لیفٹیننٹ جنرل(ر)اشرف سلیم
پاکستان کا سواٹ(SWOT) تجزیہ (Analysis)
سواٹ یا SWOT مخفف ہے,Strengths یا قو تیں، weaknesses یا کمزوریاں، Opportunities یا مواقع اور Threats یا خطرات۔ یہ انتظامی علوم میں ایک تجزیاتی ہتھیار(tool) کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔
سواٹ کیوں کہا جانا ضروری ہے؟ کسی بھی شخص‘ ادارے یا ملک کا اگر تجزیہ کرنا ہو تاکہ اس کی مکمل طور پر طاقت، کمزوری، اور اس کو کیا مواقع درکار ہیں یا اس وقت حاصل ہیں اور اس کی ترقی کی راہ میں کیا کیا رکاوٹیں یا خطرات حائل ہیں تو ضروری ہے کہ اس ملک,ادارے یا شخص کا جلدی سے مگر مکمل تجزیہ کیا جائے اور اس تجزیہ کی بنا پر اس ملک, ادارے یا شخص کیلئے مستقبل کا صحیح لائحہ عمل بنایا جائے۔ یعنی سواٹ تجزیہ ایک جلدی سے کیا جانے والا مگرْ کسی حد تک مکمل تجزیہ ہے جو کسی بھی مینیجر یا لیڈر کو ہتھیار کے طور پر دستیاب ہے – مندرجہ ذیل مختصرتجزیہ ایک مثال کے طور پر پاکستان کا کیا جارہاْہے جس میں جگہ کی کمی کے پیش نظر تفصیل کو محدود کیا گیا ہے:
پاکستان کی قوتیں یا طاقتیں (Strengths)
پاکستان جغرافیائی لحاظ سے ایک اہم اور با صلاحیت ملک ہے۔
پاکستان کی بائیس کروڑ آبادی کا ساٹھ فیصد سے زیادہ حصہ تیس سال سے کم عمر یعنی جوان ہے اور کام کرنے کی صلاحیت رکھتاہے۔ دوسرے الفاظ میں پاکستان ایک جوان ملک ہے۔
پاکستان کی بنیاد ایک مضبوط نظریے یعنی دو قومی نظریے پر ہے جو اسلام کی روح سے ماخوذ ہے۔ یہ نظریہ ایک مضبوط بنیاد ہے جس پر ایک بہت زندہ اور ترقی پسند قوم کی تعمیر کی جا سکتی ہے۔
پاکستان کا اندرونی جغرافیہ بہت ہی متنوع ہے یعنی پہاڑ ہیں سطح مرتفع ہے زرخیز میدانی علاقے ہیں صحرا ہیں اور ایک ہزار کلومیٹر تک ساحل سمندر ہے جس سے بہت ہی متنوع قسم کی پیداوار حاصل کی جا سکتی ہے۔
پاکستان میں زراعت کے بہت اچھے مواقع ہیں جس سے خوراک میں خود کفالت اور زرعی بنیاد پر صنعتیں لگانے کی بہت بڑی گنجائش موجود ہے۔
درمیانے درجے کی صنعتیں اور زراعت ہے۔
تعلیم اور صحت کا درمیانے درجے کا ڈھانچہ موجود ہے۔
پاکستان کی مسلح افواج ملک کو درپیش اندرونی اور بیرونی خطرات سے نپٹنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور ان کی اس استعداد کے پیچھے نیوکلیر ڈیٹرنس بہی موجود ہے جو کہ پاکستان کی اقتصادی اور معاشرتی ترقی کو کسی قسم کے بیرونی خطرے سے محفوظ بناتا ہے۔
پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ بیرون ملک مکین ہے اور وہ وہاں کام کرنے والے پاکستانی ایک معقول زر مبادلہ پاکستان اپنے خاندانوں کو بھیجتے ہیں اس طرح برآمدات سے زیادہ زر مبادلہ پاکستان کی بیرونی ممالک سے ترسیلات کی مد میں حاصل ہوتا ہے۔
پاکستان کی کمزوریاں (weaknesses)
پاکستان کی آبادی بائیس کروڑ اور اس کا ساٹھ فیصد تیس سال سے عمر میں نیچے ہونے کے باوجود یہ آبادی جدید ہنر وں سے نابلد اور تقریباً بے ہنر ہے جس سے نہ صرف ملک سے باہر ان کو کم معاوضہ ملتا ہے بلکہ ملک کے اندر بھی یہ لوگ ملکی ترقی میں کوئی خاص کردار ادا نہیں کر رہے۔
ملک کی جغرافیائی اہمیت اپنی جگہ بہت سی کمزوریوں کو بھی جنم دیتی ہے جس کی وجہ سے پاکستان دفاعی لحاظ سے ایک بڑی رقم اپنے دفاع پر خرچ کرنے پر مجبور ہے۔
پاکستان اپنے قیام کے چند سال بعد سے ہی سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا شکار ہے۔ اور مستقبل قریب میں استحکام کی کوئی صورت کم ہی نظر آتی ہے۔
کمزور حکومتی نظام نے امن و امان اور معاشرتی مسائل کو بدرجہ اْتم بڑھایا ہے۔ جو ابھی بھی حل طلب ہیں اور بہت سارے ملکی عدم استحکام کے ذمہ دار ہیں۔
کمزور معاشی اور مالی حالات کی وجہ سے ملک اور حکومتوں کو بین الاقوامی مالی اداروں پر انحصار کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے ملک کی مالی اقتصادی اور سیاسی آزادی محدود ہو جاتی ہے۔
کمزور حکومتی نظام اور بار بار ابھرتے ہوئے امن و امان کے مسائل ملک میں عوامی بے چینی اور خراب اقتصادی اور معاشی حالات کے ذمہ دار ہیں جو متعدد حکومتوں کے ادوار میں اور بھی بڑھ گئے ہیں۔
غیر ریاستی عناصر اور ابھرتے ہوئے منفی سیاسی حالات ملکی ترقی اور معاشرتی بے اطمنانی کے ذمہ دار ہیں۔
پاکستان کے لئے مواقع (opportunities)
پاکستان میں زرعی اور اس سے متصل صنعتی ترقی کے مواقع بے شمار ہیں جن کو اگر ماڈرن یا جدید ٹیکنالوجی پر استوار کیا جائے تو پاکستان بہت جلدی اور قدرے آسانی سے ایک تیز رفتار ترقی کرنے والا ملک بن سکتا ہے۔
پاکستان کی ساٹھ فیصد نوجوان آبادی کو اگر کیپیٹل ہیومن (human capital) میں تبدیل کیا جائے تو یہ ایک بہت قیمتی اثاثہ ثابت ہو سکتی ہے جس سے نہ صرف اندرونی صنعت اور سروس سیکٹر کو تیز رفتار ترقی دی جا سکتی ہے بلکہ اس تربیت یافتہ افرادی قوت سے کثیر زر مبادلہ بھی نسبتاً کم مدت میں حاصل کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان کے عسکری ادارے اپنے خطے کے ممالک کی افواج کے لئے بہترین تربیتی درسگاہیں بن سکتے ہیں جس سے نہ صرف ملٹری ڈپلومیسی مضبوط ہو گی بلکہ ہمارے زر مبادلہ کے مسائل بھی کسی حد تک کم ہو سکتے ہیں۔
سیپیک (CPEC) پاکستان کی اقتصادی اور صنعتی ترقی میں بہترین کردار ادا کر سکتا ہے اگر پاکستان اپنے حصے اور ذمہ کا کام قدرے تیزی اور اور زیادہ ذمہ داری سے کرے اور جہاں جہاں اس منصوبے میں ابہام ہوں اس کو جلد سے جلد چین سے بات چیت سے دور کیا جائے۔
پاکستان کے پاس لمبا سمندری ساحل اور میری ٹائم زون ہے اور بڑی مقدار میں معدنیات کے ذخائر ہیں جن کو بروئے کار لایا جانا ملکی ترقی اور جاب (job) کریایشن (creation) کا بہترین ذریعہ بن سکتا ہے۔
پاکستان میں سیاحت کے بہترین مواقع ابھی تک تعبیر پانے کے منتظر ہیں مگر مالی وسائیل کی کمی نے اس سیکٹر میں ترقی کو روک رکھا ہے۔
پاکستان کے لئے خطرات (Threats)
پاکستان کے ارد گرد کا ماحول یا جنوبی اور وسطی ایشیائی خطہ بہت عرصے سے بے اطمینانی اور جنگی ماحول کا شکار ہے۔ کشمیر کے مسئلے کا حل نہ ہونا پاکستان کی بقا کو سب سے بڑا خطرہ ہے اور ساتھ ہی افغانستان میں مسلسل چالیس سال سے جنگ پاکستان کے معاشرتی اور اقتصادی مسائل کو دُگنا کرتی رہی بلکہ پاکستان کے اندر بھی دہشت گردی کی فضا کا باعث بنی۔
پاکستان کا مسلسل اور حد سے زیادہ انحصار آئی ایم ایف (IMF) اور دوسرے عالمی مالی اداروں پر ہے جو کہ غیر ملکی قرضوں کے غیر معمولی بوجھ کا باعث اور برداشت سے باہر ہو رہا ہے۔ اندرونی وسائل کو بڑھانا اور غیر ترقیاتی اخراجات اور غیر ضروری درآمدات کو کم کرنا انتہائی ضروری ہے۔
بڑھتی ہوئی غیر تربیت یافتہ آبادی ملکی ترقی اور بقا کے لئے خطرہ ہے۔ جس پر قابو پانا ضروری ہے۔
ملک کے کمزور حکومتی نظام اور امن و امان کے بڑھتے ہوئے خطرات کا مناسب انتظامی اور سیاسی طریقوں سے انسداد ہماری سلامتی کا ضامن ہو سکتا ہے۔
ملک کے لئے سب سے بڑا خطرہ اس ملک کا ایلی ٹسٹ (elitist) سیاسی نظام ہے جس میں عام لوگ اپنے آپ کو اجنبی اور غیر حصہ دار تصور کرتے ہیں ایسے حالات کسی بھی آبادی کو اپنے نظام حتیٰ کہ ملک سے بھی متنفر یا بیگانہ کر سکتے ہیں۔ اس لئے موجودہ سیاسی اور انتظامی ڈھانچے کو بہتر سسٹم سے بدلنا ضروری ہو گا۔
مندرجہ بالا عناصر جن کی بنا پر پاکستان کا تجزیہ کیا گیا ہے مکمل نہیں اس تجزیہ میں اور فیکٹرز بھی شامل کئے جا سکتے ہیں۔ مقصد ہے کہ اپنے ملک کے حالات کا ممکن حد تک صحیح تجزیہ کیا جائے اور جن مسائل کی نشاندہی ہو ان کو بہتر سے بہتر طریقے سے جلد حل کیا جائے۔ مسائل کے ساتھ لمبی مدت تک رہنا ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔
کسی بھی ملک ادارے یا شخص کے لئے ضروری ہے کہ اس کی قوت یا strengthsکو بڑھایا جائے، کمزوریوں یا weaknesses کو کم کیا جائے، اپنے کارآمد مواقع opportunities کو پھیلایا جائے اور در پیش خطرات یا threats کو بر وقت رفع کیا جائے اور ان پر مسلسل نظر رکھی جائے جس کے لئے مضبوط ادارے تشکیل دئے جائیں۔
سواٹ یا SWOT ایک متحرک یا dynamic تجزیاتی آلہ یا tool ہے جس کو مسلسل استعمال میں لا کر ہم اپنے ملک اپنے ادارے یا اپنے آپ کو وقت کی رفتار سے ہم آہنگ رکھ سکتے ہیں۔ شرط ایمانداری، خلوص اور آپ کی یعنی سواٹ کرنے والے کی قابلیت ہے۔
خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
(کالم نگار ہلال ملٹری امتیازاورسابق ہائی کمشنر ہیں)
٭……٭……٭
All posts by Daily Khabrain
سیاسی جماعتیں اورووٹ بنک
عبدالستار خان
کچھ ہی سال پہلے وجود میں آنے والی ایک مذہبی تنظیم جسے بعد میں کالعدم قرار دے دیا گیا تھا۔ وہی کالعدم تنظیم اب تک دو حکومتوں کو اچھے خاصے مشکل ترین مراحل سے گزار چکی ہے۔ دوسری طرف ملک کی وہ سیاسی جماعتیں ہیں جو کافی عرصے سے شور مچا رہی ہیں کہ ہم دھرنا دے دیں گے، ہم لانگ مارچ کریں گے۔ ہم پہیہ جام کر دیں گے۔ ہم اس حکومت کو ختم کر دیں گے۔ ہم احتجاجی سیاست کی مہم شروع کریں گے جو موجودہ حکمرانوں کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کر دے گی۔ اِس بات کا تو سب کو علم ہے کہ ایک کالعدم تنظیم اور بے شمار پرانی اور تاریخی سیاسی جماعتوں میں بہرحال فرق ہوتا ہے۔ اپوزیشن کی یہ سیاسی جماعتیں حکومتیں بھی بناتی رہی ہیں۔ اور حکومتوں کا حصہ بھی رہی ہیں۔ ان کو تو معلوم ہی ہو گا کہ حکومتی سیاست اور اپوزیشن کی سیاست کیا ہوتی ہے۔ جب حکومت میں ہوتے ہیں تو کس طرح کی سیاست کی جاتی ہے۔ لیکن جب وہی لوگ اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو کس طرح کی سیاست کی جاتی ہے۔
ان سب باتوں کا بخوبی اندازہ ہونے کے باوجود اپوزیشن کی ان تمام سیاسی جماعتوں کو بلند بالا دعوے، سیاسی بیانات کی شکل میں کرنے پڑ جاتے ہیں۔ یا عادت ہو چکی ہے۔ یا پھر خوف ہے کہ لوگ، سپورٹرز، ووٹرز ہی ساتھ دینا چھوڑ دیں کہ یہ تو کوئی بڑا سیاسی بیان ہی نہیں دے پا رہے۔ بہرحال یہ بات بھی طے ہے کہ اپوزیشن کی تمام جماعتیں مل کر بھی وہ نہیں کر سکتیں جو ایک کالعدم تنظیم نے کر دیا۔ حکمرانوں کے بیانات اور حرکات واضح طور پر اِس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ حکمران جماعت اور ان کے ساتھی ملک کی اپوزیشن میں شامل تمام جماعتوں سے اس طرح سے خوف زدہ نہیں ہیں۔ جتنی وہ ایک کالعدم تنظیم سے ہیں۔جہاں ایک طرف حکمران گھبرائے ہوئے تھے۔ وہاں دوسری طرف ایک عام آدمی بھی بہت گھبرایا ہوا تھا۔
اگر حکمران جماعت تحریک انصاف کی بات کی جائے تو اپوزیشن میں رہتے ہوئے وہ سیاسی طور پرایک غیر پختہ سیاسی جماعت کی طرح ابھری تھی۔ حکومت میں آنے کے باوجود کبھی کبھار ایسا لگتا ہے کہ تحریک انصاف ابھی تک اپوزیشن میں ہے۔ اور حکمران جماعت بننے کی کوششوں میں مگن ہے۔تحریک انصاف کی حکومت کے بارے میں محسوس ہوتا ہے کہ شاید کسی ایک جماعت کی حکومت نہیں۔ بلکہ ایک مجموعہ ہے۔ کوئی کہیں سے تو کوئی کہیں سے حکومت میں آنے سے پہلے اور اپوزیشن کے دور میں تحریک انصاف نے بڑے بڑے دعوے کر دیئے تھے۔ بلکہ آبادی کے اس حصے کو سیاسی طور پر متحرک کر دیا تھاجو سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں سے بالکل ہی مایوس تھا۔ اسی لئے وہ کسی بھی سیاسی جماعت کا حصہ بننے کے لئے بالکل ہی تیار نہیں تھا۔ لیکن حکومت میں آنے کے بعد شُنید ہے کہ شاید وہ دِن دور نہ ہو جب یہ لوگ بھی تحریک انصاف کو باقی سیاسی جماعتوں کی صف میں کھڑا کر دیں۔ کالعدم تنظیم کی تحریک ایک سیاسی تحریک نہیں ہے۔ بلکہ جوش اور بے خوفی کی کیفیت ہے۔ جبکہ دوسری طرف حکمران جماعت اور اپوزیشن میں شامل سیاسی جماعتیں بہرحال ہمیشہ ہی ایک سیاسی تحریک کی بات کرتی رہی ہیں۔
سیاسی تحریک ایک ایسی تحریک ہوتی ہے جس میں بہرحال ہدف حاصل ہو یا نہ ہو۔ لوگ آپ کے ساتھ جڑے رہتے ہیں۔ اب یہ حکمران اور اپوزیشن کی تمام جماعتیں جانتی ہیں کہ وہ اپنے اپنے سپورٹرزاور ووٹرز کو اپنے ساتھ جوڑے رکھیں گی تو ان کا وجود برقرار رہے گا۔ کچھ سمجھ دار لوگوں کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کی بڑی جماعتیں خاص طور پر مسلم لیگ ن اس وقت سیاسی جماعت کے حوالے سے سب سے بہتر پوزیشن میں ہے اور مسلم لیگ ن کو ہی سب سے زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ کیونکہ جس کا ”ووٹ بینک“ محفوظ ہو اسے سب سے زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ جبکہ دوسری طرف تحریک انصاف کو حقیقی طور پر اپنا ووٹ بینک بنانا پڑے گا۔ ”ووٹ بینک“ کتنا محفوظ ہے۔ یہ سیاسی طور پر سب سے کڑے وقت میں ثابت ہوتا ہے۔ تحریک انصاف کا ”ووٹ بینک“ کتنا محفوظ ہے۔ یہ 2023ء کے انتخابات ہی سے پتہ چلے گا۔
(کالم نگارمعروف صحافی‘اینکرپرسن ہیں)
٭……٭……٭
کیاہمارا جوش میں آنا بنتا ہے؟
ندیم اُپل
برسوں پہلے جب ایوب خان کے آخری دور میں بھٹو صاحب نے مہنگائی کو جواز بنا کر ایوب حکومت کے خلاف تحریک چلائی جس نے بالآخر ایوب خان کے دس سالہ سنہری دور کا خاتمہ کر دیا تھا اس تحریک کے دوران جب لاہور میں اے جی آفس کے قریب دو طالب علم شہید ہو گئے تھے تب ایوب خان نے ایک فوجی آمر ہونے کے باوجود اسی وقت اقتدار چھوڑنے کا اصولی فیصلہ کر لیا تھا انہوں نے اپنی کتاب،”جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی“ میں بھی تحریر کیا ہے کہ جب ان کی حکومت کے خلاف ہنگاموں میں پولیس کی گولی سے دو طالب علم شہید ہوئے تھے تو انہوں نے اپنی بیگم سے کہا تھا کہ دیکھو میری قوم کے دو طالب علم شہید ہو گئے ہیں کیا میں اب بھی حکومت کرنے کے لائق ہوں؟اور پھر جب حالات واقعی بے قابو ہوگئے توانہوں نے مستعفی ہونے کا حتمی فیصلہ کر لیا۔قوم سے اپنے آخری خطاب میں انہوں نے کہا،ہم نے سوچا تھا کہ حالات معمول پر آجائیں گے اور ہم خود کو دوبارہ قوم کی خدمت کے لیے وقف کر دیں گے مگر بدقسمتی سے حالات بدتر سے بدتر ہوتے چلے گئے۔میں نے ایک بار آپ سے یہ بھی عرض کیا تھا کہ قوم مسائل جوش کے بجائے ہوش سے حل کیے جانے چاہئیں مگر آپ نے دیکھ لیا کہ جوش کی آگ جو ایک مرتبہ بھڑک اٹھی ہے اس کے سامنے ہر شخص بے بس ہو کر رہ گیا ہے۔قومی مسائل کا فیصلہ گلیوں اور چوراہوں میں ہونے لگا ہے۔ہجوم کا شیوہ ہے کہ جہاں چاہا گھیرا ڈال لیا اور جو چاہا منوا لیا لہٰذا میں اپنے ملک کی بربادی کی صدارت نہیں کر سکتا اور مسلح افواج کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ ملک کا نظم و نسق سنبھال لیں۔ یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے اقتدار جنرل یحییٰ خان کو سونپ کر بہت بڑی غلطی کی تھی جن کی قیادت میں ملک دو لخت ہو گیا مگر اس وقت ہمارا موضوع سقوط ڈھاکہ نہیں بلکہ ایوب خان کا ایک سربراہ مملکت کے طور پر ان کا کردار ہے کہ جب ان کی حکومت میں پولیس فائرنگ سے دو طالب علم شہید ہوئے تو انہوں نے اقتدار سے الگ ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ایک بھی انسانی جان کی کتنی قیمت ہوتی ہے ایوب خان سے زیادہ آج تک آنیوالے کسی بھی حکمران کو ایسا احساس نہیں ہواکہاں اب دو تو کیا دوسو افراد کی جان بھی چلی جائے تو ذمہ داران کی مذمت اور مظلوم سے تعزیت اور معذرت سے آگے بات نہیں جاتی۔آخر صرف افسوس معذرت اور مذمت کے کلچر کے سہارے ہم کب تک چلیں گے کیونکہ ظالم کی مذمت کرنے سے اسے کوئی فرق پڑتا ہے اور نہ مظلوم سے خالی ہمدردی کرنے سے اس کی اشک شوئی ہوتی ہے۔بات تو تب ہے کہ جب انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں۔
قارئین! ہمارا موضوع کچھ اور تھا بات ایوب خان کی آخری تقریر پر چلی گئی۔انہوں نے اپنی تقریر میں ایک ہی اہم اور فکر انگیز بات کی تھی کہ قومی مسائل جوش کے بجائے ہوش سے طے کیے جانے چاہئیں اور یہ پہلا موقع ہے کہ حال ہی میں جو مسئلہ اٹھ کھڑا ہو اہے جس نے پوری قوم کو مسلسل دس بارہ روز تک ذہنی اذیت میں مبتلا کیے رکھا اور ایسے نازک وقت میں جب بعض عناصر جوش دلانے کی کوشش کر رہے تھے۔وزیر اعظم عمران خان کی حکومت نے جوش کے بجائے ہوش سے کام لے کر انتہائی دانشمندی کا ثبوت دیا اور بات بگڑتے بگڑتے بن گئی جس کا کریڈٹ بلاشبہ ملک کی سول اور عسکری قیادت کے ساتھ ساتھ ہمارے جیّد علمائے کرام کو بھی جاتا ہے جنہوں نے آگے بڑھ کر حکومت کی مدد کی اور ملک میں امن و سکون ہوگیا مگر یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے موجودہ حالات میں جب ہم آئی ایم ایف، ایف اے ٹی ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں کیا ہمارا جوش میں آنا بنتا ہے۔سیانے کہتے ہیں کہ جس کام کے کرنے کا فائدہ نہ ہو مگر نقصان کا سو فیصد اندیشہ ہو وہ کام نہیں کرنا چاہیے۔ایوب خان نے اپنی طاقت کا زور نہیں دکھایا تھا ہوش کے ناخن لیے تھے اور ہمیں قائد اعظم کا سالم پاکستان دے کر اقتدار سے الگ ہوئے تھے مگر بعد میں جنہوں نے جوش دکھایا اپنے گرد ہوس اقتدار اور انا کی بلند و بالا دیواریں کھڑی کیں انہوں نے بابائے قوم کا آدھا پاکستان گنوا دیا مگر اس کے باوجود جوش آج بھی ان کا کم نہیں ہواجبکہ اس وقت ہوش کی تدبر اور فراست کی ضرورت ہے جس کا کریڈٹ بلا شبہ وزیراعظم عمران خان کو دینا پڑے گا۔تاہم اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ سچائی کو لے کر آگے بڑھا جائے جو بات ہوئی جو معاہدہ ہوا فریقین کی طر ف سے اس کی پاسداری کی جائے اور اس بات پر نظررکھی جائے کہ کسی بھی طرف سے کوئی خرابی پیدا کرنے کی کوشش نہ کی جائے کیونکہ جس ناز ک دور سے ہم گزر رہے ہیں اس میں ذراسی بھی غلطی، کوتاہی یا بھول چوک ہمیں مشکلات کے ایک نئے گرداب میں پھنساسکتی ہے۔
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭
رحمت للعالمینؐ اتھارٹی سے یاد آیا
اسرار ایوب
جناب وزیرِ اعظم نے رحمتؐ اللعالمین اتھارٹی قائم کرنے کااعلان تو کیا لیکن کیا انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے آخری نبیؐ کو رحمتؐ اللعالمین کیوں کہا؟
نبی آخر الزماں ؐ کی بعثت کا مقصد قرآنِ کریم میں یہ بتایا گیا کہ آپ ؐ ان بوجھوں کو اتار دیں جن کے نیچے انسانیت دبی ہوئی ہے اور ان زنجیروں کو تو ڑ دیں جن میں انسان جکڑا ہوا ہے (/157الاعراف)۔پہلی زنجیر ”ملوکیت“ دوسری ”سرمایہ پرستی“ اور تیسری ”مذہبی پیشوایت“ کی ہے۔قرآن کی رو سے فرعون،قارون اور ہامان بالترتیب ملوکیت، سرمایہ پر ستی اور مذہبی پیشوایت کے نمائندے ہیں (/39العنکبوت، /23-24المومن)۔ فرعون، قارو ن اور ہامان نے بنی اسرائیل کے حقوق پامال کیے جبکہ فرعونیت، قارونیت اور ہامانیت ساری انسانیت کا استحصال کر رہی ہے۔
قرآن ملوکیت کی زنجیر کو توڑنے کا حکم یوں دیتا ہے کہ ہر انسان (انسان ہونے کی وجہ سے) واجب التکریم ہے (70/بنی اسرائیل) کسی انسان کو بھی اس بات کا حق حاصل نہیں کہ وہ کسی دوسرے انسان پر حکومت کرے اور اس سے اپنی محکومیت کر وائے (/79ال عمران) حکومت کا حق صرف خدا کو حاصل ہے کیونکہ وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے (/57الانعام) لہذا قرآن کی اطاعت کرو (/3الاعراف، /55الزمر) یعنی قرآن کے مطابق فیصلے کرو (/105النساء، /76النمل) یعنی عدل کے مطابق فیصلے کرو (/58النساء، /42المائدہ)۔ اسی لئے حضور اکرمؐ نے فرمایا کہ ”جو (حکمران اپنی مرضی کے مطابق نہیں بلکہ) اللہ کے کتاب کے موافق تمہیں چلانا چاہے اس کی اطاعت کرو اور اس کی بات سنو“(مسلم)۔
سرمایہ پرستی کی زنجیر کو توڑنے کی ہدایت یوں کی کہ (پیداوار کے وسائل یعنی زمین، پانی، ہوا وغیرہ خدا کی طرف سے بخشش کے طور پر عطا کیے گئے ہیں اور) جو کچھ خدا کی طرف سے بطور بخشش عطا ہوا ہے (وہ کسی کی ذاتی ملکیت نہیں ہو سکتا یعنی) اسکے گرد حصار نہیں کھینچا جا سکتا (/20بنی اسرائیل)دولت کی گردش ایسی ہونی چاہیے کہ یہ (تمام طبقوں میں مساوی طور پر تقسیم ہو) اوپر کے طبقے میں ہی نہ پھرتی رہے (/7الحشر) اے محمدؐ (جب) یہ تم سے پوچھتے ہیں کہ ہم کتنا مال (معاشرے کی فلاح و بہبود پر) خرچ کریں تو ان سے کہہ دو کہ (ان کے پاس انکی) ضرورت سے زیادہ جتنا بھی ہو (/219البقرۃ)۔ چنانچہ نبی اکرم ؐ نے فرمایا کہ ”دینار و درہم کے بندوں پر لعنت کی گئی ہے“(ترمذی۔مشکوۃ)”مال بڑھانے والے، فخر کرنے والے اور دولت مندی دکھانے والے سے خدا ناراض ہو گا (بیہقی۔ شعب الایمان۔ مشکوۃ)“۔
مذہبی پیشوایت کی زنجیر کو توڑنے کی تاکید یوں کی کہ”خدا ہر پکارنے والے کی پکار سنتا ہے“ (/186البقرۃ)”خدا انسان کی شہہ رگ سے بھی زیادہ انسان کے قریب ہے“ (/16ق)”مومنو! اکثر علماء اور مشائخ لوگوں کا مال ناحق کھا جاتے ہیں او ر لوگوں کو خدا کے راستے کی طرف آنے سے روکتے ہیں (کہ اگر خدا کی حکومت قائم ہو گئی تو انکی حکومت ختم ہو جائے گی) (/34التوبۃ)۔ حضور ؐ نے فرمایا کہ ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں بندے کے گمان سے بھی زیادہ بندے کے قریب ہوں“(متفق علیہ) ”اللہ تعالی فرماتا ہے کہ جب میرا بندہ مجھے یاد کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ اپنے دونوں ہونٹوں کو حرکت دیتا ہے“(بخاری)۔
قرآن کی رو سے ملوکیت، سرمایہ پرستی اور مذہبی پیشوایت ایک ہی درخت کی تین شاخیں ہیں، ایک ہی ابلیسی نظام کے تین حصے ہیں۔ اقبال کی مشہور نظم ”ابلیس کی مجلسِ شوری“میں ابلیس خود یہ کہتا ہے کہ
اس میں کیا شک ہے کہ محکم ہے یہ ابلیسی نظام
میں نے سکھلایافرنگی کو ملوکیت کا خواب
میں نے محکم کر دیا سرمایہ داری کا جنوں
صوفی و ملا ملوکیت کے بندے ہیں تمام
یہی وہ ٹولہ ہے جو محکوموں، کسانوں، مزدوروں غریبوں اور مریدوں کا خون چوس چوس کر عیش و آرام کی زندگی گزار رہا ہے۔ اسی استحصالی ٹولے کو قرآن ”مترفین“ (یعنی دوسروں کی کمائی پر عیش کرنے والے) کے نام سے پکارتا ہے اور انسانیت کا بدترین دشمن قرار دیتا ہے (/34سبا، /23الزحزف)۔
استحصالی ٹولے کے پاس اپنے باطل نظام کا جوازاندھی تقلید کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ قرآن ہی کے بقول جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو کچھ خدا نے (قرآن میں) نازل کیا ہے اسکی پیروی کرو تو یہ کہتے ہیں کہ ہم تو اس روش کی پیروی کریں گے جس پر اپنے آبا و اجداد کو چلتے ہوئے دیکھا۔ یعنی خواہ ان کے آبا و اجداد نہ عقل و بصیرت رکھتے ہوں نہ ہی وحی کے صحیح راستے پر گامزن ہوں یہ پھر بھی انہی کے نقشِ قدم پر چلیں گے (/170البقرۃ)۔
”مترفین“ لوگوں کو اپنے قابو میں رکھنے کیلئے ”تقسیم کرو اور حکومت کرو“کے اصول پر چلتے ہیں۔ اس سے ایک فائدہ تو یہ ہوتا ہے کہ مختلف فرقوں اورگروہوں میں ایک دوسرے کے خلاف اتنی نفرت پیدا ہو جاتی ہے کہ ان میں کسی بات پر بھی اتفاق نہیں ہوتا۔ اور دوسرا یہ کہ مختلف گروہ ایک دوسرے کے ساتھ اتنا الجھ جاتے ہیں کہ ان کے پاس استحصالی ٹولے کی دھاندلیوں پر توجہ دینے کا وقت ہی نہیں رہتا۔بالفرضِ محال کوئی گروہ استحصالی ٹولے کے خلاف کھڑا ہو بھی جائے تو اس گروہ کی ضد میں کوئی دوسرا حمایت پر اتر آتا ہے۔ قرآن میں لکھا ہے کہ فرعون نے بھی (قارون اور ہامان کی معاونت سے) ملک کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کر رکھا تھا (/4القصص) تاکہ اسکی حکومت کو کسی قسم کا کوئی خطرہ نہ رہے۔
آمدم برسرِ مطلب، اگررحمتؐ العالمین اتھارٹی‘ فرعونیت، قارونیت اور ہامانیت کی زنجیروں کو توڑنے کے لئے بنائی جا رہی ہو تو اس سے اچھی بات کوئی نہیں لیکن اگر اس اتھارٹی کے ذریعے ان زنجیروں کو اور بھی مضبوط کیا جانا مقصود ہے تو پھراس سے بڑھ کر تاسف کی بات اور کیا ہو سکتی ہے؟
(کالم نگار ایشیائی ترقیاتی بینک کے کنسلٹنٹ
اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں)
٭……٭……٭
ملک میں انتظامی وحکمرانی کا بحران
کنور محمد دلشاد
بین الاقوامی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے خلاف قرارداد یورپی یونین نے منظور کرلی ہے، جس میں پاکستان کو انتہاپسند ملک قراردیتے ہوئے اس پر پابندیوں کی سفارش کی گئی ہے۔ یہ قرارداد کالعدم تحریک لبیک پاکستان کی فرانس کے خلاف حالیہ پُرتشدد مظاہروں کے ردِعمل میں زیرِ بحث آئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سعودی عرب نے تقریباً ساڑھے چار اَرب ڈالر کی مدد کی ہے، جس میں قرضہ سود مؤخر ادائیگیوں پر پاکستان کے لیے تیل کی سہولت بھی شامل ہے۔ فی الحال اس سے پاکستان کے تیزی سے کم ہوتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر کی صورت حال بہتر ہوسکتی ہے۔ سعودی عرب کی پیش کش کا مستقبل غیر یقینی نظر آتا ہے۔ سعودی عرب کے قرضہ کی وجہ سے پاکستانی روپے پر پڑنے والا حالیہ دباؤ کم ہونا شروع ہوگیا ہے جس سے ملکی کرنسی کچھ مدت کے لیے مضبوط ہوجائے گی۔ ادھر سٹیٹ بینک کے گورنرکی معاشی اور زرعی پالیسی سے پاکستان کے عوام کو فائدہ نہیں پہنچ رہا ہے اور ان کے سابق تجربات کو دیکھتے ہوئے پاکستان اُن کی پالیسی کو اپنا نے میں مزید دیوالیہ پن کی طرف جارہا ہے۔ ان کا تجربہ مصر میں ناکام ہوگیا تھا اور وہ مصری تجربہ پاکستان میں اپنانے کی راہ پر گامزن ہیں۔ اس دوران مشیر خزانہ شوکت فیاض احمد ترین دعویٰ کررہے ہیں کہ پاکستان آئی ایم ایف سے معاہدے کے قریب پہنچ چکا ہے، جس کے نتیجہ میں اسے چھ ارب ڈالر کا قرضہ ملے گا۔ لیکن مستقبل واقعی بے یقینی کا شکار نظر آتا ہے۔ واشنگٹن سے آنے والی خبریں نوشتہ دیوار کی طرح سامنے آرہی ہیں اور امکان ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف سے ملنے والی ادائیگی درد ناک شرائط کے نتیجہ میں ہوں گی جس سے عوام کو بڑے پیمانے پر نقصان ہوسکتا ہے۔ اس وقت حکمران دعویٰ کررہے ہیں کہ ملک میں مہنگائی عالمی سطح پر اشیا کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ہے۔ تاہم ان کا یہ دعویٰ زمینی حقائق کے مطابق نہیں ہے۔ وزیراعظم اور ان کے بعض وزراء میں پالیسی کا تضاد ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان سے بلاوجہ محاذ آرائی کی فضا پیدا ہوچکی ہے۔ لوکل گورنمنٹ کے تحت جو انتخابات ہونے جارہے ہیں، اس میں رخنہ پیدا کیا جارہا ہے۔ پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019میں مزید ترامیم کرنے کے بعد ابھی قانون سازی کا مرحلہ باقی ہے۔ آئندہ انتخابات کے لیے جامع اور مؤثر انتخابی اصلاحات کا بل ایسے انداز میں پیش کیا گیا کہ وہ تنازع کا شکار ہوچکا ہے۔ حکومت کے دو وزرا الیکشن کمیشن کے نوٹس کے احکامات کو نظر انداز کرکے الیکشن کمیشن کی رِٹ کو چیلنج کررہے ہیں۔ جس کی وجہ سے حکومت پاکستان کی ساکھ بھی مجروح ہورہی ہے۔ اور اسی آڑ میں فارن فنڈنگ کیس کے التوا ہونے سے عوام بھی الیکشن کمیشن پر انگلی اُٹھارہے ہیں۔
کالعدم تحریک لبیک کے معاملہ پر سینیٹر فیصل واوڈا نے برملا انکشاف کیا ہے کہ کالعدم تحریک لبیک پارٹی کے ساتھ معاہدہ کا وزیراعظم کو علم ہی نہیں تھا۔ وزیرداخلہ کا مؤقف ہے کہ معاہدے پر دستخط سے پہلے وزیراعظم کی منظوری انہوں نے حاصل کرلی تھی اور وزیراعظم معاہدے کے متن سے بخوبی علم میں رہے۔ اب اگر فیصل واوڈا نے دعویٰ کیا تھا کہ معاہدے کی شقوں سے وزیراعظم کو اندھیرے میں رکھا گیا تھا تو وزیراعظم آفس سے وضاحت آنی چاہیے تھی۔ موجودہ وزیرداخلہ کے متضاد بیانات سے وزیراعظم آفس کو ریلیف نہیں مل رہا ہے اور اسلام آبا دکو محدود انداز میں لاک ڈاؤن کیا ہوا ہے اور پاکستان میں مقیم سفارتی نمائندے اپنے اپنے ممالک میں پاکستان کی اندرونی خانہ جنگی کے تاثرات بھیج رہے ہیں اور وزرائے خارجہ بھی وزیرداخلہ اور وزیر اطلاعات ونشریات اور وزیراعظم کے ترجمانوں کے مابین سینڈوچ بن چکا ہے۔ اس طرح 2023ء میں آنے والے عام انتخابات کے حوالہ سے جائزہ لیا جائے تو افراتفری میں مزید اضافہ نظر آرہا ہے۔ ملک میں اگر طرزِحکمرانی کا بحران اگر سب سے زیادہ کہیں نظر آرہا ہے تو وہ پنجاب ہے جہاں قومی اسمبلی کی 142نشستیں ہیں۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے دورِ حکومت میں جس طرح کی بدانتظامی اور انتظامی آرڈر اور طررِ حکمرانی کا انحطاط دیکھنے کو ملا ہے۔ وزیراعظم کو ادراک ہی نہیں ہورہا ہے کہ ان کے معاشی ماہرین کی وجہ سے پاکستان کی معیشت دیوالیہ پن کی طرف جاری ہے۔ معاشی صورت حال اور امن و امان کی افراتفری مستقبل قریب میں ختم ہوتی نظر نہیں آرہی ہے۔
پاکستان کا موجودہ سیاسی نظام 1985ء سے بحران کا شکار چلا آرہا ہے۔ مختلف ادوار میں حکمران جماعت جن میں پاکستان تحریکِ انصاف، پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پارلیمنٹیرین پارٹی شامل ہے، اپنے منشور پر عمل درآمد کرانے میں مخلص نہیں رہی۔ موجودہ صورت حال یہ ہے کہ ملک میں بلدیاتی نظام جسے آئین کے آرٹیکل 140(A)اور132کے تحت تحفظ حاصل ہے، اس کی خلاف ورزی 2009ء سے کی جاری ہے۔ جہاں تک موجودہ سسٹم کے تحت پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کا تعلق ہے وہاں مفادات کی گروہ بندیاں دیکھنے میں آتی ہیں اور عوام کی حقیقی نمائندگی دیکھنے میں نہیں آرہی ہے۔ پاکستان کا موجودہ سسٹم برطانوی ایکٹ 1935ء کا چربہ ہے جس کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ مقابلتاً زیادہ ووٹ لینے والا بے شک وہ اکثریت کا ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہا پھر بھی منتخب قرارا دیا جاتا ہے۔ اس طرح مختلف حربوں سے ووٹ حاصل کردہ اقلیتی نمائندہ پارلیمنٹ میں پانچ سے دس کروڑ روپے خرچ کرکے پہنچ جاتا ہے۔ موجودہ حکومت نے انتخابی اصلاحات کا جو بل قومی اسمبلی سے عجلت میں منظور کرایا، اس کا مقصد مفاد پرست گروپ کو ہی ریلیف دینا ہے۔ وہ آئندہ انتخابات کو شفا ف بنانے کے لیے نہیں ہے اپنے مخصوص گروہ کو پارلیمنٹ تک پہنچانا ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ ملک کو صحیح سمت کی طرف جانے کے لیے سنجیدگی سے حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔
(الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سابق سیکرٹری ہیں)
٭……٭……٭
حالیہ معاہدہ ماضی کے معاہدوں سے مختلف نہیں
کامران گورائیہ
آسمان کو چُھو لینے والی مہنگائی اور بے روز گاری کے بعد عوام کو اب امن و امان کی غیر مستحکم ہوتی ہوئی صورتحال کا بھی سامنا ہے۔ یوں تو برسر اقتدار جماعت کے رہنماؤں کے متضاد بیانات نے ملک بھرکو سنسنی خیز صورت حال سے دو چار کر دیا ہے۔ کالعدم تنظیم کے ساتھ کیے جانے والے مذاکرات اور مذاکرات کی ناکامی نے وزیر داخلہ شیخ رشید، وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور خود وزیراعظم عمران خان کو بھی بوکھلا کر رکھ دیا ہے۔ یہی وجہ رہی کہ کالعدم تنظیم کے رہنماؤں سے مذاکرات کے بعد طے شدہ شقوں پر عملدرآمد نہیں کیا جاسکا اور ایسا ایک سے زائد مرتبہ ہوا۔
بالآخر روائت ہلاک کمیٹی کے سابق چیئرمین مفتی منیب الرحمن کی خدمات حاصل کی گئیں اور اس میں بھی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے کردار کو بہت زیادہ اہمیت حاصل رہی جنہوں نے مفتی منیب الرحمن کی مصالحت سے کالعدم تنظیم کے نمائندوں سے ملاقات کی لیکن یہاں پر سب سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ پی ٹی آئی نے برسر اقتدار آتے ہی اپنے سیاسی مخالفین کو ملک دشمنوں کے ایجنٹوں سے ساز باز کرنے کی روش اپنائی، کبھی بھی حکمران جماعت کا اپنے سیاسی مخالفین کو غدار قرار دینا انتہائی نامناسب رویہ ہے جو موجودہ حکمرانوں کے ساتھ ساتھ آج کی اپوزیشن جماعتوں کی ذمہ داری بھی ہے کہ وہ ذمہ دارانہ طرز عمل اختیار کرتے ہوئے اپنے سیاسی حریفوں کو ملک دشمن کہنے سے گریز کریں۔
ماضی کی طرح آج کے حکمران بھی اسی ڈگر پر عمل پیرا ہیں اسی لئے کالعدم تنظیم پر بھی یہ الزام عائد کیا گیا کہ اس کے ہمسایہ ملک بھارت سے تعلقات ہیں اور درحقیقت کالعدم تنظیم کے احتجاجی لانگ مارچ کی فنڈنگ بھی بھارت سے کی جا رہی ہے ایسے الزامات سے ملک میں انار کی پھیلتی ہے جس کے نتائج دہائیوں تک بھگتنا پڑتے ہیں۔ اسی لئے احتجاج کرنے والوں اور اپنے حقوق کے لئے لانگ مارچ کرنا بھی پاکستان میں بسنے والوں کا بنیادی حق ہے اور کوئی بھی حکمران عوام کو اپنے حقوق کے لئے سڑکوں پر آنے سے نہیں روک سکتا۔ موجودہ مہنگائی اور بے روز گاری کے دگر گروں حالات ہیں اب تمام اپوزیشن جماعتیں یک نکاتی ایجنڈے پر سڑکوں پر نکل رہی ہیں۔ حکومت اپنے سیاسی مخالفین کو روکنے کے لئے ہر قسم کے حربے استعمال کر سکتی ہے لیکن کسی بھی سیاسی رہنماء کو ملک دشمن ایجنڈے کی تعمیل کرنے کا الزام لگانا اتنہائی نا مناسب عمل ہے جس سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ سب سے پہلے ہم سب پر اس ملک کی سالمیت برقرار رکھنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
تحریکِ لبیک اور حکومت کے درمیان معاہدہ تو طے پا گیا ہے لیکن بے اعتمادی اور بے یقینی کی فضا کسی حد تک برقرار دکھائی دیتی ہے۔ معاہدہ طے پا جانے کے اعلان کے باوجود نہ تو تحریک لبیک نے ابھی تک لانگ مارچ ختم کرنے کا اعلان کیا ہے اور نہ ہی حکومت نے جی ٹی روڈ سے مکمل طور پر رکاوٹوں کو ہٹایا ہے۔ معاہدے کے اعلان کے بعد گذشتہ روز حکومت نے اسلام آباد اور راولپنڈی سمیت بعض مقامات سے کنٹینرز کو تو ضرور ہٹایا ہے لیکن انھیں برلب سڑک کھڑا کر دیا گیا ہے۔ جی ٹی روڈ پر واقع کچھ پلوں کو جزوی طور پر کھولا گیا ہے تاہم گجرات میں دریائے چناب کے تینوں پلوں پر کنٹینرز بدستور موجود ہیں اور گجرات پولیس نے دریائے چناب کے داخلی پُل پر ناکہ بندی مزید سخت کر دی ہے۔ اس جانب سے کوئی بھی شہری بغیر شناختی کارڈ دکھائے وزیر آباد میں داخل نہیں ہو سکتا حتی کہ عورتوں اور بزرگوں سے بھی شناختی کارڈ طلب کیے جا رہے ہیں۔ اس صورتحال میں تحریکِ لبیک کے کارکن اور قیادت معاہدے پر عملدرآمد سے قبل وزیرآباد سے واپس جانے کو تیار دکھائی نہیں دیتے۔
ادھر کالعدم تحریکِ لبیک اور حکومت کے درمیان معاہدے کا اعلان کرنے والے مفتی منیب نے کہاتھا کہ ٹی ایل پی کے مطالبات میں فرانسیسی سفیر کی واپسی، سفارت خانہ بند کرنے اور یورپی یونین سے تعلقات منقطع کرنے جیسے مطالبات شامل نہیں ہیں لیکن انھوں نے بھی یہ نہیں بتایا کہ پھر مطالبات کیا تھے اور معاہدے میں کیا طے ہوا ہے۔ اس بارے میں تحریکِ لبیک کے ترجمان کا کہنا تھا کہ مفتی منیب اپنے بیان کی خود وضاحت کر سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ تحریکِ لبیک حکومت کے ساتھ اپنے اس وعدے کی پاسداری کر رہی ہے کہ معاہدے کی شرائط خفیہ رکھی جائیں گی، چنانچہ وہ معاہدے کے بارے میں تفصیلات نہیں بتا سکتے اور یہ معاہدہ حکومت کی جانب سے عملی اقدامات کی صورت میں سامنے آئے گا۔ تحریک لبیک کی جانب سے یہ دعوی پہلے ہی سامنے آ چکا ہے کہ حکومت نے سفیر کی ملک بدری سمیت ان کے تمام مطالبات پر لچک دکھائی ہے۔
حکومت اور ٹی ایل پی کے درمیان ہونے والا حالیہ معاہدہ اس جماعت کے ساتھ ماضی میں کیے گئے معاہدوں سے مختلف نہیں ہے اور اس بات کی بھی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ حکومت ان سے کیے گئے معاہدے کی پاسداری یقینی بنائے گی۔ نہ ہی اس بات کی کوئی ضمانت دی جا سکتی ہے کہ اس معاہدے کے بعد اپنے پرانے مطالبات کے ساتھ تحریک لبیک دوبارہ سڑکوں پر نہیں آئے گی۔ نہ تو حکومت فرانس کے سفیر کو ملک بدر کر سکتی ہے اور نہ ہی سعد رضوی اور ٹی ایل پی کی قیادت کے خلاف درج مقدمات کو محض معاہدوں کی روشنی میں ختم کیا جا سکتا ہے۔ حکومت کا کسی کالعدم تنظیم کے ساتھ کوئی پہلی مرتبہ معاہدہ نہیں ہوا بلکہ ماضی میں کالعدم شریعت نفاذ محمدی کے ساتھ بھی معاہدہ ہو چکا ہے۔
تحریک لبیک سے ہونے والے حالیہ معاہدے پر کس حد تک عملدرآمد ہو گا اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا لیکن ماضی میں اس جماعت کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کو اگر سامنے رکھا جائے تو مسلم لیگ اور تحریک انصاف کی حکومتوں نے وقت گزاری کے تحت اس جماعت کے ساتھ معاہدے کیے جن پر مکمل عمل درآمد نہیں ہوا۔ پنجاب کے محکمہ داخلہ کے ایک اہلکار کے مطابق منگل کو 800 کے قریب افراد کو رہا کر دیا گیا ہے لیکن کشیدگی تاحال برقرار ہے، ان کے مطابق کالعدم تحریک لبیک کے ان کارکنوں کو رہا کیا جا رہا ہے جن کے خلاف اس سے پہلے کوئی مقدمہ درج نہیں تھا۔ اہلکار کے مطابق جن افراد کے خلاف لانگ مارچ کے دوران پولیس اہلکاروں کے قتل کرنے کا الزام ہے انھیں کسی صورت رہا نہیں کیا جائے گا۔ اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ نے بھی تحریک لبیک پاکستان کے تین ایم پی او کے تحت گرفتار شدہ کارکنوں کو رہا کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں اور اس سلسلے میں باقاعدہ نوٹیفیکیشن جاری ہونے کے بعد تنظیم کے تمام گرفتار شدہ کارکن رہا ہو جائیں گے۔
ملکی سیاست میں غداری اور حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ دینے کا سلسلہ روکنا ہوگا، پی ٹی آئی، ن لیگ اور پیپلز پارٹی تینوں بڑی جماعتیں ایک دوسرے کو ملک دشمن کہہ رہی ہیں، تینوں جماعتوں پر ملک دشمن اور بھارت نواز سیاست کے الزامات لگ چکے ہیں مگر کسی سیاسی جماعت نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا، ملک دشمنی اور غداری کے الزامات کی سیاست پاکستان بننے کے بعد ہی شروع ہوگئی تھی۔ بانی پاکستان کی بہن مادر ملت فاطمہ جناح سے لے کر قائداعظمؒ کے ساتھی سابق وزیراعظم حسین شہید سہروردی تک پر بھی غداری کا لیبل لگایا گیا، جی ایم سید، باچا خان اور مولانا مودودی سے یہ سلسلہ آج نواز شریف تک پہنچ چکا ہے، سیاستدانوں کے علاوہ فیض احمد فیض اور حبیب جالب جیسے لوگوں پر یہ الزامات لگائے گئے۔
(کالم نگارسینئر صحافی ہیں)
٭……٭……٭
”خبریں“ ایک کردار‘ ایک تحریک
لقمان اسد
جناب ضیا شاہد جنہیں مرحوم لکھتے ہوئے ہاتھ قلم کا ساتھ دینے سے قاصر محسوس ہوتے ہیں انہوں نے جس ننھے منھے پودے کو اپنے ہاتھ سے بویا تھا وہ آج 29برس بعد اتنا گھنا اور تن آور درخت بن چکا ہے کہ جس کے سائے اور چھاؤں تلے لاکھوں لوگ پر سکون زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ”جہاں ظلم وہاں خبریں“ کے سلوگن کو اپنی عملی جدوجہد سے جناب ضیاشاہد نے ایسی بینظیر کامیابیوں سے ہمکنار کیا کہ ایک دن وہ آیا جب وطن عزیز کے تمام محروم طبقات، پسے ہوئے غریب اور مفلوک الحال افراد ”خبریں“ ہی کو اپنا سہارا تصور کرنے لگے اور بلاشبہ اس حوالے سے ”خبریں“ نے بھی بطور ادارہ اپنی ذمہ داریوں کو خوب نبھایا۔ کوئی ایسا واقعہ جو جناب ضیاشاہد کی معلومات اور نوٹس میں آیا وہ تب تک چین سے نہ بیٹھے جب تک کہ اس مظلوم کی فریاد کو حاکم ِوقت تک نہ پہنچایا۔ صرف یہاں تک ہی نہیں بلکہ اس مسئلے کو حل کراکے دم لیا۔
مظفرگڑھ کی ”مختاراں مائی“ سے لیکر ملتان کی ”مرجان بی بی“ اور قصور کی بے قصور ننھی منھی گڑیا ”زینب“ تک ایسی درجنوں مظلوم بیٹیوں کے سر پر ”خبریں“ اور جناب ضیاشاہد نے دست ِشفقت رکھا اور انہیں ریاستی اداروں سے انصاف میسر آیا۔ دریاؤں کے وسط اور کناروں پر محفوظ پناہ گاہیں بناکر اردگرد کے لوگوں کی زندگیاں اجیرن کرنے والے بدنام زمانہ اشتہاری اور ڈکیت گینگ جو اس قدر زورآور اور سرپھرے بن چکے تھے کہ شہروں میں آکر پولیس چوکیوں تک کو راکٹ لانچرز سے نشانہ بنانے لگے۔ حیرت ہوتی ہے اور سلام ہے جناب ضیا شاہد کی بے باکی اور جرأت مندی کو کہ وہ ڈکیت اور اشتہاری جو اپنے خوف کی دہشت بٹھا چکے تھے، انہوں نے ایسی بے مثال منصوبہ بندی کی اور اپنے ادارہ ”خبریں“ اور اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لاکر ان کو نہ صرف بے نقاب کیا بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی معاونت کرکے انہیں اپنے انجام تک پہنچایا۔ جس طرح کسی بھی انسان کی زندگی میں اُتار چڑھاؤ، نشیب وفراز اور مشکلات آتی رہتی ہیں اسی طرح جناب ضیاشاہد نے بھی کئی مشکلات اور مسائل کا سامنا کیا، خاص طور پر جواں سال اور ہونہار فرزند عدنان شاہد کی وفات کا صدمہ ان کیلئے ایک بہت بڑا صدمہ تھا لیکن کمال حوصلے سے انہوں نے ایک جوان بیٹے کی جدائی کے غم اور دُکھ کو برداشت کیا اور ”خبریں“ سے اپنے عشق میں کوئی کمی نہ آنے دی۔ وہ ان چیزوں کو بخوبی سمجھتے تھے کہ قدرت بڑے مقاصد کے حصول کیلئے کام کرنے والوں کو آزمائش اور امتحان میں ڈالتی ہے لیکن پھر صبر کا دامن نہ چھوڑنے والوں کو قدرت ہی کامیابی وکامرانی کے ساتھ ہر آزمائش اور امتحان سے سرفراز اور سربلند کردیتی ہے۔
آج سے 29برس قبل جب جناب ضیاشاہد نے روزنامہ ”خبریں“ کا اجراء کیا تو یہ چہ مگوئیاں ہونے لگیں کہ پہلے سے موجود بڑے اخباروں کی موجودگی میں ”خبریں“ زیادہ کامیاب نہ ہوسکے گا لیکن جناب ضیاشاہد ایک ایسی پُرعزم اور نابغہئ روزگار شخصیت تھے کہ انہوں نے ایسی باتیں کرنے والوں کو غلط ثابت کردکھایا۔ جناب ضیا شاہد کی وفات ”خبریں“ کیلئے بہت بڑا سانحہ تھی اور ہے۔ ان کی وفات کے بعد پھر وہی چہ میگوئیاں سر اٹھانے لگیں لیکن جناب ضیاشاہد کے باصلاحیت فرزند چیف ایڈیٹر ”خبریں“ جناب امتنان شاہد نے اپنے وژن سے یہ ثابت کیا ہے کہ ”خبریں“ کو جہاں ان کے والد گرامی چھوڑ کر گئے تھے انشاء اللہ ”خبریں“ وہاں سے پیچھے نہیں بلکہ آگے اور آگے کی طرف بڑھے گا۔
یکم اکتوبر 2021ء کو بہاولپور سے روزنامہ ”خبریں“ کا اجراء ایسی پروپیگنڈہ مہم بپا کرنے والوں کیلئے کافی ہے اور جو لوگ یہ خیال کررہے تھے ان کیلئے اس میں بہت بڑا پیغام ہے کہ اللہ تعالیٰ پر یقین اور بھروسہ کر کے نیک نیتی کے ساتھ چلنے والوں کو اللہ کریم کی ذات کبھی ناکامی کا سامنا نہیں کرنے دیتی۔ بہاولپور سے روزنامہ ”خبریں“ کا اجراء چیف ایڈیٹر ”خبریں“ جناب امتنان شاہد کا لائق صد تحسین اقدام ہے اور یقینی طور پر وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ دُعا ہے کہ جناب امتنان شاہد کی ادارت میں روزنامہ ”خبریں“ اسی طرح کامیابیوں کے زینے طے کرتا رہے اور اللہ تعالیٰ ”خبریں“ کو دن دُگنی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے۔ آمین!
(کالم نگارسیاسی و قومی مسائل پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭
پاکستانی خواتین با اختیار کب ہوں گی؟
ڈاکٹرناہید بانو
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے پیچیدہ سماج آبادیاتی معاشرے اور ثقافتی ماحول میں خواتین کو با اختیار بنانا ہمیشہ ایک متنازعہ مسئلہ رہا ہے۔ انسانی ترقی کے تمام اہم شعبہ ہائے زندگی میں خواتین کو مردوں سے کم درجہ دیا گیا ہے۔ اس لئے پاکستانی تناظر میں خواتین کو با اختیار بنانے کے مختلف عوامل کا مطالعہ فوری طور پر ضروری ہے، مرد و عورت کی برابری کی بنیاد پر 149 ممالک کی لسٹ میں 148 نمبر پر ہے۔ معیشت میں کردار کی بنیاد پر 146 نمبر پر جبکہ سیاست میں خواتین کے کردار کی بنیاد پر 97 نمبر پر ہے۔ خواتین کو با اختیار بنانے کے لئے ایک ایسے ماحول کی تخلیق شامل ہے جس کے اندر خواتین سٹریٹجک زندگی کے انتخاب اور فیصلے کسی مخصوص تناظر میں کرسکیں۔ یہ تصور اتنا وسیع ہے کہ اس کی پیمائش کرنا ہمیشہ پریشانی کا باعث رہا ہے۔ اس پیچیدگی کے بعد مختلف ریسرچرز نے ان پیچیدہ خیالات کی پیمائش کے لئے مختلف تصوراتی سکیم اور اشارے تیار کرلئے، مثال کے طور پر خواتین کو با اختیار بنانے کے انحصار ثقافتی اقدار، سماجی پوزیشن اور عورت کی زندگی کے مواقع پر ہے۔ خواتین کو بااختیار بنانا تین لیول پر ممکن ہے۔ پہلا انفرادی بااختیاری، دوسرا عقائد اور اقدامات میں خود مختاری اور تیسرا درجہ وسیع تر تناظر میں اختیارات ہیں۔ اس کے علاوہ بھی با اختیار بنانے کی چار اقسام ہوسکتی ہیں۔ جیسا کہ سماجی، ثقافتی، معاشی، تعلیم اور صحت سے متعلق اختیارات کے علاوہ اکثر استعمال ہونے والے موضوع میں گھریلو فیصلہ سازی، معاشی فیصلہ سازی، وسائل پر کنٹرول اور سفری نقل و حرکت شامل ہیں۔
پاکستان میں خواتین کو با اختیار بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ مردوں کے غلبے اور صنفی فرق کی وجہ سے پاکستانی معاشرے میں خواتین میں فعال حصہ لینے میں رکاوٹ ہیں۔ مزید برآں با اختیاری نہ صرف خود اعتمادی پیدا کرتی ہے بلکہ جسمانی اور ذہنی صحت کے لئے بھی ایک مضبوط عامل ہے۔ پاکستان میں اس وقت ہر سطح پر خواتین کے حقوق کی بات کی جا رہی ہے اور بہت سی این جی اوز او ریونائیٹڈ نیشن وومن کام کر رہی ہیں جن کا مقصد سیاست اور معیشت میں خواتین کے کردار کو بڑھاتا ہے۔ اگر حقیقت میں خواتین کے کردار کا جائزہ لیا جائے تو خواتین نہ صرف گھر کے کام کاج کرتی آرہی ہیں بلکہ کھیتوں میں ہل چلانے سے لے کر فصلوں کی کٹائی اور سبزیوں کو کھیتوں سے منڈی تک لانے کے کام میں بھی مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی رہی ہیں مگر ان کو کبھی پذیرائی نہیں ملی نہ ہی صحت اور تعلیم کی سہولیات تک رسائی آسان بنائی گئی۔
اسلامی تصور حیات کو اگر دیکھا جائے تو خواتین کو با اختیار بنانے میں اسلامی تعلیمات نے کافی اہم کردار ادا کیا ہے۔ خواتین کی تعلیم اس کے گھر کے افراد کی تعلیم و تربیت، میڈیا تک رسائی، صحت کی سہولیات، گھر کے افراد کا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ خاتون کو بے خوف زندگی اسلامی تصور فراہم کرتا ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کی ترقی و خوشحالی کے لئے مضبوط خواتین اس کی معیشت کی ترقی اور غربت کے خاتمے کے لئے نہایت ضروری ہیں۔ ویسے بھی پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا اور قرآن پاک و حدیث بھی خواتین کے حقوق بشمول تعلیم، عبادت، آزادی رائے، شریک حیات کے انتخاب، معاشی آزادی، سماجی کردار کے تحفظ کی تاکید کرتے ہیں۔ ایک با اختیار صحت مند عورت با اعتماد بھی ہوگی جو اپنے ماحول کا تنقیدی جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ اپنے لئے بہترین فیصلے کی صلاحیت بھی رکھتی ہوگی جو اس کی زندگی پر مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں۔ مجموعی طور پر معاشرے کو خواتین کی صلاحیت اور ان کی شراکت کو سمجھنا ہوگا، آخر کب تک خواتین استحصال کاشکار اور جہیز نہ ملنے پر طعنوں کی حق دار رہیں گی۔ عورت ہونا کوئی جرم نہیں بلکہ خواتین ہر شعبے میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کر کے قومی و ملکی، معاشی و معاشرتی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں ضرورت صرف ان کو سراہنے کی ہے۔
(کالم نگار ممتازماہر تعلیم ہیں)
٭……٭……٭
صوفی اور سورما موت سے نہیں ڈرتے
رانامحبوب ا ختر
پاکستان کا سندھ حسین ہے۔ کارونجھر سندھ کو حسین تر بناتا ہے۔ جمادات، نباتات، حیوانات، چرند پرند اور انسان ایک تسبیح میں پروئے دانوں کی طرح ہیں۔ قدرتی ماحول کے ربط سے زندگی قائم ہے۔ انسان کے بارے میں فرشتوں نے خالق سے کہا کہ یہ زمین میں فساد پھیلائے گا۔ آج فسادی آدمی کے پاس اپنے گولے کو تباہ کرنے کی صلاحیت ہے۔ کولونیل ازم کی چار صدیاں امریکہ کے ریڈ انڈینز، آسٹریلیا کے زمیں زادوں، نیوزی لینڈ کے مااوریوں، افریقہ کے غلاموں اور ایشیائی مظلوم قوموں کی داستانوں سے بھری ہیں تو دوسری طرف ترقی کے ناقابل ِیقین سفر سے دنیا حیرت کدہ ہے۔ ڈاکٹر علی شریعتی انسان کو مارکسی لنگو میں dialectical being کہتے تھے۔ کارپوریٹ کیپٹل ازم کے شکار پوسٹ ماڈرن انسان کو، ماحول اور ترقی میں توازن برقرار رکھنے کا چیلنج درپیش ہے۔ نوح ہراری، مستقبل میں ماحولیاتی تباہ کاریوں کو کرہ ارض کے لئے بڑا خطرہ بتاتے ہیں۔ یہ طے ہے کہ قدرتی ماحول کی رنگا رنگی انسانیت کے بقاء کی ضامن ہے جبکہ سرمایہ دارانہ سامراج منافع کی یک رنگی کا اسیر ہے۔ سامراجی گماشتے ریاستی قوانین کا چولا پہن کر ماحول کو تباہ کرتے ہیں۔آزادی کے نام پر corporate slavery قائم کرتے ہی ہیں۔ ضلع تھرپارکر کی تحصیل ننگر پارکر کا گلابی کارونجھر جبل سندھ کا حسن اور پاکستان کا وہ دفاعی مورچہ ہے جسے 1988 ء سے توڑا جا رہا ہے!
ایک یکتائے روزگار شخص کارونجھر جبل کے دامن میں اپنے گھر کے بیرونی صحن میں گوندی، بیری، جال کے درختوں کے بیچ چارپائی پر تنہا بیٹھا تھا کہ جو یکتا ہے، وہ تنہا ہے۔ رانا رتن سنگھ اور روپلو کولہی کے دیس کا آدمی میٹھی اردو اور سندر سندھی میں بات کرتا تھا۔ کارونجھر جبل کا عاشق اور شاعر خلیل کمبھار سنتا تھا۔ شاعر رفعت عباس حیرتی تھا اور ایک یاتری ڈائری کے پنے پر اس کی باتیں لکھتا تھا۔ اس کے موتیوں سے لفظ میرے قلم کی سیاہی سے میلے ہوئے جاتے تھے۔ 26اکتوبر 2021ء کے سورج کی کرنیں کارونجھر کے گرینائیٹ کا گلابی چہرہ چوم کر آتی تھیں۔ سورج کے سامنے ایک ”نگارِآتشیں“ کا سر کھلا تھا۔گلے میں رومال روشنی کا ہالے کی طرح تھا۔ غیرمعمولی آدمی نے معمولی شلوار قمیض پہنی تھی۔ لگ بھگ 5فٹ 9انچ کے قد اور 60سال کی عمر کے آدم کی قامت میں کارونجھر کی قدامت تھی۔ اسے کوئی خوف نہ تھا۔ یہ صوفی منش آدمی کارونجھر کا سورما ہے۔ صوفیوں اور سورماؤں میں ایک بات مشترک ہوتی ہے، وہ موت سے نہیں ڈرتے! صوفی کی موت، وصل ہے۔ سورما، موت سے امر ہے۔ خوف اور حزن خدا کے دوستوں سے دور رہتے ہیں۔ کل ایک صوفی سورما، شاہ عنایت نے فقراء کی فوج کے ساتھ مغلوں اور کلہوڑوں کو شکست دی تھی۔ پھر اسے دھوکے سے شہید کیا گیا تھا۔ آج ننگر پارکر میں ایک بے خوف فقیر، اللہ رکھیو کھوسو پہاڑ کاٹنے والوں کے خلاف جبل کی زبان بولتا تھا۔
اس نے کہا کہ ننگر پارکر کا کارونجھر، پاکستان کے صوبہ سندھ اور انڈیا کی دو ریاستوں، راجستھان اور گجرات کے سنگم پر واقع ہے۔ یہ 19 کلومیٹر طویل اور کہیں 305 میٹر تک اونچا ہے۔ چوڑیو سے کارونجھر تک تمام مذاہب کے 108 تیرتھ اور مقدس مقامات ہیں۔ ساردھرو میں شِو راتڑی کے تہوار پر سالانہ دو لاکھ انسان جمع ہوتے ہیں۔ وہاں پانی کا تالاب ہے جہاں غریب ہندو اپنے پیاروں کی راکھ بہاتے ہیں۔ امیر، گنگا جاتے ہیں۔جن کے پاس گنگا میں راکھ بہانے کے وسائل نہیں ہوتے وہ ساردھرو آتے ہیں۔ لفظ چوڑیو، چوڑی سے ہے۔ ممتا سے ممتاز تریمتائیت کے ہاتھ سفید چوڑے اور رنگین چوڑیوں کی قوسِ قزح سے یہاں روشن ہیں۔ چوڑیو میں ایک چٹان کے نیچے درگا دیوی ایک عورت کی صورت بیٹھی ہے۔ نو رتڑی کے روزے اور پوجا ہوتی ہے۔ چشمے زندگی کو سیراب کرتے اور موت کو غسل دیتے ہیں۔ نایاب جنگلی حیات کی نمو کرتے ہیں۔ کارونجھر میں چراغ یا جھرک نام کا ایک نایاب جانور ہے جو گدھے کا شکار کرتا ہے! حیرت ہے کہ سندھ کی حکومت بھی گدھے کا شکار کرنے والے چراغ کا گھر گراتی ہے۔ ہرن، نیل گائے، بڑے چمگادڑ اورگِدھ ہیں۔ وہاں بے شمار مور ہیں جن کو موہنے مقامی نہیں مارتے۔ ایسے درخت ہیں جو پاکستان میں اور کہیں نہیں پائے جاتے۔ کڑایو، تیندور اور کئی قسم کی جڑی بوٹیاں ہیں جو مقامی لوگوں کے میڈیکل سٹورز ہیں۔ کڑایو کا gum جوڑوں کے درد کے لئے اکسیر ہے۔ پہاڑ میں ایسی گھپائیں ہیں جن میں ہزاروں لوگ بیٹھ سکتے ہیں۔ رانا سر اور چندن گڑھ ہیں۔ اللہ رکھیو بولے جا رہا تھا جیسے اس کے نطق میں غیبی طاقت آگئی ہے پھر اس نے مستی میں سر سارنگ سے پارکر کے بارے میں شاہ بھٹائی کا بیت سنایا کہ ”ڈھٹ سے بارش سر اونچا کرکے پارکر کے میدان میں برسی، سارے تالاب بھر گئے اور پانی تالابوں سے باہر نکلتا تھا“۔ یاتری نے ایک بار پارکر میں اس بیت کی تفسیر دیکھی تھی۔
گلابی رنگ کا یہ پہاڑ مقامی لوگوں کی زندگی ہے۔ کارونجھر میں چھبیس ارب ٹن گلابی، سفید اور سرمئی پتھر کا ذخیرہ ہے۔ ان پتھروں کی قیمت اربوں ڈالرز میں ہے۔ جبل کی دولت مقامی آدمی کا عذاب بن گئی ہے کہ سرمایہ دار مقامی آدمی کی تاریخ، ثقافت، تہذیب اور معیشت سے بے خبر پہاڑ کو توڑ کر بیچنا چاہتے ہیں۔ سرمائے دار کا ایمان منافع ہے۔ پہلی بار اس پہاڑ کو کاٹنے کی لیز 1988 ء میں پیار علی الانا کی کمپنی پاک راک کو دی گئی۔ الانا کا نام سن کر یاتری چونکا تھا۔ 1990 ء میں کوہِ نور کمپنی پہاڑ توڑتی تھی۔ مقامی لوگ سرگوشیوں میں بتاتے ہیں کہ اب یہ کام کسی اور کمپنی کے پاس ہے۔ اللہ رکھیو کھوسو کی پٹیشن سندھ ہائی کورٹ کے حیدرآباد بنچ میں زیرسماعت ہے۔ کچھ روز پہلے سندھ حکومت کی ایک کمیٹی ننگر کے لوگوں کے تحفظات سننے آئی تھی۔ ایم پی اے، قاسم سراج سومرو سمیت یہ سب لوگ سندھ کے بیٹے تھے۔ سندھی میں میٹھی بات کرتے تھے۔ بے بسی مگر ان کی باتوں سے عیاں تھی۔ افسر کا آزار یہ کہ وہ طاقتور کا غلام اور غلام کا بادشاہ ہے۔ ظلی طاقت کا نشہ کرتا ہے۔ کارپوریٹ غلامی کی عالمی جکڑ بندی میں شعوری یا غیرشعوری طور پر طاقت کا ساتھ دیتا ہے اور قرنوں میں کہیں کلیم اللہ لاشاری کے روپ میں چمکتا ہے۔ افسروں کے لئے پتھر اللہ رکھیو کھوسو اور ہم وطنوں سے زیادہ قیمتی ہوتے ہیں۔ کھوسو کا کمیٹی کے ممبران سے خطاب شیکسپیئر کے مارک انتھنی کے خطاب سے مؤثر تھا۔ اس نے کمیٹی کے ممبران کو سائیں یعنی آنر ایبل کہا تھا۔ اس کی باتیں ہیملٹ کے خطاب سے بھی زیادہ دلگیرتھیں کہ وہ ہونے یا نہ ہونے کی الجھن سے ماورا ”ہونے“، ”ہستی“ اور ”being“ کی بات کرتا تھا۔ اس نے کہا ”میرے سائیں، کارونجھر اور اس سے منسلک پہاڑیاں نہ ہوں تو کوئی جاندار تو کیا نباتات بھی زندہ نہیں رہ سکتی۔ کارونجھر رن آف کچھ کے گھیرے میں ہے۔ یہ ساڑھے پانچ یونین کونسلوں کا علاقہ ہے۔ نیچے کا پانی نمکین ہے۔ ہمیں پینے کا پانی پہاڑیوں سے ملتا ہے۔ بیراج سے آنے والے پائپ کے پانی کا ایک قطرہ ہمیں نہیں ملتا۔ لوگ سڑکوں پر جنازے رکھ کر احتجاج کرتے ہیں۔ لوگوں کا ذریعہ معاش زراعت اور مویشی ہیں۔ پچھلے سال یہاں پیاز کی فصل ایک ارب روپے کی ہوئی تھی (پھلکارو بیج والا سفید پیاز نایاب ہے)۔ آپ چند ارب ڈالرز کے لئے صدیوں تک لاکھوں لوگوں کا روزگار ختم کر رہے ہیں“۔ اس نے پوری تقریر ایک مسافر اور دو شاعروں کو سنا دی تھی:
دو حرف تسلّی کے جس نے بھی کہے، اُس کو
افسانہ سُنا ڈالا، تصویر دکھا ڈالی
آدمی نے صدیوں دھرم میں لپٹے پتھروں کی پوجا کی ہے۔ اب پتھروں کو بموں سے اڑاتا ہے، آرے سے چیرتا ہے۔ دیوتاؤں سے بے زار آدمی کا کرودھ قابل ِدیدہے۔ اللہ رکھیو بتاتا ہے کہ پہاڑ خدا کی زمین کے ستون ہیں۔ وہ زمین کو قائم اور ماحول کو متوازن رکھتے ہیں۔ہند اور سندھ کی سرحد پر کارونجھر جبل ایک قلعہ ہے۔ دفاعی ماہر اور ذہین جرنیل اپنے قلعے توڑ کر کیوں ہارا کیری کرنا چاہتے ہیں! یہ کام حکومتِ سندھ کرے، سندھی الانا کرے یا کوئی اور، ہمیں منظور نہیں ہے۔ اللہ رکھیو کھوسو، تکثیریت میں وحدت، کلچرل فیڈرل ازم، انسانیت اور کارونجھر کے ایکو سسٹم کو بچانے والا فقیر ہے۔ جیت اس کی یقینی ہے کہ کارپوریٹ غلامی کی موت کے خلاف وہ زندگی کی علامت ہے۔ وہ مقامیت کا روشن چہرہ ہے۔ سندھ حسین ہے اور اللہ رکھیو کھوسو کو اللہ رکھے، جو سندھ، پاکستان اور کائنات کے فطری حسن کی مقدس تثلیث کا استعارہ ہے!کارونجھر کا قصہ تشنہ اور ناتمام تھا کہ زمیں زادوں کی شاعر نسیم سید نے مایا اینجلو کی نظم بھیجی جو شاید روپلو، رانا رتن سنگھ اور کھوسو جیسے عامی اور مقامی ہیروز کے لئے لکھی گئی تھی:
You may write me down in history with your bitter, twisted lies, You may tread me in the very dirt But still, like dust, I’ll rise.
(کالم نگارقومی وبین الاقوامی امور پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭
تھل کی نمائندگی نیلو فر بختیار کریں گی
خضر کلاسرا
نیشنل کمیشن آن دی اسٹیٹس آف وویمن کی سربراہ نیلو فر بختیار نے میڈیا کیلئے ایک پریس بریفینگ کا اہتمام کیا جوکہ صحافی بمقابلہ نیلو فر بختیار تھی۔ میرے اس ابتدائیے کے بعد آپ سمجھ سکتے ہیں کہ نیلوفر بختیار کی پریس بریفنگ میں کیا صورتحال بنی ہوگی اور کیا ماحول ہوگا۔ یاد رہے کہ یہ پریس بریفینگ اس وقت ہورہی تھی جب بصد احترام وزیر صحافیوں کے سوال لینے سے گھبراتے ہیں اور رپورٹر ہیں کہ وہ سوالوں کے گولے لے کر وزیروں کے پیچھے دوڑے پھرتے ہیں کہ کہیں آمنا سامنا ہو اور وہ سوال داغ دیں۔ سوال کے جواب کے جنون بعض رپورٹر وہ صحافتی حدیں بھی کراس کررہے ہیں جوکہ صحافت کے اصولوں کے خلاف ہیں لیکن وہ بضد ہیں کہ سوال کا جواب لے کے رہیں گے۔
اسی طرح کی صورتحال پچھلے دنوں وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کے ساتھ ایک رپورٹر کی میڈیا کے ساتھ بات چیت میں ہوئی۔ صحافی نے نوٹیفکیشن کے حوالے سے سوال داغا لیکن وفاقی وزیر شیخ رشید نے سوال کا جواب نہیں دیا جوکہ ان کا حق تھا کہ چاہیں تو سوال کا جواب نہ دیں لیکن رپورٹر کب صحافت کے بنیادی اصول کے تحت خاموش رہنے والا تھا۔موصوف نے ساتھی رپورٹروں کے سوالوں کا انتظار کرنے کی بھی زحمت گوارہ نہیں کی۔ ایک بار پھر شیخ رشید احمد سے نوٹیفکیشن کا سوال پوچھا کہ نوٹیفکیشن کب ہوگا۔ وزیراعظم انٹرویوز کریں گے وغیرہ وغیرہ۔ رپورٹر کا انداز اتنا جارحانہ تھا کہ رہے نام اللہ کا لیکن اب کی بار صحافی سوال کیساتھ جیسے دوبارہ حملہ آور ہوا تو پنڈی بوائے شیخ رشید احمد کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور شیخ رشید نے وہ کردی جوکہ یہاں لکھنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔میرے خیال میں سوال رپورٹر کا حق ہے لیکن اتنا بھی نہیں ہے کہ بصد احترام۔ سوال کے حق میں وزیر کا گریبان پکڑ لیا جائے کہ میرے سوال کا جواب دو۔صحافتی اداروں کو جہاں اور کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔وہاں اس طرف بھی دھیان دیں کہ وہ جن رپورٹروں کو میدان میں اتار رہے ہیں۔ ان کو اتنی صحافت کا درس دیں کہ آپ نے سوال کرنا۔ اگر کوئی وزیر جواب نہیں دینا چاہتا ہے تو آپ نے بمطابق وفاقی وزیر شیخ رشید احمد اس کی واٹ نہیں لگانی ہے؟ اور جیسے میں نے عرض کیا۔ یہی صحافت کا بنیادی اصول بھی ہے۔ لیکن موجودہ حالات میں صحافت کے اصول پس وپشت ڈال کر اپنی من مانی چل رپی ہے۔۔دونوں اپنے اپنے اینڈ پر اپنے آپ کو حرف آخر سمجھتے ہیں۔ ایک طرف جہاں وزیروں کاخیال ہے کہ جو وہ ملکی صورتحال کی نزاکت سمجھتے ہیں۔ اس کا صحافیوں کو ادراک نہیں جبکہ صحافی اپنے سوالوں کے تکرار سے یہ سمجھتے ہیں کہ جو وہ پوچھ رہے ہیں۔ وہی ملک وقوم کے حق میں ہے۔خیر اب دوبارہ نیلوفر بختیار پریس بریفنگ کی طرف چلتے ہیں۔ نیلو فر بختیار خاصے انتظار کے بعد سیاست کے میدان میں واپسی کرچکی ہیں۔
وزیر اعظم شوکت عزیر کے دور میں بحیثیت وزیر سیاحت۔ وزیر وویمن خدمات سرانجام دے چکی ہیں۔ پھر سینٹر۔سے لے کر سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے اطلاعات ونشریات سمیت دیگر اہم کمیٹیوں کی سربراہی بھی کرچکی ہیں۔ مطلب ایک سنئیر پارلیمٹرین کی حیثیت میں پاکستان کی سیاست میں اپنا لوہا منواچکی ہیں لیکن یہ سلسلہ ابھی رکا نہیں ہے۔ پاکستان کی سیاست میں پیچھے چلیں تو محترمہ نیلو فر بختیار نوے کی دہائی میں نوازلیگی لیڈر نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے سیاست کے میدان میں ایک کارکن کی حیثیت میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔پھر 1992-1993 اور 1997 کے انتخابات میں خواتین کی نمائندگی کرتے ہوئے۔اپنی قیادت کی صلاحیتوں کی بدولت مسلم لیگ کی انتخابی مہم چلائی۔قیادت کو ان کی سیاست کا انداز پسند آیا تو موصوفہ کو مسلم لیگ نواز کی وویمن ونگ کی صدارت جیسی اہم ذمہ داری دی گئی۔بعدازاں وہ مسلم لیگ نواز کی ورکنگ کمیٹی کی رکن بن گئیں مطلب چل سو چل۔ مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے۔ تحریک نجات کے دوران جیل کی ہوابھی کھائی۔ پھر یوں ہوا کہ سیاست کے رنگ میں رنگی رنگتی چلی گئیں۔ سیاست کا آغاز پنڈی جیسے سیاست کے گڑھ اور طاقت کے مرکز سے کونسلر کے الیکشن سے کیا اور پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ پاکستان کی سیاست جہاں بچوں کا کھیل نہیں۔ وہاں خواتین کیلئے تو ایک اور بڑے چیلنج کی حیثت رکھتا ہے۔ ان درپیش چیلنجوں کے باوجود خواتین نے ہر دور میں اپنے اپنے انداز میں سیاست کے میدان میں سامنا کیا۔ فاطمہ جناح۔
محترمہ بے نظیر بھٹو جیسی اعلی پائے کی شخصیات سے لے کر ایک بڑی تعداد خواتین کی ہے جوکہ پاکستان کی سیاست کی اپنا اپنا کردار ادا کرتی چلی آرہی ہیں اور یہاں نیلوفر بختیار کا کردار بھی سیاسی جدوجہد کی بنیاد پر نمایاں نظر آتا ہے۔ نیلو فر بخیتار کی حالیہ پریس بریفینگ سارے صحافیوں منتظر تھے جن رپورٹرز کو دعوت نامہ بھیجا گیا تھا۔ معروف صحافی فوزیہ کلثوم رانا سرفہرست تھیں۔ سارے صحافیوں کے پہنچنے کی بنیادی وجہ نیلوفربختیار تھیں اور اکثریت رپورٹر ایسے تھے جوکہ ان کو بحیثیت وزیر کام کرتا دیکھ چکے تھے اور انکی سیاسی اور حکومتی سرگرمیوں کو کور کرچکے تھے۔ پھر وہ میڈیا کو ہمیشہ ساتھ لے کر چلتی ہیں اور حکومت کے ایجنڈے کو بحیثیت وزیر عوام تک پہنچانے میں میڈیا کے کردار کو بخوبی سمجھتی ہیں۔ یوں پریس بریفنگ میں بہت سارے صحافی دوستوں سے ملاقات بھی ہوئی۔ نیلوفر بخیتار جیسے ہی تقریب میں پہنچی۔ فرداً فرداً سب کے پاس گئیں۔ ان کا حال احوال پوچھا۔ نیشنل کمیشن آن دی اسٹیٹس آف وویمن کی سربراہ بننے پر مبارکباد بھی وصول کی۔
یاد رہے کہ یہ اس حکومت مطلب تبدیلی سرکار میں یہ رواج نہیں ہے کہ صحافیوں کیساتھ یوں بیٹھ کر بات کی جائے۔ حکومت کا مؤقف ایک معتبر انداز میں پیش کیا جائے۔ سب جلدی میں ہیں۔ شیخ رشید جیسے سیاستدان بھی جوکہ سیاست کی کہانیوں کو پنڈی اور آبپارہ تک سمجھتے ہیں۔ وہ بھی پریس کانفرنسوں میں سوال وجواب کے سیشن میں کہتے ہیں۔ میرے پاس دس منٹ ہیں۔ جلدی کریں۔ جو سوال کرنے ہیں کرلیں۔اب اگر شیخ رشید احمد کا یہ انداز اور رویہ صحافیوں کیساتھ ہوگا تو باقی وزیر پلس مشیر صحافیوں کو بات کرنیکا کتنا وقت دیتے ہونگے۔ اس کا اندازہ لگانا۔ آپ کیلئے مشکل نہیں ہے۔ نیشنل کمیشن آن دی وویمن فار ویمن کی سربراہ اب نیلو فر بختیار کی آمد کیساتھ ہی تقریب کا ماحول یکسر حکومتی وزیروں کی تقریبات سے مختلف تھا جوکہ صحافیوں کیلئے حیرت اور خوشی کا سبب تھا۔ بعدازاں نیلو فر بختیار نے اپنے خطاب میں نیشنل کمیشن آن دی اسٹیس آف وویمن کے اعراض و مقاصد کے بارے تفیصل سے میڈیا کو بریفنگ دی۔ اس بات سے بھی آگاہ کہ خواتین کیلئے وہ کن عزائم کیساتھ میدان میں آئی ہیں۔ اپنی بریفنگ کے بعد نیلو فر بختیار نے میڈیا کو دعوت دی کہ آپ بات کریں۔ تجاویز دیں۔جہاں تنقید بنتی ہے۔وہ کریں۔ یوں صحافی دوستوں نے بڑے کھلے ڈلے انداز میں خواتین کو درپیش ایشوز پر بات کی۔نظام کی خرابی سے لے کھوکھلے نعروں پر بھی اظہار کیا۔ نیلو فر بختیار نے سب کی بات توجہ سے سنی۔ ساتھ ساتھ۔جہاں ضرورت تھی سوالوں کے جواب بھی دئیے، یوں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ پہلی پریس بریفینگ تھی۔جہاں صحافی کو سوال کا پورا موقع دیا جاریا تھا اور اس کے اٹھائے گئے نقطے پر جواب بھی مل رہا تھا۔ پھر عرض کی کہ میڈم سارے ایشوز کا احاط کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن ایک اہم ایشو ابھی تک ڈسکس نہیں ہوا تو انہوں نے جوابا کہا کہ وہ آپ سے توقع کررہے ہیں کہ آپ سامنے لائیں گے۔یوں میں عرض کیا کہ جب تک خواتین پر تعلیم کے دروازے نہیں کھولے جائینگے۔ بات آگے نہیں بڑھے گی۔یہ لپا پوتی ہوگی۔خواتین کو بااختیار بنانے کیلئے ان کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ہوگا۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ میرا تعلق جس علاقہ سے۔ اس کا نام تھل ہے اور یہ پسماندگی کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔ جی تھل 19 قومی اسمبلی اور 37 صوبائی اسمبلی کی نشتوں کیساتھ ملتان۔بہاولپور سے بڑی سیاسی اکائی ہے۔لیکن اس تھل کا حال یہ ہے کہ یہاں ایک بھی وویمن یونیورسٹی نہیں ہے۔ایک بھی نرسنگ کالج نہیں ہے۔ایک بھی انجئیرنگ کالج نہیں ہے۔ ایک بھی میڈیکل کالج نہیں ہے۔ایک پنجاب یونیورسٹی جیسا ادارہ نہیں ہے۔ایک بھی ہائی کورٹ کا بنچ نہیں ہے۔ایک بھی موٹروے چھوڑیں۔ایکسپریس ہائی وے نہیں ہے۔ ایک زرعی یونیورسٹی نہیں ہے۔ایک ڈویثرنل ہیڈ کوارٹر نہیں ہے مطلب ککھ بھی نہیں ہے؟ جب گھر کے قریب اعلی تعلیمی ادارے نہیں ہیں تو آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ اس کا سب سے زیادہ اثر خواتین کی تعلیم پر پڑتا ہے۔والدین ان کو لاہور۔پنڈی۔فیصل آباد سمیت دیگر بڑے شہروں میں تعلیمی اخراجات سمیت دیگر وجوہات کی وجہ سے نہیں بھیجتے ہیں۔یوں ان کیلئے تعلیم ایک خواب رہ جاتا ہے۔اور پھر ایسے ایشوز کا ان کو جگہ جگہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔جن کا ذکر یہاں ہورہا ہے۔ میڈیم چیرپرسن۔آپ سے گزارش اتنی ہے کہ آپ اس صورتحال کیلئے ایک طرف اپنے ادارے کی طرف سے تھل کی خواتین کیلئے اقدامات کریں تو دوسری طرف وزیراعظم عمران خان سے بات کریں کہ تھل کو تعلیمی ادارے دئیے بغیر خواتین کو درپیش چیلنجز سے مقابلہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔
(کالم نگاراسلام آباد کے صحافی اورتجزیہ کار ہیں)
٭……٭……٭