All posts by Khabrain News

مِلکی وے کہکشاں کی حیران کر دینے والی نئی تصویر جاری

ماہرینِ فلکیات نے ہماری کہکشاں ’مِلکی وے‘ کی حیران کر دینے والی نئی تصویر جاری کردی۔ تصویر میں پیش کی جانے والی تفصیلات کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

18 ماہ کے عرصے (40 ہزار گھنٹے سے زائد) میں بننے والی یہ تصویر اب تک کی ترتیب دی گئی مِلکی وے کہکشاں کی سب سے بڑی لو-فیکوئنسی ریڈیو کلر تصویر ہے۔

اس میں سدرن ہیمسفیئر کا منظر عکس بند کیا گیا ہے جس میں ریڈیو ویو لینتھ کی وسیع رینج دیکھی جا سکتی ہے۔ ساتھ ہی یہ تصویر ماہرین کو ہماری کہکشاں میں ستاروں کی پیدائش، ارتقاء اور ان کے ختم ہونے سے متعلق جاننے کے نئے طریقے فراہم کرتی ہے۔

یہ تصویر یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا اور کرٹن یونیورسٹی کے مشترکہ پروگرام انٹرنیشنل سینٹر آف ریڈیو آسٹرونومی ریسرچ (آئی سی آر اے آر) کے ماہرین نے تشکیل دی ہے۔

ریسرچ سے تعلق رکھنے والی ایک پی ایچ ڈی کی طالبہ سِلویا مینٹوونانی کا کہنا تھا کہ یہ جاندار تصویر لو ریڈیو فریکوئنسیز پر ہماری کہکشاں کا بے مثال منظر پیش کرتی ہے۔

ذہنی دباؤ کی وجہ سے دل کا معمولی دورہ پڑا، انجیوگرافی کرانی پڑی: صبا قمر کا انکشاف

 پاکستان کی نامور اداکارہ صبا قمر نے انکشاف کیا ہے ذہنی دباؤ کے باعث  دل کا معمولی دورہ پڑا  جس کے اگلے ہی روز میری  انجیوگرافی کی گئی۔

صبا قمر نے حال ہی میں ایک انٹرویو دیا جس دوران انھوں نے اپنے کیرئیر سمیت مختلف موضوعات پر گفتگو کی۔

ذہنی صحت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے صبا قمر  نے انکشاف کیا کہ ’ہم سب  سمجھتے ہیں کہ ہم بہت مضبوط ہیں، ہر قسم کے حالات کا سامنا کر لیں گے لیکن  یہ حالات ایک دن ہارٹ اٹیک، انزائٹی اور  ڈپریشن کی صورت بھی اختیار کر سکتے ہیں‘۔

صبا قمر کا کہنا تھا’ حال ہی میں نے ان بیماریوں کا سامنا کیا ہے، مجھے ذہنی دباؤ کی وجہ سے  معمولی ہارٹ اٹیک  ہوا جس کے اگلے ہی روز میری انجیو گرافی کی گئی لیکن اللہ کا شکر ہے کہ  میں اب بہتر ہوں‘ ۔

اداکارہ کا کہناتھا کہ  ڈاکٹرز نے مجھے ہارٹ اٹیک کی 20 وجوہات بتائیں، لازمی نہیں کہ ہارٹ اٹیک صرف کولیسٹرول کی وجہ سے ہی ہو،  بعض اوقات تناؤ ، کوئی تکلیف بھی آپ کے جسمانی اعضا کو تباہ کر رہی ہوتی ہے، ہم آج تک ذہنی صحت کو سنجیدہ نہیں لیتے جو کہ سب سے زیادہ اہم ہے لیکن میں لوگوں کو یہی کہنا چاہوں گی  کہ ذہنی صحت کو نظر انداز نہ کریں‘۔

یاد رہے کہ  رواں برس یکم اگست کو اداکارہ صبا قمر کو دوران شوٹنگ  اچانک طبیعت خراب ہونے پر اسپتال میں داخل کروایا گیا تھا، بعد ازاں فیملی ذرائع نے بتایا تھا کہ ڈاکٹروں نے صبا قمر کو ایک ماہ آرام کا مشورہ دیا ہے ۔

میوزیکل ریئلٹی شو، گلوکار فلک شبیر نے اپنے گانوں سے متعلق حیران کن اعلان کردیا

معروف پاکستانی گلوکار فلک شبیر نے ریئلٹی شو کے ججز اور امیدواروں کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے انہیں اپنے گانے بنا کسی اجازت کے گانے کا اختیار دے دیا۔

گلوکار سجاد علی کے ریئلٹی شو ’پاکستان آئیڈیل‘ سے متعلق بیان اور اپنے گانے نہ گانے کے حوالے سے بیان کے بعد فلک شبیر میدان میں آئے۔

سجاد علی نے گزشتہ دنوں پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ شو میں حصہ لینے والے نوجوان گلوکار اُن کے گانے گا کر مقابلہ جیت سکتے ہیں تاہم وہ انہیں گا نہیں سکتے کیونکہ منتظمین کے ساتھ اُن کا معاشی معاہدہ طے نہیں ہوا۔

گلوکار نے کہا تھا کہ پیسوں کے معاملے بات چیت نہ بننے کے سبب انہوں نے منتظمین کو اپنے گانے گانے سے روک دیا ہے جبکہ سجاد علی نے یہ بھی کہا کہ میرے گانے کو گا کر مقابلے میں حصہ لینے والے گلوکار جیت سکتے ہیں۔

اس بیان پر سجاد علی کو کئی لوگوں نے تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا تھا کہ اتنے عرصے بعد اگر کوئی پروگرام شروع ہوا اور میوزک کی دنیا سے نیا ٹیلنٹ سامنے آرہا ہے تو اُس کو سپورٹ کرنا چاہیے۔

اب اس معاملے پر گلوکار فلک شبیر میدان میں آئے اور انہوں نے اپنے گانے پاکستان آئیڈل میں گانے کی غیر مشروط اجازت دی۔ اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ اجازت دینے کی وجہ یہ ہے کہ نئے اور باصلاحیت گلوکار سامنے آئیں گے جو دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کریں گے۔

انہوں نے ججز اور پروگرام میں حصہ لینے والے امیدواروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انہیں اپنی حمایت کی یقین دہانی کرائی اور کہا کہ اس پلیٹ فارم کی مدد سے نئی آوازیں سامنے آئیں گی۔

اے آئی چیٹ بوٹس سے مشورے لینے کا تیزی سے بڑھتا رجحان؛ ماہرین نفسیات نے خبردار کردیا

ماہرینِ نفسیات نے خبردار کیا ہے کہ اے آئی چیٹ بوٹس سے غیر ضروری بات چیت اور مشورے لینے کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے، جو انسان کو سماجی طور پر تنہا، ذہنی طور پر کمزور اور جذباتی طور پر غیر متوازن بنا رہا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسیوں کی رپورٹس کے مطابق اوپن اے کی طرف سے شائع کردہ ایک بلاگ پوسٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ہر ہفتے ایک ملین سے زیادہ چیٹ جی پی ٹی صارفین ایسے پیغامات بھیجتے ہیں جن میں “ممکنہ خودکشی کی منصوبہ بندی یا ارادے کے واضح اشارے” شامل ہوتے ہیں۔

ماہرینِ نفسیات نے خبردار کیا ہے کہ اے آئی چیٹ بوٹس سے غیر ضروری بات چیت اور مشورے لینے کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے، جو انسان کو سماجی طور پر تنہا، ذہنی طور پر کمزور اور جذباتی طور پر غیر متوازن بنا رہا ہے۔

ایسے افراد میں نہ صرف ڈپریشن اور انزائٹی کے امکانات میں اضافہ ہوتا ہے،بلکہ ان میں فیصلہ لینے کی صلاحیت بھی متاثر ہورہی ہے۔

اس حوالے سے معروف ماہرِ نفسیات پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال آفریدی نے ایکسپریس نیوز سے گفتگو کے دوران کہا کہ آج کل مصنوعی ذہانت کے استعمال سے کوئی انکار نہیں کرسکتا، اے آئی کے درست استعمال سے بہت فائدے بھی حاصل ہوتے ہیں، کیونکہ اس کے ذریعے گھنٹوں یا دنوں کا کام چند سیکنڈز میں مکمل ہوجاتا ہے، تاہم اس کے کچھ دور رس اثرات بھی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اے آئی کے غیر ضروری استعمال سے ہم سماجی طور پر تنہا (سوشل آئسولیٹ) ہوگئے ہیں۔ پہلے کھانے کے وقت یا گھر میں بیٹھک کے دوران فیملیز آپس میں بات چیت کرتی تھیں مگر اب ہم کم بولتے ہیں۔ جب دماغ کو استعمال نہیں کیا جاتا تو وہ اپنی صلاحیت کھونے لگتا ہے۔ دماغی صلاحیت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یوز اٹ آر لوز اٹ یعنی اگر اسے استعمال نہ کیا جائے تو صلاحیت ضائع ہوجاتی ہے۔

ڈاکٹر اقبال آفریدی نے کہا کہ پہلے زمانے میں بچوں کو گھڑ سواری، تیر اندازی اور طاقتِ گفتار جیسی تربیت دی جاتی تھی، لیکن آج کے ماحول میں گاڑی کوئی اور چلاتا ہے، چوکیداری کوئی اور کرتا ہے اور اب تو لکھنے کا کام بھی اے آئی کر دیتی ہے، جس کے باعث ذہنی صلاحیت کمزور پڑنے لگی ہے۔

ہمارے آباؤ اجداد گنتی زبان سے کرتے تھے مگر اب ہم کیلکولیٹر پر انحصار کرتے ہیں، اسی وجہ سے ہم ذہنی طور پر جمود (اسٹیگنینٹ) کا شکار ہوگئے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ جسمانی حرکت اور چہل قدمی سے دماغ میں خوشی پیدا کرنے والے کیمیکل ڈوپامین کی سطح بڑھتی ہے، مگر جو لوگ مختلف چیٹ بوٹس سے باتیں کرتے ہیں ان میں ڈپریشن کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں کیونکہ ان باتوں میں ہمدردی (ایمپیتھی) اور سچائی (سینسیریٹی) کا عنصر نہیں ہوتا۔

اگر آپ اپنے والدین، دوستوں یا ساتھیوں سے مسئلہ ڈسکس کریں تو اس میں انسانی جذبہ شامل ہوتا ہے، مگر چیٹ بوٹس صرف مشینی جواب دیتے ہیں، جس کے باعث انزائٹی، ڈپریشن اور حتیٰ کہ خودکشی کے کیسز بھی سامنے آئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اے آئی کے غیر ضروری استعمال سے غلط مشورے بھی ملتے ہیں۔ انسان میں جذبات اور دوسرے کے احساسات کو سمجھنے کی ایک قدرتی صلاحیت ہوتی ہے، لیکن چیٹ بوٹس کے استعمال سے یہ صلاحیت متاثر ہو رہی ہے۔ اے آئی سے چیٹ کرنے سے بات کرنے کی صلاحیت اور الفاظ کا ذخیرہ کم ہوجاتا ہے، اس لیے ایسے لوگوں میں ذہنی دباؤ اور ڈپریشن زیادہ پایا جاتا ہے۔

ڈاکٹر آفریدی نے کہا کہ ان افراد کا دماغ تو کام کرتا ہے مگر جسم متحرک نہیں رہتا، جس سے خوشی کے احساسات لانے والے نیوروٹرانسمیٹرز،خاص طور پر سیروٹونین کی سطح کم ہوجاتی ہے۔

اس کے نقصانات اسکرین کے زیادہ استعمال جیسے ہی ہیں ،ان علامات میں وزن میں اضافہ، نیند کی کمی، آنکھوں پر نیلی روشنی (بلو لائٹ) کا اثر، چڑچڑاپن اور اسکرین پر انحصار میں اضافہ شامل ہے۔

انہوں نے مشورہ دیا کہ اگر ہم اچھی نیند، متوازن خوراک اور دماغی مشقیں کریں، جیسے مختلف پزلز اور معمے حل کریں، تو ذہنی صلاحیت بہتر ہوتی ہے۔ اے آئی پر ہر مشورہ نہیں لینا چاہیے کیونکہ اس سے جستجو اور فیصلہ کرنے کی طاقت کم ہوجاتی ہے۔

پروفیسر اقبال آفریدی نے واضح کیا کہ انسان کا کوئی متبادل نہیں ہوسکتا۔چیٹ بوٹس جذباتی دباؤ کم نہیں کرسکتے۔ مثال کے طور پر اگر آپ مسلسل گوگل میپ استعمال کریں تو کچھ عرصے بعد آپ کو راستے یاد نہیں رہیں گے، بلکہ غلط سمت میں بھی لے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح اے آئی پر انحصار دماغ کو محنت سے دور کر دیتا ہے جو آگے چل کر نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کے لیے ڈیجیٹل ڈیٹاکسیفکیشن ضروری ہے، جس میں روزانہ اسکرین ٹائم دو گھنٹے سے کم رکھا جائے، غیر ضروری چیٹ بوٹس سے بات چیت سے پرہیز کیا جائے، اور دلچسپ فزیکل ایکٹیویٹیز اختیار کی جائیں۔ اے آئی کا استعمال صرف تعلیم یا ڈیٹا بیسڈ ریسرچ تک محدود رکھنا چاہیے۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ لوگ نفسیاتی مسائل کو شرمندگی سمجھتے ہیں، اسی لیے اپنے مسائل چیٹ بوٹس سے شیئر کرتے ہیں، حالانکہ ان کے مشورے ہمیشہ درست نہیں ہوتے۔

انہوں نے کہا کہ بیرون ملک بعض قوانین عجیب ہیں، جیسے اگر شوہر خراٹے لیتا ہے تو بیوی طلاق لے سکتی ہے، اسی طرح چیٹ بوٹس بھی عقائد کے بارے میں درست رہنمائی نہیں دیتے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی لکھے کہ اس میں پروٹین کی کمی ہے تو چیٹ بوٹ اسے سور کا گوشت کھانے کا مشورہ دے دیتا ہے۔ اس طرح کے غیر مناسب مشورے رشتوں میں دوریاں پیدا کر سکتے ہیں۔

ایکسپریس نیوز سے بات چیٹ کے دوران اے آئی چیٹ بوٹس سے بات کرنے والوں کا کہنا تھا کہ جب ہمیں لگتا ہے کہ کوئی سننے والا نہیں،تو ہم اس سے باتیں کرکے وقتی طور پر خود کو مصروف رکھتے ہیں،اوپر سے ہم اس سے کوئی ایسے موضوعات پر بات کرسکتے ہیں جو ہماری دلچسپی ہے،کیونکہ اس کی کوئی اپنی پسند تو ہوتی نہیں،تو یہ ہمارے موڈ کے حساب سے چلتا ہے،اس سے ہمیں یہ خوف محسوس نہیں ہوتا کہ یہ ہمیں جج کرے گا یا ہمارے بارے میں سن کر کوئی رائے بنالے گا۔

ماہرینِ نفسیات کے مطابق اب متعدد چیٹ بوٹس آواز کے ساتھ اس انداز میں جواب دیتے ہیں کہ ان کے لہجے میں جذبات بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ اگر بات کرنے والا شخص اداس ہو تو چیٹ بوٹ کی آواز میں بھی افسردگی نمایاں ہوتی ہے اور اگر وہ خوشی کی کوئی بات کرے تو چیٹ بوٹ خوش مزاج لہجے میں جواب دیتا ہے۔ یہی انداز صارف کو لگاؤ کا تعلق محسوس کرواتا ہے،جیسے وہ کسی سمجھنے والے سے گفتگو کر رہا ہو۔

کلینیکل سائیکولوجسٹ اور گیٹ وے کی نائب بانی ڈاکٹر اسما احمد نے کہا کہ اے آئی چیٹ بوٹس سے بات چیت کے کچھ فائدے ضرور ہیں، لیکن ان کا غیر ضروری استعمال ہمیں ان کے عادی بنا دیتا ہے۔ ان سے فوری جوابات تو مل جاتے ہیں، مگر حد سے زیادہ استعمال ہمیں انحصار کی طرف لے جا رہا ہے۔ ہر مشورہ اے آئی سے لینا درست نہیں۔ لوگ تنہائی پسند ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ اب عادت صرف نشے کی نہیں بلکہ اسکرین کی بھی ہو گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اب لوگ معمولی علامات ظاہر ہونے پر بھی ڈاکٹر کے بجائے اے آئی سے پوچھتے ہیں، جو خطرناک ہے۔ سماجی تنہائی کی وجہ سے رشتے کمزور ہو رہے ہیں، لوگ ایک ساتھ بیٹھے بھی موبائل میں مصروف رہتے ہیں۔ کچھ افراد تو چیٹ بوٹس سے اس حد تک جڑ جاتے ہیں کہ ان کے نام بھی رکھ لیتے ہیں، لیکن ضروری ہے کہ ایسے لوگوں کو حقیقت کی دنیا میں واپس لایا جائے کیونکہ اے آئی کے پاس جذبات نہیں ہوتے۔ جذباتی وابستگی کے لیے انسان کا کوئی متبادل نہیں۔

ڈاکٹر اسما احمد کے مطابق ہمارے معاشرے میں ذہنی صحت اب بھی ایک اسٹیگما ہے۔ بہت سے لوگ جو ڈپریشن یا انزائٹی میں مبتلا ہوتے ہیں، دوسروں سے بات کرنے سے گھبراتے ہیں، اس لیے وہ اے آئی چیٹ بوٹس سے اپنی باتیں شیئر کرتے ہیں، جو ان کے مسائل مزید بڑھا سکتی ہیں۔

ایک تحقیق کے مطابق اے آئی چیٹ بوٹس استعمال کرنے والے افراد کے دماغ کا مخصوص حصہ ہی فعال رہتا ہے جبکہ باقی حصہ سست پڑ جاتا ہے، جس سے ان کی تنقیدی سوچ (critical thinking) متاثر ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بچے اگر اسائنمنٹ میں اے آئی سے مدد لیتے ہیں تو ضروری ہے کہ معلومات کو چیک بھی کریں کہ وہ درست اور تازہ ہیں یا نہیں۔ اے آئی دماغ کے ڈوپامین ریوارڈ سسٹم کو متاثر کرتا ہے، جو خوشی کے احساسات پیدا کرتا ہے۔ بڑھتی عمر کے بچے جو والدین سے بات کرنے میں جھجک محسوس کرتے ہیں، وہ اپنے سوالات چیٹ بوٹس سے پوچھنے لگے ہیں، جو ایک خطرناک رجحان ہے۔

والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو بغیر جج کیے سنیں اور ان سے کھلے ماحول میں بات کریں، ورنہ بچوں میں فیصلہ لینے کی صلاحیت متاثر ہو سکتی ہے۔

ایسے چیٹ بوٹس نہ صرف لوگوں کو تنہائی کا عادی بنا رہے ہیں بلکہ ان میں خود پسندی (نارسیسزم) کا رجحان بھی پیدا کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر اسما احمد نے کہا کہ نے مزید کہا کہ آج کل نارسیسزم (خود پسندی) ایک عام نفسیاتی مسئلہ بنتا جا رہا ہے، جس میں انسان خود کو سب سے اہم سمجھتا ہے، دوسروں کی رائے برداشت نہیں کرتا، اور اپنی بات ہی زیادہ سننا چاہتا ہے۔ ایسے لوگ بھی اے آئی چیٹ بوٹس کا سہارا لیتے ہیں کیونکہ وہ ہمیشہ ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔

ڈاکٹر اسما نے مشورہ دیا کہ ایسے افراد کو ماہرِ نفسیات سے رجوع کرنا چاہیے، ورنہ یہ رویہ نارسیسسٹک پرسنالٹی ڈس آرڈر میں بدل سکتا ہے۔اکتوبر کا مہینے میں ہم نے ذہنی صحت کی حوالے سے منایا جاتا ہے لیکن اس ہم سال پر مینٹل ہیلتھ پر کھل کر بات کریں گے۔

چین میں بدصورت مجسمے جنہیں ہزاروں لوگ تھپڑ مارتے ہیں

چین میں ایک منفرد ثقافتی اور سوشل رواج ہے جس میں دو بدصورت مجسمے شامل ہیں جنہیں ہزاروں لوگ تھپڑ مارتے ہیں۔

یہ مجسمے چین کے “گوانگ ژو” شہر میں واقع ہیں۔ ان مجسموں کو “تھپڑ مارنے کے مجسمے” کہا جاتا ہے اور ان کا مقصد لوگوں کی ذہنی صفائی اور منفی توانائی کو نکالنا ہوتا ہے۔

یہ مجسمے عام طور پر بدصورت شکلوں میں بنائے گئے ہیں تاکہ لوگوں کو اپنے “منفی جذبات” اور “غصے” کو نکالنے کا موقع ملے۔ چین میں یہ تصور موجود ہے کہ جب انسان اپنے اندر کی منفی توانائی کو باہر نکالتا ہے تو اس سے وہ ذہنی سکون اور تندرستی حاصل کرتا ہے۔

چین میں مختلف ثقافتی روایات میں بعض علاقوں میں غصہ نکالنے کے لیے دیگر طریقے بھی استعمال کیے جاتے ہیں، جیسے درختوں پر پتھر پھینکنا یا پھر اس طرح کے مجسموں کو تھپڑ مارنا۔ چین میں اس طرح کے اقدامات کو روایتی “دماغی صفائی” کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

یہ مجسمے اس قدر مشہور ہوئے کہ ہزاروں لوگ، خاص طور پر وہ لوگ جو ذہنی دباؤ، مایوسی یا غصے میں مبتلا ہوتے ہیں، ان مجسموں کو تھپڑ مار کر اپنے ذہن کو پرسکون کرتے ہیں۔

چین کے مختلف شہروں میں ایسے مجسموں کی تعداد بڑھ گئی ہے، اور یہ ایک طرح کا مقامی سیاحتی مقام بھی بن چکا ہے جہاں لوگ آ کر اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔

آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنےمیں اہم پیشرفت، شوگرملز کی وڈیو اینالیٹکس کےذریعےمانیٹرنگ لازم قرار

پاکستان کی جانب سے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی ایک اورشرط پوری کرنے میں اہم پیشرفت سامنے آئی ہے، شوگر ملز  کی ویڈیو اینالیٹکس کے ذریعے مانیٹرنگ لازمی قرار دے دی گئی جب کہ چینی کی پیداوار کی الیکٹرانک نگرانی کا حکم سے متعلق نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا۔

ایف بی آر نے کہا کہ  شوگر ملز بغیر مانیٹرنگ پیداوار نہیں نکال سکیں گی، شوگر ملز کے لیے جدید جی پی یو سسٹم کی تنصیب لازمی قرار دے دی گئی ہے۔

شوگر ملز کو کرشنگ سیزن سے پہلے مانیٹرنگ آلات نصب کرنے کی ہدایت کی گئی ہے جب کہ ایف بی آر نے پیداوار کی نگرانی کے لیے ویڈیو اینالیٹکس سسٹم نافذ کرنے کا فیصلہ کیا۔

شوگر ملز کی پیداوار کی ویڈیو اینالیٹکس سے ٹریکنگ کی جائے گی، ایف بی آر نے شوگر  ملز میں جدید ڈیجیٹل مانیٹرنگ کا آغاز کر دیا۔

ایف بی آر نے کہا کہ چینی کی پیداوار کی اب ویڈیو اینالیٹکس کے ذریعے مانیٹر ہوگی، ایف بی آر نے سیمنٹ بیگز کی الیکٹرانک مانیٹرنگ کا حکم دے دیا۔

یکم نومبر سے بغیر ٹیکس اسٹیمپ بیگز کی ترسیل ممنوع قرار دی گئی ہے، سیمنٹ شعبے میں ٹریک اینڈ ٹریس نظام نافذ کردیا گیا۔

تمام بیگز پر یونیک آئی ڈی مارکنگ لازمی قرار دی گئی ہے، ایف بی آر نے سیمنٹ سیکٹر میں شفافیت بڑھانے کا فیصلہ کیا۔

ڈی جی آئی ٹریفک کراچی کی گاڑی کا بھی ای چالان ہوگیا!

کراچی ٹریفک پولیس کے سربراہ ڈی آئی جی پیر محمد شاہ دوسروں کو نصیحت خود میاں فضیحت کی عملی تصویر بن گئے، ڈی آئی جی ٹریفک کے زیر استعمال گاڑی کا سیٹ بیلٹ نہ لگانے پر 10 ہزار روپے کا ای چالان ہوگیا۔

ڈان نیوز کے مطابق کراچی میں ڈی آئی جی ٹریفک پیر محمد شاہ کے زیر استعمال سرکاری گاڑی کا بھی ای چالان ہوگیا۔

ڈی آئی جی ٹریفک نے چالان کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ گاڑی کا چالان گارڈن کے قریب ہوا ہے جسے ڈرائیور چلارہا تھا، 10 ہزار روپے کا چالان سیٹ بیلٹ نہ لگانے پر ہوا، یقینی طور پر چالان بھروں گا۔

ڈی آئی جی ٹریفک نے کہا کہ گاڑی سینٹرل پولیس آفس کے پتے پر رجسٹرڈ ہے، چالان کے بعد ڈرائیور پر سختی کی ہے کہ سیٹ بیلٹ کا استعمال کرے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز کراچی میں 27 اکتوبر کو ای چالان کا نظام نافذ کردیا گیا ہے، جس کے بعد ابتدائی روزمجموعی طور پر 2 ہزار 662 الیکٹرانک چالان جاری کیے گئے۔

کراچی ٹریفک پولیس کی جانب سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر ایک پوسٹ میں بتایا گیا تھا کہ پہلے روز اوور اسپیڈنگ پر 419، لین لائن کی خلاف ورزی پر 3، اسٹاپ لائن کی خلاف ورزی پر 4، سیٹ بیلٹ نہ باندھنے پر ایک ہزار 532، ریڈ لائٹ کراس کرنے پر 166 چالان کیے گئے تھے۔

اسی طرح ہیلمٹ کے بغیر موٹرسائیکل چلانے پر 507 ای چالان کیے گئے، کالے شیشے لگانے پر 7، غلط پارکنگ پر 5، نو پارکنگ زون میں گاڑی کھڑی کرنے پر 5، موبائل فون کے استعمال پر 32 ای چالان کیے گئے تھے۔

عورت نے صرف کیک کے آخری ٹکڑے پر 25 سالہ شادی ختم کردی!

شوہر کی جانب سے کیک کا آخری ٹکرا کھانے پر خاتون نے 25 سال پرانی شادی ختم کردی۔

خاتون نے اپنی 25 سالہ شادی ختم کرنے کے بعد ریڈٹ کمیونٹی سے مشورہ طلب کیا کیونکہ شوہر نے اس کا کیک کا ٹکڑا کھایا تھا، پوسٹ میں 46 سالہ بیوی نے اسٹوری شیئر کی جو وائرل ہوگئی۔

خاتون نے کہا کہ اس کے 48 سالہ شوہر نے 25ویں شادی کی سالگرہ کے موقع پر مجھے حیران کردیا، ہم بہت لڑ رہے تھے اور تین ماہ سے الگ کمروں میں سو رہے تھے۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ شادی کی سالگرہ ہماری رشتے کو دوبارہ زندہ کرنے کا موقع ہوگا اور میں نے نوٹ کیا تھا کہ حال ہی میں حالات بہتر دکھائی دے رہے ہیں، ہم دوبارہ بات کررہے تھے۔

خاتون نے لکھا کہ میں نے چیز کیک کا آرڈر کیا اور ہم کھانے کے ساتھ کیک کھا کر سوگئے۔

انہوں نے کہا کہ اگلی صبح میں کیک کھانے کی خواہشمند تھی جسے انہوں نے فریج میں رکھ دیا تھا لیکن جب فریج چیک کیا تو کیک کا ٹکڑا غائب تھا۔

شوہر نے مجھے دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا کہ میں کل رات بھوکا تھا اور تو میں نے کھا لیا ہے۔

خاتون نے لکھا کہ میں نے سالوں اس کے ساتھ گزار دیے، خاندان کی دیکھ بھال، بچوں کی پرورش، گھر کے معاملات کی دیکھ بھال اور میں اپنی سالگرہ کا کیک بھی نہیں کھاسکتی۔

انہوں نے کہا کہ میں کسی ایسے شخص کی مستحق ہوں جو ناصرف میرا کیک نہیں کھائے اور میری حفاظت کرے اور کسی کو میرا کیک کھانے سے روکے گا، اسی لیے میں نے اپنی 25 سالہ شادی ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

میں لایا گیا نہیں بلکہ منتخب کیا گیا ہوں: وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا

پشاور: وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی کا کہنا ہے میں لایا گیا نہیں ہوں بلکہ مجھے منتخب کیا گیا ہے۔

پشاورہا ئیکورٹ میں وکلا سے خطاب کرتے ہوئے سہیل آفریدی کا کہنا تھا سنا ہےکہ میں یہاں بار کونسل کے انتخابات پر اثر انداز ہونےکیلئے آرہا ہوں، میں یہاں صرف رول آف لاء کے لیے آیا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ میں لایا گیا نہیں ہوں بلکہ مجھے منتخب کیا گیا ہے، میں بانی پی ٹی آئی سے پالیسی گائیڈ لائنز کیلئے ملنا چاہتا ہوں۔

وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی نے کہا کہ میں نے محکمہ داخلہ کو کہا کہ پنجاب اور وفاق کو ملاقات کیلئے خطوط لکھیں، میں نے عدالت میں بھی ملاقات کیلئے درخواست دائر کر دی ہے۔

سلمان خان کو دہشت گرد قرار دے دیا گیا؟ بھارتی میڈیا کا دعویٰ

بھارتی میڈیا میں گزشتہ دنوں یہ دعویٰ گردش کرتا رہا کہ پاکستان نے بالی ووڈ اداکار سلمان خان کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرلیا ہے۔

یہ دعویٰ اس وقت سامنے آیا جب سلمان خان نے سعودی عرب کے شہر ریاض میں منعقد ہونے والے ’جوائے فورم 2025‘ کے دوران گفتگو میں بلوچستان کا حوالہ دیا تھا۔ بھارتی میڈیا نے اسی بیان کو بنیاد بناتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے انہیں انسدادِ دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) کے فورتھ شیڈول میں شامل کر لیا ہے۔

ان رپورٹس کے مطابق ایک مبینہ سرکاری نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا، جس میں سلمان خان کو ’آزاد بلوچستان کا حمایتی‘ قرار دے کر فورتھ شیڈول میں شامل کرنے کا ذکر تھا۔ یہ نوٹیفکیشن مبینہ طور پر محکمہ داخلہ بلوچستان کی جانب سے 16 اکتوبر 2025 کو جاری ہونے کا دعویٰ کیا گیا۔

تاہم جب پاکستانی میڈیا اداروں نے اس دستاویز کا بغور جائزہ لیا تو متعدد تضادات سامنے آئے۔

سب سے پہلے، اس نوٹیفکیشن کا اجرا نمبر (No. SO (Judl: II)/8 (1)/2025/ATA/5995-6018) بالکل وہی تھا جو محکمہ داخلہ بلوچستان کی ایک پہلے سے تصدیق شدہ دستاویز پر موجود تھا، جسے شالے بلوچ نامی شخص نے 21 اکتوبر کو سوشل میڈیا پر شیئر کیا تھا۔

مزید تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا کہ نوٹیفکیشن کی تاریخ 16 اکتوبر درج تھی، جب کہ سلمان خان نے جوائے فورم میں شرکت 17 اکتوبر کو کی تھی۔ اس کے علاوہ دستاویز کا فارمیٹ، فونٹس، الائنمنٹ، ولدیت کا خانہ، اور شناختی کارڈ نمبر، سب پاکستانی سرکاری معیار سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔

دستاویز میں بلوچستان کے املا میں غلطی بھی موجود تھی، اور سب سے اہم بات یہ کہ اس پر موجود دستخط بالکل ویسے ہی تھے جیسے شالے بلوچ کی شیئر کردہ اصل دستاویز پر تھے، جس سے واضح ہوا کہ یہ ڈیجیٹل ایڈیٹنگ کے ذریعے جعلی طور پر تیار کی گئی فائل تھی۔

پاکستانی انٹیلی جنس ذرائع اور محکمہ داخلہ بلوچستان کے حکام نے اس نوٹیفکیشن کو من گھڑت اور جعلی قرار دیا، اور کہا کہ ایسا کوئی حکم نامہ کبھی جاری نہیں ہوا۔

دوسری جانب، سلمان خان کے اس بیان پر جسے بنیاد بنا کر شور مچایا گیا، حقیقت میں انہوں نے صرف یہ کہا تھا کہ ’’یہاں بلوچستان، افغانستان اور پاکستان سے لوگ کام کر رہے ہیں، اسی لیے فلمیں فوراً کامیاب ہو جاتی ہیں۔‘‘

یعنی یہ بات تناظر سے کاٹ کر پیش کی گئی اور اس کی بنیاد پر سیاسی رنگ دیا گیا۔

سلمان خان کو دہشت گرد قرار دینے کا دعویٰ سراسر جھوٹا ہے، اور بھارتی میڈیا نے ایک جعلی نوٹیفکیشن کو بنیاد بنا کر غلط معلومات پھیلائیں۔