Tag Archives: Tthe panama

پاناما کیس کا فیصلہ کب،دیکھئے اہم خبر

اسلام آباد،لاہور(نمائندگان خبریں) پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ شریف خاندان کے پاس منی ٹریل نہیں ، وزیراعظم کے وکیل دلائل دیتے دیتے مزید پھنستے جا رہے ہیں ۔ شاہ محمود قریشی نے کہاکہ شہباز شریف کیخلا ف نااہلی کا کیس بنتا ہے ¾وزیراعظم کے استعفیٰ پر دیگر سیاسی جماعتیں بھی پی ٹی آئی کے موقف پر متفق ہیں ¾ ن لیگ والے بتاتے کیوں نہیں ہم کس کی زبان بول رہے ہیں۔ نعیم الحق نے کہا کہ وزیراعظم کے اقتدار میں رہنے کے چند دن رہ گئے اور عہدے سے ہٹنے کے بعد ان پر ماڈل ٹاﺅن، پاک فوج کے خلاف سازش کرنے اور ترقیاتی منصوبوں میں کرپشن کے مقدمے چلیں گے، مولانا فضل الرحمان، نواب ثنااللہ زہری اور محمود خان اچکزئی نے نواز شریف سے مراعات لے کر اپنا ضمیر بیچ دیا ہے، نواز شریف کے خلاف تمام الزامات ثابت ہوچکے ہیں اور یہ ان کے دفاع میں اس لئے کھڑے ہیں کہ اگر وہ چلے گئے تو ان کی لوٹ مار ختم ہوجائے گی۔تحریک انصاف کے ترجمان فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کے وکیل نے عدالت میں دلائل مکمل کرلئے اور جمعہ تک اس کیس کا فیصلہ آجائے گا۔فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ وزیراعظم کے والد کے کیا اثاثے ہیں اس حوالے سے نہیں پتا اور یہ بھی نہیں پتا کہ نواز شریف کے بیٹے کے کیا اثاثے ہیں۔فواد چوہدری نے کہا کہ وزیراعظم کے صاحبزادے حسن نواز 16 سال کی عمر میں ارب پتی بن گئے لیکن نواز شریف کو پتا ہی نہیں چلا۔ سید صمصام علی بخاری نے کہا ہے کہ شریف فیملی کے گرد گھیرا تنگ ہورہا ہے، کرپشن کرنے والوںکا کاو¿نٹ ڈاو¿ن شروع ہوچکا ہے، پانامہ کیس کے فیصلے کے بعد(ن) لیگ کا ٹکٹ لینے والا کوئی نہیں ہوگا، وزیراعظم اور ان کے درباریوں کا مستقبل تاریک دیکھ رہا ہوں۔ سابق گورنر پنجاب چوہدری محمدسرور نے کہاہے کہ ہم کسی خاندان ےا شخصےت نہےں کر پشن کےخلاف ہےں تمام جماعتوں میں کرپٹ سیاستدانوں کا سخت احتساب ہونا چاہئے‘(ن) لےگ کے جعلی دستاوےزات ہی انکے خلاف اصل سازش ہے جسکے ذمہ دار وہ خود ہےں ‘شریف فیملی آج منی ٹریل اور ثبوت دے دےں تو معاملہ ختم ہوجائےگا مگر حکمرانوں کے پاس کوئی منی ٹر ےل او ر ثبوت نہےں وہ قوم کو بے وقوف بنانے کی ناکام کوشش کر رہے ہےں ُوزراءکا کام جے آئی ٹی اور سپر ےم کورٹ پر گولے برسانا نہےں ۔ ایم این اے پی ٹی آئی علی محمد خان نے کہا کہ عدالت آج بھی شریف خاندان سے منی ٹریل مانگتی رہی، شریف خاندان آج بھی منی ٹریل نہ جمع کرواسکے۔

پاناما الزامات کے باوجود بیشتر سربراہان مملکت برسراقدار

لاہور(خصوصی رپورٹ)پاکستان کی طرح دنیا کے دیگر ممالک میں بھی پاناما لیکس ایک ہاٹ ایشو ہے تاہم پاکستان کے وزیراعظم نوازشریف کے سوا کسی حکمراں کیخلاف تحقیقات نہیں ہوئی اور پاناما الزامات کے باوجود بیشتر ممالک کے سربراہ اب بھی برسراقتدار ہیں ، آئس لینڈ کے وزیراعظم نے پاناما کو عالمی سازش قرار دیا ، مالٹا کےوزیر اعظم اہلیہ پر خفیہ اکاونٹس کے الزام پر مستعفی ہوئےمگر واضح برتری سے پھر الیکشن جیت گئے، پاناما پیپرز میں روسی صدر پوٹن کے دوستوں کے بھی نام ہیں تاہم وہ بھی سعودی ، قطری اور اماراتی شاہی خاندان کی طرح کارروائی سے بچےرہے۔ اس پر گرما گرم بحث جاری ہے۔چندسربراہان مملکت سمیت کئی عالمی شخصیات آف شور کمپنیوں یا خفیہ اکاونٹس کے مالک ہیں یا ان پر مالک ہونے کا الزام عائد کیا جارہا ہے ۔الزامات بے بنیاد بھی گردانے گئے جبکہ عوام کی عدالت نے ان الزامات سے بری کر دیا۔اس وقت کسی بھی بین الاقوامی شخصیت یا حکمران کے خلاف پاناما پرکوئی کارروائی نہیں ہو رہی ہے سوائے نواز شریف کے۔ پاناما کی لا فرم موزیک فانسیکا کی دستاویزات کے افشا ہونے کا فوری اثریہ ہوا کہ جنوبی یورپی ملک مالٹا میں فوری تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ 43سالہ وزیراعظم جوزف مسکاٹ کی اہلیہ مشیلے (Michelle)پر الزام لگایا گیا کہ اس کے خفیہ آف شور اکاﺅئنٹس ہیں ،اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مالٹا کے سربراہ کو قبل از وقت انتخابات کا اعلان کرنے پر مجبور کر دیا گیا ۔ اپوزیشن نے کرپشن کا الزام عائد کرتے ہوئے وزیر اعظم کے استعفی کا مطالبہ کر دیا۔یعنی مالٹا کے دارالحکومت میں اپوزیشن کے ہزاروں افراد کے مظاہرے کے بعد حکومت کی مدت پوری ہونے سے 10ماہ قبل ہی انتخابات کرانے کا اعلان کر دیا گیا جس سے مظاہرین کوکسی حد تک ٹھنڈا کر دیاگیا۔جرمنی کے سرکاری بین الاقوامی براڈ کاسٹر ڈی ڈبلیو کے مطابق اس ایشو پر آزاد مجسٹریل انکوائری شروع کر دی گئی،تاہم جوزف مسکاٹ 3جون 2017 کو لیبر پارٹی کے پلیٹ فارم سے دوسری بار واضح برتری سے انتخابات جیت گئے۔اس بار انہوں نے 2013 کے انتخابات کے مقابلے میں زیادہ ووٹ حاصل کئے جس سے ثابت ہوا کہ ان کے خلاف ساری مہم منفی تھی۔ فاتح وزیراعظم کی لیبر پارٹی نے بڑے پرسکون طریقے سے مہم چلائی جس میں ان وعدوں پر بطور خاص زور دیا گیاجن کا مقصد ملک کی دولت کی بہتر تقسیم پر توجہ دینا تھا جس سے مالٹا نے 2013 کی انتظامیہ کے تحت مثالی معاشی ترقی کی۔2013 میں لیبر پارٹی نے جو عہد و پیمان کئے ان میں ورکروں کو سرکاری چھٹیوں کا حق دیا گیا،پورے ملک میں سڑکوں کی تعمیر و مرمت کا سات سالہ منصوبہ بنایا گیا اور 60ہزار یورو سے زیادہ کمائی کرنے والے ہر ورکر کو ٹیکس بونس دیا گیا ۔ اگرچہ مالٹا میں آف شور اکاﺅنٹ کا مالک ہونا غیر قانونی نہیں لیکن وزیراعظم جوزف مسکاٹ کی اہلیہ پر آف شور اکاﺅنٹس کے مالک ہونے کے الزام نے یقینا سخت سیاسی ردعمل پیدا کر دیا تھا۔ وزیراعظم نے اس الزام کو رد کیا کہ ان کی اہلیہ نے آذر بائیجان کے صدر کی بیٹی سے شیل کمپنی کے ذریعے رقم حاصل کی جسے لا فرم موزیک فونیسکا نے قائم کیا تھا۔ یہاں یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ 2016 میں مالٹا کے وزیراعظم کے دو معاونین کے نام بھی پاناما پیپرز میں موجود ہیں اوروہ شیل کمپنیوں کے مالک ہیں۔ یہ وزیر کونارڈمزی اور وزیراعظم کے چیف آف سٹاف Keith Schembri ہیں۔ مالٹا کے وزیر مزی کی اہلیہ سائے مزی لیانگ جو چین میں مالٹا کی ٹریڈ ایلچی اور شنگھائی میں مالٹا کی قونصل جنرل ہیں، کا اپنے بچوں سمیت نیوزی لینڈ میں ایک ٹرسٹ کی بینی فشری کے طور پر بھی نام آیا۔ یہ بھی ہر کسی کو معلوم ہے کہ پاناما پیپرزمیں آف شور کمپنیوں کا ایشو منظر عام پر آنے کے محض دو دن بعد آئس لینڈ کے وزیراعظم سگمنڈر گنلاگسن کو5 اپریل2016 کو اقتدار سے الگ ہونا پڑا کیونکہ ان پر عوامی دبا ﺅ تھا کہ ان کے خاندان نے آف شور کاﺅنٹ سے مالی فائدہ اٹھایا ہے۔ وہ 2009 سے لے کر اکتوبر2016 تک پروگریسو پارٹی کے چیئرمین بھی تھے۔ آئس لینڈ کے وزیر اعظم نے جب سے وزارت عظمی سے استعفی دیا ہے وہ مسلسل یہی کہتے چلے آ رہے ہیں کہ وہ عالمی سازش کا شکار ہوئے ہیں۔ وہ اکثر کہتے ہیں کہ امریکن ٹائیکون جارج سورس، ایس وی ٹی، آئی سی آئی جے اور کچھ آئس لینڈ کے میڈیا ہاﺅسز نے ان کے خلاف سازش کی ہے۔ مارچ 2017میں آئس لینڈ کے سابق وزیراعظم سگمنڈر نے مزید الزام لگایا کہ ایس وی ٹی کو دیئے گئے انٹرویو کو جھوٹا رنگ دیا گیا اور انٹرویو لینے والے صحافی نے کنفیوژ کرنے کی پوری کوشش کی۔ (حوالہ جات:دی آئس لینڈ ریویو اینڈ دی گارڈین) ۔آئس لینڈ کے وزیراعظم کے استعفی کے بعد پوری دنیا کے بک میکرز نے شرطیں لگانا شروع کر دیں کہ آف شور اکاﺅنٹس کے راز افشا ہونے کے بعد اقتدار سے الگ ہونے والا اگلا عالمی لیڈر کون ہوگا۔ 10اپریل 2016 کو یوکرینی وزیراعظم Arseny Yatsenyuk نے اعلان کیا کہ وہ بڑھتے ہوئے سیاسی بحران کی وجہ سے استعفی دے دیں گے۔ ان کا استعفی اس وقت سامنے آیا جب ان کے ملک کے صدر پیٹرو پوروشینکو جن کی پاناما پیپرز کے بعد جانچ پڑتال کی جا رہی تھی، نے کہا کہ انہوں نے ٹیکسوں سے بچنے کے لئے آف شور کمپنی بنائی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 20جون 2017 کواپنے یوکرینی ہم منصب پیٹروپوروشینکو سے واشنگٹن میں ملاقات کی جس سے یہ سوال زیادہ شدت اختیار کر گئے کہ آیا ٹرمپ انتظامیہ روسی جارحیت کی صورت میں اپنے پارٹنرز کو تحفظ دے گی؟ ایسوسی ایٹڈ پریس لکھتا ہے کہ ٹرمپ کی یوکرینی صدر سے ملاقات کو وائٹ ہاﺅس نے بنیادی طور پر ایک مختصر ڈراپ ان قرار دیا لیکن دونوں صدور نے اوول آفس میں اکٹھے تصویر بنوائی۔ یوکرینی صدر نے امریکہ کے نائب صدر مائیک پنسی اور اعلی نیشنل سکیورٹی ایڈوائزرز سے بھی ملاقاتیں کی۔ جب یوکرینی صدر پاس ہی بیٹھے تھے تو صدر ٹرمپ نے کہا کہ پوروشینکو سے ملاقات بڑے اعزاز کی بات ہے اور امریکہ کے یوکرین کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے بہت زیادہ پیش رفت ہوئی ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب یوکرینی صدر نے 2014میں اقتدار سنبھالا تو انہوں نے عہد کیا تھا کہ وہ اپنا کینڈی بزنس فروخت کر دیں گے لیکن پاناما لیکس میں یہ بات سامنے آگئی کہ 21اگست2014کو انہوں نے اور موزیک فونیسکانے برٹش ورجن آئی لینڈز میں آف شور کمپنی قائم کی۔ صدر پیٹرو نے اپنی کمپنی کو ٹیکس ہیون میں منتقل کر دیا اور یہ کام ان کے اقتدار میں آنے کے کوئی دو ماہ بعد ہوا۔6 اپریل2016 کو برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون پر بھی آف شور سے فائدے حاصل کرنے اور ذاتی ٹیکس چوری میں مداخلت کی بنا پر استعفے کا دباﺅ تھا۔ 11 اپریل2016 نیویارک ٹائم کے مطابق برطانوی دارالعوام میں پاناما پر بحث1 گھنٹہ 27 منٹ اور 21 سیکنڈز تک جاری رہی جس میں ڈیوڈ کیمرون کے ذاتی فنانس یا دوسرے افسران کے فنانسز کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا اور نہ ہی کسی بڑی پالیسی کا اعلان کیا گیا۔ جب سے پاناما پیپرز کا ایشو سامنے آیا ہے ہے تب سے پارلیمنٹ کے اندر آف شور بینک اکاﺅنٹ اور شیل کمپنیوں کی دولت چھپانے اور ٹیکس بچانے پر بھرپور بحث ہوئی اور یہ برطانیہ کی دونوں بڑی پارٹیوں کو اپنے ویژن کو آگے لانے کا بہترین موقع ہے۔

پاناما کیس :وزیر اعظم اور بچوں سے متعلق تازہ ترین خبر

اسلام آباد (ویب ڈیسک)پاناما کیس کی جے آئی ٹی نے ایف بی آر سے 1985 سے 2016 کے دوران وزیر اعظم اور ا±ن کے بچوں کی جانب سے جمع کرائے گئے ٹیکس گوشواروں کی تفصیلات طلب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق پاناما کیس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کی جانب سے تشکیل دی گئی جے آئی ٹی نے ایڈیشنل ڈائریکٹر واجد ضیاءکی سربراہی میں دستاویزات جمع کرانے کا کام تیز کردیا ہے۔ جے آئی ٹی میں اب تک ملنے والے ریکارڈ کا موازنہ کیا جارہا ہے اور اس دوران پیدا ہونے والے سوالات کو الگ کیا جارہا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی نے ایف آبی آر سے 1985 سے 2016 تک وزیر اعظم اور ا±ن کے بچوں کے ٹیکس گوشواروں کی تفصیلات منگوانے کا فیصلہ کیا ہے، اس سلسلے میں ایف بی آر کو خصوصی طور پر خط لکھا جائے گا۔