لاہور (این این آئی)ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں پاکستان اور بھارت کے درمیان میچ کے تمام ٹکٹ چند گھنٹوں میں فروخت ہو گئے۔رواں ماہ ٹی 20 ورلڈ کپ میں روایتی حریف پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والے میچ کے ٹکٹ آن لائن فروخت کئے گئے، ویب سائٹ پر خریداری کے لیے ونڈو کھلتے ہی ہزاروں کی تعداد میں شائقین ٹکٹ کے حصول کے لیے کوشاں تھے۔گزشتہ رات 1500 درہم کے پریمیئم اور2600 درہم کے پلاٹینم ٹکٹ ہی باقی رہ گئے تھے تاہم پیر کی صبح ہونے تک یہ بھی ختم ہوگئے، سوشل میڈیا پر شائقین کی بڑی تعداد بلیک میں ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے کوشاں نظر آتی ہے۔واضح رہے کہ ورلڈ کپ میں پاکستان اور بھارت کا میچ 24 اکتوبر کو کھیلا جائے گا۔
All posts by Daily Khabrain
گستاخانہ خاکے بنانے والا ملعون عبرتناک موت سے دوچار‘ ٹریفک حادثے میں جل کر راکھ
سٹاک ہوم (نیوز ایجنسیاں)گستاخانہ خاکے بنانے والا سویڈن کا ملعون کارٹونسٹ لارس ولکس کارحادثے میں جھلس کر ہلاک ہوگیا،واقعہ میں سکیورٹی پر تعینات 2پولیس اہلکار بھی ہلاک ہوگئے ۔لارس ولکس نے 2007 میں گستاخانہ خاکے بنائے تھے اور اس کے بعد سے پولیس اس کی حفاظت پرتعینات تھی۔سویڈش پولیس نے تصدیق کی کہ 75 سالہ کارٹونسٹ اور دو پولیس افسران کار حادثے میں ہلاک ہو گئے جو ٹرک سے ٹکرا گئی تھی۔پولیس کے ایک ترجمان نے مزید کہا کہ سڑک حادثے کی تفتیش کی جا رہی ہے۔ کیونکہ اس میں دو پولیس اہلکار بھی مارے گئے ۔پولیس کے مطابق دونوں گاڑیوں میں آگ لگ گئی تھی اور ٹرک ڈرائیور کو ہسپتال منتقل کر دیا گیا ۔ حادثے کی وجہ فی الحال واضح نہیں ہے۔علاقائی پولیس سربراہ کارینا پرسن نے کہا جس شخص کی ہم حفاظت کر رہے تھے، وہ اوراس کے دو ساتھی اس ناقابل فہم اور خوفناک حادثے میں مر گئے ۔پولیس کی جانب سے بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ کار اور ٹرک کی ٹکر کیسے ہوئی تاہم ابتدائی طورپر اس میں کسی کے ملوث ہونے کے شواہد نہیں ملے۔ملعون لارس ولکس نے 2007 میں گستاخانہ خاکے بنائے جس سے مسلمانوں میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی تھی،پولیس اسے تحفظ فراہم کرتی تھی۔
بابراعظم ٹی 20 کرکٹ میں تیز ترین 7000 رنز بنانے والے کرکٹر بن گئے
راولپنڈی(این این آئی) پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں تیز ترین 7000 رنز بنانے والے کرکٹر بن گئے ہیں، انہوں نے یہ سنگ میل 187 اننگز میں عبور کرکے ویسٹ انڈیز کے جارح مزاج بیٹسمین کرس گیل کا ریکارڈ توڑ دیا۔بابر اعظم نے یہ ریکارڈ قومی ٹی ٹوئنٹی چمپئن شپ میں سینٹرل پنجاب اور سدرن پنجاب کے درمیان میچ میں عبور کیا، اس میچ سے قبل بابر اعظم کو سات ہزار رنز مکمل کرنے کے لیے چار رنز درکار تھے۔پاکستانی کپتان نے 187 اننگز میں سات ہزار رنز مکمل کرکے کرس گیل کا ریکارڈ توڑا، کرس گیل نے 192 اننگز میں سات ہزار رنز ٹی ٹوئنٹی رنز کا سنگ میل عبور کیا تھا۔بابر اعظم اس سے قبل تیز ترین چھ ہزار رنز کرنے والے ایشین بیٹسمین بھی رہ چکے ہیں، چھ ہزار رنز مکمل کرنے میں وہ کرس گیل سے صرف تین اننگز پیچھے تھے مگر انہوں نے چھ ہزار سے سات ہزار رنز کا سفر 22 اننگز میں مکمل کیا۔بابر اعظم نے کم سے کم اننگز کے ساتھ کم سے کم وقت میں بھی تیز ترین سات ہزار رنز کا ریکارڈ اپنے نام کیا۔بابر اعظم نے ڈیبیو کے 8 سال 10 ماہ میں یہ سنگ میل عبور کیا، وہ نو سال سے کم وقت میں سات ہزار ٹی ٹوئنٹی رنز مکمل کرنے والے پہلے بیٹسمین ہیں۔یاد رہے کہ اس سال اپریل میں بابر اعظم نے تیز ترین دو ہزار انٹرنیشنل ٹی ٹوئنٹی رنز کا ریکارڈ بھی اپنے نام کیا تھا۔اس ریکارڈ کے لیے انہوں نے بھارت کے ویرات کوہلی کو چار اننگز سے پیچھے چھوڑا تھا۔
آئی ایم ایف کی شرائط پر بجلی‘ گیس کی قیمت میں 35 فیصد اضافہ ہوگا: رضاربانی
اسلام آباد(صباح نیوز)پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما سینیٹر رضا ربانی نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط پر حکومت بجلی اور گیس کی قیمت میں 35 فیصد اضافہ کرے گی، اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے نے عام آدمی کی کمر توڑ دی ہے۔سینیٹر رضا ربانی نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ چینی، آٹا، دال، گھی، پیٹرول، بجلی اور گیس کی قیمتیں ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ ہیں۔انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کی شرائط پر حکومت بجلی اور گیس کی قیمت میں 35 فیصد اضافہ کرے گی، منافع پاور پلانٹس چلانے والی ملٹی نیشنل تیل کمپنیوں اور دوست سرمایہ داروں کی جیب میں جائے گا۔
پنڈورا باکس تحقیقات‘ وزیراعظم کا دباﺅ قبول نہ کرنے کا فیصلہ
اسلام آباد(ملک منظوراحمد سے)وزیراعظم عمران خان نے کہاکہ پنڈورالیکس کے حوالے سے کوئی بھی دباوقبول نہ کرنے کافیصلہ کیاہے۔جن شخصیات کے پنڈورالیکس نام آیاہے۔تمام سے تفصیلی تحقیقات کرنے کافیصلہ کیاہے۔جن شخصیات کے پنڈورالیکس نام آیاہے۔تمام سے تفصیلی تحقیقات کرنے کافیصلہ کیاہے۔تمام حقائق قوم کے سامنے رکھے جائیں گے۔ذمہ دارذرائع نے بتایاہے کہ پنڈورالیکس کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان کی صدارت میں ایک اعلی سطحی اجلاس ہوا۔جس میں پنڈورالیکس کے حوالے سے غور و خوض کیاگیا۔پنڈورالیکس کی تحقیقات کے لیے ایک اعلی سطحی تحقیقاتی سیل قائم کردیاگیاہے۔جس میں اہل باصلاحیت اورشفاف کردارکے حامل افسران کوتعینات کیاجائیگا۔پنڈورالیکس میں شامل ایسی شخصیات جوپبلک آفس ہولڈرنہیں ہے،ان کے کیسز ایف بی آرکے حوالے کیے جائیں گے۔ایف بی آرایسے لوگوں کونوٹس جاری کرےگااورٹیکس چوری کے حوالے سے تحقیقات کرکے ریکوری کریں گے۔ بعض شخصیات کے کیسز نیب کے حوالے کئے جائیں گے۔ ذرائع نے بتایاہےکہ پنڈورالیکس میں جولوگ ملوث پائے گئے ہیں ان کے حوالے سے تحقیقات میں ایف آئی اے کے افسران کی خدمات بھی حاصل کیں جائیں گی۔ذرائع نے یہ بھی بتایاہےکہ وزیراعظم نے پنڈورالیکس کی شفاف غیرجانبدارانہ اورمقررہ عرصہ میں تحقیقات میں تمام ذرائع کو بروئے کارلایاجائیگا۔اس تحقیقاتی سیل کی سربراہی خودوزیراعظم کریں گے۔ایف آئی اے کے علاوہ نیب، ایف بی آربھی سیل کی معاونت کریں گے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ جن وزرا اور حکومتی شخصیات کے نام پنڈورا لیکس میں سامنے آئے ہیں ان سے استعفے طلب کرنے کی تجویز بھی زیرغور ہے۔ ایف آئی اے کے علاوہ نیب، ایف بی آر بھی سیل کی معاونت کریں گے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ جن وزرا اور حکومتی شخصیات کے نام پنڈورا لیکس میں سامنے آئے ہیں ۔ ان سے استعفے طلب کرنے کی تجویز بھی زیر غور ہے۔
پولیس کے شہیدوں کو سلام
انجینئر افتخار چودھری
چندروزقبل اے ایس آئی اسلم فاروقی تھانہ سول لائنز کی حدود میں منشیات فروشوں کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہو گئے۔اللہ کے پیارے اس نوجوان کی عمر صرف اٹھائیس سال تھی انا للہ و انا الیہ راجعون
مقابلے میں ایک منشیات فروش بھی ہلاک ہو گیا لعنت بر مردار
راولپنڈی پولیس کے ملازم اس سے پہلے ان سماج دشمن عناصر کے خلاف لڑتے ہوئے جان جان آفریں کے سپرد کر چکے ہیں
اس سے چند ماہ قبل مری میں ایسا واقعہ ہو چکا ہے عمر صدیق گجر نامی ایک سب انسپکٹر نے بہادری کا مظاہرہ کیا منشیات فروشوں پر ہاتھ ڈالا تو اس کو گولیاں ماری گئیں جس سے وہ شدید زخمی ہو گئے۔پولیس کے اس بہادر جوان کی ہمت دیکھئے کہ اپنے سینے میں سانس کی نالی کے پاس گولی کے ٹکڑے لئے یہ گجروں کا بیٹا پھر ڈیوٹی پر پہنچ گیا اور اگلے روز اس نے ایک منشیات فروش کو گرفتار بھی کر لیا۔شیر کا جگرا ہے اس کے پاس اللہ پاک اپنی حفاظت میں رکھے آمین۔
قارئین نشے نے ہماری نسل کشی شروع کر دی ہے ندی نالوں میں پڑے آدھ موئے یہ بھی کسی کے لعل ہیں۔ ان کے پیدا ہونے پر بھی شادیانے بجائے گئے ہوں گے ماؤں نے خوشیاں کی ہوں گی اور باپ نہال ہوئے ہوں گے لیکن دولت کے پجاریوں نے انہیں نشے پر لگا کر انہیں ناکارہ بنا دیا ہے جس گھر میں ایک بھی نشئی ہوتا ہے وہ گھرانہ تباہ ہو جاتا ہے معاشرے میں وہ نفرت کا نشانہ بن جاتا ہے ۔میں سمجھتا ہوں اس کی سرکوبی کے لیے عام پولیس ناکافی ہے ANF گرچہ ایک الگ سے فورس موجود ہے لیکن اس کا کام شہروں گلیوں اور چوکوں میں کارروائیاں کرنا نہیں یہ کام پولیس کو ہی کرنا پڑتا ہے۔عام ملزمان سے نپٹنا پولیس کے لیے معمولی کام ہے لیکن منشیات فروش کوئی معمولی لوگ نہیں ہیں انہیں علم ہے کہ گرفتاری کی صورت میں عمر بھر جیل کا سامنا کرنا پڑے گا وہ اس ڈر سے پولیس پر فائر کھول دیتے ہیں کہ پکڑے گئے تو مارے جائیں گے۔سماج کے یہ دشمن کسی رحم کے قابل نہیں ہیں
دوسری جانب پولیس کو دیکھیں تو اکثر اوقات یہ گلہ سننے کو ملتا ہے کہ پولیس کے پاس مناسب لوازمات نہیں ہوتے اسلحہ مناسب نہیں ہوتا گاڑیاں کھٹارہ ہوتی ہیں ان کے پاس وہ ضروری چیزیں نہیں ہوتیں کہ وہ ان سماج دشمن عناصر کا مقابلہ کر سکیں جن کے پاس جدید اسلحہ اور گاڑیاں ہوتی ہیں اور مزے کی بات ہے ان کی سر پرستی بھی کرنے والے موجود ہوتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ راولپنڈی پولیس کی کارکردگی پہلے سے بہت بہتر ہے۔خاص طور پر سی پی او احسن یونس کے آنے کے بعد راولپنڈی قدرے سکون میں ہے۔جرم انسانی فطرت کے ساتھ جڑا ہوا ہے روز اول سے قتل ہو رہے ہیں۔شہر کی بیٹیاں مائیں سلام کہتی ہیں ۔ایک دن ڈی سی کی میٹنگ میں سی پی او نے جو بریفینگ دی اس سے ہمیں حوصلہ ملا کہ عوام محفوظ ہاتھوں میں ہیں۔
کاش دوسرے محکموں کے ہیڈ بھی سر جوڑ کر اور دل سے اپنا کام کریں۔شہر بدلنا کوئی مشکل کام نہیں اگر محکمے کا سربراہ سوچ لے کہ میں نے یہ کام کرنا ہے تو وہ کام ہو کے رہتا ہے۔
قارئین ایک اسلم فاروقی نہیں ہزاروں ایسے جوان ہیں جو ہماری حفاظت پر مامور ہیں۔افسوس یہ ہے کہ شہریوں کی جانب سے جو ستائش ہونی چاہئے تھی وہ ہو نہیں رہی۔ایک بے حسی کا عالم ہے۔”پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی“ بھی اپنی جگہ مگر یہ بھی تو ہے ”عوام کا ہے فرض مدد پولیس کی“ کے وہ بھی تو اس سلوگن کو اپنائے ۔
یہ میرے اور آپ کے لیے ایک خبر ہے اس سے پہلے عمران شہید کی بھی ایک خبر ہی تھی جسے شہید کر دیا گیا تھا کیا ہمارا فرض نہیں بنتا کہ انہیں بھی فوج کے شہدا کی طرح مانا جائے ان کو بھی بہادری کے تمغات دئے جائیں انہیں بھی زمینیں مربعے الاٹ ہوں اور ان کے نام کی سڑکیں ہوں بازار اور شہر ہوں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ان شہدا کے لیے ایک فنڈ قائم کیا جائے ان کی اولاد اور بچوں کو دست شفقت مہیا ہوں۔صدر پاکستان اور گورنر ان کے گھروں میں پہنچیں یا اپنے پاس بلائیں اور ان کی حوصلہ افزائی کریں۔میں نے تو صدر پاکستان کو مشورہ دیا تھا کہ کم از کم ان شہدا کے ورثا کو تو بلائیں جو اس ملک کو بدلنے کے لئے گمنام راہوں میں مارے گئے ۔
اسلم فاروقی تو اپنا فرض نبھا گیا لیکن اب اس کے ماں اور باپ پر جو گزر رہی ہے اس کا مداوا کون کرے گا ۔ ضروری ہے کہ ہم انہیں قومی ہیرو تسلیم کریں۔میں اس روز دکھی ہوا جب میں نے دیکھا کہ انسپکٹر عمران شہید کے بیٹے کو سی پی او اور ان کا سکواڈ ایک جلوس کی شکل میں لے کر سکول جا رہے تھے۔
کاش یہ کام اس شہر کے اور اس حلقے کے اسمبلی کے ممبر نے کیا ہوتا کاش ہم اس جلوس میں شامل ہوتے اور ثابت کرتے کہ ہمارے لئے جس نے جان دی ہے ہم اس کی قدر بھی کرتے ہیں۔
اسلم فاروقی آج جان پر کھیل گئے اگر ہم نے اس قسم کے جوانوں کو خراج عقیدت نہ پیش کیا تو یاد رکھئے نوکریاں تو سب ہی کرتے ہیں وہ بھی جان بچا سکتا تھا اسے اگر اس خوف نے آن گھیرا کہ میری بھی ایک بچی ہے میں کیوں جان پر کھیلوں لیکن وہ قوم کے ان بیٹوں اوربیٹیوں کے لئے جان دے گیا جو اس قسم کے بد معاشوں کی نظر ہو جاتے ہیں اسلم سوچتا کہ مجھے گولی لگ سکتی ہے میری بیٹی یتیم ہو سکتی ہے میں بھی کنارے ہو جاتا ہوں لیکن یہ جانتے ہوئے بھی کہ آگ کا دریا ہے اور کود کے جانا ہے اس نے اس دریا میں آگ لگا دی۔ہم اہل قلم بھی خاموش رہیں گے دیکھ لیجئے گا کہ کوئی نہیں لکھے گا سب خاموش ہوں گے سب کو چپ لگی ہو گی ستائش ہو گی اس کی جس سے کچھ ملے گا آج کل تو فرمائشی کالم لکھوائے جاتے ہیں تعریف کرائی جاتی ہے اور کالم میں مطالبے کئے جاتے ہیں کہ اس بندے کو فلاں نوکری دے دو۔فلاں پوسٹ پر لگا دو۔
افسوس اس بات پر ہے کہ یہ شہر راولپنڈی فوج کا شہر ہے وزیر داخلہ کا شہر ہے لیکن یہاں امن و امان قائم کرنے والے ادارے کہ ہاں آئے روز لاشیں گر رہی ہیں اور ہم سب خاموش مجرم بنے تماشہ دیکھ رہے ہیں یہ 114 واں شہید ہے ۔منشیات فروش قاتل ہیں ان کے لیے سخت قوانین نافذ کئے جائیں ایک اور افسوس بھی ہے کہ دنیا کے بیشتر ممالک نے کیپٹل پنشمینٹ دے رکھی ہے یہاں ان قومی مجرموں کو وکیل بھی مل جائے گا اور تگڑا وکیل کھڑا ہو گا اور پھر عدالت میں گواہی کون دے گا۔عدالتی نظام کی مثال دیکھئے میرے گھر ڈاکہ پڑا آج دو سال کے قریب ہونے کو ہیں آئے روز ملزمان ضمانت کے لئے عدالتوں میں موجود ہوتے ہیں پولیس مجھے کال کرتی ہے کہ صبح فلاں عدالت میں پہنچ جائیں ایمر جینسی میں کون پہنچ سکتا ہے چار مختلف ڈاکوں نے مجھے تگنی کا ناچ نچا رکھا ہے۔ایک کی ضمانت لگتی ہے تو دوسرا بلا لیتا ہے۔ان کے ہاس اتنے پیسے کہاں سے آ گئے جو تگڑے سے تگڑا وکیل کر لیتے ہیں۔ایک تو گھر سے لاکھوں گئے اوپر سے عدالتوں میں گھسیٹ گھسیٹ کے میرا لک توڑ دیا ہے صبح فلاں عدالت میں پہنچ جائیں اصالتا یا وکالتا۔اس عمر میں گھروں گھر گوایا باہروں۔۔۔
ہم چھوٹے تھے تو کہا کرتے تھے گھروں پئیاں جتیاں تے باہروں پئیاں کتیاں۔
اسلم قریشی کا باپ بھی عدالتوں میں رلے گا؟اس کے ساتھ بھی وہی سلوک ہو گا؟جو ہر شہید کے والدین کے ساتھ ہو رہا ہے۔ایک احسن یونس کے اچھے اقدامات سے اسلم فاروقی کو سکون نہیں ملے گا یہاں سسٹم ہونا چاہئے سب سے پہلا میرا مطالبہ ہے کہ پولیس کے شہید کو بھی فوج کے شہید کی طرح مقام دیا جائے سرکاری اعزاز جو ہمارے ان فوج کے بہادروں جوانوں کو ملتا ہے جو دشمن سے لڑتے ہوئے جان دیتے ہیں پولیس کو بھی وہی اعزاز وہی مراعات ملنی چاہئیں۔
پاکستان کی پولیس کی ٹریننگ بھی اسی سطح کی ہونی چاہئے جس طرح فوج کی ہوتی ہے۔انہیں بھی مشکل سے مشکل تر حالات کا سامنا کرنے کا تجربہ ہونا چاہئے اس لئے کہ پولیس کو بھی فوج ہی کی طرح کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پولیس پر حملے کے واقعات پر دہشت گردی کی دفعات لگنی چاہئیں۔اس کے لیے انکوائری ٹیمز تشکیل دیں کہ ان دفعات کا غلط استعمال نہ ہو۔مری کے واقعے پر جو دفعات لگائی گئی ہیں ان پر نظر ثانی ہونا چاہئے۔پندرہ سالہ بچی کا معاملہ ہے
عمر صدیق تو زندہ بچ گیا اسے بھی علم ہونا چاہئے کہ پولیس کے وہ جوان جو گولیوں کا سامنا کرتے ہیں اگر وہ بچ جائیں تو حکومت ان کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے۔ملازمین چھوٹے چھوٹے کاموں کے لیے ہماری منتیں کرتے ہیں پولیس کا ایک شعبہ ہو جو ان کے جائز کام آسانی سے کرا دے انسپکٹر مشتاق کی بچی کا وزارت تعلیم میں معمولی کام ہے یہ کام آپ کے آئی جی آفس کی جانب سے ہونا چاہئے کہ وہ وزیر اعلی سے کرا کر دیں ہم سیاست دانوں نے تو شائد اللہ کو جواب نہیں دینا کہ کسی کا آسانی سے کام کر دیں بدنام تو ہم نے اداروں کو کرنا ہے۔مراد راس سے گزارش کی ہے پتہ نہیں کون سی ادا ان کو راس آئے گی کہ وہ لوگوں کے کام آسانی سے کر دیں ایک راس نہیں سب کا یہ حال ہے۔
سوال یہ نہیں کہ 2023 میں کیا ہو گا سوال یہ ہے جو آئیں گے ان کا بھی یہی حال ہو گا عوام پہلے بھی رلتی تھی پھر بھی رلے گی ویسے لگتا تو یوں ہے کہ ہم نے طے کر رکھا ہے کہ عمران خان کو رلائیں گے۔اس کا واحد حل ہے کہ پولیس اپنے لوگوں کی رفاہ کا کام بھی خود ہی کرے باقی،،جاگدے رہنا ساڈے تے نہ رہنا،،
ایک اکیلا عمران خان سر پھوڑ رہا ہے باقیوں کو اللہ سمجھے۔اسلم فاروقی شہید کی خدمات کو سلام اللہ پاک شہید کو جنت کے اعلیٰ مقام پر فائز کرے میرا رب اس کی معصوم بیٹی کو عافیت میں رکھے والدین کو صبر دے۔سلام پنجاب پولیس سلام پنڈی پولیس۔”جاگدے رہنا“
(کالم نگار پاکستان تحریک انصاف کے سینٹرل ایڈوائزر ٹریننگ اور ایجوکیشن ہیں)
٭……٭……٭
قومی زندگی کی داستان اورعمررواں
محمد فاروق عزمی
”عمر رواں“ جماعت اسلامی کے نائب امیر اور سابق ممبر قومی و صوبائی اسمبلی جناب فرید احمد پراچہ صاحب کی خود نوشت سوانح عمری ہے۔ اصناف ادب میں ”سوانح عمری“ ہمارے لیے ہمیشہ دلچسپی کی چیز رہی۔ یہی وجہ ہے کہ جب یہ کتاب ہاتھ لگی، تو پھر اسے الگ رکھنا دشوار ہو گیا اس میں ہمارا ”شوقِ مطالعہ“ تو اپنی جگہ اصل کرشمہ تو فرید پراچہ صاحب کی تحریر کا سحر انگیز انداز بیان ہے کہ وہ انتہائی سادگی اور دلکش اسلوب میں روانی اور سلاست کے ساتھ اپنی زندگی کے نشیب و فراز زیب داستاں کی ملمع سازی کے بغیر قاری کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ 400 صفحات میں انہوں نے اپنی زندگی کے اکہتر سال کے شب و روز میں پیش آمدہ اہم واقعات، ماضی کی یادیں، بچپن، لڑکپن، تعلیمی مدارج، جامعہ پنجاب کے ماہ و سال جماعت سے وابستگی، ملکی سیاست کے اہم واقعات، پس دیوار زنداں بیتے شب و روز الغرض اس داستانِ حیات میں راز و نیازِ دل اور صدائے عقل و خرد کے ساتھ ساتھ طلسمِ چشم زلیخا کے قصے اور دامِ بردہ فروشاں کے تذکرے نے ”عمر رواں“ کو ایک انتہائی دلچسپ لیکن معلوماتی اور دستاویزی حیثیت کی حامل سوانح عمری کا رنگ دے دیا ہے۔ یہ ایسی کہکشاں ہے جس میں زندگی کے سبھی رنگ چمکتے دمکتے ہیں۔ ملاقاتوں کی تصویر کشی، دوستوں سے تعلقات اور وفا شعاریاں، ذاتی اور عوامی زندگی کے اُتار چڑھاؤ، سیاسی اور ملکی حالات کے تجزیے، دعوت و تبلیغ کے انداز اور پارلیمان کی منظر کشی، ایسی ہی قوس قزح کے رنگوں میں گندھی تحریروں کے مجموعے کا نام ”عمر رواں“ ہے۔
فرید پراچہ زمانہ طالب علمی سے ہی اسلامی تحریک سے وابستہ ہو گئے۔ ملک عزیز میں برپا ہونے والی دینی اور سیاسی تحریکوں میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور درجن سے زائد مرتبہ پابند سلاسل ہوئے، عالمی کانفرنسوں میں شرکت کے لیے بیرونِ ملک بے شمار سفر کیے اور تقریباً ساری دنیا گھومے۔ تصانیف و تالیف میں بھی نمایاں مقام حاصل کیا اور تقریباً اس وقت تک ڈیڑھ درجن کتب کے مصنف ہونے کا سہرا ان کے ماتھے پر چمکتا ہے۔ ”عمر رواں“ صرف فرید احمد پراچہ کی زندگی کی داستان ہی نہیں ہے بلکہ یہ جماعت اسلامی اور پاکستان کی قومی و سیاسی سرگرمیوں پر مشتمل نصف صدی کی مکمل تاریخ ہے۔ جسے علمی ادبی حلقوں میں دلچسپی سے پڑھا جائے گا۔ ان کے اندازِ تحریر کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کا ایک سفرنامہ ”یہ فاصلے یہ رابطے‘‘ شائع ہوچکا ہے اور جسے ملک کے نامور ادیبوں اور قلم کاروں نے بے حد سراہا۔ جن میں بابا جی اشفاق احمد، مختارمسعود، ڈاکٹر خورشید رضوی اور مستنصر حسین تارڑ جیسے نامور ادیب شامل ہیں۔
”عمر رواں“ کے مطالعے کے دوران آپ کی آنکھوں کے سامنے ماضی کی ایسی فلم ذہن کے پردہ پر متحرک ہو جاتی ہے کہ دل کے نہاں خانوں میں دفن گزری کئی دہائیوں کی یادیں ایک ایک کر کے یاد آنے لگتی ہیں۔ ملکی اور قومی سطح پر رونما اہم واقعات جب بہت برسوں بعد آپ پڑھتے ہیں تو پھر یہ کتاب ”فرید احمد“ کی کتاب نہیں رہ جاتی بلکہ پاکستان کے ہر اس شہری کی داستان بن جاتی ہے جسے ملکی و قومی امور میں دلچسپی رہی ہے اور جو پاکستان میں سیاسی، سماجی اور معاشرتی تبدیلیوں اور رویوں کا مطالعہ کرتا رہا ہے یا ان کا حصہ رہا ہے۔ کبھی تو وہ 1958ء کے ایوبی مارشل لاء کے زمانے میں چلے جاتے ہیں، جہاں سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی جاتی ہے اور کبھی وہ 1964ء کے ان صدارتی انتخابات کا احوال پڑھتے ہیں کہ جن میں ایک طرف آمر مطلق ایوب خان اُمیدوار تھا تو دوسری طرف مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح، قائداعظمکی ہمشیرہ محترمہ یہ الیکشن لڑ رہی تھیں اور جنہیں ناکام کرنے کے لیے یہ الیکشن بی ڈی سسٹم کے تحت کرایا گیا۔ پورے ملک میں صرف بی ڈی چیئرمین ووٹ دینے کے اہل تھے۔ اس طرح بے حسی سے ایک منصوبے کے تحت محترمہ فاطمہ جناح کو ہرا کر قوم کی خواہشوں اور اُمنگوں کا خون کر دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ محترمہ فاطمہ جناح آج بھی مادرِ ملت کے مقدس منصب پر فائز ہیں اور قوم کے دلوں میں بستی ہیں۔
کتاب کے اوراق پلٹتے جائیں تو مصنف کی ذاتی زندگی کے ساتھ ساتھ قومی زندگی کے دھارے اور بین الاقوامی سیاست کے نشیب و فراز بھی پڑھنے کو ملتے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء، سید مودود ی کی رحلت، افغانستان میں روسی جارحیت، جہاد افغانستان میں جماعت اسلامی کا کردار، قومی عدالتوں کی سزائیں، پنجاب یونیورسٹی کی یادیں، جنرل ضیاء الحق کا ریفرنڈم اور اسی طرح متنوع موضوعات نے کتاب کو ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت دے دی ہے۔ 29 فروری 2020ء کو دوحا میں امریکی اور پاکستان وزرائے خارجہ سمیت 50 ممالک کے نمائندوں کی موجودگی میں امریکہ اور افغان طالبان کے مابین ہونے والے امن معاہدے کا باب رقم کرتے ہوئے فرید پراچہ صاحب لکھتے ہیں:
”یہ انوکھی جنگ تھی، ہارنے والے 40 ممالک کی فوجیں تھیں، وہ جہاز ٹینک اعلیٰ ترین ہتھیار رکھتے تھے، دوسری طرف نہ کوئی جہاز تھا نہ ٹینک نہ تربیت یافتہ فوج تھی، صرف جذبہ جہاد تھا، شوقِ شہادت تھا، جس نے سپر پاور کے بخئے ادھیڑ کر رکھ دیے۔ بوریہ نشین جیت گئے اور توپیں ٹینک ہار گئے۔
(کالم نگار مختلف موضوعات پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭
بہاولپور۔ا ولیا اور صو فیا کی سر زمین
سیدتابش الوری
بہاولپور اور جنوبی پنجاب کا وسیع و عریض خطہ صدیوں سے امن کا گہوارہ اور مشرقی وعلاقائی روایتوں کا شہ پارہ رہا ہے آج بھی ہم جائزہ لیں تو لیل و نہار کی کروڑوں گردشوں کے باوجود ارد گرد کی صورت حال کے تناظر میں یہ خطہ ماضی کے اثرات کے باعث ابھی تک نسبتا“ بہت بہترنظر آتا ہے ہر علاقے ملک اور خطے کا ایک مخصوص تاریخی و تہذیبی پس منظر ہو تا ہے جس میں اس کی معاشرتی، تمد نی، ثقافتی اور ادبی روایات جنم لیتی ہیں اور انسانی سوسائیٹی کا ایک الگ سانچہ ڈھانچہ تشکیل پذیر ہوتا ہے تاریخ کے جھرونکوں سے اگر ہم جھانک کر دیکھیں تو صاف طور پر نظر آئے گا کہ سابق ریاست بہاولپور اور جنوبی پنجاب کا بیشتر علاقہ ہمیشہ سے رواداری، آ شتی، صبر، برد اشت اور عدم جارحیت کے فلسفوں کی چکا چوند سے جھلملا تا رہا ہے بدھ مت اور جین منت کے اثرات دور دور تک پھیلے لیکن ان علاقوں میں ان کے اثرات کی گہرائی و گیر ائی بہت نتیجہ خیز رہی ہے۔
بر صغیر پاک و ہند میں اسلام کی آمد کے بعد اولیا اور صوفیا نے دوسرے بڑے بڑے مراکز کیساتھ جس طرح ہماری سرزمین کو وسیع پیمانے پر اپنی تبلیغی اصلاحی اور متصوفانہ سر گرمیوں کا محور بنا یا اور جس طرح چاروں طرف سے اسے اپنی گرفت میں لیا اس کی نوعیت اور اہمیت کئی اعتبار سے یکسر الگ ہے تصور تو کیجئے کہ چھوٹے چھوٹے مراکز کیساتھ ساتھ ملتان تونسہ ڈیرہ غازی خان اوچ شریف مہار شریف کوٹ مٹھن اور پاک پتن شریف جیسے بڑے درویشانہ مقا مات سے ہمارے عظیم اولیا اور صوفیا نے پوری آبادی کو کس طرح اپنے روحانی حصار میں لئے رکھا اور اپنی تعلیمات و تبلیغات سے پورے انسانی مزاج و سماج کو بدل کر رکھد یا ان کی تبلیغ کا محور ا سلامی اخلاقیات و روایات تھیں جن کا سر تا پا وہ خود نمونہ بن کر لوگوں کو سمجھاتے تھے کہ ہر سچے مذہب کی رکن رکین انسانیت ہے اور انسانی خدمت ہی زندگی کا سب سے بڑا مقصد ہے ہمیں مذہب و عقیدے اور ذات برادری کے تمام تعصبات سے بالا تر ہو کر بھائی چارے اور رواداری کے ساتھ ایک دوسرے سے مل جل کر رہنا ہے اور ملنے والوں کے دکھ سکھ میں بھائیوں کی طرح شریک ہو کر ایک ایسے پر امن معاشرے کو مسلسل ترقی پذیر رکھنا ہے جس میں عداوت دھوکہ دہی خیانت جبر ظلم بدعنوانی چوری ڈاکے اور قتل و غارت کو انتہائی نا پسندیدہ فعل سمجھا جائے یہی وجہ ہے کہ اس پورے خطے میں برس ہا برس امن و آ شتی کا زمزم بہتا رہا باہر سے حملہ آور ضرور آئے لیکن یہاں سے کوئی جنگ جو یا نہ یا جار حانہ مہم جوئی نہیں ہوئی۔
انہی عالی مرتبت اولیا و صوفیا میں بابا فرید شکر گنج اور خواجہ غلام فرید کے نام نامی سے دو ایسی منفرد شخصیات ابھریں جنھوں نے اپنے عارفانہ کلام سے پورے خطے میں توحید و رسا لت کی تعلیمات عام کیں اور محبت و اخوت کی روح پھونک دی اور مسلمانوں میں ہی نہیں اقلیتوں میں بھی یگانگت، مفاہمت اور مو انست کے ایسے جذبے ابھارے کہ ہواؤں اور فضاؤں میں امن پسندی کا نغماتی کیف و سرور پھیلتا چلا گیا آج بھی زمان و مکاں کی طوفانی تبدیلیوں کے باوجود دل و دماغ میں ان نغمات کی گونج اثر انگیز ہے۔
اولیا اور صوفیا کے علاوہ سابق ریاست بہاولپور کی حد تک معاشرتی و انتظامی سطح پر امن و رواداری کے فروغ میں سابق نوا بان ریاست کا بھی اہم کردار رہا ہے وہ 1727 میں جب باہمی قتل و غارت گری اور جارحانہ مہم جوئی سے تنگ آکر سندھ سے اس طرف منتقل ہوئے اور ریاست بہاولپور کی بنیاد رکھی تو اب انکی بھی تر جیح امن وآشتی تھی جسے انھوں نے اپنی اساسی پالیسی کے طور پر جاری رکھا کیونکہ اگر یہاں پر سکون فضا نہ ہوتی تو باہر سے آکر یہاں کون آباد ہوتا ، ڈھائی سو سال تک پندرہ سابق امیر ان بہاولپور نے جس پودے کو اپنی بقا اور علاقائی بھلائی کیلئے سینچا وہ اب ایک تناور درخت کی صورت میں ہمارے سامنے ہے اور ہم اسکے خنک سائے سے استفادہ کر سکتے ہیں آج دنیا بلاشبہ وہ نہیں جو صدیوں پہلے ہوا کر تی تھی حالات بدل گئے ہیں معاشرہ بدل گیا ہے آبادیاں بدل گئی ہیں رہن سہن بدل گیا ہے اقدار بدل گئی ہیں تاہم ا ن تمام انقلابات کے باوجود ابھی تک یہ علاقہ نسبتاً ”بہتر روایات و حالات اورآثارو قرائن کا حامل نظر آتا ہے شاید کچھ خطوں کی مٹی کی فطرت و جبلت میں امن و اخوت کے ایسے عنا صر گھل مل جاتے ہیں جو کسی بھی تبدیلی سے جدا نہیں ہو سکتے۔
دو عالمی جنگوں بے شمار چھوٹی بڑی لڑائیوں اوران گنت خونریز یوں اور ہلاکت خیز یوں کے بعد عالمی سطح سے علاقائی سطح تک امن و سلامتی اور انسانی بقا کا احساس بیدارہوا ہے اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت بڑے پیمانے پر اس جہت میں کام بھی جاری ہے لیکن اسے نچلی عوامی سطح پر بھی ایک منظم تحریک بنانے کی ضرورت ہے جنوبی پنجاب اور بہاولپور میں بھی ایسی کوششوں کو آگے بڑھانے کیلئے آگے آنا ہو گا یہ بات اطمینان بخش اور لائق تحسین ہے کہ سگنیفائی کنسلٹنگ پرائیویٹ لمیٹڈ، پیغا مِ پاکستان اور دوسرے فلاحی ادارے اس سمت میں پہلے ہی قابل قدر کا م کر رہے ہیں انھیں اس خطے میں کام کر نا نسبتاً ”آسان ہوگا کیونکہ روحانی اور علاقائی پس منظر و پیش منظر میں یہاں کے مزاج و رواج میں انجذاب و قبولیت کا مادہ بھی زیادہ ہے اور ز مین کی نمی میں زرخیزی کی بشارت بھی مو جود ہے امن و یکجہتی کے حوالے سے مذہبو ں کے ساتھ ساتھ مختلف فرقوں میں اتحاد و یگانگت بھی بہت اہم مو ضوع ہے جس پر کئی زاویوں سے فکرو عمل کو مہمیز لگانے کی ضرورت ہے اس رخ سے بھی خطے میں امن کے جھونکے محسوس ہو تے ہیں بدترین ادوار میں بھی یہاں فرقہ وارانہ فساد کا کوئی بڑا واقعہ رو نما نہیں ہوا بلکہ دہشت گردی کی خوفناک لہر کے دوران بھی ایک دو کے سوا یہ سرزمین حیرت انگیز طور پر سانحات سے محفوظ رہی یہ کوئی معمولی بات نہیں اسے بہر حال ایک غیر معمولی حقیقت کے طو پر پیش نظر رکھنا ہو گادوسرے علاقو ں کے مقابلے میں یہاں نسبتا”مختلف جرائم کی کمی، باہمی اخلاص و محبت کی روایت، ا من و امان کا قیام اور مشینی زندگی سے محفوظ ایک پر سکون زندگی ایسی خصوصیات ہیں جن کے باعث باہر سے آنیوالے سول اور ملٹری کے بہت سے افراد اس علاقے میں کشش محسوس کر رہے ہیں اور آجکل اپنے پرانے مسکن چھوڑ کر یہاں تیزی سے مستقل سکونت اختیار کر رہے ہیں ایسی تبدیلیاں کسی بھی علاقے میں معاشرتی تہذیبی اور معاشی سطح پر انقلاب انگیز ہوتی ہیں اور اسے امن و آ شتی کا گہوارہ بنانے میں بہت اہم کردار ادا کر تی ہیں وقت آگیا ہے کہ مذہبی، فرقہ وارانہ اور معاشرتی ہم آ ہنگی بڑھانے کیلے ایک ہمہ گیر حکمت عملی مرتب کی جائے اور تمام مذہبی، مسلکی، گروہی اور فلاحی تنظیموں سے رابطوں کیساتھ ایک peace consortium تشکیل پذیر کیا جائے جو ایک مربوط، منظم اور مضبوط پالیسی پر عمل کرتے ہوئے زیر نظر خطے کو امن و یگانگت کی ایک مثالی سطح تک لے جاسکے اس مقصد کی تکمیل کیلئے تمام د رسگاہوں۔ اور یونیورسٹیوں میں امن و رواداری کو بطور مضمون نصاب میں شامل کرنا ہوگا اسلامی مدارس کے نیٹ ورک کو جامعات سے منسلک کر نا ہو گا اور الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے تعاون سے ذہنوں کی تربیت کرنی ہوگی خواب گر لوگ امید بھری نظروں سے بہاولپور اور جنوبی پنجاب کے خطے کو نئے تقاضوں کیساتھ امن و محبت کی ایک خوبصورت، سر سبز و شاداب، سکون آمیز اور روشن وادی میں ڈھلتے دیکھنے کے منتظرہیں۔
(کالم نگارمعروف شاعراورادیب ہیں)
٭……٭……٭
ہماری سیاسی حماقتیں
کرنل (ر) عادل اختر
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں حماقتوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ اس کی گنتی ممکن نہیں ہے۔ سیاسی جماعتوں کی غلطیوں کی سزا عوام کو ملتی ہے، سیاسی جماعتوں کے نتیجے میں 1971ء میں ملک ٹوٹ گیا۔
1998ء میں نوازشریف دوبارہ وزیراعظم بن گئے۔ انہوں نے اپنے سر پر وہ بوجھ دھر لیا جس کے اٹھانے کی ان میں طاقت نہ تھی۔ ملک کے وزیراعظم کو ذہنی طور پر بہت ترقی یافتہ ہونا چاہئے۔ سیاسی الفاظ کی لغت پر کامل عبور حاصل ہو۔ اس میں دوربینی کی اعلیٰ صلاحیت ہو۔ نوازشریف ان صلاحیتوں سے محروم تھے۔ وہ دولت مند آدمی تھے۔ سمجھتے تھے کہ دولت سے ہر چیز خریدی جا سکتی ہے۔
جب نوازشریف وزیراعظم بنے تو جنرل جہانگیر کرامت آرمی چیف تھے۔ انہوں نے کسی جگہ اظہار خیال کرتے ہوئے یہ کہہ دیا کہ پاکستان کے حالات کے تناظر میں ایک نیشنل سیکورٹی کونسل ہونی چاہئے۔ نوازشریف کو ان کی بات ناگوار گزری۔ انہوں نے جہانگیر کرامت کو کھڑے کھڑے فارغ کر دیا…… اگر ان میں سیاسی بصیرت ہوتی تو وہ جنرل کو بلا کر ان سے تبادلہ خیالات کر لیتے اور انہیں قائل کر لیتے۔
جنرل جہانگیر کی جگہ انہوں نے جنرل پرویز مشرف کو آرمی چیف بنا دیا۔ اگر انہیں علم غیب ہوتا تو جان لیتے کہ وہ اپنی موت کے پروانے پر دستخط کر رہے ہیں۔
نوازشریف کے زمانے میں ایک بڑا مسئلہ سامنے آیا۔ ایٹمی دھماکہ کریں یا نہ کریں۔ نوازشریف دھماکے کے حق میں نہ تھے مگر انہوں نے بادل نحواستہ اس کی منظوری دے دی۔ یوں پاکستان اعلانیہ ایٹمی طاقت بن گیا۔ دنیا کو بڑی تشویش ہوئی۔ بھارت اور پاکستان دونوں ایٹمی طاقت کے مالک بن گئے اور دونوں کے تعلقات کشیدہ تھے۔
آزاد کشمیر اور بھارتی مقبوضہ کشمیر کی سرحد کو لائن آف کنٹرول کہتے ہیں، وہاں ایک گاؤں کارگل ہے جہاں سے ایک سڑک گزرتی ہے۔ اس سڑک پر بھارت کی سپلائی لائن ہے جو سیاچن اور لداخ کو فوجی سامان پہنچاتی ہے۔ کارگل کے اطراف بلند و بالا پہاڑ ہیں جن کی اونچائی پندرہ ہزار سے اٹھارہ ہزار فٹ ہے۔ یہاں کوئی آبادی نہیں ہے، سردی بہت سخت ہوتی ہے۔ گرمیوں کے زمانے میں بھارتی یہاں بھارتی فوجی چوکیاں قائم کر لیتے اور سردیوں کے موسم میں چوکیاں خالی کرکے نیچے اتر آتے ہیں۔
جنرل پرویز مشرف نے سوچا۔ کیوں نہ سردیوں کے موسم میں ان چوکیوں پر قبضہ کر لیا جائے۔ بھارت کی سپلائی لائن کاٹ دی جائے۔ اس طرح بھارت گھٹنوں کے بل گر پڑے گا اور پاکستان کی شرائط پر صلح کرے گا۔ جنرل پرویز مشرف ایک حریص انسان تھے۔ ان کا فرض تھا کہ اس مسئلے پر وزیراعظم کو اعتماد میں لیتے تاکہ اس مسئلے پر ہر پہلو سے غور کیا جا سکے۔
پہلا سوال تھا کہ بھارت کا ردعمل کیا ہوگا۔
دوسرا یہ کہ بین الاقوامی سطح پر اس کے مضمرات کیا ہونگے۔ کابینہ میں ایک ڈیفنس کمیٹی ہوتی ہے جو ایسے معاملات پر غور کرتی ہے۔
جنرل پرویز مشرف نے بڑی رازداری برتی۔ کسی کو منصوبے کی کانوں کان خبر نہیں ہونے دی اور سردیوں کے زمانے میں خالی پڑی چوکیوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا۔ اس کام میں انہوں نے گلگت کی فوج جسے ناردرن لائٹ انفنٹری کہتے ہیں۔ استعمال کی…… گلگت کی فوج میں سپاہی گلگت کے اور افسر پاکستان آرمی کے ہوتے ہیں۔
ادھر نوازشریف بھارت سے تعلقات خوشگوار بنانے کے خواہش مند تھے۔ ان کی دعوت پر بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی بس میں بیٹھ کر لاہور آئے اور ایک معاہدہ بھی ہو گیا۔ یہ فروری 98ء کا زمانہ تھا۔
جب برف پگھلی تو بھارتی فوج کو شک ہوا کہ پہاڑوں پر کچھ غیر لوگ قبضہ جمائے بیٹھے ہیں۔ کچھ دنوں کے بعد بھارتی فوج کو تصدیق ہو گئی کہ یہ لوگ پاکستانی فوجی ہیں …… جنرل پرویز نے کہا کہ یہ پاکستانی فوجی نہیں بلکہ مجاہدین آزادی ہیں۔ بھارت نے اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا فیصلہ کر دیا۔ ایک سپاہی کے مقابلے میں دس سپاہی کھڑے کر دیئے۔ بھارت کے پاس سوئیڈن کی بنی ہوئی توپ بوفر تھی۔ بھارت نے سڑک پر سینکڑوں توپیں کھڑی کر دیں۔ ان توپوں کی مار تیس کلومیٹر تھی۔ توپوں نے دن رات آگ برسانا شروع کر دی۔ بھارتی ایئرفورس بھی بمباری کرنے لگی۔ پاکستانی مجاہدوں کے پاس مقابلہ کرنے کے لئے ہلکے ہتھیار تھے۔ کمک آنا بند ہو گئی۔ رسد پہنچنے کے راستے بھی بند ہو گئے۔ مجاہدین خطرات میں گھر گئے۔ بھارتی انفنٹری تین طرف سے پہاڑوں پر حملہ کرتی۔ اس سلسلے میں بھارت کے بے شمار جوان مارے گئے۔ پاکستانی افواج میں بھی بہت زیادہ شہادتیں ہوئیں جب بھارتی فوجی کسی چوکی پر پہنچتے تو وہاں یا تو لاشیں پڑی ملتیں یا زخمی سپاہی۔ پاکستانی سپاہیوں نے بہادری کی لازوال داستانیں رقم کیں۔ کیوں نہ کرتے۔ ان کے اسلاف نے بدر اور کربلا میں معجزات دکھائے تھے۔ یہ زمانہ تھا۔ جون۔ جولائی 99ء کا…… جنرل پرویز مشرف کے اندازے غلط ثابت ہو چکے تھے۔
بھارت نے اینٹ کا جواب پتھر سے دیا۔
بین الاقوامی برادری خاموش نہ رہی، اس نے پاکستان کو جارح قرار دیا۔
نوازشریف اس صورتحال سے بہت پریشان تھے۔ ان کے اور جنرل مشرف کے درمیان اعتماد کا رشتہ ٹوٹ چکا تھا۔ 3جولائی کو نوازشریف نے امریکہ کے صدر کلنٹن سے ملاقات کی درخواست کی۔ کلنٹن نے کہا…… پہلے کارگل سے اپنی فوجیں واپس بلاؤ…… اس شرط پر 4جولائی کو ملاقات طے ہو گئی۔
بین الاقوامی صورتحال یہ تھی کہ آٹھ بڑے ممالک (G-8) نے پاکستان سے فوجیں نکالنے کا مطالبہ کر دیا۔ بیک چینل ڈپلومیسی ناکام ہو گئی۔ چین چپ رہا۔ امریکہ اور فرانس نے بھی پاکستان سے فوجیں نکالنے کا مطالبہ کر دیا۔
پاکستان کے کئی سرکردہ رہنما بھی پرویز مشرف کی پالیسی سے اختلاف رکھتے تھے۔ بھارت میں الیکشن ہونے والے تھے۔ واجپائی نے پاکستان کے ساتھ رویہ سخت کرلیا۔ کارگل کو اپنی فتح قرار دیا تاکہ الیکشن میں زیادہ ووٹ لے سکیں۔
نوازشریف 4جولائی کی صبح امریکہ پہنچے۔ امریکہ کی ایوان نمائندگان کمیٹی نے پہلے ہی پاکستان کے خلاف قرارداد منظور کر لی تھی۔ حالات بہت ناسازگار تھے۔ ان حالات میں یکطرفہ مذاکرات ہوئے۔ صدر کلنٹن نے دو مطالبات رکھے۔
(1) کارگل سے اپنی فوجیں نکالو۔
(2) اسامہ بن لادن کو پکڑنے میں امریکہ کی مدد کرو۔
نوازشریف کے پاس مطالبات ماننے کے سوا اور کوئی راستہ نہ تھا۔ جب نوازشریف وطن واپس آئے تو سردمہری یا مخالفانہ نعروں کے ساتھ ان کا استقبال ہوا۔ جنرل پرویز مشرف نے اس مہم جوئی کی ناکامی کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کے لئے شریفانہ راستہ یہ تھا کہ وہ ذمہ داری قبول کرتے اور استعفیٰ دے دیتے۔
نوازشریف بین الاقوامی سطح پر مذاکرات کرنے کی لیاقت سے محروم تھے، باریک سفارتی زبان کا استعمال نہیں کر سکتے تھے۔ ان کے مخالفین یعنی واجپائی اور جسونت سنگھ سفارتی زبان پر قدرت رکھتے تھے۔
قارئین…… باور کر لیجئے۔ دو ممالک میں جھگڑا ہو تو دنیا حق اور ناحق نہیں دیکھتی۔ اپنا مفاد دیکھتی ہے۔ بھارت بڑا ملک ہے۔ ہر ملک بھارت کی دوستی پسند کرتا ہے۔ آج اگر پاکستان کا خزانہ اور فوج بھارت سے ڈبل ہو جائے تو بھارت کی نحوت اور غرور خاک میں مل جائیں۔
بڑے سیاسی لیڈروں سے کردار کی مضبوطی کی امید کی جاتی ہے…… نوازشریف اور پرویز مشرف دونوں میں سے کسی میں اعلیٰ ظرفی نہ تھی۔ جنرل پرویز مشرف کا فرض تھا کہ وہ اپنے منصوبے پر وزیراعظم کو اعتماد میں لیتے۔ خود منصوبہ شروع نہ کرتے…… منصوبے کی ناکامی پر استعفیٰ دے دیتے۔ انہوں نے ایسا نہیں کیا……
نوازشریف منصوبے سے بے خبر رہے…… یہ ان کی غلطی اور کمزوری تھی۔ نوازشریف میں وزارت عظمیٰ کے عہدے کا بوجھ اٹھانے کی طاقت نہ تھی۔ انہوں نے زبردستی وہ بوجھ اٹھا لیا جس سے ان کی گردن ٹوٹ گئی۔ مشکل کے وقت ملک سے بھاگ جاتے ہیں۔ قدرت کی تعزیریں بہت سخت ہیں۔ آج دونوں اپنی غلطیوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔ دونوں، مغضوب، معتوب اور مفرور ہیں۔
دیار غیر میں پڑے ہیں۔ بیماریوں سے عاجز ہیں۔ عجب اتفاق ہے کہ پرویزمشرف اور میاں نواز شریف دونوں ہم قسمت ہیں۔
(سیاسی ودفاعی مبصر اورتجزیہ نگار ہیں)
٭……٭……٭
خبریں۔مزاحمتی صحافت کا معمارِ اعظم
شفقت حسین
26 ستمبر 1992 کے روز سعید جنم لینے والا پاکستان میں مزاحمتی صحافت کے معیار جناب ضیا شاہد کابرین چائلڈ اپنی زندگی کی 29 خوبصورت بہاریں انجوائے کر کے تیسویں برس میں قدم رکھ رہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ صحافتی بلوغت اور اپنے عنفوانِ شباب کے بعد میچورٹی اور پختگی کے عہد اور زمانے میں جارہا ہے۔ اس دلنشیں اور شاندار موقعے پر ایک مخلص‘ اور محنتی اور ایماندار کارکن اپنے ادارے کی مزید دن دگنی رات چوگنی ترقی اور کامیابی کی دعا کے ساتھ اس کے مالکان کو بھی پھلتے پھولتے دیکھنے کا آرزو مند ہے۔ اگرچہ”خبریں“کے آغاز سے زیر نظر سطور قلمبند کئے جانے تک کا 29 برسوں پر پھیلا ہوا عرصہ یوں لگتا ہے جیسے پلک جھپکتے گزر گیا لیکن سچی بات ہے کہ ان گزرے دنوں‘ مہینوں اور سالوں میں ایسے ایسے کارہائے نمایاں ہیں کہ محض انہی پر بحث و گفتگو کر نے کے لئے بھی اسی قدر عرصہ درکار ہے لیکن پھر کہوں تو مبالغہ نہیں ہوگا کہ سچی بات ہے یہ واقعات اس قدر حیرت زدہ کر دینے والے ہیں کہ آج کے کلاشنکوف کلچر اور بااثر اور مقتدر طبقات کے گرداگرد حفاظتی حصار قائم کرنے کے جنون اور ان کے ساتھ جتھوں کے جتھے ہونے کے باوجود جناب ضیاء شاہد نے ایک عامل صحافی کو ان کے سامنے جرأت کے ساتھ کھڑا ہونا اور اپنی بات اور موقف پر ڈٹے رہنا بلکہ ظالم سے ظالم ترین حکمران کے سامنے بھی کلمہئ حق بلند کرنے کا قرینہ سکھا دیاہے۔
اخبارات کے بزرگ اور اس وقت ستّر بہتّر سالہ قارئین کو بخوبی علم ہے کہ ماضی میں صحافت میں خبر کی بنیاد چھ کاف (6 ک) ہوا کرتے تھے۔ یعنی کسی واقعہ یا سانحے کے وقوع پذیر ہونے کے بعد قاری کو یہ بتانا مقصدِ اولیٰ ہوتا تھا کہ 1۔ واقعہ کہاں ہوا، 2۔ واقعہ کب ہوا، 3 ۔ واقعہ کس سے سرزد ہوا 4۔ واقعہ کس کے ساتھ پیش آیا5۔ واقعہ کیونکر رونما ہواور نمبر6۔ واقعے کے محرکات کیا تھے۔ خبر بناتے وقت رپورٹرمذکورہ چھ کاف پر کام کر کے قلم و قرطاس کو ہاتھ لگاتا تھا۔ بعد ازاں صحافت پر ابتلا کا ایسا وقت بھی آیاکہ صحافی کوئی رپورٹ یا خبر بناتے وقت ”انہوں نے کہا“ انہوں نے فرمایا، آپ نے آگے چل کر یہ کہا ”ان کا کہنا تھا“ تک محدود ہو گیا یعنی تحقیقاتی صحافت بیک برنر پر چلی گئی اور پبلک ریلشننگ قسم کی صحافت نے عروج پکڑنا شروع کر دیا۔ اس سے قلم قبیلے سے وابستہ ار باب سخن کے چولہے تو گرم ہونے لگے، ان کے گھروں میں لالٹین اورمٹی کے دئیے کی ٹمٹماتی لَو کی جگہ برقی قمقموں نے حاصل کر لی لیکن درحقیقت وہ صحافت جسے دانا و بینا لوگ پیشہ پیغمبری سے تعبیر کیا کرتے تھے اس سے مذکورہ صحافت کو زبردست زک پہنچی بلکہ بڑا گہرا دھچکا لگا۔ لہذٰا اس کلچر کو توڑنے اور صحافت اور اہل صحافت کو ان کا اصل مقام دلوانے اوراس کی عظمت رفتہ کو بحال کرنے کی غرض سے جناب ضیا شاہد نے ”خبریں“کے اجرا کا جرأت مندانہ فیصلہ کیا اور ان حالات میں کیا جب ایسا قدم اٹھانے سے پہلے ایک دوبار نہیں سو بار بھی نہیں بلکہ بار بار سوچنے کی ضرورت تھی۔ اس وقت جنگ گروپ آف نیوز پیپرز‘ نوائے وقت پبلی کیشنز‘ ڈان گروپ (اور خود ضیا شاہد صاحب کے ہاتھوں لگایا جانے والا پودا ”پاکستان“ بھی اپنے پر پُرزے نکال چکا تھا)۔ یعنی اول الذّکر تین بڑے میڈیا ہاؤسز کی موجودگی میں کسی باقاعدہ چوتھے اخبار کے لئے نہ جگہ تھی نہ گنجائش اور نہ ہی جناب ضیا شاہد کی پشت پر کسی سرمایہ دار کا ہاتھ۔ صرف تھا تو اپنے خدائے بزرگ و برتر پر یقینِ کامل اور اس کی ذات بابرکات سے وابستہ امید واثق۔
آج وقت نے ثابت کیا ہے کہ چیف صاحب کا فیصلہ بڑا دانشمندانہ‘ جرأت مندانہ اور دلیرانہ تھا۔ میں یہ تو نہیں کہتا کہ ”خبریں“ نکال کر سونے کا چمچ لے کر پیدا ہونے والے اہل صحافت کے جناب چیف صاحب نے دانت کھٹے کر دئیے لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ ”خبریں“کے اجراسے ملک میں بڑی بڑی صحافتی ایمپائرز میں زلزلے کے جھٹکے ضرور محسوس کئے گئے۔ کیونکہ چیف صاحب نے ”وہ آیا اس نے دیکھا اور فتح کر لیا“ جیسی کہاوت سچ ثابت کر کے اس پر مُہرِ تصدیق ثبت کر دی تھی۔ اور متھا بھی ایسے ایسے طُرّم خانوں اور پھنّے خانوں سے لگایا جن کے سامنے سانس لینے کے لئے ان کی آشیر باد مطلوب سمجھی جاتی تھی اور بات کرنے سے پہلے ”جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں“ جیسے الفاظ کا سہارا لینا پڑتا تھا۔ لیکن جناب ضیا شاہد کاجرأتمندانہ انداز انہیں اپنے ہمعصر صحافیوں اور”خبریں“کو ملک کے دیگر معاصر کے مقابلے پر ممیز و ممتاز بناگیا۔ ثانیاً جناب ضیا شاہد کی کامیابی کا ایک اہم راز ان کا انتھک ہونااور کام سے جی نہ چرانا بھی تھا۔ انہوں ے تو نوکری بھی کی‘ تو گھڑی کی سوئیوں کو نظر اندازکر کے اور جب اپنا ادارہ قائم کیا تو گھڑیاں ویسے ہی توڑ کر رکھ دیں کہ اس سے وقت کے آگے سے آگے نکلنے کی آوازیں آتی تھیں جبکہ وہ تو”خبریں“ کو آگے سے آگے اور مزید آگے لے جانے کے آرزو مند تھے۔ میں چونکہ سال 2010 سے”خبریں“کے کبھی فورم انچارج اور کبھی ایڈیٹوریل ہیڈ کے طور پر وابستہ چلا آرہا ہوں۔ درمیان میں کبھی چلے گئے کبھی پھر آگئے لیکن جب بھی آنا چاہا”خبریں“ کے دروازے کھلے نظر آئے اور یہ صرف راقم تک ہی خاص نہیں بلکہ جناب ضیا شاہد اور اب محترم امتنان شاہد کسی نے بھی اپنے معمولی سے معمولی ورکر پر بھی خبریں کے دروازے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کبھی بند نہیں کئے۔ مجھے مسلسل آٹھ آٹھ دس دس گھنٹے براہِ راست چیف صاحب کے ساتھ کام کرنے کے مواقع اکثر میّسر آئے اس دوران میں نہ تو مجھے ان کی آنکھوں میں رتجگوں کی تھکن نظر آئی اور نہ ہی میں نے انہیں دن بدن گرتی ہوئی صحت کے حوالے سے آزردہ پایا۔ایک دن کام کرتے کرتے چائے کے دوران میں نے ان سے پوچھا‘ چیف صاحب جو بڑے لائٹ موڈ میں تھے میں نے خبریں کے اجرا اور غرض و غائت سے متعلق استفسار کیا۔ قارئین کرام! یقین جانئے میری خوشگوار حیرت کی انتہا نہ رہی جب انہوں نے کہا کہ میں نے”خبریں“دیگر لوگوں“ کے لئے نکالا تھا۔ فوری طور پر میں سمجھ نہ سکا لیکن پھر خود ہی کہنے لگے کہ جب کسی کی اخبار میں ”خبریں“ چھپتی ہیں تصاویر شائع ہوتی ہیں تو خاص خاص لوگوں کے نام اور ان کے مناصب بڑے تزک و احتشام اور اہتمام کے ساتھ شائع کئے جاتے ہیں لیکن جن دوستوں کا معاشرتی مقام نسبتاَ کم ہوتا ہے نہ تو ان کے نام شائع ہوتے ہیں اور نہ ہی تو ان کے منصب لکھنا گوارہ کیا جاتا ہے ان غیر معروف لوگوں کو ”دیگر“ لکھ کر ان کی توہین کی جاتی ہے۔ اس کلچر کو توڑنے کے لئے میں نے ”خبریں“ نکالا یعنی ان کی نظر میں اعلیٰ و ارفع اور ”دیگر“ سب برابر تھے۔ جناب ضیا شاہد کی صحافت پر اچٹتی سی نظر بھی ڈالیں تو ہمیں جہد مسلسل نظر آتی ہے۔ خبریں کی ترقی کے حوالے سے ان کے سر میں سمایا ہوا سودا اور ارادہ بدرجہئ اتم ملتا ہے۔ شاید علامہ اقبال نے انہی جیسے شوریدہ سروں کے لئے کہا تھا کہ
اتنی مشکل بھی نہیں دشتِ وفا کی تسخیر
دل میں سودا بھی تو ہو دل میں ارادہ بھی تو ہو
یا پھر بقول معروف پنجابی شاعر بابا نجمی
بے ہمتے نیں جیہڑے بہہ کے شکوہ کرن مقدراں دا
اُگن والے اُگ پیندے نیں سینہ پاڑ کے پتھراں دا
جناب ضیا شاہد نہ تو بے ہمتے تھے اور نہ ہی دشتِ وفا کی تسخیر کے حوالے سے کمزور۔ وہ طاقتور تھے جو طاقتوروں سے ٹکراتے وقت گھبراہٹ کا شکار نہیں ہوتے تھے۔ جب وہ ”میرا دوست نواز شریف“ لکھ رہے تھے تو بڑی دلچسپ باتیں بتایا کرتے تھے۔ میں نے کبھی ان کے قلم کی نوک پر تعصب یا ناپسندیدگی نہیں دیکھی۔ جس بے خوفی سے انہوں نے یہ کتاب لکھی واقعی ان کی جرأت پر دلالت کرتی ہے۔ جس قدر کھل کر لکھا کوئی ایسا شخص لکھ ہی نہیں سکتا اگر ذرّہ برابر بھی ان سے فائدہ حاصل کیا ہو۔ انہوں نے مجھے ایک بار بتایا کہ میں نے میاں نواز شریف سے آخری ملاقات میں خداحافظ کہا اور 18 سال گزر جانے کے باوجود ان سے ملنا تو درکنار بات بھی نہیں کی۔ ضیا صاحب کا کہنا تھا کہ میں میاں نوازشریف کو واقعی پسند کرتا تھا لیکن ان کی شہنشاہی اور مغلیائی سوچ سے غیر متفق ان کے مخلص دوست بتدریج ان سے دور ہوتے چلے گئے۔
قارئین کرام! آج ضیا شاہد صاحب ہم میں موجود نہیں لیکن ان کے لگائے ہوئے شجر سایہ دار ”خبریں“، چینل ۵سندھی اخبار خبرون اور پنجابی زبان کا معروف روزنامہ”خبراں“حبس کے موسم میں ہوا بانٹ رہے ہیں ہمیں ضیا شاہد صاحب کے ہاتھوں کا ہُنر یادرہے گا۔ اس ہُنر میں ان کے صاحبزادے جناب امتنان شاہد بھی یکتائے روزگار ہیں جو ”خبریں“کی 29ویں سالگرہ کے موقع پر ملک کے 9 ویں شہر بہاولپور سے بھی یکم اکتوبر 2021 سے خبریں کا آغاز کرچکے ہیں۔ خدا کرے ان کی توفیقات میں اضافہ ہو اور ادارہ دن دگنی رات چوگنی ترقی کرے۔ کہ اسی میں ہم سب کا بھلا ہے۔ جناب امتنان شاہد ذہین بھی ہیں اورباہمت بھی اور پُر عزم بھی۔ اللہ پاک ان کے جذبوں کو سلامت رکھے۔
میں یہ بات بھی واضح کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ گزرے برسوں میں ”خبریں“ گروپ آف نیوز پیپرز کے خلاف کئی محاذ بھی بنے۔ ملا کھڑے بھی ہوئے لیکن الحمد للہ کسی مخالف کی بیل منڈھے نہ چڑھ سکی اور ہر بار مخالفین کو منہ کی کھانی پڑی اور وجہ صرف اور صرف جناب ضیا شاہد اور محترم امتنان شاہد کی صحافتی اقدار اور روایات سے گہری‘ سچی اور والہانہ وابستگی ہے۔
جناب ضیا شاہد کو لفافہ جرنلزم کے موجد کا ”اعزاز“ عطا کرنے والے ذرا اپنے گریبانوں میں بھی جھانک لیں کہ جس جرأت سے ”میرا دوست نواز شریف“ ”پاکستان کے خلاف سازش“اور ”باتیں سیاستدانوں کی“ لکھی گئیں کیا ایسی کتابیں اُس جرأت اور دلیری سے ایسا صحافی لکھ سکتا ہے جس نے حکمرانوں اور لفافے بانٹنے والوں سے کچھ لیا ہو؟
(کالم نگار سیاسی‘سماجی اورمعاشرتی موضوعات پرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭