All posts by Daily Khabrain

میرے خان اعظم کچھ عرض کرنا چاہتی ہوں

سلمیٰ اعوان
میرے پیارے وزیر اعظم Seeds of Hope کے دنوں والی سرگرمیوں کے بعد میں آج ایک بار پھر تمہیں دیکھ رہی ہوں۔یہ اکادمی ادبیات اسلام آباد کا فیض احمد فیض ہال ہے۔جہاں 4نومبر کی اس سہ پہر جو لوگ موجود ہیں۔انہیں قسموں اور خانوں میں بانٹوں تو پہلے نمبر پر70 ستر سال سے اوپر میری طرح کے لوگوں کی ایک بھاری اکثریت ہے۔ دوسرے نمبر پر 50سے اوپر کی اقلیت نظر آتی ہے۔ بیس سے اوپر کے ٹانواں ٹانواں دانے بھی کہیں کہیں جلوہ دکھا جاتے ہیں۔پاکستان بھر سے آنے والے یہ اہل قلم یہاں ایوان اعزاز کی تقریب میں شرکت کے لیے جمع ہیں۔
اب ذرا دیکھو نا خان اعظم ہم جیسے عمر رسیدہ لوگوں کو دو بجے پہنچنے کا کہا تھا۔ مگر ڈیڑھ بجے ہی ہمارا داخلہ شروع ہوگیا۔ پرس کی ممانعت،موبائل فون نہیں، پانی کی بوتل نہیں۔سکرینگ کے لیے جب خیمے کی طرف دھکیلا جارہا تھا۔طاہرہ اقبال ہماری ممتاز لکھاری نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
”میں نے اندر نہیں جانا۔باہر کھڑے کچھ ادیب تلاشی کے خلاف احتجاج کی بات کرتے تھے۔ہمیں ان کا ساتھ دینا چاہیے۔“
”طاہرہ مجھے تو کوئی احتجاج کرنے والے نظر نہیں آرہے ہیں۔جنہوں نے احتجاج کرناہے وہ تقریب میں آئیں گے ہی نہیں۔دیکھ لینا۔حرف کی عظمت کے سچے عاشقوں کو اپنے وقار کا بہت احساس ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہیے۔ہم تو دوستوں کی دید سے پیاس بجھانے آگئے ہیں۔
سامنے ٹنگی بڑی سکرین پر لکھاریوں کے چہرے دیکھتے دیکھتے دفعتاً ایک موہنی سی انتہائی دلکش خاتون نے کبھی کبھی سٹیج پر آکر تمہارے جلد آنے کا مژدہ سنانا بھی شروع کردیا۔کہیں سے سرگوشیوں میں رقص کرتی آواز کانوں میں پڑی۔چیرمین صاحب کی اہلیہ محترمہ۔بھئی مزے۔“
میں نے پورے ہال پر نظریں دوڑاتے ہوئے سوچا۔
اکادمی ادبیات پر بڑی مٹی پڑی ہوئی تھی چلو اس کی کچھ تو گرد جھڑی۔ہال گو پہلے کا بنا ہوا تھامگر اس کی کچھ صورت گری ہوئی۔اس بے حال ملک کے اداروں کے چہرے سنوارنے بہت ضرور ی ہیں اب۔باہر شگفتہ اور اندر مرجھائے ہوئے پھولوں کی کثرت ہے۔ ایسے میں ایک نظر نواز مسکراتا چہرہ آکر کچھ تو مسرور کرتا ہے۔نہیں بھئی پروگرام کو جاندار بنانے کی سائنسی اپروچ مجھے بہت پسند آئی ہے۔بیوی ہے تو پڑی ہو۔
بالاخر طویل اور تھکا دینے والے وقفوں میں تمہارا دیدار نصیب ہوا۔ادارے کے سربراہ کے بعد تمہارا خطاب تھا۔میرے پیارے قدرت نے بلاشبہ تمہیں کرشماتی شخصیت سے نوازا ہے۔اب کوئی بات ہے بھلاکہ ایک شریں سی آواز نے ادارے کے سربراہ کو اس کے نام کے ساتھ جب بلایا تھا۔کاغذ پینسل تو تمہارے اے ڈی سی کے پاس ہوتا ہی ہوگا۔نوٹ کرنے کی ضرورت تھی ادارے کے سربراہ کو اُس کے نام سے مخاطب کرنا بھی تمہارے لیے بے حد ضروری تھا۔جو بہرحال اپنے عملے کے ساتھ گذشتہ چند ہفتوں سے اِس تقریب کے انعقاد کے لیے سرتاپا سرگرم تھا۔
کاش تم ذرا اس سے بات کرکے کچھ پوچھ لیتے کہ ملک کے کِس کِس حصّے سے لوگ آئے ہیں۔ کچھ انہیں سراہ دیتے۔سامنے کی پوری نشست تو تمہارے لوگوں نے سنبھال رکھی تھی۔ ایک جانب ملک کا بہت بڑا شاعر،ڈرامہ نگار،کالم نگارامجد اسلام امجد بھی بیٹھا تھا جسے ترکی جیسے دوست ملک کے حکمران طیب اردگان نے باقاعدہ سٹیج پر چڑھا کر اپنے ہاتھوں سے انعام سے نوازا تھا۔ہمارا سربراہ مملکت آگاہ ہی نہیں۔میرے خان ایسی ناواقفیت کیا پسندیدہ ہے؟
ریاست مدینہ کا ذکر،مغرب کو بہت جاننے جیسے جملوں کی دہرائی اور بار بار دہرائی،اسلامی تاریخ اور جنگوں کا ذکر،عالموں کی اہمیت، ابن بطوطہ اور البیرونی کا ذکر بہت اچھی بات۔ ہاں اپنے ملک کے صاحب علم و قلم و فکرسے تھوڑی سی شناسائی کو بھی تو ضروری سمجھو۔
شفقت محمود سے دو تین بار مخاطب ہونا پسندیدہ۔ مگرادارے کے سربراہ کو بھی تو مخاطب کرنا اخلاقیات،محبت اور اپنایت کے زمرے میں آتا ہے۔ سوشل میڈیا نئی نسل کو خراب کررہا ہے۔غصہ نہیں کرنا۔ کئی چیزیں تو تمہارے اپنوں کی ایجاد کردہ ہیں۔
ہاں اب میں یہ بھی کہے بغیر نہیں رہ سکتی کہ تھوڑا سا اگر اپنے اردگر د کسی صاحب علم سے بھی مشورہ کرلیا کرو تو اس کا فائدہ ہی ہوگا۔منصور آفاق تمہارا سچا عاشق صادق بھی ہے اور صاحب علم بھی۔
میرے خان اعظم تم ہم غریبوں کو کتنی خوش خبریاں دیتے ہو۔اب کیا کہوں کہ جب لاہور سے چلی تھی تو پیٹرول 138روپے لڑ ڈلوایا تھا اور جب اگلے دن پیٹرول پمپ پر رکی تو ماشا ء اللہ سے 8روپے اضافے کی خوش خبری سنی۔
تم نے فیتہ کاٹا۔چلو اکیڈیمی آف لیٹرز کی شان میں اضافہ ہوا۔ہم خوش ہوئے۔پر ایک درخواست تو ادارے کے سربراہ ڈاکٹر یوسف خشک سے بھی کرنی ہے۔
ہال میں بہت سارے نامی گرامی لوگ موجود نہیں۔بانو قدسیہ ہیں تو اشفاق احمد نہیں۔ممتاز مفتی نہیں۔ڈاکٹر وزیر آغا نہیں اور ایسے بہت سے نام ہیں۔زندہ لوگوں میں اگر افتخار عارف، امجد اسلام امجد شامل ہوئے تو پھر ڈاکٹر خورشید رضوری، عطاالحق قاسمی اور بہت سے دیگران کے نام شامل ہونے بھی ضروری تھے۔ادیبوں کی کہیں نہ کہیں سیاسی وابستگیاں بلاشبہ ہوتی ہیں۔ مگر صاحب اقتدار انہیں اپنا اثاثہ جان کر تفریق مٹانے کی کوشش کریں تو اس کے مثبت نتایج ظاہر ہوں گے۔
ایک فارمولا ایک لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے کہ ابھی آغاز میں پاکستانی بننے سے لے کر اب تک کے مرحومین کو ہی شامل کرنا ہے۔گو یا یہ دور ایک طرح پون صدی کے دورانیے پر محیط ہوگا۔
تاہم ایک خوشی سی تھی کہ چلو کچھ ہوا تو سہی۔
(کالم نگار معروف سفرنگار اورناول نگار ہیں)
٭……٭……٭

وزیراعظم کا ریلیف پیکج

عبدالستار خان
ہر جماعت‘ ہر سیاستدان کا حتمی ہدف لوگوں سے ووٹ لینا ہوتا ہے۔ اگر کوئی سیاسی جماعت اپوزیشن میں ہو تو وہ لوگوں کی توجہ ان باتوں میں لگانے میں مصروف ہو جاتی ہے جس سے حکمران جماعت سے لوگ بیزار ہو جائیں اور انتخابات میں حکمران جماعت کو ووٹ نہ دیں۔ اسی طرح حکمران جماعت کی کوشش رہتی ہے کہ وہ لوگوں کیلئے کوئی ایسا کام کر جائیں جس سے اگلے انتخابات میں لوگ انہیں پھر ووٹ دینے پر مجبور ہو جائیں۔ پاکستان کی اس کی تازہ مثال وزیراعظم عمران خان کا قوم سے خطاب ہے جس میں وہ لوگوں کو ریلیف دینے کا عہد کرتے ہیں۔ دو بڑی ریلیف وہ ہیں جن میں لوگوں کی تعداد کا تعین بھی حکومت نے کرلیا ہے۔ ایک ریلیف میں دو کروڑ لوگ مستفید ہوں گے اور دوسرے ریلیف میں چالیس لاکھ لوگوں کو مستفید ہونے کی نوید سنائی گئی ہے۔
اب ان دونوں ریلیف کے حوالے سے ملک کے دو کروڑ چالیس لاکھ افراد مستفید ہوں گے۔ یوں تو ایک ریلیف میں دو کروڑ لوگوں کے ساتھ جڑے ہوئے 13 کروڑ لوگوں کی بات ہوتی ہے لیکن یہ 13 کروڑ لوگوں میں آبادی میں عمر کے تناسب سے بات ہوتی ہوگی جس میں کروڑوں کی تعداد وہ بچے بھی آتے ہوں گے جن کے غالباً ابھی تک ووٹ ہی نہ بنا ہو۔ شناختی کارڈ ہی نہ بنا ہو اور غالباً اچھی خاصی تعداد شاید ابھی سکولوں کا ہی رخ نہ کر سکے ہوں اس لیے دونوں ریلیف سے مستفید ہونے والے یقینی طور پر ووٹر بھی ہوں گے۔ اسی حساب سے دو کروڑ چالیس لاکھ لوگوں کے مستفید ہونے کا امکان ہے بشرطیکہ یہ دونوں ریلیف پیکج کامیابی سے اختتام پذیر ہوتے ہیں۔
اب دیکھا جائے تو موجودہ حکومتی جماعت کی یہ کوشش ہے کہ وہ اگلے انتخابات کیلئے اپنے ووٹوں کو یقینی بنائیں جو کہ ہر ایک حکومتی جماعت کا جمہوری حق ہے۔ 2018ء کے انتخابات کے نتیجے میں ملک کی حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کو مجموعی طور پر پورے ملک کی پانچ اسمبلیوں سے تین کروڑ سولہ لاکھ ووٹ پڑے تھے جن میں ایک کروڑ انسٹھ لاکھ ووٹ قومی اسمبلی کے انتخابات میں حاصل کیے گئے تھے۔ ایک کروڑ گیارہ لاکھ ووٹ پنجاب اسمبلی کے انتخابات میں ملے تھے۔ چودہ لاکھ ووٹ سندھ اسمبلی کے انتخابات میں ملے تھے۔ اکیس لاکھ ووٹ کے پی کے اسمبلی کے انتخابات میں حاصل کیے گئے تھے اور ایک لاکھ سے زائد ووٹ بلوچستان اسمبلی سے ملے تھے۔ کل ملا کر پاکستان تحریک انصاف کو تین کروڑ سولہ لاکھ ووٹ 2018ء کے انتخابات میں ملے تھے۔
اب عمران خان صاحب کے قوم سے دونوں ریلیف پیکیج میں دو کروڑ چالیس لاکھ افراد کی تعداد کا تعین حکومت نے کیا ہے۔ اب اس بات کا پتہ چلانا انتہائی مشکل کام ہے کہ اگر یہ دو کروڑ چالیس لاکھ لوگ واقعی مستفید ہو جاتے ہیں اور وہ بھی آئندہ انتخابات سے قبل تو ان تین کروڑ سولہ لاکھ افراد کی کتنی تعداد ہوگی۔ جنہوں نے 2018ء کے انتخابات میں تحریک انصاف کو ووٹ دیا تھا اور ان لوگوں کی کتنی تعداد ہے جنہوں نے تحریک انصاف کو ووٹ نہیں دیا بلکہ دوسری جماعتوں کو ووٹ دیا تھا۔ لیکن پھر بھی دو کروڑ چالیس لاکھ افراد کا واقعی مستفید ہونا تحریک انصاف کو آنے والے انتخابات میں اچھے خاصے ووٹوں کی شکل میں انعام مل سکتا ہے۔ چاہے دو کروڑ چالیس افراد کی تعداد 76لاکھ کم ہے ان تین کروڑ سولہ لاکھ سے جنہوں نے 2018ء میں تحریک انصاف کو ووٹ دیا تھا۔ بہت سمجھدار لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ عمران خان صاحب کو اس طرح کا قوم سے خطاب نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اگر عوام کو دیئے گئے ریلیف پیکیج حقیقی شکل ہی اختیار نہ کر سکے تو پھر کیا ہوگا۔
اگر یہ ریلیف پیکیج حقیقی صورت اختیار نہ کرسکے کہ تحریک انصاف کیلئے سب سے بڑی حریف جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کو گھر بیٹھے بیٹھے فائدہ ہو جائے گا کیونکہ پاکستان مسلم لیگ ن کو2018ء میں مجموعی طور پر پورے ملک کی پانچ اسمبلیوں سے 2 کروڑ43 لاکھ ووٹ ملے تھے جن میں ایک کروڑ اٹھائیس لاکھ ووٹ قومی اسمبلی کے انتخابات حاصل ہوتے تھے۔ ایک کروڑ پانچ لاکھ ووٹ پنجاب اسمبلی کے انتخابات میں ملے تھے۔ 2 لاکھ35 ہزار ووٹ سندھ اسمبلی کے انتخابات میں ملے تھے۔ چھ لاکھ 45 ہزار ووٹ کے پی کے اسمبلی کے انتخابات سے حاصل ہوئے تھے اور28 ہزار ووٹ بلوچستان اسمبلی کے انتخابات میں ملے تھے۔ اسی طرح پاکستان سے دونوں بڑی جماعتیں پاکستان میں 2018ء کے انتخابات میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والی جماعتیں بن گئی تھیں۔ دونوں جماعتوں کے ووٹوں کے موازنہ کے حوالے سے تحریک انصاف کو پاکستان مسلم لیگ ن کے مقابلے میں 71لاکھ ووٹ زیادہ ملے تھے۔ اب عمران خان صاحب کے 2023ء کے انتخابات سے پہلے عوام سے خطاب کے دوران دو ریلیف پیکیج میں دو کروڑ چالیس لاکھ افراد کے مستفید ہونے کی شنید ہے۔ اگر مکمل ہوگئی تو یقینی طور پر یہ عمران خان صاحب اور تحریک انصاف کو فائدہ ہو سکتا ہے لیکن اگر نہ ہوئیں تو پھر پاکستان مسلم لیگ ن کے آنے والے انتخابات میں جیتنے سے کوئی نہ روک سکے گا۔
(کالم نگارمعروف صحافی‘اینکرپرسن ہیں)
٭……٭……٭

سرسراتی ہواؤں کو پیغام دو

محمد صغیر قمر
کئی مہینے گزر گئے،ادھرمیرے دفتر کے بالکل سامنے برسوں سے نصب عمار شہید کی یاد گار پھر سے تعمیر کے مرحلے میں ہے۔ دفتر کی بالکونی میں کھڑے ہوکر آج میں نے کارکل کے اس شہید کو بے طرح یاد کیا۔برسہا برس گزر گئے۔ اس کا جسد ِخاکی کارگل کی کسی برفیلی چوٹی پر رہ گئی۔ راولپنڈی میں چکلالہ اسکیم تھری کا چوک اس کے نام کر دیا گیا جہاں اب ایک میگا پراجیکٹ جاری ہے اور میرے عزیزکیپٹن کے نام سے ایک خوبصورت یادگار جلو گر ہورہی ہے۔اگرچہ اس جگہ کانام پہلے سے ”عمار شہید چوک“ ہے لیکن نہ جانے آج کیوں وہ بے اختیار یاد آیا۔
کیپٹن عمار کو شہید ہوئے کچھ دن گزرے تھے‘ ہم ان کے گھر حاضر ہوئے۔ سراپا استقامت ان کی ماں نے کہا‘
”عمار کارگل کے محاذ پر تھا تو میں نے خواب میں اسے دیکھا۔ ہم اپنے گاؤں میں ہیں اور آسمان سے لا تعداد لوگ پیرا شوٹ کے ذریعے اتر رہے ہیں‘ ان میں عمار بھی ہے۔ وہ بریگیڈیئر طارق محمود (ٹی ایم) شہید کے انداز میں پاکستان کا پرچم لہراتے ہوئے نیچے آ رہا ہے۔ زمین پر اترتے ہی وہ میری نگاہوں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ میں پریشان ہو جاتی ہوں۔ پھر اچانک عقب سے آ کر وہ میرے کندھے پر ہاتھ رکھ دیتا اور کہتا ہے۔ ”امی“!!
”میں نے جب عمار کو پیرا شوٹ جمپ میں سبز ہلالی پرچم اٹھائے ہوئے دیکھا تو یقین ہو گیا کہ میرا جگر گوشہ ضرور کوئی عظمت لے کر آسمانوں سے اترے گا۔“ کوئی ماں اس سے بڑی عظمت و سعادت کا تصورکیا کر سکتی ہے؟ پچیس برس کے ایک نوجوان کی ماں کے لیے یہ فخر ہی دو جہاں کی دولت سے بڑھ کر ہے کہ اس کا کم عمربیٹا جس کی ابھی ابھی منگنی ہوئی تھی اس طرح اس کے دودھ کی لاج رکھتا اور تربیت کا حق ادا کرتا ہے۔ اپنے خاندان کو ایسی عظیم سعادت کا تحفہ دے کر خود ابدی زندگی حاصل کر لیتا ہے۔
کیپٹن عمار ۵۲ مارچ ۵۷۹۱ء کو راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد میجر محبوب حسین نہایت دیندار اور مزاجاً حریت پسند شخص تھے۔ اسلام کے شیدائی‘ بلکہ صحیح معنوں میں دیوانے۔ بیٹا دین کی محبت میں باپ پر بازی لے گیا۔ دیوانگی کی حد یہ ہے کہ اپنی آرزو پر اس محاذ پر جہاد کرنے پہنچ گیا جہاں بڑے بڑے بہادروں کا پتہ پانی ایک ہو جاتا ہے اور فرزانگی کی انتہا یہ ہے کہ ابدی کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی۔ عمار شروع ہی سے حریت پسند بچہ تھا اس کے والد بتایا کرتے تھے ”وہ بچپن ہی میں ولی معلوم ہوتا تھا۔“ ذہانت و فطانت میں ہمیشہ اپنے طالب علم ساتھیوں میں نمایاں رہے اور غیرت و حمیت کا جذبہ ایسا محکم تھا کہ چھ سات برس کی عمر میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ”جنگ جنگ“ کھیلتے اور فتح پر خوشی مناتے تھے۔ عمار کے ماموں طارق کہتے ہیں کہ سات سال کی عمر میں ایک بار جہازی سائز کے کاغذ پر جنگ کا نقشہ بنایا۔ کاغذ کے درمیان لکیر کھینچ کر ایک طرف پاکستان کی فوج‘ ٹینک اور گاڑیاں بنائیں اور دوسری جانب ہندوستان کے فوجیوں اور اسلحہ دکھایا تو ان کی صلاحیتوں کا یقین تھا‘ اس نے وہ نقشہ ٹیچر کو دکھا یا لیکن ان کے ٹیچر کو یقین نہ آتاتھا کہ ایک معصوم بچہ جنگ کا ایسا پلان بناسکتا ہے۔سکول کی ہر جماعت میں نمایاں پوزیشن لیتے رہے۔ کیئرئر کا سارا سفر تیزی رفتاری سے طے کیا۔ وہ ان بچوں میں سے تھے جو اپنا کوئی لمحہ ضائع نہیں کرتے۔
۷۸۹۱ء میں ملٹری کالج جہلم میں داخلہ ملا۔ پانچ برس تک یہاں تعلیم پانے کے بعد ۲۹۹۱ء میں پی ایم اے جائن کیا۔ ۴۹ء میں پاس آؤٹ ہونے کے بعد۳۔ ایف ایف کا انتخاب کیا لیکن اضطراب کسی مقام پر رکنے نہیں دیتا تھا۔ ایس ایس جی کی تربیت حاصل کرنے پر کمربستہ ہوئے اور اکتوبر۷۹۹۱ء میں سپیشل سروسز گروپ کا کورس کامیابی سے مکمل کرنے کے بعد یلدرم بٹالین میں شامل ہوئے۔ یہاں بھی ان کے جنون کی شورش نہ گئی‘ اپنی صلاحیتوں میں نکھار پیدا کرنے کے لیے ایک کورس کے بعد دوسرا کورس کرتے رہے۔ معرکہ کارگل سے قبل وہ انفنٹری کالج کوئٹہ کے لیے منتخب ہو گئے تھے لیکن کارگل میں بھارت سے جنگ چھڑ گئی تو وہ اس میں شامل ہونے کے لیے بے تاب ہو گئے۔ کارگل کے لیے انہوں نے اپنے آپ کو رضا کارانہ پیش کیا تھا۔ اس معرکے پر جانے کے لیے اپنے گھروالوں کو بھی خبر نہ ہونے دی۔ کیپٹن شیر خان شہید عمار کے کورس میٹ تھے۔ کارگل میں بھی ساتھ ساتھ تھے۔ دونوں نے ایک ہی روز شہادت پائی۔ کیپٹن عمار کس طرح شہید ہوئے؟ ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ دشمن جب ٹائیگر ہلز پر پاک فوج کی سپلائی کاٹنے میں مصروف تھا اس سے اگلی پوسٹ پر پاک فوج کے ۳۲ افراد پھنس گئے تھے۔ وہ بہادری سے لڑتے رہے لیکن ان میں سے ۹۱ افراد شدید زخمی ہو چکے تھے۔ ان کو دشمن کے گھیرے سے نکالنا ضروری تھا۔ کیپٹن عمار‘ کیپٹن کرنل شیر خان اور ان کے چھ ساتھی دشمن پر حملہ آور ہوئے۔ ان کو اپنے زخمی بھائیوں تک پہنچنا اور انہیں وہاں سے نکال کر لانا تھا۔ یہ آسان کام نہ تھا مگر انہوں نے ایک بار پھر رضاکارانہ طور پر یہ ناممکن مشن پورا کرنے کی کوشش کی اور اس معرکے میں شہید ہو گئے۔
سورج طلوع ہو گیا اب وہ بھارتی فوج کی آنکھوں کے سامنے آ چکے تھے۔ دشمن فوج نے انہیں سرنڈر کرنے کی پیشکش کی۔ چاروں طرف سے گھرے ہوئے چندہمارے بہادرنوجوانوں نے ہتھیار ڈالنے اور بزدل دشمن کا جنگی قیدی بننے سے صاف انکار کر دیا اور ”شہادت شہادت“ پکار کر آخر تک جنگ جاری رکھی۔آخری لمحے تک دشمن کی صفوں میں کھلبلی مچی رہی اور پھر سب بہادروں نے باری باری اپنی جانیں راہ خدا میں لٹا دیں۔انہوں دشمن کی یلغار روک دی او سبز ہلالی پرچم لہرا کر دشمن کو پسپا کردی۔ ان کے ساتھ شہید ہونے والے کچھ ساتھیوں کے جسد خاکی واپس آ گئے لیکن عماراور چندساتھی کارگل کے کسی ان دیکھے ان جانے پہاڑی گوشے میں ایسے محو خواب ہوئے کہ کسی کو ان کا سراغ بھی نہ مل سکا۔انہوں نے اپنے جسم کارگل کی برفیلی زمین میں بو دیے۔بالکونی مین کھڑے کھڑے میں نے ایک اچٹتی نظر زیر تعمیرعمار چوک پر ڈالی۔مجھے عمارسے آخری ملاقات یاد آئی وہ اپنے اباجی میجر محبوب کے ساتھ میرے پاس آیا تھا۔تب وہ چراٹ میں تعینات تھا۔اس کی دلچسپی کا محور اللہ کی راہ میں جہاد تھا۔اس روز عمار نے مجھ سے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی شہرہ آفاق کتاب ”الجہاد فی الاسلام“ کی فرمائش کی۔اتفاق سے کتاب میرے پاس تھی میں نے اسے پیش کردی۔اس کے چاند چہرے پر مسکراہٹ پھیلی اور بولا”تھینک یو انکل“میں نے کہا میں آپ کا”ہم عمر“ہوں۔انکل کیسے ہوگیا۔وہ کھلکھلا کر ہنسا اور میرا ہی ایک فقرہ جواباًکہہ دیا”تھینک یو انکل بھائی جان“!!
آج میں نے ان وفا شعاروں کو پھر سے یاد کیا جن کو قیامت تک اسرار کے پردوں میں لپٹ کر برف کی گہری تہہ میں سویا رہنا مرغوب ہوا۔ کیپٹن عمار اور ان کے چھ ساتھیوں کا گروپ پاک فوج کی جرات و شجاعت کا گواہ بن گیا۔ عمار کو ستارہ جرأت سے نوازا گیا لیکن کیپٹن عمار اور ان کے جاں نثار ساتھی عظمت کی جن بلندیوں پر فائز ہو چکے ہیں۔دنیا کا بڑے سے بڑا ایوارڈ ان کی شان کی برابری نہیں کر سکتا ہے۔میں نے تصور ہی تصور میں کارگل کی سرسراتی ہواؤں کو یاد کیا۔بے اختیار منہ سے نکلا:
سرسراتی ہواؤں کو پیغام دو
ایسی راہوں سے جب تم گزرنے لگو
سو رہا ہے جہاں ایک شہید وطن
(متعدد کتابوں کے مصنف‘شعبہ تعلیم
سے وابستہ اورسماجی کارکن ہیں)
٭……٭……٭

معروف صنعتکار چودھری اشرف مرحوم

ڈاکٹر محمدممتاز مونس
ملک کے ممتاز صنعت کار، سابق سینیٹر اور اشرف شوگر ملز بہاول پور کے بانی چودھری محمد اشرف (مرحوم) اپنے عہد میں ہنر کی پختگی، خیال کی استواری اور تہذیب کی پاسداری کی زندہ مثال سمجھے جاتے تھے۔ ان کی پیدائش 1926ء میں منڈی بہاالدین کے نواحی علاقے چیلیانوالہ میں ہوئی۔ آپ کے والد چودھری خان محمدصاحب زراعت کے شعبے سے وابستہ تھے۔
چودھری محمد اشرف (مرحوم)کا بچپن اور لڑکپن ان کے آبائی علاقے میں ہی گزرا اور انہوں نے ابتدائی تعلیم بھی وہاں سے ہی حاصل کی۔ ان کی شخصیت میں قدرت نے کچھ خاص کرنے کی امنگ اور تڑپ رکھی تھی لہذا اپنی عملی زندگی میں انہوں نے آبائی پیشہ زراعت کی بجائے ذاتی کاروبار میں دلچسپی لی۔ اس وقت چیلیانوالہ میں کاروبار کے مواقع نہ ہونے کے برابر تھے۔ لہذا اپنے اس شوق کی تکمیل کے لئے انہوں نے عنفوان شباب میں ریاست جموں و کشمیر کا رخ کیا۔ اپنی شبانہ روز محنت اور ایمانداری کے باعث نہایت ہی قلیل وقت میں ان کا کاروبار وہاں چمک اٹھا۔
اسی دوران چودھری محمد اشرف (مرحوم)نے ضلع رحیم یار خان میں کچھ اراضی لیز پر لے کر اپنے والدمحترم کے سپرد کر دی اور خود تعمیرات کے شعبے میں قسمت آزمائی کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے ایک کنسٹر یکشن کمپنی کی داغ بیل ڈالی۔ مذکورہ کمپنی کے پلیٹ فارم پر انہوں نے ہندوستان کے مختلف شہروں میں سرکاری و نجی عمارات تعمیر کیں۔ جنہیں اپنی طرز تعمیر اور معیار کے لحاظ سے اس وقت کی حکومتوں اور عوام الناس نے پسندیدگی کی سند بخشی۔
اگست 1947ء میں وقوع پذیر ہونے والی تقسیم برصغیر اور اس کے نتیجے میں قائم ہونے والی نئی اسلامی مملکت پاکستان میں تعمیر و ترقی کے نئے منصوبوں کی گنجائش اور ہندوستان سے آنے والے مہاجرین کی آباد کاری اور نئی سرکاری عمارات کی تعمیر کے تناظر میں کنسٹریکشن کے شعبے میں کام کے کثیر مواقع موجود تھے۔
اپنے کام اور شعبے سے جنون کی حد تک وابستگی ہی تھی کہ چودھری محمد اشرف ہمیشہ بہتر سے بہترین کی تلاش میں سرگرداں رہتے اور انہوں نے ایک نیا تعمیراتی ادارہ قائم کیا۔ اس ادارے نے سندھ کے مختلف شہروں اور علاقوں میں اعلی معیار کی سڑکیں، ہسپتال، پل، نہریں اور تعلیمی ادارے بنا کر صوبے کی تعمیر و ترقی میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔
سندھ کے عالمی شہرت یافتہ منصوبہ “گڈو بیراج” کی تعمیر میں بھی چودھری محمد اشرف کی تعمیراتی کمپنی نے قابل قدر کام کیا۔ 1950ء کی دہائی میں ملتان کے نشتر میڈیکل کالج اور ہسپتال کی تعمیر کے منصوبے کا کنٹریکٹ بھی انہی کی کمپنی کو تفویض ہواجسے مقررہ مدت میں اعلی تعمیراتی معیار کے ساتھ مکمل کیا گیا۔
انہوں نے ایک کمپنی قائم کر کے حیدر آباد میں کوئلے کی کانیں لیز پر لے لیں۔ سندھ کے بڑے کول مائنر اداروں میں سے ایک یہ ادارہ آج بھی نمایاں حیثیت کا حامل ہے۔
1970ء کی دہائی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے چودھری محمد اشرف کی قائدانہ صلاحیتوں کو بھانپ کر انہیں پاکستان پیپلز پارٹی ہی کے پلیٹ فارم پر ملکی سیاست میں عملی کردار ادا کرنے کو کہا۔ چنانچہ انہوں نے شہید بھٹو کے زیر قیادت اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کیا اور اپنی سیاسی زندگی میں دکھی انسانیت کی خدمت اور عوام کے مسائل کے حل کے لئے عملی اقدامات کر کے عوامی سیاست کی نئی مثال قائم کی۔ ان کی انہی خدمات کے اعتراف میں پاکستان پیپلز پارٹی نے انہیں سندھ سے پارلیمان کے ایوان بالا/سنیٹ کا رکن بنایا۔ چودھری محمد اشرف کی مصالحت پسندی، ان کی غیر متنازعہ شخصیت اور ان کی ذات میں رچی پاکستانیت کی بنا پر پیر صاحب پگاڑا نے انہیں سندھ اور پنجاب کے درمیان محبت و یکجہتی کا پل قرار دیا تھا۔
1980ء کی دہائی میں چودھری محمد اشرف کی قسمت میں بخت آوری کا نیا سرخاب اس وقت لگا جب پنجاب انڈسٹریل بورڈ کی جانب سے بہاول پور اور لیہ میں شوگر ملز کے قیام کے لئے ٹینڈرز جاری کیے گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں نیشنلائزیشن کی پالیسی کے تحت مذکورہ شوگر ملیں صرف ٹینڈرز کی حد تک محدود تھیں جس سے ملکی معیشت پر برا اثر پڑ رہا تھا۔ جنرل محمد ضیا الحق کی فوجی حکومت نے چند صنعتیں پرائیوٹائز کرنے کا فیصلہ کیا۔ جن میں شوگر ملوں کی بحالی بھی شامل تھی۔
اس بار خوش نصیبی کا ہما چودھری محمد اشرف کے سر پر یوں بیٹھا کہ پنجاب انڈسٹریل بورڈ کے زیر اہتمام ٹینڈرز کے عمل میں ان کے نام کا قرعہ نکل آیا۔ جب بہاول پور شوگر ملز چودھری محمد اشرف کے سپرد کی گئی تو وہاں شوگر ملز کے نام پر صرف چار دیواری قائم تھی اور بہاول پور شوگر ملز کا بورڈ لگا ہوا تھا۔ انہوں نے اللہ کی ذات پر توکل اور اپنی قابلیت کے بھروسے پر محض 10 ماہ کی قلیل مدت میں شوگر ملز کو مکمل اور فنگشنل کر کے اس میں چینی کی پیداوار کا عمل شروع کیا۔
چودھری محمد اشرف نے اپنی سیاسی، سماجی و کاروباری زندگی میں جتنے بھی کار ہائے نمایاں سرانجام دیئے ان میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ انہوں نے خلق خدا کی بھلائی، ایمان داری، دیانت اور رزق حلال کی طلب کو ملحوظ خاطر رکھا۔ انہوں نے اپنی ذات کے لئے کم اور عام آدمی کی بہتری کے لئے زیادہ سوچا۔ اور اس کا سب سے بڑا ثبوت پسماندہ علاقے میں “اشرف شوگر ملز” کا قیام ہے۔ بہاول پور میں شوگر ملز کی بحالی کا جب منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچا تھا تو اس وقت اس علاقے میں دور دور تک گنے کی کاشت نہ ہونے کے برابر تھی اور کسی طور پر بھی یہ نظر نہیں آ رہا تھا کہ یہ ادارہ کوئی نفع بخش ثابت ہو سکے گا۔ لیکن دور اندیش چودھری محمد اشرف کی سوچ صرف یہ تھی کہ اس سے علاقے کے مقامی لوگوں کو روزگار میسر آئے گا اور علاقے میں ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی۔
چودھری محمد اشرف 6 نومبر 1983ء کو جناح ہسپتال کراچی میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔ ان کی 57 سالہ زندگی محبت، توجہ، خلوص، انصاف، احساس، برابری، رواداری، قربانی اور ہر فرد کے لئے یکساں عزت نفس برقرار رکھنے کی کاوشوں سے عبارت ہے۔ ان کے ہونہار فرزند ارجمند چودھری محمد ذکا اشرف اپنے والد گرامی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ملکی صنعت کے شعبے میں عملی طور پر متحرک ہیں اور عوام میں آسانیاں بانٹنے کے لیے کوشاں ہیں۔
(کالم نگارسینئر صحافی ہیں)
٭……٭……٭

کس منہ سے آؤگے؟

سید سجاد حسین بخاری
میرے پاس معیشت کو سدھارنے کیلئے ایک ماہر ٹیم موجود ہے جس نے گزشتہ 2سال سے پاکستانی معیشت کے کمزور پہلو پر کام شروع کردیا ہے اور جب ہم اقتدار میں آئیں گے تو پاکستانی معیشت کا دُنیا کی بڑی معیشتوں میں شمار ہوگا۔ آپ دیکھیں گے کہ ہم آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کو خداحافظ کہیں گے۔ ایک کروڑ بیروزگاروں کو نوکریاں اور 50لاکھ بے گھر افراد کو گھر بناکر دیں گے۔ نئے پاکستان میں پوری دُنیا سے لوگ آکر ملازمتیں کریں گے۔ سب کا احتساب ہوگا جس کی شروعات میری ذات سے ہوگی۔ لوٹی ہوئی دولت واپس لاؤں گا۔ بڑے مجرم قانون کی گرفت میں آئیں گے اور جنوبی پنجاب کو پہلے 100دنوں میں صوبہ بناکر اس خطے کی تمام تر محرومیاں ختم کردیں گے۔ یقینا یہ الفاظ موجودہ وزیراعظم عمران خان کے تھے جو وہ 2018ء کے ہر جلسے میں دُہرایا کرتے تھے مگر آج ساڑھے 3سال گزر گئے ان میں سے ایک وعدہ بھی پورا نہیں ہوا۔
وقت نے ثابت کیا کہ وزیراعظم کی جیب میں کھوٹے سکے تھے۔ اسد عمر‘ حماد اظہر‘ عمر ایوب اور اب شوکت ترین وزرائے خزانہ بنائے گئے۔ 5مرتبہ خزانے کے سیکرٹریز تبدیل کئے گئے۔ متعدد چیئرمین ایف بی آر اور چیئرمین سرمایہ کاری بورڈ بھی بدلے گئے مگر کچھ بھی نہ ہوا۔ اعدادوشمار کے گورکھ دھندے میں قوم کو معیشت کی بہتری کی خبریں سنائی جارہی ہیں مگر عملی طور پر یہ ثابت ہوچکا کہ پاکستان کی گزشتہ 70سال کی تاریخ میں اس وقت سب سے زیادہ مہنگائی ہے۔ غریب کو دو وقت کے بجائے ایک وقت کی روٹی کے بھی لالے پڑے ہوئے ہیں۔ غریب کی قسمت میں دال روٹی کی گنتی کی جاتی تھی۔ موجودہ حکومت نے وہ بھی چھین لی۔ 22کروڑ کی آبادی کے ملک میں چند بڑے شہروں میں لنگرخانے اور پناہ گاہیں بنانے سے معیشت نہیں سدھرتی۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ وزیراعظم کو ساڑھے 3سال حکومت کرنے کے باوجود بھی دال روٹی کے بھاؤ کا پتہ نہیں اور پھر بین الاقوامی مہنگائی کی باتیں کی جاتی ہیں۔ معیشت کے بگاڑ کو سدھرانے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی۔ حقائق سے چشم پوشی کی جارہی ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ملازمین کو ہم نے گورنر سٹیٹ بینک‘ وزیر خزانہ اور مشیر لگائے ہوئے ہیں تو وہ ہمارے ہمدرد کیسے بن سکتے ہیں؟ کیونکہ پاکستان سے واپس انہوں نے اپنے انہی اداروں میں جانا ہے جہاں سے وہ آئے ہیں لہٰذا یہ بات طے ہوچکی ہے کہ اگلے ڈیڑھ سال میں بھی مہنگائی‘ بیروزگاری اور غربت کا خاتمہ نہیں ہوسکتا۔ ہاں کوئی معجزہ ہوجائے تو وہ الگ بات ہے۔ ایک کروڑ ملازمتیں اور 50لاکھ گھر بھی عوام بھول جائیں‘ کچھ بھی نہیں ہوگا اور لوٹی ہوئی دولت کی واپسی بھی نہیں ہوگی۔ پاکستانی عدالتیں‘ ایف آئی اے اور نیب کس مرض کا علاج ہیں؟ حکومت نے ان اداروں سے ایک مرتبہ بھی مشاورت نہیں کی۔ اگر روڈ میپ بنایا جاتا اور وقت مقررہ کا تعین بھی کیا جاتا تو آج لوٹی ہوئی دولت واپس آچکی ہوتی۔ نوازشریف کو کیوں اور کس کے کہنے پر بیرون ملک بھیجا گیا؟ وزیراعظم کو چاہیے کہ اس ڈیل کو قوم سے آگاہ کریں۔ چلو زرداری تو موجود ہیں ان سے ریکوری میں کیا رُکاوٹ ہے؟ حکومت نے جب کوئی سسٹم ہی نہیں بنایا تو وعدے کیسے اور کہاں سے پورے ہوتے؟
دُنیا بھر میں عمران خان جیسے لیڈر پہلی بار حکومت میں آتے ہیں تو وہ اپنے وعدوں کی تکمیل کیلئے سپیشل سسٹم اور ٹیمیں بناتے ہیں جو دیئے گئے اہداف کو حاصل کرتے ہیں اور وہ حکومت سے کوسوں دور ہوتے ہیں۔ وہ صرف رہنمائی کرکے اہداف کو مکمل کرتے ہیں۔ عمران خان نے تو اس بابت کچھ بھی نہیں کیا‘ جو حکومت ساڑھے 3سال میں یہ طے نہیں کرسکی کہ لوٹی ہوئی دولت کیسے واپس لائی جاسکتی ہے وہ اور کیا کرے گی۔ وزیراعظم عمران خان کا سرائیکی خطے کو علیحدہ صوبہ بنانے کا وعدہ بھی تھا مگر اسے بھی ممبران اسمبلی کی تعداد سے مشروط کرکے ختم کردیا گیا۔ کسی نے آج تک حکومت سے نہیں کہا کہ جنوبی پنجاب کے 3ڈویژن اور 11اضلاع کے عوام نے آپ کو ووٹ دلواکر کامیاب کرایا‘ پھر بھی آپ نے صوبہ نہیں دیا۔ وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب کے لوگ جنوبی پنجاب کے عوام کو آزادی کیوں دیں گے اور پھر سیکرٹریٹ کا لولی پاپ جس کے آج تک اسمبلی سے رولز اینڈ بزنس بھی منظور نہیں کرائے گئے اور پھر ظلم یہ ہے کہ پنجاب میں اس وقت 44محکمے قانونی طور پر باقاعدہ کام کررہے ہیں مگر جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کیلئے صرف 16محکمے کیوں؟ ایک سادہ سی بات کہ مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی نے تحریک انصاف کو صوبہ بنانے کی پیشکش کی ہے مگر حکومت بھاگ گئی کیونکہ لاہور میں تحریک انصاف کی حکومت کے بجائے (ن) لیگ کی حکومت بنتی تھی‘ اس لئے عمران خان بھاگ گئے۔
جنوبی پنجاب کو صوبہ بناکر آپ وسطی اور شمالی پنجاب کی حکومت اکثریت رکھنے والی (ن) لیگ کو دے دیتے۔ آپ نے وہی کام کیا جو (ن) لیگ کررہی تھی کہ اتنے بڑے صوبے کی حکومت ہم کیوں قربان کریں؟ حکومت کو چاہیے کہ سرائیکی خطے کے عوام کو باقی کچھ نہیں دے سکتی صوبہ تو دے اور 44محکمہ جات بھی مکمل طور پر صوبہ سیکرٹریٹ میں بنائے جائیں۔ صوبے کی باؤنڈری اور پانی کی تقسیم کا‘ کیا کروگے؟ کیونکہ یہ بنیادی اور زندگی موت کا سوال ہے۔ میرے نزدیک تو موجودہ حکومت نے اس خطے کے ساتھ بہت بڑی زیادتی کی ہے۔ مہنگائی‘ بیروزگاری‘ ملازمتیں‘ گھر اور معیشت کا سدھار ہم سب معاف کرسکتے ہیں مگر صوبے کا نہ بننا لوگ معاف نہیں کریں گے اور پھر کس منہ سے جنوبی پنجاب کی عوام کے پاس آؤگے؟
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

کیاآئی ایم ایف کے بغیر معیشت کی بحالی ممکن؟

رانا زاہد اقبال
پاکستان کی معیشت خطرات میں گھرتی چلی جا رہی ہے، روپے کی قدر میں کمی، معیشت کی شرح نمو، ٹیکسوں کی وصولی، بچتوں وسرمایہ کاری کی شرحیں، برآمدات، غذائی قلت، بیروزگاری اور غربت کی صورتحال گزشتہ برسوں اور خطے کے دوسرے ممالک کے مقابلے میں خراب ہوتی چلی جا رہی ہے۔ افراطِ زر، مہنگائی اور ملک پر قرضوں کا بوجھ ناقابلِ برداشت حد تک بڑھ چکا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ عنقریب بہتری کے آثار بھی نظر نہیں آرہے ہیں کیونکہ گزشتہ روز وزیرخزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ پٹرولیم کی مد میں ٹیکس ریونیو میں 450ارب روپے کے گیپ کو پورا کرنے کیلئے ٹیکسوں کی شرح میں نظرثانی کرنے جارہے ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ٹیکس بڑھانے اور سبسڈیز کم کرنے کی آئی ایم ایف کی شرائط کو من وعن تسلیم کرلیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف دباؤ ڈال کر روپے کی قدر کو کم ترین سطح پر لانا چاہتا ہے۔ معیشت کی اس تباہی کے بدلے میں پاکستان کو قرض کی رُکی ہوئی رقم سے ایک ارب ڈالر ملنے کی امید ہے۔ آئی ایم ایف سے ملنے والی ایک ارب ڈالر کی رکی ہوئی قسط میں عوام کیلئے کیا ہے۔ سوائے اس نئے قرض کے نتیجے میں آنے والی مہنگائی کی نئی لہر اور مزید معاشی بحران کے؟
کچھ عرصہ قبل تک حکومت کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف پر انحصار کرنے کے بجائے اپنے ذرائع سے معیشت بحال کرنے کی کوشش کریں گے جس کیلئے وسائل کی ضرورت ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹیکس بڑھائے بغیر اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی مدد کے بغیر وسائل کیسے پیدا کئے جائیں کہ حکومت اقتصادی بحران پر قابو پا سکے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہم عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھائے اور عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لئے بغیر اپنی معیشت کو ترقی نہیں دے سکتے؟ یقینا ہم ملکی وسائل سے معیشت کو ترقی دے سکتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ وسائل کی فراہمی کیسے ممکن ہو، اس کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ملک و قوم کی اپنی دولت واپس لائی جائے۔ پاکستانیوں کے بیرونِ ملک کاروبار، جائیدادیں اور بینک اکاؤنٹس ہیں۔ جن لوگوں نے قومی وسائل لوٹ کر یا ٹیکس بچانے کیلئے دولت بیرونِ ملک منتقل کردی ایسی دولت وطنِ عزیز میں لانے کے لئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح کھربوں روپے ملک کے نامور شرفاء نے قرضوں کی شکل میں بینکوں سے لئے اور بعد میں قرض معاف کروا لئے۔ بینکوں سے بھاری قرضے لینے اور پھر انہیں سیاسی وابستگی کی بنیاد پر معاف کرانے کی داستان بڑی طویل ہے۔
ماضی میں سب سے زیادہ زرعی قرضے ترقی کے نام پر بڑے بڑے جاگیر داروں نے حاصل کئے۔ تاجر، صنعت کار اور کاروباری طبقے کے افراد بھی صنعتی ترقی کے نام پر اس دوڑ میں شامل تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو اپنے قرضوں کی معافی کیلئے سیاسی وفاداریوں بھی تبدیل کرتے رہے۔ اس طرح انہوں نے جمہوری عمل کو نقصان پہنچایا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ قومی معیشت کو متزلزل کرنے اور مالیاتی اداروں کو دیوالیہ کرنے میں کون سے عناصر سرِفہرست تھے لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ ماضی کی کسی بھی حکومت نے اس بدعنوانی اور لوٹ مار کا نوٹس لینے اور قومی سرمائے کی واپسی کیلئے کوئی قدم اُٹھانے کی زحمت ہی نہیں کی۔ پاکستان میں براہِ راست غیرملکی سرمایہ کاری بہت کم ہوگئی ہے۔ غیرملکی سرمایہ کاری کم ہونے کا سیدھا مطلب یہی ہے کہ سرمایہ کاروں کو یہاں کے حالات کی وجہ سے اپنے سرمائے کے محفوظ رہنے کا یقین نہیں ہے۔ اس ساری صورتحال کا تقاضا ہے کہ داخلی سطح پر حالات بہتر بنانے کی کوشش کی جائے۔ حکومت کو ٹیکس وصولیوں میں بھی ناکامی کا سامنا ہے۔ ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کے اقدامات کر کے زیادہ ٹیکس اکٹھا کیا جاسکتا ہے۔ حکومت ان تمام شعبوں پر جو اب تک ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں ٹیکس لگا کر آمدنی بڑھاسکتی ہے۔ دوست ممالک سے بھی مدد لی جاسکتی ہے۔ زراعت میں بہتری لا کر زرعی آمدنی میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
عالمی معیشت کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت آشکار ہوگی کہ ترقی یافتہ صنعتی ممالک نے بھی یہ معراج زراعت کو ترقی دیکر حاصل کی ہے۔ یہ ممالک آج بھی اپنے زرعی شعبے کو بے تحاشا سبسڈیز فراہم کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی زرعی پیداوار سستی ہوتی ہے اور ملکی معیشت کے استحکام میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔
(کالم نگارمختلف امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

شمع رسالتؐ کے پروانوں کی محفل

حنا سبزواری
ہیرا کسی گندی نالی میں گر جائے اور اسے صاف کرنے کے لیے نالی میں پڑے ہوئے اس پر پانی ڈالے تو منوں کے حساب سے پانی ڈالنے پر بھی وہ صاف نہ ہوگا۔ اس کے برعکس اس نالی سے نکال کر صرف ایک گھونٹ پانی سے دھویا جائے تو اس میں اصل نکھار آجائے گا یہی مثال انسان کی ہے۔ انسان دنیا کی گندگی میں اس قدر گھل مل چکا ہے کہ اب اس پر کوئی اثر نہیں لیکن اگر اسے یہاں سے نکال کر چند روز کیلئے خالص دینی ماحول سے ایمان اور بہترین انسان کی چمک دمک اور ہیرے سے بھی زیادہ نکھار آجائے گا۔ یہی تبلیغی جماعت کا مشن اور منشور ہے۔ تبلیغی جماعت کے اس مشن کی ابتدا بستی نظام الدین اولیاء دہلی سے ہوئی جہاں ایک چھوٹی سی مسجد میں ایک بزرگ مولانا محمد اسماعیل رہا کرتے تھے۔ ان کا معمول تھا کہ وہ وہاں بچوں کو قرآن پاک پڑھاتے اور آنے جانے والے مسافروں کا سامان وہاں اترواکر انہیں ٹھنڈا پانی پلاتے۔
علاوہ ازیں وہ گردونواح میں کام کرنے والے مزدوروں کو بھی اکثر وہاں لے آتے ان کو قرآن پڑھا تے نماز سکھاتے ان کے مناسب خاطر خدمت کرتے اور پھر نوافل پڑھتے کہ اللہ نے مجھے اپنے بندوں کی خدمت کی توفیق بخشی ساری عمر مولانا ا سی چھو ٹی سی مسجد میں ہی قرب و جوار کے لوگوں کو د درس و تدریس دیتے رہے ان کی وفات کے بعد ان کے فرزند جمند مولانا محمد الیاس نے دہلی کے مدرسہ مظا ہر علوم میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا آپ مولانا رشید احمد گنگوہی سے بیعت تھے آپ وہاں لوگوں کی بیعت کر کے تزکیہ نفس کرنے لگے ان کے اخلاق و یقین کی برکت سے میو ات کا تقریبا سارا علاقہ جو گمراہی جہالت اور اکھڑ پن میں مشہور تھا اس کے ہزاروں افراد مبلغ بن گئے مولانا کے مسلسل جدوجہد کے بعد وہاں تبلیغ گشت شروع ہو گئے ا ٓہستہ آہستہ یہ سلسلہ انڈیا سے باہر پہنچ گیا اپنے آخری دنوں میں مولانا نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ میرے زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں اگر میری وفات کے بعد یہ سلسلہ تبلیغ جاری نہ رہا تو میری روح کو سکون نہ ہوگا لہذا میری زندگی میں یہ مشن کسی ذمہ دار کو سونپ دیا جائے چنانچہ بزرگوں کی باہمی مشورے کے بعد آپ کے بیٹے مولانا محمد یوسف کو جماعت کا امیر اور آپ کا جانشین بنا دیا گیا مولانا محمد الیاس 1922ء کو انتقال فرما گئے اور ان کے بعد ان کے بیٹے مولانا محمد یوسف نے اس کام کو نہ صرف آگے بڑھایا بلکہ اپنے نظر کیمیا ا ثر سے پوری دنیا کے قلوب کو گرما کررکھ دیا اور اس پاک مشن کو دنیا کے طویل وعرض میں پہنچا دیا ان کی سچی لگن اور مسلسل سخت جدوجہد کا نتیجہ ہے کہ آج دنیا میں شاید کوئی ایسا ملک نہیں جہاں تبلیغی جماعت کا مشن جاری نہ ہو۔
قیام پاکستان کے بعد مولانا محمد یوسف نے سسلہ تبلیغ رائیونڈ سے شروع کرنے کا ارادہ ٖ فرمایا پاکستان کے ا س چھوٹے سے قصبے میں اس وقت موجودہ تبلیغی مرکز کی جگہ ایک چھوٹی سی کچی مسجد ہے اور اس کے ساتھ ایک مقامی میواتی باباعبداللہ کی کچھ آراضی پڑھی تھی جس نے اس نیک مشن سے مرعوب ہو کر اپنی اراضی مسجد کے نام وقف کر دی اور پھر 1949ء کو یہاں پہلا تبلیغی اجتماع منعقد ہوا جو چند ہزار افراد کا تھا پھر وقت کی دھاروں کے ساتھ ساتھ یہ سلسلہ ترقی کرتا گیا کچی مسجد کی جگہ بہت بڑی مسجد تعمیر ہو گئی لیکن وہ ناکافی ہو گئی بعدازاں تبلیغی مندوبین نے رائیونڈ کے قریب سالانہ اجتماع کے انعقاد کے لیے 112 ایکڑ اراضی خرید لی جہاں اب حج بیت اللہ کے بعد دوسرا بڑا اجتماع منعقد ہوتا ہے اور اب مزید وسیع تر اراضی بھی مذکورہ اراضی میں شامل کر لی گئی۔
مولانا محمد یوسف نے اپنے والد ماجد کی زندگی کے بعد تقریباً 21سال جماعت کی قیادت و امارت میں گزاری۔ ان کی زندگی مسلسل جہاد تھی اور اس کا مقصد صرف ایک ہی تھا کہ مسلمان حقیقی مسلمان بن جائیں کیونکہ اس کی تخلیق امربالمعروف و نہی عن المنکر کے لیے ہوئی ہے اور اللہ کی رضا کے لئے جیتا اور اس کی رضا کی خاطر اپنی جان جان آفرین کے سپرد کردیتا ہے اور مادی ا غراض اس کا مطمع نظر نہیں ہوتیں۔ مولانا نے دورانے تبلیغ کبھی ناخوشگوار حالات کی پروا نہیں کی، وہ حادثات میں مسکراتے، طوفانوں سے ٹکراتے رہے تاریخ میں شمع جلاتے مردہ دلوں میں حیات تازہ دوڑاتے، دنیاوی میں غرق مسلمانوں کی فکر آخرت اور روحانی واخلاقی اقدار کو زندہ کرتے ہوئے اس تبلیغی سفر میں اس جہاں سے اور اپنی جان سے گزر کر زندہ جاوید ہوگئے۔ آج تبلیغی جماعت کا سب سے بڑا مرکز رائیونڈ میں ہے اور بزرگوں کے لگائے ہوئے زخم سے بہنے والے نور کی دعائیں پوری دنیا کو منور کررہی ہیں۔
(کالم نگارسینئر صحافی ہیں)
٭……٭……٭

ماحولیاتی تبدیلی اورشجرکاری

اشتیاق ارمڑ
موسمیاتی تبدیلی پوری دنیا میں ہو رہی ہے جس کیلئے جہاں دنیا میں ہنگامی بنیادوں پر کام کیا جارہا ہے وہاں پاکستان میں خاص طور پر حکمران جماعت تحریک انصاف نے پہلے خیبرپختونخوا میں ایک ارب درخت لگانے کا اعلان کیا اور 20 کروڑ سے زائد پودے بھی لگائے گئے خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع سمیت ضم شدہ اضلاع میں بھی لگائے گئے۔ یہ سلسلہ جاری ہے جس سے ہماری آنے والی نسلوں کو بھی فائدہ ہوگا۔ خیبرپختونخوا میں ایک ارب درخت لگانے کے منصوبہ کے تحت محکمہ جنگلات خیبر پختونخوا نے 2019-20ء اور 2020-21ء 2سالوں میں بے حد تنقید اور مخالفت کے باوجود صوبہ بھر میں 3کروڑ سے زائد پودے لگادیئے ہیں۔ محکمہ جنگلات نے شجرکاری کیلئے صوبے کے مختلف اضلاع کو 3حصوں میں تقسیم کیا ہے جن میں سنٹر ساؤتھ 1کو پشاور، ناردرن فاریسٹ ریجن 2ایبٹ آباد اور مالاکنڈ فارسٹ ریجن 3سوات شامل ہیں۔ خیبرپختونخوا میں ایک ارب درخت لگانے کے منصوبے پر تیزی سے کام جاری ہے۔
محکمہ جنگلات خیبرپختونخوا نے کہا کہ 2سالوں میں صوبے میں 3کروڑ 92لاکھ سے زائد پودے لگائے گئے ہیں جس میں 94.31ملین پودے بذریعہ پلانٹیشن، 18.79ملین سوئنگ ڈبلنگ، 187.82ملین پودے قدرتی اور 91.15ملین پودے بذریعہ فارم فارسٹری یعنی عوام الناس میں فری تقسیم کئے گئے۔ محکمہ ماحولیات نے ایک ارب درخت لگانے کیلئے مختلف اضلاع میں خاص منصوبہ بندی کے تحت اقدامات اٹھائے ہیں اور صوبہ بھر کو 3حصوں میں تقسیم کرکے کام کیا گیا ہے۔ اسی طرح اپردیر میں سب سے زیادہ 3کروڑ پودے لگائے گئے جن پر 19کروڑ خرچ آئے۔ اورکزئی میں 2کروڑ 23لاکھ سے زائد پودوں کی شجرکاری پر 16کروڑ 25لاکھ روپے سے زائد خرچ ہوئے۔ چترال میں 2کروڑ 22لاکھ سے زائد پودوں کی شجرکاری پر 18کروڑ 87لاکھ روپے سے زائد رقم خرچ ہوئی۔ صوبائی دارالحکومت پشاور میں 95لاکھ سے زائد پودے لگائے گئے جن پر23کروڑ 57لاکھ روپے سے زائد خرچ ہوئے ہیں۔ اسی طرح ضم شدہ اضلاع شمالی و جنوبی وزیرستان، کرم، مہمند، باجوڑ، خیبر ودیگر میں بھی لاکھوں کی تعداد میں پودے لگائے گئے ہیں۔ سیاحتی مقامات کاغان، ہری پور، گلیات، کالام، سوات، شانگلہ سمیت ڈیرہ اور کوہستان میں بھی صوبہ بھر میں جاری شجرکاری مہم میں عوام نے اپنا بھرپور حصہ ڈالا ہے۔ عوام میں پودوں کی مفت تقسیم کو خوب پذیرائی ملی ہے اور اس کے تحت ایک ارب درخت لگانے کی مہم کو تقویت ملی ہے تینوں ریجنز میں 2019-20ء اور 2020-21ء کے دوران شجرکاری پر مجموعی طور پر 5ارب 74کروڑ روپے سے زائد رقم خرچ ہوئی۔ پودوں کی دیکھ بھال کیلئے چوکیداروں کے علاوہ نگہبان فورس تشکیل دی گئی ہے جوکہ ان جنگلات میں اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہی ہے۔ نگہبان فورس اور چوکیدار متعلقہ علاقوں میں دیہی ترقیاتی کمیٹیVDC کی نگرانی میں کام کررہے ہیں۔
وزیراعلیٰ کے احکامات پر ملازمین کو جنگلات کی دیکھ بھال اور ان کو بڑھانے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر احکامات دیئے گئے ہیں جس پر محکمہ ماحولیات عملدرآمد کروانے میں اپنا کردارادا کررہا ہے۔ محکمہ ماحولیات کی ٹیمیں دیگر اضلاع میں بھی ہدف کو پورا کرنے کیلئے اقدامات اٹھا رہی ہیں تاکہ وزیراعظم کی جانب سے ایک ارب درخت لگانے کے منصوبے کو جلدازجلد مکمل کرکے ٹارگٹ پورا کیا جاسکے۔ اسی طرح سائنسدانوں نے بھی شجرکاری کے دس سنہری اصول وضع کیے ہیں جن کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اگلی دہائی میں اقوام عالم کی یہ اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ شجرکاری ماحولیاتی تبدیلی سے بچنے اور بائیو ڈائیورسٹی (نباتاتی تنوع) کے تحفظ کا بہترین طریقہ ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ غلط درخت غلط جگہوں پر لگانے سے فائدے کی جگہ نقصان ہوسکتا ہے۔ اُن اصولوں میں سب سے پہلے جنگلات کا تحفظ اور اس کوشش میں مقامی لوگوں کو شامل کیا جانا ہے۔ ورلڈ بینک نے اپنی ایک رپورٹ میں پاکستان میں ایسے 6اضلاع کی نشاندہی بھی کی ہے۔ جہاں اگر شجرکاری نہ کی گئی تو وہ 2050ء تک یہ ریگستان بن جائیں گے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا کے کئی حصوں میں بڑے پیمانے پر درخت لگانے کے منصوبے جاری ہیں تاکہ جو درخت اور جنگلات صاف ہوگئے ہیں، ان کا ازالہ کیا جا سکے۔
جنگلات زمین کے لیے اہم ہیں جنگلات دنیا کے تین چوتھائی حیوانات اور نباتات کو محفوظ بناتے ہیں اور فضا سے کاربن ڈائی آکسائڈ جذب کرتے ہیں اور خوراک، ایندھن اور ادویات بھی فراہم کرتے ہیں۔ درخت لگانا یا شجرکاری ایک خاصہ پیچیدہ عمل ہے اور جس کا کوئی ایک آسان حل موجود نہیں ہے۔ جنگلات کو اپنی قدرتی حالت میں رکھنا ہمیشہ ہی بہتر ہوتا ہے۔ پرانے جنگلات زیادہ کاربن کو جذب کرتے ہیں اور وہ جنگل کی آگ، طوفانوں اور خشک سالی سے زیادہ بہتر تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ جہاں بھی ممکن ہو ہمیں اس بات پر زور دینا چاہیے کہ جنگلات کی کٹائی کو روکا جائے اور بچے کھچے جنگلات کو محفوظ بنانا ہی ترجیح ہونی چاہیے۔ اس کیلئے مقامی لوگوں کو درخت لگانے یا شجرکاری کی مہم میں آگے رکھنا چاہیے۔ اس بات کا مشاہدہ کئی مرتبہ کیا جاچکا ہے کہ جہاں کہیں بھی مقامی لوگوں کو شجرکاری یا جنگلات لگانے کی مہمات میں شامل کیا گیا ہے، وہ کامیابی سے ہمکنار ہوئی ہیں کیونکہ جنگلات کو محفوظ رکھنے میں سب سے زیادہ فائدہ مقامی آبادی ہی کو ہوتا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت خیبر پختونخوا میں تقریباً 8سال سے ہے اور تحریک انصاف کی حکومت نے ہی جنگلات کی غیرضروری کٹائی پر پابندی لگائی ہے جس سے کافی فائدہ پہنچا ہے۔
(خیبرپختونخواکے وزیرجنگلات ہیں)
٭……٭……٭

معاہدہ ہوگیا‘ اب کیا ہوگا؟

ملک منظور احمد
حکومت اور تحریک لبیک پاکستان کے درمیان بالآخر معاہدہ طے پا گیا ہے اور مظاہرین کی جانب سے سٹرکیں خالی کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے اور اسلام آباد اور راولپنڈی سمیت پنجاب کے کئی شہروں میں معمولات زندگی کا سلسلہ بحال ہونا شروع ہوگیا ہے لیکن اس معاہدے کے بعد سوالات کا جواب ملنے کے کے بجائے مزید سوالات کھڑے ہوگئے ہیں۔ حکومت کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ معاہدے کی تفصیلات وقت آنے پر عوام کے سامنے رکھی جا ئیں گی جبکہ اپوزیشن کا مؤقف ہے کہ کسی بھی معاہدے کی تفصیلات جاننا عوام کا حق حکومت فوری طور پر تفصیلات عوام کے سامنے رکھے، حکومت کی جانب سے مذہبی جماعت کے ساتھ مذاکرات کے لیے قائم کی جانے والی 12رکنی کمیٹی غیر فعال ہوگئی اور آخر میں آکر مفتی منیب الرحمان اور مولانا بشیر فاروقی نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے ساتھ مذاکرات کیے اور معاملہ کو کسی انجام تک پہنچایا۔
اس سارے دھرنے کے دوران حکومتی وزراء کا رویہ اور طرز عمل پر بھی مذہبی جماعت بلکہ علمائے کرام کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے اور یہ بات واقعی سوچنے کی ہے کہ حساس ترین معاملات میں چند وزراء کی غیرذمہ دارانہ بیان بازی معاملے کو سلجھانے کے بجائے مزید الجھانے کا باعث بنی۔ حکومت روز اول سے ہی اس معاملے پر مخمصے کا شکار دکھائی دی، کبھی حکومت نے مذہبی جماعت سے مذاکرات کی بات کی اور اگلے ہی دن ان کو عسکری تنظیم قرار دے کر ان کے خلاف سخت کارروائی کا مؤقف اپنایا اور شاید اسی کنفیوژن کے باعث عوام سمیت کسی کو بھی یہ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ حکومت آخر اس حوالے سے کیا پالیسی اپنانا چاہتی ہے لیکن بہرحال اطمینان بخش بات یہ ہے کہ معاہدے کے بعد ملک میں موجود بے یقینی اور انتشار کی فضا کا خاتمہ ہوا ہے اور عوام نے بھی سکھ کا سانس لیا ہے لیکن یہاں پر یہ امر اہمیت کا حامل ہے کہ اس معاہدے کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے کئی شخصیات نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان شخصیات میں سیاستدان اور علمائے کرام تو شامل ہیں ہی لیکن اس کے علاوہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجودہ نے بھی اس حوالے سے اہم ترین کردار ادا کیا ہے۔ اس حوالے سے ان کی جتنی تحسین کی جائے کم ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ آرمی چیف پاکستان کو ایک امن پسند ترقی یافتہ اور خوشحال ملک دیکھنا چاہتے ہیں اور اس معاملہ میں ان کا نہایت ہی مثبت اور اہم کرداد اس بات کی گواہی دیتا ہے اور یہ بات بھی یہاں پر قابل زکر ہے کہ پاکستان کی دشمن قوتیں بھی اس احتجاج کی آڑ میں پاکستان کے خلاف اپنے مذموم مقاصد پورے کرنے کے لیے پر تولے ہوئے بیٹھی ہوئی تھیں اور یہ معاہدہ ہونے کے باعث پاکستان ایک بڑے طوفان سے بچ گیا ہے۔
پاکستان اس وقت عالمی صورتحال کے تناظر میں دنیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے اور پاکستان پر اس حوالے سے بہت دباؤ بھی ہے اور پاکستان کو اس حوالے سے بہت محتاط انداز میں چلنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان پر پہلے ہی فیٹف کی تلوار لٹک رہی ہے اور یورپی یونین کی جانب سے بھی پاکستان کا جی ایس پی پلس کا تجارتی سٹیٹس جس کے تحت پاکستان کو یورپی منڈیوں میں ترجیحی رسائی حاصل ہے اور پاکستان کو گزشتہ چند سالوں میں پاکستان کو اس مد میں اربوں ڈالر کا فائدہ ہو چکا ہے، خطرے میں پڑ سکتا تھا، فرانس مذہبی جماعت کے احتجاج میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے اور فرانس ہی یورپی یونین کا مرکزی ملک بھی ہے۔ اگر فرانس کے سفیر کو ملک بدر کیا جاتا تو اس کا مطلب یہی ہوتا کہ پاکستان یورپی یونین کے ساتھ اپنے تعلقات کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔
بہرحال یہ پاکستان کے لیے بہت ہی مثبت پیشرفت ہے جوکہ اس معاہدے کی صورت میں سامنے آئی ہے، یہ بات بھی قابل غور ہے اور اس پر بات ہونی چاہیے کہ آخر کیوں حکومتی کمیٹی میں تبدیلی کی ضرورت پڑی، اگر مذہبی جماعت کے ساتھ معاہدہ کرنا ہی تھا جوکہ اس معاملے کا آخری حل تھا تو پھر معاہدے سے چند روز قبل ہی دھمکیاں کیوں دی گئیں؟ وزراء کے چند بیانات کی شکایت تو علمائے کرام نے بھی وزیراعظم سے ملاقات کے دوران کی۔ اس غیرسنجیدہ رویے پر وزیراعظم کو نوٹس لینا چاہیے اور یقینی بنایا جانا چاہیے کہ آئندہ ایسی صورتحال درپیش ہو تو کم ازکم اس کو ہینڈل کرنے کے لیے سنجیدہ رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ یہاں پر اس حوالے سے بھی سوالات اٹھ رہے ہیں کہ ملک میں دھرنا کلچر تو بہرحال موجودہ حکومت نے ہی شروع کیا تھا اور عوام کو اس انداز میں سٹرکیں بند کرکے احتجاج کرنے کاراستہ دکھایا تھا اور اب یہ طریقہ احتجاج نہ صرف موجودہ حکومت کے گلے میں خود پڑ گیا ہے بلکہ ملک کو نقصان پہنچانے کا بھی باعث بن رہا ہے۔ سوال کیے جا رہے ہیں کہ یہ ریت شروع تو کر دی گئی ہے لیکن اب اس کا اختتام کیوں کر ہوگا؟
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ پُرامن احتجاج تو ہر سیاسی اور مذہبی جماعت بلکہ ہر شہری کا بنیادی حق ہے لیکن راستے بند کرنا، عوام کی املاک کو نقصان پہنچانا، ریاستی اہلکاروں پر حملے کرنا کسی صورت بھی مناسب تصور نہیں کیاجاسکتا ہے اور نہ ہی کسی بھی مہذب ریاست میں اس کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ اس کلچر کا خاتمہ اب تمام سیاسی سٹیک ہولڈرز اور لیڈران کو ملکر ہی کرنا ہوگا ورنہ مستقبل میں اس طرح کے احتجاج کا سلسلہ ختم نہیں ہوسکے گا۔ جہاں تک بات ہے کہ کیا تحریک لبیک کی جانب سے اس معاہدے کی پاسداری کی جائے گی یا نہیں حکومت اس معاہدے پر عملدرآمد کرے گی یا نہیں؟ یہ سوال اہم ہیں لیکن ان کے جواب واضح اور اتنے سادہ نہیں ہیں۔ ان سوالات کا جواب تو قوم کو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مل ہی جائے گا لیکن امید کی جاسکتی ہے جن اہم قومی شخصیات نے اس معاہدے کو پا یہ تکمیل تک پہنچانے میں کلیدی کردارادا کیا ہے ان شخصیات کے اثر کے باعث یہ معاہدہ پائیدار ثابت ہوگا اور چلتا رہے گا لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا، یہ حقیقت ہے کہ پاکستان جیسے ملک پُرتشدد سیاست اور پُرتشدد احتجاج کے متحمل نہیں۔ اگر مستقبل میں ہم بہتری چاہتے ہیں تو اس حوالے سے سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭

ہم کِدھر جارہے ہیں

عبدالباسط خان
پاکستانی سیاستدان کسی بھی ملکی مسئلے پر بے صبری سے بیان داغنے میں شہرت رکھتے ہیں۔ ویسے تو بے صبری ہماری قوم میں بدرجہ اُتم موجود ہے اور ہم لوگ شارٹ کٹ طریقے سے کامیابی حاصل کرنے میں ہاٹ فیروٹ ہیں لیکن عوامی سطح پر بے صبری جو ہر آدمی آج سڑکوں پر دیکھ سکتا ہے اور ہم لوگ بلا تمیز چھوٹے بڑے، امیر وغریب جس ڈھٹائی سے موٹرسائیکل، کاریں، بسیں چلاتے ہیں اور کسی کارٹون فلم کی مانند نظر آتے ہیں مگر سیاسی قیادت دانشوروں اور تجربہ کار لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے اور انہیں عام آدمی کی نسبت اپنے ردعمل اور بیانیے کو سوچ سمجھ کر اور صبر کے ساتھ پیش کرنا چاہئے کیونکہ سیاسی معاملات پر فوری بیان بازی یا تجزیہ کاری ملک میں افراتفری اور انتشار پیدا کر سکتی ہے۔ اگر ہندوستان جیسے ملک میں کوئی سیاسی بحران، معاشی عدم استحکام آتا ہے تو ان کے ادارے مضبوط ہیں۔ ہماری بدقسمتی یہ رہی ہے کہ ہم لوگ 1947ء سے بعد اشرافیہ اور جاگیرداروں پر مشتمل سیاسی لیڈر شپ جو سیاسی فہم و فراست سے عاری اور ذاتی اغراض اور مفادات پر مشتمل تھی ملکی معاملات کو خوش اسلوبی سے چلانے میں نااہل ثابت ہوئی اور ابتدائی ادوار سے پاکستان سیاسی عدم استحکام اور ابتری کا شکار ہو گیا اگر ہماری سیاسی لیڈر شپ ایک دوسرے کے خلاف سازشوں میں شریک نہ ہوتی تو ہمیں نہ تو فوجی مداخلت کا سامنا کرنا پڑتا اور نہ ہی فوجی مداخلت کے بعد جمہوریت کو اتنا نقصان پہنچ سکتا۔
یہ ایک طویل فضول بحث ہے کہ ہمارے ہاں فوجی جرنیل سیاست میں ملوث ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے ملک اس حال کو پہنچا۔ تالی ہمیشہ دو ہاتھ سے بجتی ہے اور اگر ملک میں معاشی بدحالی، مہنگائی اور سیاسی لیڈر شپ کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ حالات ان حالات سے بہت مماثلت رکھتے ہیں لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے سیاستدانوں نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ ہاں ویسے تو قائد اعظم کو بھی لوگ نہیں بخشتے اور اردو زبان کو کو بنگال میں نافذ کرنے سے بنگالیوں کو اپنے سے متنفر کرنے میں موردِ الزام ٹھہراتے ہیں لیکن اب ہمیں آگے بڑھنا ہے اور پارلیمنٹ سے باہر کی سیاست کی بجائے فیصلے پارلیمنٹ کے اندر اتفاق رائے سے کرنے چاہئیں۔ پارلیمنٹ سے باہر سیاست کرنے سے ہم نے مارشل لاء کو دعوت دی اور آزادی کے بعد واحد عوامی لیڈر جو نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں مشہور تھا کھو دیا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے بحیثیت سیاستدان مذاکرات کے ذریعے اپوزیشن کو دعوت دی جس کو قبول کرنے میں اپوزیشن نے بہت وقت گنوا دیا اور پھر جو کچھ ہوا آج ہمارے سامنے ہے نہ کوئی لیڈر نہ کوئی سیاستدان اور نہ ہی محب وطن نظر آتا ہے ہم ایک گروہ کی مانند قوم ہیں جن میں صرف اور صرف نفانفسی اور ذاتی مقاصد کے حصول کی تمنا اور خواہش ہے۔ سیاستدان اپنی اپنی باریوں کے انتظار میں بیٹھے ہیں اگر فوجی مداخلت یا ملٹری اسٹیبلشمنٹ ہی اس ملک کی بربادی کی ذمہ دار ہے تو آج سیاستدان جو کچھ کر رہے ہیں وہ کیا کہیں گے ایک ملک کے وزیراعظم نے تبادلوں کے بارے میں نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا تو وہ سیاستدان جوفوج پر الزام دھرنے میں دیر نہیں لگاتے تھے یا سلیکٹڈ وزیراعظم کہہ کر تمسخر اڑاتے تھے فوج کے ساتھ ہمدردی دکھا رہے ہیں وہ سویلین لیڈر شپ کو طعنہ دے رہے ہیں کہ وہ فوج کے معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں حالانکہ ان کو وقتی طور پر عمران کمزور نظر آ رہا ہے کیونکہ مہنگائی زوروں پر ہے اور افغانستان کے حالات پاکستان کی موجودہ حکومت کیلئے معاشی اور سیاسی طور پر سازگار نہیں۔
میں تو اس کو موقعہ پرستی سے ہی تعبیر کروں گا یہی طرز عمل PNA کی تحریک جو 1977ء کے الیکشن کے بعد چلائی گئی اور فوج کو دعوت دی گئی کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیں وہ PDM جو الیکشن کے بعد مسلسل عمران خان کی حکومت کو گہری تنقید کا نشانہ بنائے ہوئے تھی آج اپنے مطلب کیلئے مفاد کیلئے اور حکومت کے جلد خاتمے کے لئے سویلین لیڈر شپ کے خلاف علم اٹھاتی نظر آتی ہے یہ موقع پرستی جلد بازی، ذاتی مفاد پرستی نہیں ہے تو پھر کیا ہے؟ فوج بیچاری کو خواہ مخواہ موردِ الزام ٹھہرا دیا جاتا ہے آزادی کے فوراً بعد تو ہم نے ہوش میں وہ حالات نہیں دیکھے صرف تاریخ میں پڑے جبکہ ایوب خان، بھٹو صاحب کے دور سے آج تک سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے وہ سیاسی لیڈر شپ جو ملکولیت، جاگیرداری اور سرمایہ داروں پر مشتمل تھی آج کاروباری اور بزنس پر مشتمل افراد کے ہاتھوں میں آ چکی ہے۔ ہم ڈوبتی ہوئی کشتی کو کنارے پر لے جانے کی بجائے اس کشتی میں سوراخ کرنے کے لئے آمادہ نظر آتے ہیں ملکی معیشت کا بیڑہ غرق کرنے میں عمران خان تنہا ذمہ دار نہیں یہ سب سیاسی لیڈر شپ سے جنہوں نے اپنے ادوار میں بھاری قرضے لے کر عوام کو سب سڈیاں فراہم کیں ان کو تن آسانی اور عیاش قوم بنا دیا۔
وہ قومیں آج دنیا میں مشہور ہیں جنہوں نے آخر میں پی ڈی ایم کے جلسے میں جس میں نواز لیگ اور فضل الرحمن نمایاں ہیں ایک فوجی کور کمانڈر کے خلاف استعفیٰ دینے کیلئے نعرہ بازی کروانے والے کون سے محبت وطن سیاستدان ہیں۔ ہمارے نام نہاد لیڈروں نے اپنی غلطیوں اور غلط فیصلوں سے اس ملک کو بدحالی، معاشی عدم استحکام کی طرف دھکیلا اپنے دور حکومت کا زیادہ وقت ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی، جلسوں، ریلیوں اور روڈ مارچ میں گزارا اور اس غریب عوام کو ہسپتال بنانے اور تعلیمی اداروں میں بھیجنے کی بجائے اورنج ٹرین، میٹرو، بی آر ٹی، موٹر ویز ایکسپریس بنانے میں گزارا۔ ہماری قوم جو تیسرے امپائر کی شوقین ہے۔ کوئی یہ بتائے کہ جلد الیکشن کرنے یا حکومت گرانے سے مہنگائی ختم ہو سکتی ہے وہ کون سا جن ہے جو فوراً الہ دین کے لیمپ کی مانند حالات ٹھیک کر دے گا اس گھر کو اس چمن کو اجاڑنے میں سب لیڈرز براہ راست شریک ہیں اور سب مل کر ہی پارلیمنٹ میں اس حکومت سے ڈائیلاگ کریں اور ایک مشترکہ طرز عمل بنائیں اس ملک میں اعتدال پسندی رواداری ایک دورسے کی عزت کرنے اور احترام کو اپنا شعار بنائیں۔
ملکی معیشت کو فی الحال فوری ٹھیک نہیں ہو سکتی لیکن ملکی سیاست کو گالم گلوچ، وشنا طرازی روڈ مارچ جلسے جلوسوں ریلیوں کی بجائے فہم و فراست سیاسی سوجھ بوجھ متفقہ پالیسی بنا کر اس پاکستان کی اس ڈوبتی کشتی کو پار لگائیں ملکی مفاد قومی سلامتی کیلئے پاکستان جیسی ایٹمی قوت کو سب مل کر پارلیمنٹ میں جائیں اور اگلے الیکشن کیلئے ضابطہ اخلاق اور ووٹ چوری سے بچاؤ کیلئے اقدامات کئے جائیں۔
(کالم نگارمختلف موضوعات پرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭