرنا یاد ہے۔ کوئی اشارے یاد نہیں۔ لاہور میں دس فٹ کے فاصلے پر پانی موجود تھا۔ 1960ءمیں انڈس واٹر ٹرسٹی ہوا لاہور میں دریائے راوی بہتا تھا۔ ستلج، بیاس اور راوی کے پانی پر ہم نے بھارت کا حق مان لیا۔ چناب جہلم اور سندھ پر انہوں نے ہمارا حق مان لیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہی معاہدہ کہتا ہے کہ ہم نے دریا نہیں بیچے۔ دریاﺅں کے زرعی پانی کا مسئلہ تھا۔ لیکن تین اور چیزیں تھیں جن کے لئے دریاﺅں کا پانی استعمال ہونا تھا۔ جو اس معاہدے میں درج ہیں۔ بھارت نے ایک شق شامل کروائی کہ جہلم اور چناب اور سندھ جو پاکستان کے حصے میں آئے ان میں بھی جہاں جہاں وہ بھارت سے گزرتے ہیں۔ وہ اس کا پانی زراعت کے لئے استعمال کرتا ہے۔ بھارت نے معاہدے میں یقین دہانی کرائی ہے اور وہ بھی کرتا ہے ہمارے نااہل لوگ دستخط کر دیتے ہیں معلوم نہیں ہوتا کہ اپنے حقوق کس طرح منواتے ہیں۔ تمام سیاسی پارٹی کے رہنماﺅں سے کل بھی درخواست کی کہ پانی کے مسئلے پر ایک ہو جائیں اس میں سیاست نہ کریں۔ بھارت معاہدے کی رو سے راوی ستلج اور بیاس کا پانی بھی نہیں روک سکتا۔ جس میں آبی حیات، زراعت اور پین کے مقاصد کا پانی شامل ہے۔ راوی میں اب گٹروں کا پانی ڈالا جا رہا ہے۔ بھارت نے ستلج اور راوی کا مکمل پانی روک رکھا ہے۔ جس کا اسے اختیار نہیں ہے۔ دریا بہتا ہے تو زمین کے نیچے سطح اپنی جگہ پر قائم رہتی ہے۔ جو پانی دس فٹ پر تھا۔ اب 650 فٹ نیچے جا چکا ہے۔ واسا کے ٹیوب ویل جو اب لگ رہے ہیں انہیں 1300 فٹ نیچے جا کر پانی ملا ہے۔ پانی کی ری چارجنگ ختم ہو گئی ہے۔ ہمیں بوتلوں کے پانی پر لگا دیا ہے۔ ستلج دوسرے نمبر پر بڑا دریا تھا۔ اس کا پانی بھی رک جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے پورا چولستان بنجر پڑا ہے۔ جبکہ بھارت راجستھان کو آخر تک سیراب کر رہا ہے۔ 15 سے 20 فیصد ہی پانی آتا رہے تو آبی حیات اور پینے کا پانی ملتا رہے۔ 2020ءکے بعد پانی کی قلت کی وجہ سے قحط زدہ علاقے بن جائیں گے۔ تمام سیاستدان خاموش بیٹھے ہیں۔ ایوب خان اور اس کے رفقاءکار نے ہمارا مستقبل برباد کر دیا۔ یہ پانی کا معاہدہ کر کے۔ ایک اور خطرناک بات یہ کہ اس معاہدے کے مطابق بھارت کے چار گندے نالے یہاں آئیں گے اور ہم نے انہیں ”مین ٹین“ کرنا ہے۔ وہ ہمارا سارا صاف پانی لے گیا۔ 20 فیصد بھی نہیں چھوڑ رہا اور اپنا گندا پانی ہماری طرف بھیج رہا ہے۔ چنیوٹ کے قریب ایک گاﺅں ہے۔ جہاں گندے پانی کا نالہ جو بھارت سے آتا ہے۔ اس میں ایک بھینس گر کر مر گئی۔ اس گندے نالے میں بھارت اپنا صنعتی فضلا ڈالتا ہے اور پاکستان بھی اس میں ڈالتا ہے۔ بھینس کو بچانے کیلئے ایک خاندان کے پانچ بندے باری باری اس گندے پانی میں اترتے رہے اور مرتے رہے۔ ہمارے سیاستدان مال کمانے اور دوسرے ملکوں میں بھیجنے میں لگے ہوئے ہیں۔ قانون کے مطابق یہ صنعت کے ساتھ ”ٹریٹ منٹ“پلانٹ لگنا ضروری ہے۔ انڈس واٹر ٹریسٹی میں لکھا ہوا ہے کہ بھارت کی جانب سے آنے والے آلودہ اور گندے پانی کو ہم روکیں گے نہیں بلکہ اسے محفوظ کریں گے۔ ہم اس کے پابند ہیں۔ یہ معاہدہ قابل قبول ہے؟ ہم نے ملتان میں کسان مشاورت کے نام سے ایک میٹنگ بلائی اس میں یوسف رضا گیلانی آبی وسائل کے وفاقی وزیر جاوید علی شاہ صاحب بھی موجود تھے۔ اکثر لوگوں کو یہ تک معلوم نہیں ہے کہ آبی وسائل کی وزارت بھی موجود ہے۔ ممتاز بھٹو نے کسی نہ کسی پارٹی میں تو جانا ہی تھا۔ انہیں ذوالفقار علی بھٹو نے کان سے پکڑ کر نکال دیا تھا۔ آصف زرداری قریب تک نہیں آتے۔ انہوں نے سندھ نیشنل فرنٹ کے نام سے دیگر قوم پرست جماعت بنا رکھی ہے۔ وہ کبھی جیتی نہیں۔ وہ پہلے ن لیگ میں گئے اب انہوں نے تحریک انصاف جوائن کر لی ہے۔ سابق وزیراعلیٰ اور سابق گورنر آہستہ آہستہ ن لیگ کو چھوڑتے رہے کیونکہ وہ آصف زرداری کو ساتھ ملا رہے تھے۔ اب ممتاز بھٹو کے پاس ایک ہی راستہ تھا کہ وہ تحریک انصاف میں شامل ہو جائیں لہٰذا وہ اس میں آ گئے۔ ماہرقانون، ایس ایم ظفر نے کہا ہے کہ جسٹس کھوسہ پہلے ہی بہت کچھ لکھ چکے ہیں وہ انہیں مافیا قرار دے چکے ہیں کہہ چکے ہیں کہ ان پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ اور یہ حالیہ فیصلے ہیں لہٰذا انہوں نے اب درست کہا کہ وہ کس طرح اس معاملے کو سنیں۔ سیاستدانوں کی کرپشن اور مسائل کی وجہ سے حکومت نام کی چیز نظر نہیں ااتی۔ انہیں اپنے جھگڑے نظر ااتے ہیں۔ عوام کے مسائل دکھائی نہیں دیتے۔ شاہی کام ایسے ہی ہوتے ہیں جس میں کام کی بجائے اپنی شان و شوکت کی طرف توجہ دی جاتی ہے۔ سڑکیں ٹھیک کرنا۔ ایشوز حل کرنا ہمارے سیاستدانوں کا مقصد نہیں۔