Tag Archives: naya akhbar.jpg

ہزاروں سال پرانا طریقہ علاج

لاہور (خصوصی رپورٹ) پاکستان سمیت دنیا بھر میں آکوپنکچر اورینٹل میڈیسن ڈے منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد آکوپنکچر کی افادیت بارے لوگوں کو آگاہی پیدا کرنا ہے۔ آکوپنکچر ایک حقیقت ہے جس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ پوری دنیا اس چینی طریقہ علاج سے استفادہ کررہے ہیں لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں اس طریقہ علاج کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ عالمی ادارہ صحت اس چینی طریقہ علاج کو تسلیم کرچکی ہے بلکہ پاکستان میںبھی ہر طریقہ علاج کے مستند ڈاکٹر آکوپنکچر کے ذریعے علاج معالجہ کی سہولیات فراہم کررہے ہیں۔ 1971ءمیں امریکی ڈاکٹرز نے چین کا دورہ کیا اور آکوپنکچر طریقہ علاج کی کرشمہ سازیوں کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھا اور حیران رہ گئے۔ یہی وجہ ہے کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے آکوپنکچر کو طریقہ علاج تسلیم کرتے ہوئے اسے 52 امراض میں آزمودہ قرار دیا ہے۔ اورینٹل میڈیسن کی اصلاح ایک جامع ہیلتھ کیئر سسٹم کیلئے استعمال کی جاتی ہے جس میں کئی روایتی طریقہ ہائے علاج شامل ہیں۔ چائنہ میں چینی بابوں کا آکوپنکچر ان میں سے ایک ہے۔ اس کی تاریخ تقریباً ساڑھے چار ہزار سال سے بھی پرانی ہے۔ یہ علاج‘ روایتی فطری اور روحانی اوڑھنی میں لپٹا ہوا ہے۔ آکوپنکچر لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی سوئی چبھونا کے ہیں۔ ڈاکٹر نگہت کا کہنا ہے کہ آکوپنکچر ایک قدیم طریقہ علاج ہے جو ہزاروں سال قبل دریافت ہوا اور اس کی دریافت بھی حادثاتی طور پر سامنے آئی اور اسی وجہ سے آج اس طریقہ علاج کے بانی کے بارے میں بھی تاریخ خاموش ہے۔ آکوپنکچر پوائنٹس پر دی جانے والی تحریک عصبی نظم اور غدودوں کے نظام کی فعالیت پر اثرانداز ہوتی ہے۔ اسی طرح عصبی رو اور ہارمونز میں توازنی اثرات پیدا ہوتے ہیں جو مرض دور کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ اس علاج میں کوئی دوا استعمال نہیں ہوتی۔ انسانی جسم میں مخصوص پوائنٹس جن کو جنرل سیڈیٹو کہتے ہیں یہ پوائنٹس بغیر میڈیسن کے سکون مہیا کرتے ہیں۔ اتنا زبردست سکون ملتا ہے کہ مریض دوران علاج گہری نیند سو جاتا ہے پھر تروتازہ ہوکر اٹھتا ہے۔ ذہنی‘ دماغی اور نفسیاتی امراض میں ان 9 عدد پوائنٹس کا استعمال ہے جو مفید ہے۔ البتہ اس علاج میں سائیڈ ایفیکشن کا کوئی تصور نہیں۔ آکوپنکچر طریقہ علاج کے دوران روزے دار مریض کو سوائیاں گھسانے یا چبھونے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ بے ہوشی‘ نشئی‘ مرگی‘ کمر کا اچانک درد‘ تشنج کے دورے کیلئے فرسٹ ایڈ آکوپنکچر پوائنٹس استعمال ہوتے ہیں۔ ہارٹ اٹیک کی صورت میں مخصوص جگہ کی مالش کرکے حرکت قلب نارمل کی جاسکتی ہے۔واضح رہے کہ 24اکتوبر کو دنیا بھر میں آکو پنکچر ڈے منایا جاتا ہے۔

 

”تم پر جنات کا سایہ ہے ،بیٹے کی قربانی کر دو“ممتا نے جگر گوشے کی جان لے لی

شاہدرہ(بیورو رپورٹ) سنگدل ماں نے عامل کے کہنے پر اپنے جواں سالہ بیٹے کو قتل کر ڈالا۔ فیروزوالہ کے علاقہ جوائی پورہ میں افسوس ناک واقعہ پیش آیا سنگدل ماں نے جعلی عامل کے کہنے پر اپنے بیٹے کا قتل کر دیا کیونکہ تنویر فاطمہ ایک سال سے بابکوال گاوں میں جعلی عامل نوید کے پاس جاتی تھی اور اس پر جعلی عامل نے اس کو بتایا کہ تم پر جنات کا سایہ ھے اور وہ تم کو مار دیں گے اگر تم بچنا چاہتی ہو تو اپنے بیٹے کی بھلی دو سفاک ماں نے کچھ سوچے سمجھے اپنے 22 سالہ بیٹے ذیشان حیدر کی قربانی دینے کا سوچ لیا اور روز اس کے ہاتھ پاوں باندھ کر اس پر جعلی عامل کا بتایا علم پڑھتی دو روز قبل بھی ذیشان کا دوست شانی جب اس سے ملنے گھر گیا تو دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس کے ہاتھ پاوں باندھ کر اس کے ماں اس کے بالوں سے پکڑ کر کچھ بول رہی ھے جب اس نے تنویر فاطمہ سے پوچھا تو ٹال مٹول کرتے اس نے اس کے ہاتھ پاوں کھول دئیے اور آج اس نے ظلم کی انتہا کرتے اپنے ہی بیٹے رضوان کو اپنے ساتھ ملا لیا اور جیسے ہی ذیشان حیدر گھر آیا تو اس کے بھائی نے زور سے ڈنڈا اس کے سر کر مارا جس سے اس کے سر سے خون نکلنے لگا اور ذیشان زمین پر گر گیا دونوں نے مل کر اس کو چارپائی سے باندھ دیا اور پھر سنگدل ماں نے تیز دار چھڑی پکڑ کر اپنے ہی لخت جگر پر وار کرنا شروع کر دئیے جس سے ذیشان زخموں کی تاب نہ لاتا جاں بحق ہوگیا مقتول کی بیوی جب گھر آئی تو دیکھا کہ اس کے شوہر پر اس کے ماں چھڑی کے وار کر رہی ھے تو اس نے چیخ و پکار شروع کر دی خس پر اہل علاقہ جمع ہوگیا اور پولیس کو اطلاع دی پولیس نے موقع پر پہنچ کر ماں اور بھائی کو رنگے ہاتھوں گرفتار کرلیا جب ماں سے ابتدائی تفتیش کی گئی تو اس نے بتایا کہ اس نے سب اپنے پیر نوید کے کہنے پر کیا لیکن اس کے بیٹے کو جنات نے قتل کیا جو میرے اندر آئے ہوئے تھے میں نے اپنے بیٹے کو قتل نہیں کیا پولیس نے مقتول کی بیوی کی درخواست پر مقدمہ درج کر لیا اور جعلی عامل نوید کی گرفتاری پر چھاپے مار رہی ھے جبکہ جعلی عامل فرار ہونے میں کامیاب ہو چکا ھے۔

خود کش بمبار داخل تصویر جاری سنسنی خیز انکشافات نے خفیہ اداروں کی نیندیں اُڑا دیں

لاہور (خصوصی رپورٹر) نوعمر خودکش بمبار کی پنجاب آمد ،حساس اداروں کی جانب سے مبینہ خود کش بمبار کی تصویرسمیت تفصیلات فراہم کر دی گئیں ،شہر کے داخلی و خارجی راستوں پر سکیورٹی مزید بڑھا دی گئی ۔ذرائع کے مطابق پنجاب کے اہم شہروںمیں یوم عاشورہ کے موقع پر ممکنہ دہشتگردی کے حوالے سے قانون نافذ کرنے والے اداروںکی جانب سے خفیہ اطلاعات پر کالعدم تنظیم کے (گیدارگروپ)کے کمانڈر غفران کی جانب سے کم عمر خودکش بمبار کو پنجاب روانہ کیا گیا ہے ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ کم عمر نوجوان جو کہ شکل و صورت سے افغانی دکھائی دیتا ہے لاہورسمیت پنجاب کے کسی بھی اہم شہر میں خودکش بمبار کے طور پر بھجوایا گیا ہے تاکہ محرم الحرام کے دنوں میں تخریب کاری کی بڑی کاروائی کی جاسکے ۔ مبینہ خودکش حملہ آور کی تصویر کو ایس پی سے لیکر بیٹ افسران تک تمام لاہور پولیس کو شیئر کر دیا گیا ہے جبکہ اس مبینہ خودکش حملہ آور کی تصویر کو تھانوں میں بھی آویزا ں کر دیا گیا ہے تاکہ تھانوں میں آنے والے شہری بھی اس دہشتگرد کو دیکھ سکیں اور اگر کسی کو اس کے متعلق کچھ معلومات ہوں تو وہ پولیس کو بتا دیں ۔حساس اداروں کی رپورٹ کے بعد لاہور کے تمام داخلی وخارجی راستوں پر سکیورٹی مزید سخت کر دی گئی اور شہر میں داخل ہونے والی تمام گاڑیوں اور شہریوں کو مکمل چیکنگ کے بعد داخلے کی اجازت دی جائے گی جبکہ شہر میں بھی سرچ آپریشنز کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔

.

بدھ فوج سے بچ جانیوالوں کی بی بی سی سے گفتگو،تہلکہ خیز ،شرمناک ،خوفناک انکشافات

ڈھاکہ، کاکس بازار(خصوصی رپورٹ)برما نے کھلم کھلا اپنے جرائم کا اعتراف کرتے ہوئے چین کی حمایت ملنے کا دعویٰ کیا ہے۔ برمی حکومت کے ترجمان زاہٹائے نے ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ رخائن میں روہنگیا کے 471 دیہات میں فوجی آپریشن کیا گیا، جس دوران 176 کو مکمل خالی کرا لیا گیا ہے۔ ترجمان کے مطابق 34دیہات جزوی خالی ہوچکے ہیں، جبکہ 45 کو آگ لگائی گئی۔ ترجمان نے دعویٰ کیا کہ جو لوگ بنگلہ دیش بھاگ رہے ہیں ان میں مبینہ عسکریت پسند، عورتیں اوربچے شامل ہیں۔ برمی ترجمان کے بیان سے روہنگیا مسلمانوں کو محصور کرنے اور ان کے وحشیانہ قتل عام کی تصدیق بھی ہوگئی ہے۔ رخائن میں 25اگست سے شروع ہونے والے فوجی آپریشن میں اب تک 3ہزار سے زائد بے گناہ افراد شہید کئے جاچکے ہیں، جبکہ لاکھوں کو نقل مکانی پر مجبور کردیاگیا ہے۔ عالمی تنظیموں کے مطابق برمی فوج اور بودھ دہشت گرد دیہات کو آگ لگانے ، مسلمانوں کو زندہ جلانے، سرقلم کرنے اور خواتین سے زیادتی میں ملوث ہے۔ ایک منظم منصوبے کے تحت مسلمانوں کو ملک سے نکالا جارہا ہے۔ دوسری جانب برمی سرکاری اخبار گلوبل نیو لائٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ چین نے مبینہ باغیوں کے خلاف فوجی ایکشن کی حمایت کردی ہے۔ اخبار کے مطابق چینی سفیر نے رخائن کی صورتحال کو برما کا اندرونی معاملہ قرار دیتے ہوئے حکام کو بتایا کہ چین روہنگیا باغیوں کے خلاف برمی فوج کی کارروائی اور آپریشن سے متاثر ہونے والے افراد کی امداد کا خیر مقدم کرتا ہے۔ دریں اثناءبرما سے بنگلہ دیش نقل مکانی کرنے والیے روہنگیا خواتین کا کہنا ہے کہ فوج نے ان کی بے حرمتی کی ہے۔ وہ تو اپنی جان بچانے میں کامیاب رہیں، لیکن بے شمار خواتین کو بے حرمتی کے بعد زندہ جلادیاگیا۔ بی بی سی کے مطابق بنگلہ دیش میں ڈاکٹروں کا کہناہے کہ بہت ساری روہنگیا خواتین انتہائی خوفزدہ ہیں اور شرم کی وجہ سے علاج سے بھی کترا رہی ہیں۔ اکھیا سے سرحد عبور کرکے کاکس بازار پہنچنے والی ہاجرہ بیگم نے بتایا برمی فوج نے ان کے گھروں کا محاصرہ کیا، جو لوگ بھاگنے میں کامیاب ہوگئے اور بچ گئے، جو نہیں بھاگ سکے وہ مرچکے ہیں۔ بے حرمتی کے بعد وہ خود کو بچانے میں کامیاب رہی، لیکن وہاں بہت ساری لڑکیاں ہیں، جن کو جلادیاگیا۔ بے حرمتی کا شکار ایک اور خاتون ریحانہ بیگم نے نومولود بچے کے ساتھ سرحد پارکی۔ اس کی 15سالہ بیٹی لاپتہ ہے۔ ریحانہ کو خدشہ ہے کہ اس کی بیٹی کو برمی فوجیوں نے اغوا کرلیا ہوگا۔ روہنگیا پناہ گزین محمد الیاس کے مطابق اس کے سامنے برمی فوجیوں نے ایک خاتون کی بے حرمتی کی، جس کے بعد اسے اور اس کے بچے کو زندہ جلادیاگیا۔ اس نے خواتین کی 5 سوختہ لاشیں دیکھیں۔ کوکس بازار میں بنگلہ دیشی ڈاکٹر اور کئی بین الاقوامی تنظیمیں روہنگیا خواتین اور بچوں کو طبی امداد فراہم کررہی ہیں۔ اکھیا میں بنگلہ دیشی ڈاکٹر مصباح الدین احمد نے بتایا کہ ان کے سامنے بے حرمتی کے 18کیسز آئے، لیکن ان کی تعداد کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے اگر متاثرہ خواتین کی نشاندہی اور طبی سہولیات فراہم نہ کی گئیں تو ان کی صحت پر طویل المدت اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔برمی فوجیوں کی سرپرستی میں بودھ انتہاپسندوں نے جیانگ بانگ کے مسلم اکثریتی علاقے میں ہزاروں مسلمانوں‘ 200 مساجد و مدارس کو شہید کیا۔ 500 افراد فوجیوں کی گولی کا نشانہ بنے‘ کئی مسلمان زندہ جلائے گئے۔ تفصیلات کے مطابق میانمار کی ریاست اراکان سے نقل مکانی کرکے بنگلہ دیش کے کتوپالنگ کیمپ پہنچنے والے 63 سالہ عالم دین مولانا دل محمد نے مسلم اکثریتی علاقے جیانگ بانگ میں تباہی کے دل دہلانے والے انکشافات کئے ہیں۔ مولانا دل محمد نے بتایا کہ وہ جیانگ بانگ نامی علاقے کے مکین ہیں اور وہ اسی علاقے کی جامعہ اسلامیہ خدام الاسلام نامی مدرسے میں تدریس سے وابستہ تھے۔ ہمارا علاقہ مکمل طور پر مسلم آبادی پر مشتمل تھا جہاں 10 ہزار گھروں میں پچاس ہزار سے زائد مسلمان آباد تھے۔ 25 اگست کو میانمار کے فوجیوں و بودھ انتہاپسندوں نے فوجی سرپرستی میں آبادی پر حملہ کیا۔ پہلے بھی متعدد بار بدھ مت کے پیروکار آبادی پر حملے کرتے رہے ہیں۔ ہر حملے میں انتہاپسند بدھ کہتے کہ تم بنگلہ دیش سے آئے ہو۔ تمہیں یہاں رہنے کا کوئی حق نہیں‘ واپس جاکر اپنے ممالک میں رہو۔ جیانگ بانگ نامی علاقے کے مسلمانوں سے لوٹ مار بھی جاری رکھی جاتی۔ 25 اگست کو سرکاری سرپرستی میں کئے گئے حملے میں تمام گھروں کو آگ لگا دی گئی۔ علاقے میں موجود 300 سے زائد مساجد و مدارس کو بھی جلایا گیا۔ بیشتر شہادتیں مسلمانوں کو زندہ جلانے و ذبح کرنے کے باعث ہوئیں جبکہ پانچ سو سے زائد مسلمان فوج کی فائرنگ سے شہید ہوئے۔ حملے کے وقت لاﺅڈ سپیکر پر مسلمانوں کو علاقہ خالی کرنے کیلئے کہا جاتا رہا۔ ابتدا میں مسلمانوں نے ڈنڈوں و لاٹھیوں سے انتہاپسند بدھوں سے مزاحمت کی کوشش کی جس پر میانمار کی فوج نے شدید فائرنگ شروع کردی۔ برمی فوج کی فائرنگ سے کئی مسلمان موقع پر ہی شہید ہوئے۔ جان بچا کر بھاگنے والی مسلم خواتین اور بچوں کو انتہاپسندوں نے پکڑ کر گھروں میں بند کرکے آگ لگانا شروع کردی۔ اسی طرح سینکڑوں خواتین و بچے ہماری آنکھوں کے سامنے زندہ جلائے گئے۔ ہماری بستی پہاڑی علاقے کے درمیان تھے۔ یہ علاقہ بنگلہ دیشی بارڈر سے قریب واقع ہے‘ ہمیں اپنے علاقوں میں پکے گھر بنانے کی اجازت نہیں تھی۔ پوری آبادی کچے گھروں پر مشتمل تھا جو بانس اور لکڑیوں سے بنائے گئے۔ اراکان سے ہجرت کرنے والوں پر بھی راستے میں مختلف مقامات پر گھات لگا کر بدھ انتہاپسند حملے کرتے رہے۔ لوگوں کو پکڑ کر خواتین و بچوں کے ساتھ ذبح کیاجاتا رہا۔ برمی فوج کی سرپرستی میں شہید کئے جانے والوں کی حتمی تعداد بتانا ممکن نہیں۔ ایک اندازے کے مطابق صرف جیانگ بانگ کے علاقے میں تین سے چار ہزار مسلمان شہید کئے گئے۔ یہ شہادتیں فائرنگ‘ زندہ جلائے جانے اور ذبح کئے جانے سے ہوئیں۔ شہداءمیں سے بیشتر خواتین و بچے ہیں۔ ان لوگوں کی بہت بڑی تعداد بھی اب تک لاپتہ ہے جو حملے کے بعد محفوظ مقامات پہنچنے کیلئے گھر والوں کو لے کر بارڈر گئے تھے۔ لوگ اپنے پیاروں کو اب بھی ایک سے دوسرے کیمپ میں دیوانہ وار تلاش کررہے ہیں۔ لوگوں کو خدشہ ہے کہ ان کے پیارے بھی کہیں راستے میں ہی شہید نہ کردیئے گئے ہوں۔