All posts by Daily Khabrain

شاہینوں نے دل جیت لیے

ملک منظور احمد
پاکستان بطور ملک گزشتہ کئی سالوں سے بہت سی مشکلات کا شکار رہا ہے،اور اب بھی کئی چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے،پاکستان نے گزشتہ 15سال کے دوران بد ترین دہشت گردی،کا سامنا کیا کبھی زلزلے اور سیلاب کی صورت میں بد ترین قدرتی آفات کا سامنا کیا اور کبھی توانا ئی کی شدید کمی اور 20,20گھنٹو ں کی لوڈ شیڈنگ کا سامنا کیا۔اور باقی تمام شعبوں کی طرح پاکستان کی کرکٹ بھی اس عرصہ کے دوران شدید مشکلا ت کا شکار رہی ہے۔2009ء میں لاہور میں سر لنکا کی کرکٹ ٹیم کے اوپر ہونے والے دہشت گردانہ حملے کے بعد بین الا ا اقومی کرکٹ نے پاکستان سے رخ موڑ لیا اور کسی بھی ٹیم نے پاکستان آنے سے انکار کر دیا،جس کے باعث ایک وقت میں تو ایسا لگ رہا تھا کہ پاکستان کرکٹ کہیں خدا نخواستہ اس صورتحال کے باعث کہیں ختم ہی نہ ہو جائے لیکن پاکستان کرٹ بورڈ نے اس عرصے کے دوران متحدہ عرب امارات کو اپنا گھر بنایا،پاکستان کی کرکٹ جاری رہی اور اب پاکستان نے تاریخ میں پہلی بار کسی ورلڈ کپ مقابلے میں بھارت کو شکست دی اور نہ صرف شکست دی بلکہ 10وکٹو ں سے شکست دے دی،جو کہ ٹی 20فارمیٹ میں بھارت کی سب سے بڑی شکست ہے۔میچ سے قبل کسی کوبھی توقع نہیں تھی کہ پاکستان ٹیم بھارت کو اس بڑے میچ میں شکست دے سکتی ہے اور نہ صرف یہ کہ شکست دے سکتی ہے بلکہ اتنے بڑے مارجن سے شکست دے سکتی ہے۔پاکستانی ماہرین کرکٹ بھی بھارت کی ٹیم کا اس میچ میں پلڑا بھاری قرار دے رہے تھے اور بھارتی ماہرین اور میڈیا کی تو کیا ہی بات کی جائے ان کا غرور تو آسمان پر تھا وہ تو میچ میں بھارت کو میچ ہونے سے پہلے ہی فاتح قرار دے بیٹھے ہوئے تھے۔
بھارتی سابق ٹیسٹ کرکٹر ہر بجن سنگھ نے تو حد ہی پار کر ڈالی اور پاکستان کو میچ کھیلنے کی بجائے بھارت کو وال اوور دینے کا مشورہ دے ڈالا،بھارتی کرکٹر کے اس بیان کا جواب پاکستان کے سابق فاسٹ بولر شعیب اختر نے دیا اور بھرپور انداز میں دیا لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ شاہینوں نے یہ میچ جیت کر اور اتنے بڑے مارجن سے جیت کر بھارت کا غرور خاک میں ملا ڈالا ہے۔پاکستان نے میچ کی ابتدا سے لے کر اختتام تک بھارت کی ایک نہ چلنے دی اور بیٹنگ بولنگ اور فیلڈنگ تینوں شعبوں میں بھارت کو مکمل طور پر آؤٹ کلاس کر دیا۔اور میچ میں پاکستان کے بولرز خصوصا ً شاہین شاہ آفریدی کی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے،شاہین شاہ نے ابتدائی اوورز میں بھارت کے دو کھلاڑی آوٹ کرکے بھارت کو بیک فٹ پر دھکیل دیا جس کے باعث پاکستان کی فتح کا راستہ ہموار ہوا۔اور اس کے بعد دوسری اننگز میں پاکستانی اوپنرز بابر اعظم اور محمد رضوان نے شاندار کا رکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بغیر کوئی وکٹ گنوائے ہی ہدف مکمل کر دیا۔کئی دہائیوں کے انتظار کے بعد ایسی فاتح یقینا یاد گار ہے اور میچ کے بعد پاکستان سمیت دنیا بھر میں منائے جانے والا جشن اس بات کا غماز ہے کہ یہ فتح پاکستان کے لیے کتنی اہم تھی،مقبوضہ کشمیر،بنگلہ دیش سمیت دنیا بھر میں پاکستان کی جیت کا جشن منایا گیا،اور تو بھارت کے اندر بھی کئی علاقوں میں پاکستان کی جیت کا جشن منایا گیا جس کے بعد بھارتی مسلمانوں اور کشمیریوں پر تشدد کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔بھارتی شہروں میں ہاسٹلز کے اندر گھس گھس کر کشمیری طلبا ء پر تشدد کیا جا رہا ہے اور بھارتی کرکٹ ٹیم میں شامل واحد مسلمان کھلاڑی محمد شامی کو پاکستان سے شکست کی وجہ اور غدار قرار دینے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا گیا ہے۔ان واقعات سے ہم بھارت معاشرے میں بڑھتی ہو ئی انتہا پسندی اور مسلمان دشمنی کا اندازہ بخوبی لگا سکتے ہیں۔
پاکستان کی جیت میدان کے اندر تک محدود نہیں تھی بلکہ یہ میچ جیت کر اور اس انداز میں جیت کر پاکستان نے کرکٹ کی دنیا کے نام نہاد بگ 3جن میں بھارت کے علاوہ،آسٹریلیا اور انگلینڈ بھی شامل ہیں۔ان کو یہ واضح پیغام دیا ہے کہ پاکستان سے کرکٹ چھینی جاسکتی ہے لیکن پاکستان کو گیم سے باہر کرنا ممکن نہیں ہے۔پاکستان کی قوم اس کھیل سے دلی لگاؤ رکھتی ہے اور یہ کھیل ملک میں اتحاد اور ہم آہنگی کو فروغ دینے کا باعث بھی ہے،اس کھیل کو بہتر کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔وزیر اعظم عمران خان نے سابق ٹیسٹ کرکٹر رمیز حسن راجہ کو پاکستان کرکٹ بورڈ کا چیئرمین نا مزد کیا ہے اور امید کی جارہی ہے کہ ان کے آنے کے بعد پاکستان کرکٹ میں بہتری دیکھی جائے گی کیونکہ وہ نہ صرف پاکستان کرکٹ بلکہ جدید کرکٹ اور اس کے تقاضوں کو بھی بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں۔پاکستان نے بھارت کے خلاف شاندار فتح تو حاصل کر لی ہے لیکن ابھی پاکستان کے ورلڈ کپ کے سفر کا آغاز ہو ا ہے۔
پاکستان کو اسی جوش اور جذبے اور کارکردگی کا تسلسل برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔پاکستان کا اگلا میچ نیو زی لینڈ سے ہے جو کہ بہت اہمیت کا حامل ہے میچ ہارنے کی صورت میں پاکستان کا افغانستان کے ساتھ میچ ڈو اینڈ ڈائی کی صورتحال اختیار کر جائے گا اس لیے اس صورتحال سے بچنے کے لیے پاکستان کو یہ میچ بھی جیتنا لازم ہے۔لیکن جیسی کا رکردگی کا مظاہر ہ پاکستان نے پہلے میچ میں کیا ہے اس کے بعد یہ امید کی جاسکتی ہے کہ پاکستان باقی میچوں میں بھی جیت کا تسلسل برقراررکھے گا۔ ہم سب کی بطور پاکستانی دعائیں پاکستان ٹیم کے ساتھ ہیں اور ہم سب کی یہی خواہش ہے کہ پاکستان ٹیم ورلڈ کپ ٹرافی اپنے ساتھ لے کر آئے امید ہے اس بار جس جذبے سے قومی ٹیم میدان میں اتری ہے،ٹیم ورلڈ کپ جیت کر قوم کو جشن منانے کا ایک اور موقع ضرور دے گی۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭

قرض ……ایک میٹھا زہر

عبدالباسط خان
قرضوں میں جکڑی قوم پر پٹرولیم مصنوعات میں تاریخی اضافہ اور بے قابو مہنگائی کا رونا عوام تو کر رہے ہیں مگر جنہوں نے اس ملک کو قرضوں کی دلدل میں دھکیلا اور قوم کو اس حال میں پہنچایا وہ میڈیا میں آ کر عوام کے وکیل بن رہے ہیں یہ درست ہے کہ عمران خان کی نیت ٹھیک ہے مگر ان کے طرز حکمرانی پر ہر کوئی اپنے تجزیے کے مطابق سوال اٹھا سکتا ہے۔ ہماری ماضی کے حکمران جن میں نواز شریف سرفہرست ہیں نے ایک ایسے ملک میں بے بہا قرضے لئے جن کے زر مبادلہ کے ذخائر انتہائی سطح پر گرے ہوئے تھے۔ کیا ان قرضوں نے پاکستان کی معیشت کو مضبوط کیا یا برباد کیا اس کا ادراک پاکستان کا عام شہری نہیں کر سکتا وہ کیسے اس کی سمجھ بوجھ رکھ سکتا ہے کیونکہ اس کے پاس نہ تو تعلیمی اور نہ ہی معاشی عقل و دانش ہے وہ تو صرف اس بات پر خوش ہے کہ لاہور، اسلام آباد موٹرویز بن گئی یہ تو شائد صنعتی تجارتی معاشی انقلاب ہے۔ اگر لوگوں کے سفر میں ایک دو گھنٹے کا فاصلہ کم ہو گیا تو کون سا تیر مار لیا گیا۔ اس موٹر ویز نے مالی طور پر اس ملک کو استحکام بخشا کیا ہم نے یہ قرضے ادا کئے۔ اس موٹر ویز نے سفر تو کم کر دیا مگر ملکی، ترقی اور قوم کی خوشحالی کے سفر کو بہت لمبا کر دیا۔ ہمارے عوام کو ایکسپریس وے، موٹر ویز بناکر وہ بھی قرضے لے کر آج جس حال میں انہوں نے پہنچایا وہ شائد کوئی دشمن بھی ہمارے خلاف نہ کرتا۔ سیدھی سی بات ہے اگر میں قرضہ لے کر ایک بہت مہنگی گاڑی خرید لیتا ہوں اور بعد ازاں اس قرضے کو ادا نہ کروں تو پھر ایک دن وہ گاڑی بھی ضبط ہو گی اور قرضہ ادا نہ کرنے کی پاداش میں مجھے جیل بھی جانا پڑے گا۔ اگر میں اپنے رہنے کیلئے ایک عالیشان گھر بنا لوں اور بعد ازاں وہ قرضہ اتارنے کیلئے میرے پاس پیسے نہ ہوں تو میرا گھر بھی ضبط ہو گا اور مجھے جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانا پڑے گا۔
یہ سب تمہید میں اس لئے باندھ رہا ہوں کہ ہمارے حکمرانوں نے سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے ایسے منصوبے بنائے جس نے ہماری معیشت کو آئی سی یو میں پہنچا دیا۔ یہ منصوبے یقیناً سود مند ہوتے اگر اس موٹر ویز پر تجارتی سرگرمیاں زوروں پر ہوتیں یا پھر اس موٹر ویز سے منسلک علاقوں میں انڈسٹریل اور کمرشل زونز تعمیر ہوتے لوگوں کو روزگار ملتا اور معیشت کا پہیہ بھی چلتا لیکن یہ موٹر ویز اس قوم کیلئے عیاشی ثابت ہوئی۔ مگر اس قوم نے اپنے دشمنوں کو نہیں پہچانا جنہوں نے یہ قرضے تواتر سے لئے۔
90ء کی دہائی میں اس ملک میں ان حکمرانوں نے معاشی تباہی کی ایسی سرنگیں بچھائیں جس کا نتیجہ آج ہم مہنگائی کی شکل میں بھگت رہے ہیں آج ہر ایک ہی بات کہتا ہے کہ موجودہ حکومت نے اپنے تین سال کے عرصے میں سب سے زیادہ قرض لیا حالانکہ یہ بات معاشی تجزیہ کار بخوبی سمجھ سکتے ہیں مگر عام شہری کو میٹھے زہر کی گولی قرضوں کی شکل میں نوازشریف اور زرداری کے ادوار میں دی گئی۔ اس دہائی میں 17.4 بلین ڈالر کا قرضہ ہمارے ان حکمرانوں نے عوام کو تحفہ دیا جبکہ مشرف کی حکومت نے اس مدت میں بھی اکتوبر 1999ء سے 2007ء تک صرف ساڑھے تین بلین ڈالر کا قرضہ لیا گیا اس دھائی کو قرضوں کی دہائی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے لیکن یاد رہے اس دہائی میں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومت تھی پھر 2008ء سے 2018ء تک دونوں جماعتوں نے اپنے ادوار میں 55 ارب ڈالرز کا تاریخی قرضہ لیا لہذا اگر 90 ء کی دہائی کا قرضہ جو دونوں جماعتوں نے مل کر لیا اس کو 55 ارب ڈالر میں شامل کر لیا جائے تو آج اگر ملک پر 120 ارب ڈالرز کا قرضہ ہے تو نصف سے بھی بہت زیادہ ان دنوں جماعتوں نے لیا اور اس قرضے سے نہ تو ملکی آمدنی میں اضافہ ہوا اور نہ ہی عوام کی بنیادی صحت و تعلیم اور حالت میں کوئی قابل ذکر اضافہ دیکھنے کو ملا اب اگر اورنج ٹرین اور میٹرو بس جو ہم نے قرضے سے بنائی ہے تو سوچئے کتنا بڑا ظلم کیا گیا اس غریب عوام پر۔ اپنے اسی موقف کی تائید میں یہ بات بتاتا چلوں کہ ہندوستان جو معاشی طور پر ہمارے سے بہت بہتر حالت میں ہے آج دہلی اور بمبئی کے درمیان موٹر ویز بنا رہا ہے جو 2023ء میں مکمل ہو گی مگر یاد رہے کہ ان کے ہندوستان کے زرمبادلہ کے ذخائر600 ارب ڈالرز سے زائد ہیں لیکن ہم نے قرضے لے کر یہ تمام موٹر ویز بنائیں۔ اورنج ٹرین کا ملبہ بھی اس غریب قوم نے اٹھایا۔ یہ کون سی معاشی ترقی تھی جس کا کریڈٹ لیتے مسلم لیگ ن یا پیپلز پارٹی تھکتی نہیں ہیں۔ سی پیک کا ذکر بھی دونوں جماعتیں بڑے فخر سے کرتی ہیں کہ سی پیک ان کے دور میں شروع ہوا۔
میں پوچھنا چاہوں گا کہ قرضے لینا اور ان قرضوں کی ادائیگی کے لئے مزید قرضے لینا کہاں کی دانشمندی ہے۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا دعویٰ بڑے خضوع و خشوح کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ سیاسی مصلحتوں کے تحت بہت مہنگی بجلی خریدنا اور ایسی بجلی جس کے فعال ہونے کا دارومدار تیل پر ہو اور تیل جب آسمان سے باتیں کرے گا تو پھر یقیناً بجلی کے ریٹ بڑھانے پڑیں گے۔ IPP کا استعمال ہو یا نہ ہو اس کا کرایہ آپ کو ادا کرنا پڑے گا۔ اب اگر یہ ماضی کی حکومتیں قرضے لینے اور ان کو غیر ترقیاتی مد میں خرچ کرنے کی بجائے ڈیمز بنانے پر توجہ دیتیں تو یقینا آج ہم بجلی کی قیمت یہ ادا نہ کررہے ہوتے۔ حکومتی کارکردگی کا انحصار ٹیکس کی آمدنی میں اضافہ سے نہیں بلکہ سرمایہ کاری خاص طورپر بیرونی ممالک کے سرمایہ کاروں کو پاکستان لانا برآمدات کو بڑھانا، ٹورازم سیکٹر کو فروغ دے کر ڈالر کو پاکستان لانا، سروسز سیکٹر کو فروغ دیتا ہے۔ یہ سب حکومت کی کارکردگی کو ظاہر کرتی ہے مگر ہمارے ہاں قرضے لیکر عوام کو ریلیف دینے کا رواج پڑ چکاہے اور یہ افیون کی گولی یا میٹھا زہر ہمارے ماضی کے حکمرانوں کا دیا ہوا تحفہ ہے جس کاخمیازہ موجودہ حکومت کے ساتھ ساتھ غریب عوام کو بھگتنا پڑ رہاہے۔ اگر ماضی میں یہ سیاسی جماعتیں عوام کے ساتھ یہ کھلواڑ کر چکی ہیں تو خدارا سچائی اور جذبہ حب الوطنی کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت کا ساتھ دیں کیونکہ اگر وہ اسی حکومت کو گرائیں گے تو پھر کون سی جادو کی چھڑی ہے جس سے گرانی ختم ہو گی۔
(کالم نگارمختلف موضوعات پرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

خبریں بہاولپور کااجرا۔ جرأتمندانہ فیصلہ

سیدہ عائشہ غفار
امتنان شاہد صاحب نے اپنے والد محترم جناب ضیا شاہد صاحب کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پرنٹ میڈیا کے ڈگمگاتے ہوئے قدموں کو سہارا دے کر بہاولپور سے خبریں اخبار کی اشاعت کا ایک خوبصورت کارنامہ سرانجام دیا۔ہمارے بڑے ہمیں اپنے جانے سے پہلے ہمیں بڑا کر جاتے ہیں اور کامیاب لوگ وہی ہوتے ہیں جو اپنے اوپر پڑی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھائیں جس کے لیے امتنان شاہد صاحب مبارکباد کے مستحق ہیں ہم سب کی دعا ہے خبریں اخبار پاکستان کے ہر کونے سے شائع ہو اور خوب ترقی اور منزلت پائے‘ آمین۔
جب میں نے خبریں اخبار جوائن کیا تو اس وقت عدنان شاہد صاحب اپنے والد محترم ضیا شاہد صاحب کے ساتھ صحافتی امور میں ان کے شانہ بشانہ تھے اور جناب امتنان شاہد صاحب اس وقت جی سی یونیورسٹی لاہور میں زیر تعلیم تھے اور ضیا شاہد صاحب امتنان شاہد صاحب سے بہت پیار کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ میرا بیٹا بہت ذہین ہے اور اس کے اندر میں قائدانہ صلاحیتیں دیکھتا ہوں یہ اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھاتا ہے
ضیا شاہد صاحب کے اندر ایک بہت اچھی خوبی یہ تھی کہ وہ مستقبل کے معماروں کی بہت قدر کرتے تھے انہوں نے پرانے سے زیادہ نئے لوگوں کو بہت پرموٹ کیا مجھے کہا کرتے تھے لکھتی رہا کرو اپنا قلم سے رشتہ کبھی بھی نہ توڑنا جب میں چینل فائیو کے لیے پروگرام پرانے گیت پرانی غزلیں کی میزبانی کر رہی تھی تو عموماً میرا بیٹا عبد الرافع بھی میرے ساتھ جاتا اور کہتا کہ آپ نے مجھے ضیا شاہد صاحب سے ضرور ملوانا ہے اور ضیا شاہد صاحب اس سے ہاتھ ملاتے اور کہتے نوجوان محنت اور لگن کو اپنا شعار بنا لو کبھی بھی زندگی میں مات نہیں کھا گے اپنا لوہا منواؤ۔جس شعبے میں بھی جاؤ اس کی بلندیوں تک پہنچو۔دیکھو بیٹا میری صحت اجازت نہیں دیتی لیکن پھر بھی میں دس یا بارہ گھنٹے کام کرتا ہوں کتنی کتابیں لکھ دیں مگر گنتی نہیں کرتا لکھتے جاؤ زندگی کے کام کبھی نہیں رکتے پھر مسکرا کر بولے آپ تو شاعر ہیں آپ نے تو سنا ہوگا ”ہم نہیں ہوں گے تو کوئی ہم سا ہوگا“۔
ہم نے وہ وقت بھی دیکھا کہ جب ہم صبح آفس آتے اور پتہ چلتا کہ ضیا شاہد صاحب رات کے آفس میں ہی بیٹھے کام کر رہے ہیں انہوں نے خبریں اخبار کے مستقبل کے لیے ایک مشفق اور محنتی باپ کا رول ادا کیا۔
ضیا شاہد صاحب کے اندر محنت تھی لگن تھی جذبہ تھا اور مایوسی ان کے قریب سے بھی نہیں گزری تھی بہت حوصلہ مند اور دلیر انسان تھے
اس پر مجھے ایک واقعہ یاد آیا کہ میں ایم اے ملک صاحب کا انٹرویو کرنے گئی جو بہت مشہور پامسٹ اور زائچہ نویس تھے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے ضیا شاہد صاحب کے ہاتھ کا پرنٹ بھی چاہیے میں نے آفس آکر ضیا شاہد صاحب سے کہا کہ ایم اے ملک صاحب آپ کی ہاتھ کا پرنٹ مانگ رہے ہیں کہنے لگے رہنے دو میں نے کہا سر اس میں حرج ہی کیا ہے انہوں نے ایک بہت خوبصورت بات کی بی بی انسان ہاتھوں کی لکیریں تو خود بناتا ہے اپنی سوچ اپنے فیصلوں اور اپنے ارادوں کی پختگی سے اور باقی اللہ کا کرم چاہیے۔
لیکن ملک صاحب کے اصرار پر انہوں نے اپنے ہاتھ کا پرنٹ بھیجا ملک صاحب نے اس کا بغور مطالعہ کیا انہوں نے بتایا کہ میں نے اب تک ہزار کے قریب سیاسی سماجی لوگوں کے ہاتھ دیکھے ہیں جن میں محترمہ فاطمہ جناح بھی شامل ہیں لیکن جتنی جرات و بہادری اور نڈر پن ضیا شاہد صاحب کے ہاتھ میں ہے میں نے اب تک کسی ہاتھ میں نہیں دیکھا یہ بہت بہادرہیں محنتی اور قدم قدم پر سیکھنے والے انسان ہیں ادب اور قلم کا عشق ان کے اندر کوٹ کوٹ کے بھرا ہے ان کی محنت ان کی کامیابی کی دلیل ہے یہ مصائب مسائل سے گھبرانے والے نہیں یہ ایک مرد جری کا ہاتھ ہے بس ان کو غصہ بہت جلد آ جاتا ہے جو ان کی صحت کے لیے ٹھیک نہیں اس بات پر عدنان شاہد صاحب نے بھی ان کے کمرے میں No کا بورڈ آویزاں کر رکھا تھا کہ چیف صاحب جب آپ کو غصہ آئے تو سامنے No دیکھ لیا کریں۔
ضیا شاہد صاحب ایک بات کہا کرتے تھے میری ترقی اور کامیابی میں میری ماں کی دعاؤں کا بہت ہاتھ ہے۔ مجھے صبح کی نماز کے بعد میری والدہ پانی دم کر کے دیتی ہیں جو میری روح کو سکون دیتا ہے اور ان کی دعاؤں سے میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
اور دوسرا میری بیگم یاسمین شاہد صاحبہ نے بھی صحافتی امور میں میری بہت مدد کی وہ خود بہت اچھا لکھتی ہیں میں آج جو کچھ بھی ہوں اس میں میری ماں اور بیگم کا بہت ہاتھ ہے
آخر میں جناب امتنان شاہد صاحب میں یہ کہوں گی کہ آپ نے ایک ادبی اور صحافتی گھرانے میں آنکھ کھولی ادب اور صحافت آپ کے خون میں رچابساہے اللہ پاک آپ کو صحت عزت دولت اور کامیابی سے ہم کنار کرے اور آپ کی والدہ باجی یاسمین شاہد جو بہت نیک شریف اور اچھی خاتون ہیں ان کا سایہ آپ سب پر سلامت رکھے ان کو صحت تندرستی عطا فرمائے خبریں اخبار دن دگنی رات چگنی ترقی کرے اور خبریں اخبار اپنا سلوگن ”جہاں ظلم وہاں خبریں“ کی پالیسی کو مد نظر رکھتے ہوئے طاقتور حکمرانوں ظالم وڈیروں کے سامنے حق کی آواز بن کر مظلوموں کا ساتھ دیتا رہے آمین ثم آمین
(کالم نگارقومی وسیاسی امورپر لکھتی ہیں)
٭……٭……٭

بلوچستان پرتوجہ دی جائے

وزیر احمد جوگیزئی
بلوچستان پاکستان کا وہ صوبہ ہے جسے پہلی مرتبہ 1970ء میں الیکشن میں حصہ لینے کا موقع ملا لیکن اس سے چند سال قبل ہی بلوچستان کو صوبے کا درجہ ملا تھا اس سے پہلے بلو چستان صوبہ بھی نہیں ہو ا کرتا تھا۔اور اگر اس لحاظ سے دیکھا جائے تو بلوچستان کو بطور صوبہ اتنا تجربہ نہیں ہے،پنجاب،سندھ،انگریز کے دور میں بھی صوبے ہوا کرتے تھے اور ان کے پاس ایک حکومتی نظام موجود تھا انتظامیہ موجود تھی،قانون ساز ادارے پہلے سے ہی وجود رکھتے تھے جبکہ بلوچستان کے پاس ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔برطانوی دور میں قلات،خاران،مکران،لسبیلہ پانچ اضلاع تھے،ان میں ایک قبائلی پٹی بھی تھی اور سیٹلڈایریاز بھی موجو د تھے۔ایڈمنسٹریٹر ان علاقوں کو دیکھتے تھے اور پاکستان بننے کے بعد بھی یہی صورتحا ل رہی لیکن مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے بلوچستان کو صوبہ بنانے کے لیے آواز اٹھا کرتی تھی،اور کافی بھرپور آواز تھی لیکن اس کے بعد کیا ہوا کہ صوبہ بننا تو ایک طرف تھا بلوچستان سمیت پورا پاکستان ون یونٹ بن گیا۔پھر اس کے بعد وہ دور آیا کہ جب ون یونٹ تو ختم ہو گیا اور بلوچستان کو صوبہ کی حیثیت مل گئی بلوچستان کی اپنی قانون سازی اسمبلی وجود میں آئی۔
سردار عطا اللہ مینگل بلوچستان کے پہلے وزیر اعلیٰ بنے لیکن باقی ملک کی طرح بلوچستان کے حالات بھی اتار چڑھاؤ کا شکار رہے۔مارشل لاء لگتے رہے،اسمبلی بنتی اور ٹوٹتی رہیں اور بلوچستان میں بھی جمہوری نظام باقی ملک کی طرح مستحکم نہیں ہو سکا۔لیکن جیسا کہ میں نے پہلے بات کی کہ باقی صوبے پہلے سے صوبے تھے ان میں ایک حکومتی مشینری اور اسمبلیاں پہلے سے موجود تھیں بلوچستان کو وہ تجربہ حاصل نہیں تھا جو کہ باقی صوبوں کو حاصل تھا۔لیکن میں پھر بھی سمجھتا ہوں کہ بلوچستان کے قانون ساز کسی بھی صورت میں باقی صوبوں سے کم نہیں ہیں اگر زیادہ نہیں ہیں تو برابر تو بالکل ہیں۔لیکن بلوچستان کی سیاست مقامی سطح پر کی جاتی ہے اور اس لحاظ سے بلوچستان کا صوبہ باقی پورے پاکستان سے مختلف ہے۔یہاں پر مرکزیت بہت کم ہے، کم از کم 100یا اس سے بھی زیادہ چھوٹی چھوٹی جماعتیں موجود ہو ں گی اتنی زیادہ تعداد میں مقامی جماعتیں ہیں کہ ان کے نام بھی یا د رکھنا مشکل ہے اور انتخابات میں انھی جماعتوں کے ایک ایک دو دو ارکان منتخب ہو کر اسمبلی میں آتے ہیں اور پھر اس کے بعد کیا ہو تا ہے؟ بد قسمتی سے کہنا پڑتا ہے کہ بلوچستان کے وسائل اور نوکریوں کا بھی بٹوارہ کر لیا جاتا ہے اور سب کچھ تقسیم ہو جاتا ہے۔یہ میرا پختہ یقین ہے کہ بلوچستان کی قسمت اس وقت تک نہیں کھل سکتی ہے اور اس وقت تک بلوچستان حقیقی معنوں میں قومی دھارے میں شامل ہو کر ترقی نہیں کر سکتا ہے جب تک پاکستان کی مرکزی سیاسی جماعتیں بلوچستان میں آکر سیاست نہ کریں اور بلوچستان میں اپنی حکومت قائم نہ کریں۔پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کو بلوچستان میں سیاسی طور پر محنت کرنی چاہیے اور مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پا رٹی بلوچستان میں کام کریں تو اپنی حکومت بنا سکتی ہیں بلکہ پاکستان تحریک انصاف بھی بنا سکتی ہے۔لیکن اس کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔شہید ذوالفقار علی بھٹو نے اس حوالے سے بہت کام کیا تھا اور 77ء کے انتخابات سے قبل انھوں نے اس حوالے سے کافی اقدامات اٹھائے تھے لیکن پھر 77ء میں مارشل لا ء لگنے کے بعد سب کچھ ضا ئع چلا گیا۔لیکن بہر حال اگر بلوچستان کو باقی ملک کے برابرلانا ہے تو پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کو کام کرنا ہوگا۔بد قسمتی سے ذوالفقار علی بھٹو کے بعد سے کوئی ایسا لیڈر نہیں آیا، جس نے کہ ژوب،قلعہ سیف اللہ اور دیگر علاقوں میں جاکر لوگوں کے ساتھ براہ راست رابطے قائم کیے ہوں،لوگوں کا اعتماد جیتا ہو،اور یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں کے لوگ آج تک شہید ذولفقار علی بھٹو کو یاد کرتے ہیں۔بلوچستان رقبے کے لحاظ سے تو پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے لیکن آبادی اتنی بڑی نہیں ہے اس لیے بلوچستان میں اچھا کام کرنا اتنا مشکل کام نہیں ہے اگر کوئی واقعی نیک نیتی کے ساتھ ایسا کرنا چاہے تو۔بلوچستان میں ترقی کے تمام وسائل موجود ہے جو کہ کسی بھی علاقے یا خطے کی ترقی کے لیے ضروری ہو تے ہیں۔بلوچستان میں اچھی زراعت ہے،معدنیات ہیں سیاحت کی بہت صلاحیت موجود ہے۔ شکار گاہیں بنائی جاسکتی ہیں اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ایسا ہے جس سے کہ بلوچستان کو ترقی دی جاسکتی ہے، لیکن اس کے لیے سرمایہ کاری چاہیے۔حکومت کو چاہیے کہ سرمایہ کاری لائے اور بلوچستان پر پیسہ خرچ کیا جائے تو بلوچستان بھی باقی صوبوں کے برابر آسکتا ہے۔
ایسا نہیں کہ بلوچستان ہمیشہ سے ہی ایک محروم صوبہ تھا، برطانوی دور میں بلوچستان میں تعلیم کا نظام بہت اعلیٰ تھا بہت ہی اعلیٰ معیار کی تعلیم دی جاتی تھی لیکن جب بلوچستان صوبہ بنا تو اس کے بعد اپنائی گئی پالیسوں نے صوبے کو بہت پیچھے دھکیل دیا۔ٹیچرز اور پولیس والوں کو نکالنے سے نظام تباہ ہوا اور یہی وجہ ہے کہ آج بلوچستان میں تعلیم کی شرح کم ہے۔بلوچستان پر کام کرنے کی ضرورت ہے اور مرکز کی جانب سے سخت گیر نظر رکھنے کی بھی ضرورت ہے۔اگر اس قسم کے حالات ہوں جیسا کہ بلوچستان کے حالات ہیں تو اس قسم کے حالات کے ملک دشمن اور منفی عناصر بھی فائدہ اٹھاتے ہیں اور پھر آزادی سمیت ہر قسم کی آوازیں اٹھتیں ہیں۔بیو کریسی سے یہ توقع کرنا کہ وہ معاملات کو سنبھال سکتی ہے بالکل غلط ہے،بلوچستان کو سیاسی اونر شپ کی ضرورت ہے۔کراچی اور لاہور سے سرمایہ کاروں کو بلوچستان کا رخ کرنا چاہیے اور اور سرمایہ کاری کرنی چاہیے اس سے بلوچستان کے مسائل کم کرنے میں بہت مدد مل سکتی ہے۔
(کالم نگار سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی ہیں)
٭……٭……٭

کیا ہو اؤں کا رخ تبدیل ہو رہا ہے؟

ملک منظور احمد
پاکستان کے سیاسی ماحول میں ایک ہلچل کا سما ں ہے۔ سیاسی منظر نامے پر ایک بے چینی سی پائی جا رہی ہے اور ایک بار پھر کچھ ایسی قیاس آرائیاں زیر گردش ہیں کہ جلد ہی کچھ ہو نے جا رہا ہے،یہ پہلی بار نہیں ہے کہ ایسی قیاس آرائیاں زیر گردش رہی ہوں لیکن بہر حال جیسے جیسے حکومت کی مدت کا وقت گزر رہا ہے ایسی قیاس آرائیاں زور پکڑ تی جا رہی ہیں۔حکومت اس وقت بے شمار مسائل میں گھری ہو ئی ہے،ایک طرف مہنگائی کے سونامی اور تباہ حال معیشت کے چیلنجز درپیش ہیں تو دوسری طرف اہم قومی اداروں کے ساتھ کچھ غلط فہمیوں اور مسائل کا بھی سامنا ہے اور اس کے ساتھ ایک مشکل بین الا اقوامی صورتحال بھی حکومت کے لیے مشکلا ت کا باعث بنی ہو ئی ہے۔اپوزیشن جماعتیں حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے لیے پر تول رہی ہیں،مہنگائی کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے اور اس احتجاج میں نہ صرف سیاسی جماعتیں بلکہ وکلا اور تاجر تنظیمیں بھی حکومت کے خلاف میدان میں اتر چکی ہیں۔اس بات میں کو ئی شک نہیں ہے کہ حکومت اس وقت شدید دباؤ کی کیفیت میں ہے،اور ایسے میں ایسی باتوں کا سامنا آنا کہ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی راولپنڈی میں اہم ملا قاتیں ہو ئیں ہیں جوبہت ہی معنی خیز ہیں۔اس بات میں کو ئی شک نہیں ہے کہ کوئی بھی حکومت عوام کو نا راض کرکے بر سر اقتدار نہیں رہ سکتی ہے،اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومت عوام کی بڑی تعداد کو مہنگائی اور معیشت کی ابتری کے حوالے سے مطمئن کرنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔
پلس سروے کے مطابق 57فیصد پاکستانی عوام نے وزیر اعظم عمران خان کے معیشت کے حوالے سے فیصلوں پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا ہے جبکہ اسی سال کے آغاز میں ان افراد کی تعداد 37فیصد تھی اس سے معلوم ہو تا ہے کہ معاشی ابتری اور مہنگائی یقینا عوام کو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت سے متنفر کرنے کا باعث بن رہی ہے۔بلوچستان میں سیاسی بحران بھی حکومت کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت اختیار کر چکا ہے جہاں پاکستان تحریک انصاف اور باپ پارٹی کی اتحادی حکومت کی کشتی ہچکولے کھا رہی ہے۔اور اطلا عات کے مطابق خود حکمران جماعت باپ پارٹی کے 33سے زائد ارکان وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کما ل کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر چکے ہیں جس پر کہ پیر کے روز ووٹنگ کی جائے گی۔اور اس حوالے سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ باپ پارٹی کے منحرف اراکین کو اس حوالے سے اپوزیشن جماعتوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔وزیر اعلیٰ بلوچستان کی پوزیشن کافی کمزور دیکھائی دے رہی ہے اور اگر وہ اپنے منصب پر برقرار رہنے میں ناکام رہتے ہیں تو وفاق میں بیٹھی ہوئی وفاقی حکومت کے لیے بھی بڑا دھچکا ثابت ہو گا اور اگر پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو یہی معلوم ہو تا ہے کہ اگر بلوچستان میں تبدیلی آجائے تو پھر اس تبدیلی کا سلسلہ رکتا نہیں ہے بلکہ پھیلتا چلا جاتا ہے۔
مسلم لیگ ن کی گزشتہ حکومت کے دوران بھی سب سے پہلی سیاسی تبدیلی بلوچستان میں ہی آئی تھی اور اس کے بعد آہستہ آہستہ اقتدار پر مسلم لیگ ن کی گرفت کمزور سے کمزور ہو تی چلی گئی۔مہنگائی اس وقت پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے لیے سب سے بڑے چیلنج کی شکل اختیار کر چکی ہے اور حکومت اپنے دعوؤں اور باتوں کے باوجود اس پر قابو پانے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ حکومت کبھی اس مہنگائی کے طوفان کو سابقہ حکومتوں کی پالیسوں کا نتیجہ قرار دیتی رہی ہے،اور کبھی عالمی حالات اور کرونا کو اس مہنگائی کا ذمہ دار ٹھہراتی آئی ہے لیکن اس حوالے سے خود کوئی ذمہ داری لینے یا اپنی پالیسیوں پر نظر ڈالنے کے لیے قطعی طور پر تیار نہیں ہے اور ان حالات میں جب کہ حکومت کو اپنی غلطیوں کا ادراک ہی نہ ہو تو اس سے درستگی کی توقع رکھنا حقیقت پسندانہ عمل نہیں ہے۔اس وقت میری نظر میں مہنگائی کی بنیادی وجہ حکومت کی بیڈ گورننس اور بد انتظامی کے علاوہ روپے کی قدر میں مسلسل کمی ہے حکومت نے مارکیٹ بیسڈ ایکسچینج ریٹ کی پالیسی تو اپنا رکھی ہے اور حکومت کے مطابق اس سے معیشت کو فائدہ ہو ا ہے لیکن حکومت کے پاس اس پالیسی کے نتیجے میں ملک میں برپا ہونے والے مہنگائی کے طوفان کو روکنے کا حکومت کے پاس کوئی طریقہ موجود نہیں ہے،عوام کو مطمئن کرنے کی غرض سے کبھی کوئی کمیٹی بنا دی جاتی ہے اور کبھی کہا جاتا ہے مافیاز مہنگائی کے ذمہ دار ہیں اور ہم ان مافیا کے پیچھے جا رہے ہیں۔لیکن یہ باتیں صرف باتیں ہی رہ جاتی ہیں۔اگر اعداد و شمار پر نظر دوڑائی جائے تو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے بر سراقتدار آنے کے بعد ڈالر کی قیمت میں 70فیصد اور بجلی کی قیمتوں میں 52 فیصد تک اضافہ کیا جاچکا ہے،لیکن اس کے باوجود نہ تو پاکستان کا تجارتی خسارہ کنٹرول میں ہے اور گردشی قرض بھی 2.2کھرب روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ایسے حالات میں عوام شدید پریشان ہیں لیکن سیاسی طور پر سوال یہ بنتا ہے کہ کیا اپوزیشن جماعتیں اس بار عوام کو سٹرکوں پر لانے میں کامیاب ہو ں گی اور حکومت پر اتنا دباؤ ڈالنے میں کامیاب ہو سکیں گی کہ حکومت کو گھر جانا پڑے یا پھر قبل از وقت انتخابات کا اعلان کرنا پڑے؟
مہنگائی کے خلاف احتجاج کا اعلان تو کر دیا ہے اور پی ڈی ایم اور پاکستان پیپلز پا رٹی اس حوالے سے الگ الگ احتجاج کرنے میں مصروف ہیں لیکن اپوزیشن کے چند رہنماؤں کی طرف سے ایسے بیانات بھی سامنے آئے ہیں جس سے اندازہ ہو تا ہے کہ شاید پیپلز پا رٹی بھی واپس پی ڈی ایم میں شمولیت کرنے پر آمادہ ہے۔بہر حال اہم قومی اداروں کے ساتھ ناچاقی،مہنگائی کا طوفان اور سیاسی خلفشار مل کر حکومت کے لیے ایسی صورتحال پیدا کر رہے ہیں کہ حکومت اس وقت تو ایک بہت ہی کمزور وکٹ پر کھڑی ہو ئی دکھائی دے رہی ہے۔رہا سوال اس بات کا کیا معاملات حکومت کے خاتمے اور قبل از وقت انتخابات تک جاسکتے ہیں یا پھر حکومت اپنی مدت پوری کرے گی؟ اس سوال کا جواب دینا تو مشکل ہے لیکن پاکستان کی سیاست میں کسی بھی چیز کی توقع کی جاسکتی ہے۔بہر حال جو بھی صورتحال ہو آئندہ آنے والے حالات کسی بھی صورت پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے لیے بہتر دکھائی نہیں دے رہے ہیں اور اب تو محسوس ایسا ہی ہو تا ہے کہ ہواؤں کا رخ تبدیل ہو رہا ہے۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭

بوڑھوں کو خوب پانی پلائیں

روہیل اکبر
موسم تبدیل ہونا شروع ہوگیا اس موسم میں ہمیں جہاں گرم کپڑوں کی ضرورت پیش آتی ہے وہیں پر ہمیں اپنے کھانے اور پینے کا بھی خاص خیال رکھنا چاہیے خاص کر جوانی سے بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھنے والوں کو بہت زیادہ احتیاط کے ساتھ ساتھ اپنی خوارک بہتر کرنی چاہیے۔ بچپن سے جوانی اور جوانی سے ڈھلتی عمر کا سفر انتہائی تیزی سے گذر جاتا ہے بڑھاپے میں اچھی اور خوبصورت زندگی وہی لوگ گذارتے ہیں جو اپنے لیے کچھ نہ کچھ اصول بنا لیتے ہیں اور وہ لوگ خوش وخرم زندگی بسر کرتے ہیں جو پانی کا استعمال زیادہ کرتے ہیں۔ گرمیوں میں پیاس زیادہ محسوس ہوتی ہے اور سردیوں میں کم کچھ لوگ گرمیوں میں بھی کم پانی استعمال کرتے ہیں کہ پسینہ آتا ہے اور سردیوں میں تو پانی کا استعمال بالکل ہی کم کردیتے ہیں انسانی جسم کو ایک دن میں کم از کم 10سے 15گلاس پانی کی ضرورت ہوتی ہے جو نہیں استعمال کرتے وہ مختلف پریشانیوں کا شکار ہو جاتے ہیں خاص کربوڑھوں میں ذہنی الجھن کی وجوہات پانی کی کمی ہی بنتی ہے۔
میڈیسن کے ایک پروفیسر کا کہنا ہے کہ عام طور پر 60 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کو پیاس لگنا بند ہوجاتی ہے اور اس کے نتیجے میں وہ مائعات پینا بند کردیتے ہیں اور اگر کوئی ارد گرد موجود فرد انہیں کچھ پانی وغیرہ پینے کی یاد نہ دلائے تو وہ تیزی سے ڈی ہائیڈریٹ ہو نے لگتے ہیں۔ ان کے جسم میں پانی کی کمی شدید ہو جاتی ہے اور اس سے پورے جسم پر اثر پڑتا ہے جو اچانک ذہنی الجھن، بلڈ پریشر میں کمی، دل کی دھڑکن میں اضافہ، انجائنا (سینے میں درد)، کوما اور یہاں تک کہ موت کا سبب بن سکتا ہے پانی بھی پیناہے بھولنے کی یہ عادت 60 سال کی عمر میں شروع ہوتی ہے ہمارے جسم میں پانی کی مقدار 50فی صد سے زیادہ ہونا چاہئے جب کہ60 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کے بدن میں پانی کا ذخیرہ کم ہو جاتا ہے یہ قدرتی طور پر عمر بڑھنے کے عمل کا ایک حصہ ہے لیکن اس میں مزید پیچیدگیاں بھی ہیں یعنی اگرچہ وہ پانی کی کمی سے دوچار ہوتے ہیں پر انہیں پانی پینے کی طلب نہیں ہوتی، کیوں کہ ان کے جسم اندرونی توازن کے طریقہ کار زیادہ بہتر طور پر کام نہیں کررہے ہوتے ہیں جس کانتیجہ یہ نکلتا ہے کہ 60سال سے زیادہ عمر کے لوگ آسانی سے پانی کی کمی کاشکار ہو جاتے ہیں کیونکہ نہ صرف اس وجہ سے کہ ان کے پاس پانی کی فراہمی بہت کم ہے بلکہ وہ جسم میں پانی کی کمی کو محسوس نہیں کرتے ہیں۔ اس کے باوجود اگرچہ 60 سال سے زیادہ عمر کے افراد صحت مند نظر آسکتے ہیں، لیکن رد عمل اور کیمیائی افعال کی کارکردگی ان کے پورے جسم کو نقصان پہنچا سکتی ہے اس لئے اگر آپ کی عمر سال 60سے زیادہ ہے تو آپ مائعات پینے کی عادت ڈالیں۔ مائع میں پانی، جوس، چائے، ناریل کا پانی، دودھ، سوپ، اور پانی سے بھرپور پھل، جیسے تربوز ، آڑو اور انناس شامل ہیں یہ اہم بات یاد رکھیں کہ، ہر دو گھنٹے کے بعد، آپ کو کچھ مائع لازمی پینا چاہئے اپنے بزرگوں کی صحت بحال رکھنے کے لیے ہمیں چاہیے کہ 60 سال سے زائد عمر کے لوگوں کو مستقل طور پر پانی وغیرہ پیش کرتے رہیں اور ساتھ ساتھ ان کی صحت کا مشاہدہ بھی کریں اگر آپ کو یہ محسوس ہو کہ وہ ایک دن سے دوسرے دن تک پانی اور جوس وغیرہ پینے سے انکار کر رہے ہیں اور وہ چڑچڑے ہو رہے ہیں یا ان میں سانس کا مسئلہ بنتا جارہا ہے یا توجہ کی کمی کو ظاہر کرتے ہیں تو یہ ان کے جسم میں پانی کی کمی کے قریب قریب آنے والے علامات ہیں۔ پانی انسانی جسم کا اہم ترین جزو ہے جو قدرتی طور پر جسم سے زہریلے مادوں کا اخراج بھی کرتا ہے بزرگوں کے ساتھ ساتھ بچوں اور نوجوانوں میں بھی اکثر پانی کی کمی کی شکایت ہوتی ہے ہم اس بات سے بھی ناواقف ہیں کہ ہمیں کتنا پانی استعمال کرنا چاہیے۔
ایک معروف قول ہے کہ ایک دن میں 8گلاس پانی پینا چاہیے لیکن طبی ماہرین کا خیال ہے کہ 8گلاس کا فارمولہ ہر شخص کے لیے موافق نہیں ہے اسی لیے عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ ایک دن میں ایک عام شخص کو 10گلاس پانی پینا چاہیے دن میں اگر 15گلاس بھی پی لیے جائیں تو کوئی نقصان والی بات نہیں ہے اس میں جوس، چائے،لسی،سوپ اور لیکوڈاشیاء بھی پانی کے زمرے میں ہی آتی ہیں۔گرمیوں کے موسم میں اگر آپ ائر کنڈیشنڈ میں بیٹھ کر کام کرتے ہیں تب بھی کم از کم ڈھائی لیٹر پانی پینا ضروری ہے اگر کوئی فرد مارکیٹنگ کے شعبہ سے وابستہ ہے یا جسمانی مشقت والا کام کرنا پڑتا ہے تو پھر آپ کو تقریباً تین لیٹر پانی ضرور پینا چاہیے۔ موسم کے لحاظ سے پانی پینے میں ردو بدل ہوسکتا ہے مگر اسے چھوڑا نہیں جاسکتاموسم سرما کی آمد آمد ہے شوگر اور بلڈ پریشر کا مسئلہ اگر آپ کے ساتھ نہیں ہے تو پھر صبح اٹھنے کے بعد تھوڑے وقفہ سے 1یا 2گلاس پانی میں لیموں اور شہدملا کراستعمال کر یں کوشش کریں کہ سادہ پانی پیا کریں ٹھنڈا پانی کم سے کم استعمال کریں انسانی جسم میں قوت مدافعت بھی اسی وقت کم ہوتی ہے جب ہم پانی کا استعمال کم کردیتے ہیں اپنے آپ کو صحت مند رکھنے کے لیے پانی کا استعما ل ہر صورت کرتے رہا کریں اور خاص کر بڑی عمر کے افراد کو خود پانی پیش کرنا چاہیے۔ پانی اللہ تعالی کی ایک بہت بڑی نعمت ہے اسے ضائع ہونے سے بچانا ہے پانی کو آلودہ بھی نہیں کرنا چاہیے۔ ہمارے ندی نالے،آبشاریں،نہریں،کھال،دریا اور سمندر بھی بہت خوبصورت ہیں مگر ہم اپنا کچرا ان میں ڈال ڈال کر خراب کررہے ہیں ہمیں قدرت کی طرف سے مفت میں ملنے والے اس خوبصورت اور انمول پانی کی قدر کرنی چاہیے تاکہ ہمارے بعد آنے والے بھی صاف اور شفاف پانی استعمال کرسکیں۔ اسی سلسلہ میں حکومت نے عوام تک صاف اور شفاف پانی پہنچانے کے لیے بہت سی جگہوں پر واٹر فلٹریشن پلانٹ بھی لگائے ہیں اور اکثر انکی ٹونٹیاں غائب ہوتی ہیں یا پانی کھلا چل رہا ہوتا ہے یہ سب ہمارے لیے ہے اور ان چیزوں کی حفاظت بھی ہمارے ذمہ ہے۔
(کالم نگارسیاسی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

خبریں بہاولپور سے

سجادوریا
پاکستان کے پرنٹ میڈیا کی معتبر اور شاندار شناخت’روزنامہ خبریں‘مسلسل عزت و وقار کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے،روزنامہ خبریں نئی منزلوں کا متلاشی ہے اور انکی طرف گامزن بھی ہے،روزنامہ خبریں بہاولپور بھی کامیابی سے اشاعت کے سفر میں قدم رکھ چکا ہے،یہی اس بات کا ثبوت ہے کہ ”خبریں“ قیادت میں پہل کرنا جانتا ہے۔جناب ضیا شاہدصاحب کی روح بھی یہ جان کر بھر پور مسرت سے سر شار ہو گئی ہو گی کہ ان کے بنائے ہوئے ادارے نے ترقی کے سفر کو نئے چیف ایڈیٹر کی قیادت میں کا میابی سے نہ صرف رواں دواں رکھا ہوا ہے بلکہ نئے اسٹیشنز بھی بن رہے ہیں۔چیف ایڈیٹر جناب امتنان شاہد بہت متحرک،محنتی اور ذمہ دار نگہبان کے جیسے ”خبریں“ کی نگہبانی کر رہے ہیں۔میرے چیف جناب امتنان شاہد نے بھی کمال ذہانت،ذمہ داری اور لیڈرشپ کا مظاہرہ کیا،ایک ماہر اور تجربہ کار کپتان کی طرح اپنی ٹیم کو پورے جذبے کے ساتھ متحرک کیا ہے،نئی راہوں اور نئی منزلوں کو ڈھونڈنے نکل پڑے ہیں۔پرنٹ میڈیا جیسے کہا جا رہا ہے کہ زوال کا شکار ہو رہا ہے،کئی بڑے اخبارات کئی اسٹیشنز سے اپنی اشاعت بند کر رہے ہیں،کئی ادارے اپنے کارکنان کو ملازمتوں سے فارغ کر رہے ہیں،اس دور میں ”خبریں“ کی بہاولپور سے اشاعت کامیابی اور اعتماد کا جھنڈا گاڑنے کے مترادف ہے۔میں اس کامیابی پر جناب امتنان شاہد صاحب اور’خبریں‘ فیملی کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔اپنے کالم نگار دوستوں،کارکنان صحافیوں اور خبریں ٹیم کو بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ ان کی کاوش اور محنت بھی”خبریں“ کے ہمقدم ہے۔
روزنامہ خبریں اپنی کامیابی کے سفر کی تین دہائیاں مکمل کرنے کو ہے،مجھے یاد پڑتا ہے کہ1992ء میں جب روزنامہ خبریں کی اشاعت کا آغاز ہوا تھا،تب اخباری صنعت میں ایک طرح کا انقلابی نعرہ بھی متعارف ہوا تھا،جناب ضیا شاہد نے معاشرے کی نبض پر گویا ہاتھ رکھ دیا تھا، دیکھتے دیکھتے خبریں نے معاشر ے کے نباض کی حیثیت اختیار کر لی تھی۔”جہاں ظلم وہاں خبریں“ کا نعرہ اس قدر گونجا کہ عوام کے کان پوری طرح متوجہ ہو گئے،خبریں کو ایک نجات دہندہ کے طور پر دیکھا جانے لگا۔عملی طور پر یہ دیکھا بھی گیا کہ عوام اپنے مسائل لے کر ”خبریں“ کے علاقائی دفاتر پہنچ جایا کرتے تھے۔جناب ضیا شاہد کی ساری زندگی عملی صحافت میں گزری،عوام کے مسائل جانتے تھے،سب سے بڑھ کر انہیں خبروں کو پرکھنے اور شہ سُرخی لگانے میں ”کمال“ حاصل تھا۔میں نے کئی بار لکھا ہے کہ ”خبریں“ عام طرز کی بھیڑ چال،ریٹنگ اور جھوٹی خبروں کی دوڑ سے باہر،بے نیاز اپنی دُھن میں مگن اپنے سفر کو جاری رکھے ہوئے ہے۔روزنامہ خبریں کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس نے صرف سیاست کو موضوع نہیں بنایا بلکہ سماجی،معاشرتی اور معاشی موضوعات کو بھی بھر پور کوریج دی۔پاکستانیت کی بات ہو،خبریں ہراول دستے کا کردار ادا کرتا ہے۔پاکستان کے دفاعی،عسکری اور فوجی طاقت کے عروج و استحکام کی بات ہو تو بھی خبریں پیچھے نہیں رہتا۔یہ وہ نظریاتی موضوعات ہیں جن پر”خبریں“گہری نظر رکھتا ہے۔زمینی اور نظریاتی سرحدوں کے تحفظ میں اپنا حصہ ڈالتا ہے۔
اب آتے ہیں اس سوال پر کہ عوام میں ”خبریں“ اس قدر مقبول کیوں ہے؟میں سمجھتا ہوں کہ ”خبریں“ نے سوچ سمجھ کر عوامی مزاج اپنایا ہے۔علاقائی،لسانی اور قومی مسائل کا بھر پور ادراک کرتے ہوئے ان کے حل کے لئے آواز اُٹھائی ہے۔پاکستان کی سا لمیت کے حوالے سے اندرونی مسائل پر بھی آواز اُٹھائی ہے۔
کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا معاملہ ہو،ستلج،بیاس کے پانی کا مسئلہ ہو،اندرونی دہشت گردی کا معاملہ ہو،پاکستان کے غداروں کی بات ہو،خبریں نے کسی مصلحت اور خوف کا سہارا نہیں لیا، ببانگِ دُہل اپنا کردار نبھانا شروع کر دیا ہے۔پاکستان کے اند ر علاقائی مسائل کو بھی اُجاگر کیا،نئے صوبوں کی ضرورت کو محسوس کرتے ہو ئے خبریں نے بھر پور آواز اٹھائی۔جنوبی پنجاب میں نئے صوبے کے مطالبے اور ضرورت کو سب سے پہلے خبریں نے آواز دی،سرائیکی خطے میں نئے صوبے کے لئے آواز خبریں نے اس وقت اٹھائی جب کسی بھی نئے صوبے کے لئے بات کرنے کو غداری سے منسوب کر دیا جاتا تھا۔سرائیکستان صوبے کے قیام میں اگر کسی نے سُستی دکھائی ہے تو وہ جنوبی پنجاب کی سیاسی قیادت نے دکھائی ہے۔مجھے لگتا ہے اگر نئے صوبے کے قیام کا اعلان ہو بھی گیا تو سرائیکی علاقے کی سیاسی قیادت،صوبے کے نام اور صدر مقام کے حوالے سے اختلافات کا شکار ہو جائے گی،کوئی صوبہ بہاولپور بنانا چاہتا ہے،کوئی ملتان کو جنوبی پنجاب کا صدر مقام دیکھنا چاہتا ہے۔انشاء اللہ اس مسئلے کے حل میں خبریں رہنمائی کرے گا۔کیونکہ خبریں آپ کے ساتھ ساتھ ہے۔
کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے خبریں نے بھر پور مہم چلائی،کالاباغ ڈیم کی ضرورت کے حوالے سیمینارز،آبی ماہرین کے انٹرویوز،واپڈا انجینئرز کے مطالعاتی سروے،غرضیکہ جس قدر بھی ضرورت اور کوشش ممکن ہوئی ’خبریں‘ نے سستی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ واپڈا کے سابق چیئرمین جناب شمس الملک ایک محترم پختون بزرگ ہیں، چند سال قبل اسلام آباد کے ایک نجی ہوٹل میں منعقدہ سیمینار میں ان سے ملاقات ہوئی،انتہائی محترم،شفیق اور سادہ طبیعت شخصیت کے سحر نے گویا گرویدہ کر لیا۔میں نے ان سے سوالات کیے کہ کالاباغ ڈیم کیوں ضروری ہے؟ اسکی تعمیر کے حوالے سے نوشہرہ اور گردونواح کے علاقوں کو کیا نقصانات ہو سکتے ہیں؟کیا ہم کالاباغ ڈیم کا کوئی متبادل بنا سکتے ہیں؟انتہائی شفیق بزرگ،ایک دم ٹھہرے،مجھے دیکھا اور فرمایا،بس سیاست ہو رہی ہے،کالاباغ ڈیم جیسا اہم قومی منصوبہ سیاست کی نظر ہو گیا ہے۔پھر انہوں نے کچھ اعدادوشمار بیان کیے،جس کے مطابق کالا باغ ڈیم ایک قدرتی ڈھلوان پر واقع ہے،جس کو بہت کم لاگت میں تعمیر کیا جاسکتا ہے۔انہوں نے یہ بھی بیان فرمایا کہ صوبہ کے پی کے بہت زیادہ مستفید ہو سکتا ہے،کتنا علاقہ ڈیرہ اسماعیل خان تک سیراب ہو سکے گا۔سستی بجلی بھی دستیاب ہو گی۔
روزنامہ خبریں نے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے ایسی جاندار مہم چلائی،کہ اس کی نظیر نہیں مل سکتی۔اسی طرح سماجی موضوعات کو بھی اہمیت دی،طاقت ور کے خلاف کمزور کا ساتھ دیا،جبری شادیوں اور بے جوڑ شادیوں کے حوالے اصلاحی اور آگاہی مہم شروع کی۔خاندانی نظام کی اہمیت و حرمت کو اُجاگر کیا۔میڈیا میں آواز اُٹھانے کے ساتھ ساتھ قانونی امدادبھی فراہم کی،شکایات سیل بھی قائم کیا۔
ان تمام کارناموں کو اپنے سر لئے روزنامہ خبریں اب بہاولپور بھی پہنچ چکا ہے۔جنوبی پنجاب کا مقبول ترین اخبار ہونے کا اعزاز پہلے ہی نام کر چکا ہے، بہاولپور سے اشاعت اس بات کا ثبوت ہے۔جنوبی پنجاب کے دوسرے اسٹیشن اور پاکستان بھر میں ۹واں اسٹیشن بہاولپور سے اشاعت پر ایک بار پھر جناب امتنان شاہد صاحب کو مبارکبادپیش کرتا ہوں، دعا گو ہوں کہ اللہ پر ادارے کو دن دُگنی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے۔روزنامہ خبریں سے منسلک ہو نا ایک اعزاز کی بات ہے،کہ یہ ایک عوامی اخبار ہے اور عوام پر انحصار کرتا ہے۔عوام کا اعتماد ہی ہمارا سرمایہ ہے،ہم روزنامہ خبریں کی ترقی و خوشحالی کے سفر کے تسلسل کے لئے دعا گو ہیں۔اہل ِ بہاولپور کو مبارک ہو کہ خبریں انکی آواز بن کے آن کھڑا ہوا ہے۔بہاولپور کو مبارکباد اور ہمارا سلام،انشاء اللہ رابطہ رہے گا۔
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

ہم شر مندہ ہیں

سیدتابش الوری
قوم کی شان، محسن پاکستان، دو نشان امتیاز اور ایک ہلال امتیاز کے اعزاز یافتہ منفرد انسان، نہ جانے کس شاہ باز کے حکم پر سرکاری اعزاز کے ساتھ مدفون ہو گئے ہیں۔ساری دنیا اپنے محسنوں، مو جدوں اور سائنسدانوں کو اپنے سر کا تاج اور تعظیم و توقیر کا نشان امتیاز بناتی ہے لیکن ہم نے اپنے سب سے عظیم موجد وسائنسدان کو بے خطا اسیر و پا بہ زنجیر رکھاجس پر قوم ہی نہیں پوری قومی تاریخ ہمیشہ شرمندہ رہے گی۔
کون نہیں جانتا کہ سقوط ڈھاکہ کے المناک سانحے کے بعد جب قوم خود کو نحیف و نزار محسوس کر رہی تھی اور بھارتی ایٹمی تیاریوں سے ہمارے دفاعی حصار کو خطرات لاحق ہو نے لگے تھے تو سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ایما پر ایٹمی راز دان عبدالقدیر خان نے وقت کی آواز کو لبیک کہتے ہوئے ہالینڈ کی پر مسرت اور آسودہ زندگی کو خیر باد کہہ کر پاکستان کا رخ کر لیا تھا انھیں پاکستان کے دفاع کی خاطر ایٹم بم بنانے کا ٹاسک ملا تھا جوپاکستان جیسے بے وسیلہ غریب ملک کے لئے بظاہر ناممکن تھا لیکن غیر معمولی حوصلہ مند قدیر خان نے یہ چیلنج قبول کر لیا کیونکہ ان کے بقول وہ کسی دوسرے سقوط ڈھاکہ کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے جوہری مقصد کیلئے ایک موثر و منظم ادارہ معرض وجود میں لایا گیا قابل ترین محب وطن اور تجربہ کار سائنسدان اور انجینئر چنے گئے۔ ریزہ ریزہ جمع کر کے ادارے کا سانچہ ڈھانچہ تیار کیا گیا اور نہ جانے کن کن حیلے بہانوں سے کن کن کے ذریعے کن کن قیامتوں سے گزر کر دنیا جہان سے مشینیں آلات پرزے اور خام مواد جمع کیا گیا ہر قدم پرچیلنج تھا اور ہر مرحلہ ایک کڑا امتحان۔
جڑیں پہاڑوں کی ٹوٹ جاتیں زمیں تو کیا عرش کانپ اٹھتا
اگر میں دل پر نہ روک لیتا تمام زور شباب تیرا
قدیر خان کی مستعد ذہین ا ور انتھک ٹیم نے حالات کی نامساعدت کے باوجود کام شروع کیا تو راستوں سے راستے نکلتے چلے گئے اور منزلیں نئی منزلوں کا پتہ دیتی چلی گئیں ایٹم بم سازی ایسا خطرناک اور وسیع البنیاد منصوبہ ہے کہ اس کے متعلق سوچتے ہوئے بھی بڑے بڑے سرمایہ دار اور وسائل بر دار ملکوں کی پھپری کانپنے لگتی ہے مغربی مما لک خصوصاً امریکہ‘ اسرائیل اور بھارت کو پاکستانی ایٹم بم کی گن سن لگی تو وہ تمام حواس بیدار کر کے ایڑیوں پر کھڑے ہو گئے اور سازشوں دھمکیوں اور جارحانہ ہتھکنڈوں سے ہمارے جوہری منصوبے کو ناکام بنانے پر جت گئے۔
قدیر خان کی زندگی داؤ پر تھی انھیں براہ راست دھمکیاں مل رہی تھیں اور ایجنسیاں انھیں مسلسل خبردار بھی کر رہی تھیں لیکن مجاہد قدیر خان کہہ رہے تھے کہ میں نے اتنے عبدالقدیر خان تیار کردئیے ہیں کہ میری موت بھی میرے ایٹم بم کا راستہ نہیں روک سکتی۔بلا شبہ عبدالقدیر خان کی سربراہی میں سائنسدانوں کی ٹیم کا جوہری قوت میں تاریخ ساز بنیادی اور کلیدی کردار رہا لیکن یہ بھی ناقابل تردیدحقیقت ہے کہ اس معرکتہ الآ را کام میں فوج، انتظامیہ، صدور، وزرائے اعظم اور کابینہ نے بلا استثنیٰ، اپنی اپنی جگہ کم و بیش مسلسل بھر پور کردار ادا کیا اور پیٹ پر پتھر باندھ کر بھی قومی ضرورتوں کی تکمیل کرتے رہے۔
آخر ہماری تاریخ کا وہ انمول اور ناقا بل فراموش لمحہ آگیا جب ہم ایٹم بم جسے یورپ اسلامی بم کہتا رہا بنانے میں کامیاب ہو گئے اور بھارت کے ایٹمی دھماکوں سے زیادہ دھماکے کر کے ہم نے پوری دنیا کو ششدر کر دیا۔بلا شک و شبہ پاکستان کے قیام کی طرح ایٹم بم کی ایجاد ایک فقیدالمثال سائنسی معجزہ تھا جس نے نہ صرف ملکی دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنادیا بلکہ قوم کوفخرو اعتماد کے لازوال جذبوں سے سر شار کر دیاہے۔افتخار و اعزاز کی اس شاندار کہانی کے ہیرو اپنے قابل فخر رفیق سائنسدانوں کے ساتھ جوہری بم کے موجد عبدالقدیر خان ہیں جنھیں بجا طور پر حکومت پاکستان نے دو مرتبہ نشان اعزاز اور ایک مرتبہ ہلال امتیاز کے عظیم اعزاز سے نوازا پاکستان اور دنیا بھر سے انھیں ان کے علاوہ سترّ کے قریب طلائی تمغے اور اعزازات ملے ملکی افواج کے سربراہوں صدر مملکت وزیر اعظم گورنروں وزرائے اعلیٰ اور سیاسی و سماجی اکابر نے ان پر تحسین و آفرین کے پھول نچھاور کئے اور سب سے بڑھ کر قوم کی محبتوں اور عقیدتوں کے زمزم نے انھیں نہلا دیا۔
ہم دنیا کی ساتویں ایٹمی ریاست ہیں۔ چھ ریاستوں نے اپنے اپنے ایٹمی سائنسدانوں کو سب سے بڑے اعزازات و مناصب عطا کئے یہاں تک کہ بھارت نے اپنے ایٹمی موجد کو مسلمان ہو نے کے باوجود صدارت کے منصب ِجلیلہ پر فائز کر دیا۔لیکن اس کے بر عکس ہمارے ہاں اپنے قابل تکریم ایٹمی سائنسدانوں کے ساتھ ہماری حکومت کے بعض حکمرانوں کاسلوک شرمناک حد تک نا قابل رشک رہا ہے۔جنرل پرویز مشرف سابق آمر جرنیلوں میں ذہانت وفطانت کے اعتبار سے نسبتاً بہتر سمجھے جا تے ہیں لیکن انھوں نے ایٹمی دھماکوں سے مشتعل سامراج کے سامنے جس طرح ہتھیار ڈالے اور بے حمیتی و بے ہمتی کا افسوسناک مظاہرہ کرتے ہوئے محسن پاکستان عبدالقدیر خان اور ان کے باکمال ساتھیوں کو جس طرح سنگین اذیتوں اور شدید سختیوں کا نشانہ بنایا اور انھیں ان کے مناصب سے الگ کیا وہ ایک دکھ بھری بپتا ہے۔انتہا یہ ہے کہ محسن پاکستان کو پی ٹی وی پر جبراً اعتراف جرم کرا یا گیااور معافی مانگنے پر مجبور کیا گیا یہی نہیں بلکہ نشان امتیاز اور ہلال امتیاز کو ملک بدر کر کے امریکہ کے حوالے کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔
تفو بر تو اے چرخ گر داں تفو
وہ تو میر ظفر اللہ خان جمالی کی غیرت قومی کو سلام جنھوں نے اپنی وزارت عظمیٰ کو داؤ پر لگا تے ہوئے ملک بدری کی دستاویز پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ عبدالقدیرخان مرحوم ملک بدری سے تو بچ گئے لیکن در بدری سے نہ بچ سکے انھیں تمام آزادیوں، سہولتوں اور وسیلوں سے محروم کر کے بے یارومددگار اپنے ہی گھر میں قید کر دیا گیا پا بہ زنجیرمحسن پاکستان نے مختلف انٹرویوز میں بتایا کہ انھیں ملک سے باہر جانے کی اجازت تو کیا اپنی بیٹیوں اور دوستوں کے گھر جانے کی اجازت بھی نہیں تھی اور کسی جنازے پر بھی”کسی“ کی چشم و ابرو کے اشارے کنا ئے کے بغیر جانا ممکن نہیں تھا گھر کے اندر بھی نگرانی تھی اور باہر بھی پہریداری ! حکم حاکم کے بغیر پرندہ پر نہیں مار سکتا تھا۔
صابر و شاکر عبدالقدیر خان نے اس صورت حال پر ایک انٹرویو میں ایک بڑا بلیغ فقرہ کہا کہ وہ وقت کے کو فیوں میں گھر گئے ہیں ان پر کیا کیا الزام و اتہام نہیں لگائے گئے کہا گیا کہ ان کے اربوں ڈالر ز کے بنک اکانٹ مختلف مملک میں موجود ہیں جائیدادیں ہیں ہوٹل ہیں مگر قہاری اقتدار و اختیار کے باوجود کہیں سے بھی کچھ نہ نکلا اورقوم کی تقدیر عبدالقدیر اپنی پنشن پر بمشکل گذارہ کر تے ہوئے درویشانہ زندگی اپنائے رہے کوئی اس سے بھی بڑا ظلم ہو سکتا ہے کہ ان سے ایٹم بم بنا نے کا اعزاز تک چھیننے کی کوشش کی گئی اور جھوٹے دعویداروں کی بھر پور پبلسٹی کرائی گئی لیکن سورج پر کتنا ہی کیچڑ اچھالا جائے اس کی تب و تاب کہاں کم کی جا سکتی ہے آج حقیقت کا آفتاب عالم تاب نصف الّنہار پر ہے اور جھوٹ فریب حسد عناد اور الزامات و اتہامات کا طومار تاریخ کے گردو غبار میں گم ہو چکا ہے۔محسن پاکستان کی ایٹم سازی کی ولولہ انگیز کامیابی اوران کے مصائب کی دل دوز اور رقت انگیز کہانی کا سارا احوال محترم جبار مرزا نے بڑی ہمت و جرات سے اپنے کتاب نشان امتیاز میں بھی خون دل میں ڈوبی ہوئی انگلیوں سے لکھ دیا ہے۔
دیکھو اسے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو
تعجب یہ ہے کہ یہ اسیری پرویز مشرف کے بعدبھی تمام حکومتوں میں جاری رہی اور وہ عظیم سپوت جو سانحہ مشرقی پاکستان سے تڑپ کر اور بھارتی ایٹمی تیاریوں کا جواب بن کر ساری آسائشیں ٹھکراتا ہوا پاکستان پہنچا وہ ملکی دفاع کو ناقابل تسخیربنانے کے باوجود اپنی سرزمین پر جرم ناکردہ گناہی میں اسیر و پا بہ زنجیر رہا اور بالآخر اسی اسیری میں زندگی کی قیدو بند سے آزاد ہو گیا، زندگی میں جو کبھی پوچھنے نہ آئے وہ اسکی موت پر یا اسکے جنازے پر کیسے آتے۔تاریخ اور وقت اس کے جنازے پر بھی آنسں کی برکھا برساتے رہے اور اب بھی اسکی ویران قبر پر نوحہ کناں ہیں۔کاش محسن اعظم کا مزار قائد اعظم کے مزار کے احاطے میں ہوتا یا کراچی کے کسی مرکزی مقام پر تعمیر ہوتا جہاں زندگی میں نہ سہی مرنے کے بعد ہی سہی تلافی مافات کے طور پر قوم حقیقی خراج عقیدت پیش کرسکتی اور آئندہ نسلوں کے سامنے شرمندہ ہو نے سے بچ سکتی۔
پاکستان ہی کیا پوری امہ کے ہیرو
مہر عالم تاب کی صورت رخشندہ ہیں
غربت میں، ایٹم کی قوت، معجزہ ٹھہری
آپ تواریخ عالم میں، پا ئند ہ ہیں
(کالم نگارمعروف شاعراورادیب ہیں)
٭……٭……٭

دھرتی کا بیٹا دھرتی کے سپرد

مدثر اقبال بٹ
ہمیں بہت سے تعلق دھوپ چھاؤں میں بھی اپنی پناہ میں رکھتے ہیں ورنہ زندگی اتنی بھی سادہ نہیں جتنی آسودگی میں دکھائی دیتی ہے۔ اس کی تمام تر تلخیاں اور اذیتیں تب عیاں ہوتی ہیں جب آسودہ حالی گزر جاتی ہے۔ آسودگی مال و زر کی بھی ہوسکتی ہے اور اچھے دوستوں کی سنگت کی بھی۔میری زندگی کا نچوڑ یہی ہے کہ اچھے دوست اور غمگسار کسی بھی دولت سے بڑھ کر قیمتی ہوتے ہیں۔ان کا ہونا دکھ کی کیفیت کو کم کردیتا ہے خوشیوں کے لمحات طویل کر دیتا ہے۔یہ زخم زخم ماحول میں مرہم سے لوگ ہیں تو زندگی حسین ہے ورنہ یہ ایسی بے وفا اور سفاک ہے کہ اس کے ساتھ چند لمحے گزارنا بھی مشکل ہوں۔ ڈاکٹر اجمل نیاز ی بھی ایسی ہی دولت تھے جس کی موجودگی میں افسردگی اور شکستگی کی عسرت نے کبھی پریشان نہیں کیا۔ دوستوں کی خوشی میں خوش اور اداسی میں پریشان ہونے کا حوصلہ رکھنے والے ایسے لوگ نہ جانے کیوں اتنی تیزی کے ساتھ اٹھتے جارہے ہیں کہ اکثر ایسی تنہائی کا احساس ہونے لگتا ہے کہ جیسے شاخ محبت کے جھڑتے پتے،سبھی کے سبھی خزاں کی نذر ہوئے جارہے ہیں۔یہ شاخ اتنی خالی خُولی سی ہے کہ کیا خبر کب وہ ایک آدھ بھی جھڑ جائیں،جن کے ہونے سے ابھی کچھ تسلی ہے۔ڈاکٹر اجمل نیازی بھی دل کی تسلی تھے،حوصلہ تھے اور ہمت بھی۔وہ ہر حال میں دوستوں کا خیال رکھنے اور پریشانی کے عالم میں الجھنیں سلجھانے کا خاص مزاج لے کر دنیا میں آئے تھے اور مرتے دم تک اسی مزاج کو اپنی پہچان رکھا۔
ڈاکٹر اجمل نیازی کے ساتھ پہلی ملاقات کب ہوئی، یہ تو یاد نہیں لیکن ایسا ضرورمحسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ تعلق صدیوں پرانا تو ہوگا۔آپ نے اس فلسفے کی بابت تو سنا ہی ہوگا کہ کردار اہمیت نہیں رکھتے،بات نظریے کی ہوتی ہے۔نظریہ مستقل کہانی ہے اورکردار زمانے کے ساتھ اپنے نام بدل کر بس داستان مکمل کرتے ہیں۔ڈاکٹر اجمل نیازی اور میں بھی نظریے کی طویل داستان کے دو کردار ہیں جو شاید اپنے نام بدل کر قربان گاہوں کو اپنے لہو سے سیراب کرتے رہے ہیں۔ ہماری یادیں سکندرکے مقابل لڑتے پورس کے ساتھ بھی سانجھی تھیں اور دُلّے بھٹی یا احمد کھرل کے سپاہیوں میں بھی ہم ایک ساتھ موجود رہے۔ ہم چنگیز اور ہلاکو کے سامنے آئے،پھر بھگت سنگھ کے ساتھ انگریز سرکار کو للکارا۔وہ بھی ہم ہی تھے جو زمانے بدل بدل کے اپنی مٹی پر نثار بھی کئے گئے اور آج بھی یہ قافلہ اپنے رتن اس دھرتی کی نذر کررہا ہے جس نے انہیں جنم دیا،پہچان دی۔
میں ڈاکٹر اجمل نیازی کو اگرچہ صوفی بھی سمجھتا ہوں لیکن ان کے اندر کا حریت پسندہمیشہ اس صوفی پر غالب رہا۔ یہی حریت پسند پچھلے پچاس پچپن سال سے اپنی مادری زبان کے حقوق کے لئے لڑ رہا تھا۔ اسی ادبی اور صحافتی مورچے پر ان سے میری اک بار پھر شنا سائی ہوئی اور ہم نے وہ تمام پرانی یادیں، جو صدیوں کی دھند کے پار چھپی تھیں پھر سے تازہ کرلیں۔ڈاکٹر اجمل نیازی نے پنجابی کا وہ مورچہ سنبھالا تھاجو سب سے کمزور رہاہے۔جب وہ جوانی کی راہ پر قدم جما رہے تھے،تب پنجابی تحریک کسی حد تک چل تو رہی تھی لیکن تحقیق اور فکر کا حصہ بہت کمزور تھا۔ ادب بھی تخلیق ہورہا تھا اور مشتاق بٹ مرحوم جیسے لوگ عملی طور پر بھی میدان کو گرم رکھے ہوئے تھے لیکن یہاں ایسے کردار کی ضرورت تھی جو بیک وقت صاحب علم بھی ہو اور میدان عمل کا سپاہی بھی۔جو پنجابی تحریک کی آواز بنے اور صحافت کا خالی مورچہ بھی پوری طرح سے سنبھالے۔ایسا کردار پنجاب کی ثقافت، زبان کی جنگ لڑنے والی سپاہ کے علم بردار بھی۔ڈاکٹر اجمل نیازی نے اس مورچے پر اپنا کردار خوب نبھایا،اپنی ماں بولی کا حق ادا کیا اور سرخرو ٹھہرے۔
ڈاکٹر اجمل نیازی کے کالم ہوں،شاعری یا پھر نثر،وہ ایک خاص رنگ میں رچی ہوئی ہے۔یہ رنگ قاری کو اپنے ہونے کی وجہ تلاش کرنے کی تحریک دیتاہے۔ دنیا کے وجود میں وہ تلاش کرنے پر اکساتا ہے جو کہیں دکھائی ہی نہیں دیتا۔ ان کا نظریہ بنیادی حقوق کے عملی مظاہر کی تلاش کی جانب لے جاتا ہے۔ صدیوں سے اندھے غاروں میں رہنے والوں کو روشنی سے شناسا کرنے کے لیے کھینچ کھینچ کراُس جگہ پر لاتا ہے جہاں سے سورج دکھائی دے۔ انہوں نے روشنی دکھائی بھی اور پھر اپنے حصے کی شمع جلا کر اسے دوسروں سے منفرد بھی رکھا۔ڈاکٹر اجمل نیازی کی شاعری میں نثری شگفتگی بھی ہے اور نثر میں شعری چاشنی بھی۔ ان کے کردار میں وقار ہے اورگفتارمیں معیار۔ میں نے ایسے لوگ کم ہی دیکھے ہیں جن کی شخصیت میں ایسی کشش ہوکہ آپ ان کی موجودگی میں انہی کودیکھتے رہیں،سنتے رہیں اور آخر پر ان کے دیوانے ہو جائیں۔ڈاکٹر اجمل نیازی ایسے ہی تھے،جس نے ان کے ساتھ ملاقات کی، انہیں دیکھا، انہیں سُنا،پھرانہی کا ہو گیا۔ان کی محبت کسی کو جانے ہی نہیں دیتی تھی، سو جوایک بار ان کی محفل میں آن بیٹھا،اٹھ کر نہیں گیا،لیکن اب کیا ہوگا، اب اس محفل میں آکر بیٹھنے والوں پر کیا بیتے گی کہ خود میزبان ہی اٹھ کر جا رہا ہے۔ جب فہم وشعور کے پیمانے بھر بھر کے دینے والا ساقی ہی نہیں رہا تومے کش کہا ں جائیں،میکدے پہ کیا بیتے گی۔جنہیں ڈاکٹر صاحب کو سننے، پڑھنے اور دیکھنے کی عادت تھی،اب وہ فرزانے کہا ں جائیں۔ یہ جدائی تو عمر بھر کی جدائی ہے،وہ جو دل فگار آتے اور رِستے زخموں پہ مرہم لے کے پلٹتے اب کس سے دوا پائیں گے اور کس کے دستِ شفا سے سکونِ قلب پائیں گے۔کہاں، کب اور کیسے کے سوالات اچھالنے والا شخص اُسی مٹی کی آغوش میں گہری نیند سو رہا ہے جس کے حقوق کے لیے تمام عمر لڑتا رہا۔آج میں آخری بارڈاکٹر صاحب سے مل کر آیا ہوں۔انہیں آخری بار دیکھا،رخصت کیا اور بوجھل دل کو تھامے پلٹ آیا۔اب تنہائی کے پہلو میں بیٹھا انہیں یاد کررہا ہوں۔ قلم اٹھایا، لکھنا چاہا تو جیسے منتشر خیالات یکجا نہیں ہورہے، جیسے دستِ اجل نے خیالات کے اجتماع کاوہ شیشہ ہی توڑ دیا ہوجسے شیشہ گر نے بڑی مہارت سے سنبھال رکھا تھا۔ سوچ رہا ہوں کہ وہ کیسا دوست تھا جس کے جانے پر مجھ جیسے مضبوط انسان کے خیالات بھی یوں بکھرے ہیں کہ انہیں سمیٹنا ہی ممکن نہیں ہورہا۔بات بن نہیں پارہی۔مضمون باندھا نہیں جارہا،منتشر موضوعات کو یکجا نہیں کرپارہا۔۔۔۔ بس اتنی سی بات ہے کہ دھرتی کے بیٹے کو دھرتی کے سپرد کر آیا ہوں۔
(کالم نگارمعروف صحافی ہیں)
٭……٭……٭

دوستا سوچی وی ناں

انجینئر افتخار چودھری
خالد منہاس بڑا تگڑا صحافی ہے لفظ لکھتا ہے تو جی چاہتا ہے قلم کی مدح سرائی میں کوئی قصیدہ لکھا جائے البتہ متن سے اختلاف کی گنجائش رہتی ہے انہوں نے ایک کالم لکھا ہے جو پاکستان کے ایک ابھرتے ہوئے روزنامے میں چھپا ہے۔ فرماتے ہیں حکومت کے نیچے سے قالین سرک رہا ہے۔میں یہ تو دعوی نہیں کرتا کہ میں عمران خان کا بہت قریبی ہوں خاص طور پر حکومت بننے کے بعد وہ میری پہنچ سے بہت دور ہیں۔ ابھی فردوس عاشق اعوانوں اورندیم چنوں کے چن چڑھانے کے دن ہیں۔ جب پیارے قائد رج جائیں گے تو ہم بھی مستفید ہو جائیں گے لیکن پارٹی کی بڑی ذمہ داری کے لئے مجھے سیف اللہ نیازی نے چنا ہے اور مرکزی سپوکس پرسنز لسٹ میں بھی احمد جواد نے اعتماد کر رکھا ہے۔یہی وجہ ہے کہ سینٹرل ایڈوائزر ٹریننگ کی اضافی ذمہ داری بھی پارٹی قیادت ہی نے دی ہے۔میڈیا کا ایک بڑا گروپ بھی چلا رہا ہوں۔ پی ٹی آئی میڈیا کالمسٹ گروپ میں میرے ساتھ کوئی سو کے قریب صحافی ہیں یہ تو تھی دیسی گھی کی طاقتیں۔اب میں فرزند شکر گڑھ اور یار جدہ خالد منہاس ابو عبداللہ کو جواب دینا چاہوں گا۔پہلی بات تو یہ ہے میرے بھائی نہ تو عمران خان کسی فرش مخمل پر چل رہے ہیں اور نہ ہی کسی دبیز قالین پر۔پہلے دن سے ہی وہ انہی پتھروں پر چل رہے ہیں جن پر چلنے کا حوصلہ کوئی کوئی کرتا ہے۔2018 کے انتحابات میں عمران خان کو کہیں کی اینٹ اور کہیں کا روڑا لے کر حکومت بنانا پڑی۔کھوبے میں پھنسی گاڑی کو باہر نکالنے میں انہی دوستوں نے زور لگایا۔ہم تو خوش ہیں وہ کسی نے کیا خوب کہا سب کو دو اور ہمیں بھی نہ بھولو۔کہ ہم چاہنے والے ہیں تیرے
اوروں پہ کرم اپنوں پہ ستم اے جان وفا یہ ظلم نہ کر۔یہ ظلم نہ کر۔
قارئین! ہم کون سا شکوہ کرتے ہیں۔ دل لگی ہے اپنے لیڈر کے ساتھ سامنے بھی ہوں تو ایسے ہی کہتے ہیں اب اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس نے یہ ساری جد وجہد معین قریشی اور شوکت عزیز‘ راجہ پرویز اشرف اور یوسف رضا گیلانی بننے کے لئے کی ہے تو اسے اپنے ذہن سے یہ بات نکال لینی چاہئے
اہم بات یہ ہے کہ اگر عمران خان نے کوئی کام غلط کہے ہوتے تو وہ بچھ بچھ جاتا وہ لوگ جو اسے کٹھ پتلی سمجھتے تھے آج وہ دوسری جانب کھڑے ہو کر درفنتنیاں چھوڑ رہے ہیں۔ انہیں کج نہیں لبھے گا۔جو کچھ نہ کر سکے وہ کسی کو کچھ کرتا دیکھ کر بھی نادم نادم سے ہیں۔
میں بات کو آگے بڑھانے سے پہلے یہ بات ضرور کروں بلکہ ایک چھوٹی سی نشست کی بات سنا کر آگے بڑھتا ہوں۔دو روز پہلے شہباز گل سے میرا وقت طے تھا اس وقت وہ پنجاب ہاؤس نہیں پہنچ سکے لیکن جیسے ہی وہاں سے گڈی کے کے نکلا تو کال آ گئی کہ پلیز واپس آئیے گل صاحب آگئے ہیں۔ملاقات ہوئی گل بات ہوئی اور گلوں گلوں میں ایک کم دی گل یہ بتائی کہ انجنیئر صاحب خوش قسمتی جسے luck کہتے ہیں یہ اللہ کی جانب سے ہوتی ہے ورنہ جتنا کام بھائی عمر چیمہ اور آپ کا ہے وہ کیا عمران خان کو نہیں معلوم لیکن جس دن اللہ نے چاہا حکومتی ذمہ داری بھی مل جائے گی میں نے بر وقت کہا ہمیں بھی کوئی کالہی نہیں۔ قارئین میرا کالم کوئی کالم ہوتا ہے یہ تو میں دل کی باتیں اور دل کے ساز کے تار تڑن کر کے چھیڑ دیتا ہوں ضیا شاہدصاحب اور مجیب شامی‘ الطاف حسن قریشی‘مجید نظامی جیسے لوگوں کو پسند آجاتا ہوں۔میں دراز قد خوبصورت باتوں کے شہنشاہ شہباز گل کی باتیں سن رہا تھا۔کبھی کبھی چھوٹے میاں کو سپیڈ شریف کہا جاتا تھا اب شہباز گل کے لیے اتنا ہی کہوں گا۔
تینوں رب دیاں رکھاں
فرخ حبیب کو اور فواد چوہدری کو یاد کر رہا تھا کہ یہ بہترین ٹیم ہے جو میرے قائد کا دفاع کر رہی ہے۔
باقی فیاض چوہان کی بات ہی الگ ہے لیڈر اور صوبائی اسمبلی کا۔ممبر بننے میں فرق ہوتا ہے۔بندے کو اچھے دن یاد کرنے چاہئیں۔ اللہ کی ذات نے انہیں عمران خان کی نمائیندگی کرنے کے لیے چن لیاہے ہم پارٹی کا پرچم تھامے کسی اور میدان میں نکل گئے آخر انڈین میڈیا پر جو چھترول میں کرتا ہوں ان کے پاس وہ محاذ تو نہیں ہے۔لہٰذا خالد منہاس بھائی سے کہنا چاہوں گا کہ قالین ایک دو بندوں کی نوکری اپوائنٹمنٹ سے نہیں سرکا کرتے۔عمران خان اس ملک کے کروڑوں لوگوں کا چہیتا ہے اور آج بھی اس کی کال پر میدان بھر جاتے ہیں۔
ایک ڈی جی آئی ایس آئی کی پوزیشن کی وجہ سے ٹکراؤ ہو جائے گا یہ ہو جائے گا وہ ہو جائے گا خدا کے بندو یہ بابے شیخ کی ہٹی ہے جو لٹ جائے گی پٹ جائے گی۔یا یہ دونوں بڑے اسکول بوائے ہیں کہ معمولی سی بات پر تھو کر لیں گے اور بولیں گے نہیں۔اصل میں وہ طبقہ جسے ہمیشہ یہ بات پسند رہی کہ پاکستان میں ہنگامے ہوتے رہیں شور شرابے چلتے رہیں سب کچھ ہو امن نہ ہو۔
دوستو!جمہوریت جتنی پاکستان میں،، کمزور،، دکھائی جا رہی ہے اتنی ہے نہیں۔سیانے کہتے ہیں کہ زنجیر اتنی ہی کمزور ہوتی ہے جتنی اس کی کمزور کڑی۔ عمران خان دوسری کڑیوں کی طرح ایک مضبوط کڑی ہے جس نے اپنے پاؤں کے نیچے،،کھیڑی،، پہنی ہو جس کے سول،،ٹائر کے ہوں وہ سلپ نہیں کرتا اور سب سے زیادہ طاقت کیا سبز گنبد والا اسے اکیلا چھوڑے گا اور ان دنوں میں جب،،ہفتہ رحمت اللعالمین،،منانے جا رہا ہو اور منائے عمران خان۔ دوستا سوچی وی ناں۔
(تحریک انصاف شمالی پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات ہیں)
٭……٭……٭