لاہور (وقائع نگار) چیف ایڈیٹر روز نامہ خبریں ضیاشاہد نے سپیکر پنجاب اسمبلی رانا محمد اقبال سے ملاقات کی۔ سپیکر نے روزنامہ خبریں کی 25ویں سالگرہ پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ضیاشاہد کی زیرادارت شائع ہونے والے اس روز نامہ نے پاکستانی قوم کے سیاسی شعور کو بیدار کرنے میں اہم کردا ادا کیا۔ اس موقع پر ضیاشاہد اور رانا محمد اقبال کے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا چیف ایڈیٹر روزنامہ خبریں نے کہا کہ پنجاب اسمبلی کی عمارت جمہوریت کی محافظ ہے جس سے سیاسی جماعتیں طاقت حاصل کرتی ہیں لیکن یہ افسوسناک پہلو بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ اراکین اسمبلی کی اکثریت ایوان میں نہیں آتی اور کورم پورا نہ ہونے پر اجلاس ملتوی کرنا پڑتا ہے۔ سپیکر رانا محمد اقبال کا اس حوالے سے کہنا تھاکہ بطور سپیکر میرے لئے تمام اراکین ایک جیسی اہمیت کے حامل ہیں اور میں بطور کسٹوڈین آف ہاﺅس انہیں اس حوالے سے صرف یاددہانی کروا سکتا ہوں ان کو اجلاس میں شرکت کے لئے زبردستی نہیں کرسکتا۔ انہوں نے کہا کہ برطانیہ جیسے ملک میں اگر قانون سازی کا کام نہ ہو رہا ہو تو صرف تین ارکان سے بھی اسمبلی کا اجلاس مکمل کیا جاتا ہے لیکن یہاں کچھ مخصوص ارکان جان بوجھ کر کورم کی نشاندہی کرکے اجلاس ملتوی کروا دیتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میری ذاتی رائے ہے کہ پنجاب اسمبلی کے ارکان کو اپنی حاضری کو یقینی بنانا چاہیے کیونکہ ان کے ووٹرز نے انہیں منتخب کر کے اسمبلی میں بھیجا ہے کہ وہ ان کیلئے قانون سازی جیسا اہم ترین کام کریں۔ اس حوالے سے حکومت اور اپوزیشن کو ملکر قانون سازی کرنی چاہیے تاکہ اراکین اسمبلی کی حاضری کو معزز ایوان میں یقینی بنایا جاسکے۔ رانا محمد اقبال نے کہا میں جب سے رکن اسمبلی منتخب ہوا ہوں ایک بار صرف پانچ گھنٹے کی تاخیر سے اجلاس میں شریک ہوا، ورنہ آج تک میری حاضری سو فیصد رہی ہے۔ سپیکر پنجاب اسمبلی نے ضیاشاہد کی 50سالہ صحافتی خدمات کو بھی شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔ اس موقع پر چیف ایڈیٹر روز نامہ خبریں ضیاشاہد نے سپیکر پنجاب اسمبلی کو اپنی تازہ تصانیف ”امی جان“ ، ”گاندھی کے چیلے“ اور ”باتیں سیاستدانوں کی“ مطالعہ کیلئے پیش کیں۔
لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ میاں نوازشریف پچھلے 35 سال سے اپنی پارٹی کی سربراہی کر رہے ہیں۔ پہلے وہ رسمی صدر نہیں بھی تھے تو بھی قیادت انہی کے پاس تھی اب وہ باقاعدہ پارٹی صدر منتخب ہو چکے ہیں۔ وہ ایک لمبے عرصے سے اقتدار میں ہیں۔ وہ وزیراعلیٰ بھی رہے۔ پھر وزیراعظم بنے پرویز مشرف نے فوج کی مدد سے انہیں نکال دیا۔ کچھ عرصہ جیل میں گزارنے کے بعد وہ سعودی عرب چلے گئے۔ آٹھ سال وہاں گزارے پھر واپس آئے اور جیت کر دوبارہ حکومت بنائی۔ اب دوبارہ وہ مسائل کا شکار ہیں۔ انہیں عدالت نے صادق اور امین نہ رہنے پر اقامہ کی بنیاد پر نااہل کر دیا سابقہ ریفرنسز کے بعد آج کی خبر یہ ہے کہ ان پر مزید ریفرنسز بھی بھیجے جائیں گے انہیں نیب عدالت میں مقدمات کا سامنا ہے۔ ایک مقدمہ میں پیش نہ ہونے کی وجہ سے قابل ضمانت وارنٹ بھی جاری ہو چکے ہیں۔ ان کے بیٹوں کے بھی وارنٹ جاری ہو چکے ہیں لیکن وہ پاکستان میں موجود نہیں ہیں۔ ان کی صاحبزادی مریم نواز کے خلاف اور ان کے داماد کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف بھی ریفرنس عدالت میں ہیں۔ مقدمات کا سلسلہ پھیلتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ نااہلی کے بعد شاہد خاقان عباسی کو وزیراعظم بنا دیا گیا۔ تاہم وہ نوازشریف کو ہی اپنا وزیراعظم مانتے ہیں۔ مخالفین کی جانب سے دعوﺅں کے باوجود مسلم لیگ (ن) کے 60 یا 70 (پرندے) ایم این اے ابھی تک ان کی شاخ سے اُڑے نہیں ہیں۔ میاں شہباز شریف، شاہد خاقان عباسی، خواجہ آصف اور دیگر رہنما لندن گئے تھے۔ میٹنگ کے اعلامیہ کے طور پر انہوں نے کہا ہے کہ ”مائنس نواز“ فارمولا زیر غور تک نہیں ہے۔ نوازشریف تمام تر کرائسز کے باوجود سیاست میں ”گرپ“ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور ان کے مخالفین کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔ عوام نے انہیں منتخب کیا ہے۔ چند لوگوں کے بیان سے نہیں کہا جا سکتا کہ ن لیگ ٹوٹ گئی ہے۔ ان کی پارٹی کی اکثریت موجود ہے۔ وہ مزید ترامیم بھی کروا سکتے ہیں۔ نوازشریف کو جتنی بھی سزا ہو جائے۔ آئین پاکستان کی رو سے صدر پاکستان ان کی سزا معاف کر سکتے ہیں۔ قتل کے ملزم کو تمام عدالتیں مل کر پھانسی کی سزا دے دیں اور سپریم کورٹ میں اپیل بھی خارج ہو جائے تو بھی صدر پاکستان رحم کی اپیل برائے سزا معاف کر سکتا ہے۔ بھٹو کی پھانسی کو جب صدر ضیاءالحق کے اپیل مسترد کی تو اسے پھانسی دی گئی۔ نوازشریف کے خلاف مالی بے ضابطگی کے کیسز ہیں۔ انہوں نے کسی کو قتل نہیں کیا۔ صدر ممنون حسین انہیں ملنے والی ہر سزا کو معاف کر سکتے ہیں۔ اور اگر وہ ترامیم کے ذریعے نااہلی بھی ختم کروا سکیں تو پھر اقتدار کا راستہ نکال سکتے ہیں۔ عمران خان اور تمام سیاسی پارٹیاں مل کر اگر شور مچاتی رہیں اور صدر سے معافی کی درخواست مسترد کروانے کی کوشش کرتی رہیں اور وہ مسترد کروانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو انتشار کا خطرہ بن سکتا ہے۔ آصف زرداری مفاہمت کے بادشاہ ہیں وہ کسی وقت بھی بدل جاتے ہیں۔ پاکستان میں بادشاہت ہے۔ جمہوریت تو یہاں ہے ہی نہیں۔ ولی خان کے بعد ان کے رشتہ دار اقتدار میں آئے اسی طرح فضل الرحمن نے اپنے والد کی گدی سنبھال لی۔ اسی طرح سمیع الحق اپنی پارٹی کے صدر ہیں۔ اسی طرح نوازشریف اور شہباز شریف کے بچے، سیاست سے متحرک ہیں۔ مریم نواز کے بارے کہا جا رہا ہے کہ اگلی وزیراعظم وہ ہوں گی۔ اطلاع ملی ہے کہ شہباز شریف اور نوازشریف میں صلح ہو گئی ہے پچھلے دنوں کچھ تناﺅ تھا۔ لیکن سنا ہے کہ وہ تناﺅ آج ختم ہو گیا ہے فیصلہ ہوا ہے کہ اگر نوازشریف مقدمات سے نہ بچ سکے تو شہبازشریف اگلے وزیراعظم اور مریم نواز وزیراعلیٰ پنجاب ہوں گی۔ بڑے اخبارات، جنگ، نوائے وقت کے مقابلے میں کہا جاتا تھا کہ نیا اخبار نکالنا مشکل ہے۔ جنگ کراچی سے لاہور آیا، اسلام آباد گیا،راولپنڈی گیا اسی طرح نوائے وقت اسلام آباد، لاہور سے کراچی تک گیا۔ اس زمانے میں روزنامہ مشرق نکلا۔ وہ این پی ٹی کا اخبار تھا، اس نے سرکاری اخبار کی حیثیت سے بہت زور پکڑا۔ لوگ تصویر کا دوسرا رخ دیکھنا چاہتے ہیں۔ سرکاری خبریں تو ریڈیو، ٹی وی پر مل جاتی تھیں۔ یہ حکومت کے پاس تھے۔ 14 سال نوائے وقت اور جنگ میں رہنے کے بعد میں نے روزنامہ پاکستان نکالا۔ پہلا کمرشل کامیاب اخبار ثابت ہوا۔ تقریباً 5 ماہ میں اس کی سرکولیشن ایک لاکھ تک پہنچ گئی۔ چیف ایڈیٹر کے طور پر میرا نام چھپتا تھا۔ انہوں نے مجھے علیحدہ کر دیا میں عدالت بھی نہیں گیا۔ اس کے فنانسر اکبر علی بھٹی ایم این اے تھے۔ انہیں میڈیسن کنگ کہا جاتا تھا۔ ”خبریں“ کا تجربہ تلخ تھا۔ میرے پاس فنانسر نہیں تھے۔ ورکنگ صحافی ہونے کے سبب وسائل اتنے موجود نہیں تھے۔ اخبار نکالنے کیلئے اس وقت 20 کروڑ درکار تھے۔ یہ تجربہ بہت مختلف تھا۔ لاکھانی صاحب نے ”ایکسپریس“ نکالا۔ میاں عامر نے ”دنیا“ اخبار نکالا۔ وہ بھی بہت بڑے کاروباری انسان ہیں۔ میاں حنیف صاحب فیصل آباد کے صنعت کار ہیں انہوں نے 92 اخبار نکالا۔ لاہور یونیورسٹی والے رﺅف صاحب نے ”جہان پاکستان“ نکالا سپیریئر یونیورسٹی والوں نے ”نئی بات“ نکالا۔ مختلف تجارتی گروپوں نے اپنے اپنے اخبار نکالے۔ بعض کامیاب بھی ہوئے۔ میرے جاسے کم آمدن والے صحافی جس کے پاس تنخواہ کے سوا کچھ نہ ۔ پبلک لمیٹڈ سیکٹر میں تھوڑے تھوڑے سرمائے اکٹھے کئے گئے جوڑ جوڑ کر تین یا پانچ کروڑ اکٹھے ہوئے۔ اتنے ہی بینک کے لون لے کر ہم نے خبریں لاہور اور اسلام آباد 10 یا 12 کروڑ روپے سے نکال دیا۔ اس کے ڈائریکٹر تھے۔ ہارون آباد کی زمین میں نے بیچی۔ لاہور کا پلاٹ بیچا۔ عزیز رشتہ داروں سے پیسے اکٹھے کئے ایک ساتھی نے پلاٹ بیچ کر اس میں ڈالے۔ حًریں لوگوں سے اکٹھے کئے ہوئے پیسوں سے نکالا جانے والا واحد پبلک لمیٹڈ سیکٹر کا اخبار تھا۔ میں اس کا مالک نہیں ہوں۔ پس شیئر ہولڈر ہوں ہر تین سال کے بعد الیکشن ہوتا ہے۔ یہ نئے تجربے کا اخبار تھا۔ یہی تجربہ صنعتوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ خبریں لاہور اور اسلام آباد سے نکالا پھر ملتان اور پشاور سے نکالا۔ پھر کراچی اور حیدرآباد سے نکالا۔ سکھر اور کراچی سے ”خبرون“ سندھی کا اخبار نکالا کراچی سے اب بھی نکل رہا ہے۔ ”خبراں“ کے نام سے پنجابی اخبار نکالا۔ پنجابی کی ریڈر شپ کم ہے۔ اس میں دو کروڑ کا نقصان کرنے کے بعد اسے بند کر دیا۔ میرے بیٹے عدنان شاہد ”مرحوم“ نے بڑی محنت سے لاہوہر اور اسلام آباد سے ”دی پوسٹ“ کے نام سے خوبصورت انگریزی اخبار نکالا۔ نصرت جاوید صاحب اسلام آباد میں ریذیڈنٹ ایڈیٹر بنے۔ عمر چیمہ ہمارے چیف رپورٹر تھے۔ امریکہ سے واپسی پر لندن میں 36 سال کی عمر میں عدنان شاہد کو ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ فوت ہو گئے۔ وہ اخبار نہیں چل سکا۔ ان کی بیگم نے تھوڑی دیر چلانے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ ہم کوئٹہ سے خبریں شروع کر رہے ہیں۔ تقریباً ایک ماہ میں سامنے آ جائے گا۔ اس کے علاوہ گوادر سے روزنامہ خبریں کا آغاز کرنے جا رہے ہیں۔ اگلے تین مہینوں میں یہ شروع ہو ج ائے گا۔ اس کی پالیسی ”جہاں ظلم وہاں خبریں“ رکھی تھی۔ محروم طبقے کی نمائندگی کے لئے ہم غریب اور نادار لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ ان کی خبریں چھاپتے ہیں میری بیٹی ڈاکٹر نوشین اور امتنان شاہد اس کے ایڈیٹر ہیں۔ خبریں ہیلپ لائن نہ صرف ان لوگوں کی مدد کرنی ہے۔ ٹیمیں جا کر ان کی حبریں لیتی ہیں اور لیگل ہیلپ کے لئے نوجوان وکلاءان کے کیس بھی لڑتے ہیں۔ خبریں جنوبی پنجاب میں لاہور میں اور کے پی کے میں بھی یہی پریکٹس شروع کرنے والی ہیں۔ ایک خدمت کا جذبہ لئے ہم (25) سلور جوبلی منا رہے ہیں۔ ہم نے پرانے دوستو ںکو آج کے ڈنر پر بلایا ہے۔ بڑی کوشش کی ہے کہ دوسرے شہروں سے بھی لوگ آ کر اس میں شریک ہوں۔ بہت دوستوں نے ہمارے ساتھ تعاون کیا، لیاقت بلوچ صاحب نے پہلا دفتر لے کر دیا اسی طرح اس بلڈنگ کی پہلی منزل انہوں نے لے کر دی پھر ہم آہستہ آہستہ پیسے دیتے گئے اور ساتوں منزلیں خرید لیں۔ دُعا ہے کہ یہ پھلے پھولے اور آگے بڑھے۔
وہاڑی (بیورو رپورٹ) خبریں گروپ آف نیوز پیپرز کے چیف ایگزیکٹو، تجزیہ نگار اور صحافی ضیا شاہد نے کہا ہے کہ پاکستان کی 70 فیصدآبادی کا دارومدار زراعت سے وابستہ ہے۔ زرعی شعبہ میں انقلاب برپا کرنے کیلئے پانی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ دریائے ستلج میں پانی کی کمی کے مسئلہ کو حل کرنے کیلئے پاکستان کے قیام کے بعد کسی حکومت نے کوشش نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت دریائے ستلج پانی کی شدید کمی کا شکار ہونے کی وجہ سے بہاولپور اور وہاڑی کے اضلاع کی سونا اگلتی زمینیں بنجر ہو رہی ہیں۔ یہاں تک کہ اس خطہ میں آبی حیات کا بھی خاتمہ ہو چکا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے روزنامہ خبریں کے تعاون سے ستلج میں پانی چھوڑنے کے سلسلہ میں قائم ہوا ہے۔ ہیڈ اسلام تک نکالی جانے والی ریلی کے اختتام پر ویڈیو لنک کے ذریعے ریلی کے شرکاءسے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ضیا شاہد نے اعلان کیا کہ ستلج میں پانی نہ چھوڑنے کے خلاف روزنامہ خبریں اس مسئلہ کو اقوام متحدہ تک پہنچائے گا اور بھارت کو پانی چھوڑنے پر مجبور کر دے گا۔ قبل ازیں قائم سے شروع ہونے والی ریلی کی قیادت خدایار چنڑ، خبریں ملتان کے جنرل منیجر اسلم اکرم زئی، انچارج نمائندگان محمد اشرف سعیدی، بیورو چیف وہاڑی شیخ خالد مسعود ساجدنے کی۔ ریلی ایک بجے دن شروع ہو گی اور براستہ حاصل پور ہیڈ اسلام پر پہنچی۔ ریلی کے شرکاءنے بڑے بڑے بینرز، جھنڈے اٹھا رکھے تھے۔ 7 میل لمبی ریلی میں ہزاروں شہریوں کاشتکاروں جن میں بہاولپور، قائم پور، حاصل پور، ہاڑی، میلسی، بورے والا کے خبریں کے نمائندگان اور سول سوسائٹی کے ارکان میں شامل تھے۔ مقررین نے اس عزم کا اظہار کیا کہ دریائے ستلج میں پانی چھوڑے جانے تک احتجاج کا سلسلہ جاری رکھیں گے اور سندھ طاس معاہدہ کے مطابق پانی کا حصہ پورا لے کر رہیں گے۔
بہاول پور، حاصل پور، قائم پور، جمال پور، وہاڑی، میلسی، لڈن، کرم پور، خیر پور ٹامیوالی، چھونا والا (نمائندگان) ”خبریں“ گروپ آف نیوز پیپرز، چینل ”۵“ کے تعاون سے تحریک ‘ بحالی صوبہ بہاول پور کے صدر خدا یار چنڑ کے زیراہتمام دریائے ستلج میں پانی کی بندش کے حوالے سے تاریخی ریلی نکالی گئی جس میں وسیب کے تمام طبقات ‘تنظیموں نے ہزاروں کی تعداد میں شرکت کی، جگہ جگہ ریلی کا والہانہ استقبال کیا گیا، منوں پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں۔ دریائے ستلج ہیڈ اسلام پر ریلی سے خان خدایار چنڑ‘ وسیم انور کونسلر‘ آصف ایڈووکیٹ‘ محمد نعیم ایڈووکیٹ‘ عبدالشکور نمبردار‘ مہر محمد سلیم نمبردار‘ عبدالقدیر خان چنڑ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دریائے ستلج میں پانی کی فراوانی ہماری معیشت اور آنے والی نسلوں کے لئے ضروری ہے۔ جناب ضیاشاہد نے اس حوالے سے آواز بلند کرکے دھرتی کا فرزند ہونے کا حق ادا کردیا۔ ہم انہیں اس حوالے سے خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور ان کی درازی عمر اور صحت کے لئے دعاگو ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بہاول پور صوبے کی بحالی کے ساتھ ساتھ دریائے ستلج میں پانی فراہم کرنے کے لئے فوری اقدامات کئے جائیں۔ ہمیں اطلاع ملی ہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں مزید 18کمپنیوں کو 47پن بجلی پراجیکٹ لگانے کے ٹھیکے دیئے ہیں اور 10اضلاع میں ڈیم بھی تعمیر کئے جارہے ہیں جوکہ سندھ طاس معاہدے کی سخت خلاف ورزی ہے۔ حکومت کو اس حوالے سے فوری طور پر آواز بلند کرنی چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ بہاول پور صوبہ کی بحالی کا بھی اعلان کرنا چاہیے۔ قبل ازیں ریلی قائم پور سے خدایار چنڑ کی قیادت میں شروع ہوئی جو ہیڈ اسلام تک پہنچتے پہنچتے ہزاروں کی تعداد میں ایک جلسہ کا روپ اختیار کرگئی۔ انہوں نے کہا ہے کہ قیام پاکستان سے پہلے دریائے ستلج بہاولپور ڈویژن میں پانی کی کمی نہ تھی اور علاقہ کے کاشتکار، کسان بھی خوشحال تھے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت جب چاہتا ہے دریائے ستلج ودیگر دریاو¿ں کا پانی روک دیتا ہے اور ملک کے حکمرانوں، سیاستدانوں، ارکان اسمبلی، حکومت نے بھی احتجاج اور سندھ طاس معاہدے پر عمل نہیں کروایا۔ انہوں نے کہا ہے کہ دریائے ستلج کی بندش سے بہاول پور ڈویژن کی سونا اگلنے والی زمینیں بنجر ہوگئی ہیں۔ نہری سسٹم تباہ ہوچکا ہے۔ نہری پانی پر لڑائیاں ہورہی ہیں۔ نہری پانی کا نظام بھی ختم ہوچکا ہے۔ علاقہ کے لوگ نہری پانی کو ترس رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت سندھ طاس معاہدے کے ذریعے 3دریاﺅں کی پانی کی فروخت کے بعد دریائے ستلج کے خشک ہونے سے جنوبی پنجاب بہاول پور اور بہاول نگر اضلاع کو زبردست نقصان پہنچا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بہاول پورڈویژن کے ارکان اسمبلی نے اس اہم ایشو پر آواز بلند کرنے کے بجائے تھانہ کچہری کی سیاست اور اپنے من مرضی کے افسران اپنے حلقے میں تعینات کرواتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکمران دریائے ستلج ودیگر دریاو¿ں میں پانی کے لئے مسئلہ کو عالمی سطح پر اٹھائیں۔ ہیڈ اسلام پر احتجاج کے دوران لوگوں نے اپنے بازوو¿ں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر احتجاج اور حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔ بھارتی وزیراعظم مودی کا پتلہ نذرآتش کیا گیا۔ احتجاج کے دوران ہیڈ اسلام پر ٹریفک بند ہوجانے سے مسافروں کے بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ ریلی کے شرکاءنے بڑے بڑے بینرز اور جھنڈے اٹھا رکھے تھے۔ 7میل لمبی ریلی میں ہزاروں شہریوں، کاشتکاروں جن میں بہاول پور، بہاولنگر، چشتیاں، قائم پور، حاصل پور، وہاڑی، میلسی، کرم پور، بوریوالہ کے ”خبریں“ کے نمائندگان اور سول سوسائٹی کے ارکان بھی شامل تھے۔ مقررین نے اس عزم کا اظہار کیا کہ دریائے ستلج میں پانی چھوڑے جانے تک احتجاج کا سلسلہ جاری رکھیں گے اور سندھ طاس معاہدے کے مطابق پانی کا حصہ پورا لے کر رہیں گے۔ احتجاج ودھرنے میں اہل علاقہ سے اظہاریکجہتی کے لئے چیف ایڈیٹر جناب ضیاشاہد کی خصوصی ہدایات پر جی ایم ”خبریں“ مسٹر اسلم اکرام، انچارج نمائندگان اشرف سعیدی، بیورو چیف بہاول پور چودھری عمران شمس، بیورو چیف وہاڑی شیخ خالد مسعود سمیت تمام ضلع کے نمائندگان اور علاقے کے ہزاروں کی تعداد میں افراد نے شرکت کی۔
لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) سینئر صحافی ضیا شاہد نے کہا ہے کہ اس وقت ن لیگ پر جتنا پریشر ہے اور ہمیشہ سے میرا یہ موقف رہا ہے کہ ن لیگ کبھی نظریاتی جماعت نہیں رہی یہ ہمیشہ سے اہل سیاست اور مقتدرقوتوں کی ارینجمنٹ ہوتی ہے لہذا جب کبھی پریشر بڑھتا ہے تو ن لیگ کے حصے بخرے ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ اور آج کل بھی اس کا ایسا ہی حال ہے۔ شہبازشریف بیک وقت دو کشتیوں میں سوار ہیں جب تک وہ واضع طور پر یہ فیصلہ نہیں کرلیں کہ انہوں نے کیا کرنا ہے تو بات نہیں بنے گی۔ ان کے سامنے سیاست کو بچانے کا ایک ہی راستہ ہے یا تو وہ نوازشریف کی کرپشن کا اعتراف کریں اور کھل کر ان سے اظہار لاتعلقی کریں اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو سارے نہیں لیکن یقینی طور پر کچھ لوگ ان کے ساتھ مل جائیں گے۔ کیونکہ پنجاب پاور بیس ہے اور وہ ایک مدت سے پنجاب میں بسرسراقتدار ہیں۔ شہباز شریف سیاسی گیم سے کام لے رہے ہیں۔ وہ ان کے ساتھ بھی ہیں۔ اور ان کے خلاف اپنی بات بھی رجسٹر کراتے رہے ہیں لہذا میں سمجھتا ہوں کہ ان کو کوئی بھی سنجیدگی سے نہیں لے رہا ان کو لوگوں کو واضع طور پر بتانا چاہیے کہ وہ کیا کررہے ہیں۔ اگر وہ سابق وزیراعظم کے ساتھ بھی رہنا چاہتے ہیں اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ وہ جاتے جاتے اپنی ساری سیاست ان کی جھولی میں ڈال دیں۔ اورنگزیب عالمگیر کی تعریفیں کرتے ہوئے مورخ تھکتے نہیں کہ وہ ٹوپیاں بن کر گزارہ کرتے تھے اور قرآن پاک کی کتابت سے گزارہ کرتے تھے۔ حالانکہ میں نہیں سمجھتا کہ ایسا ہوگا یہ تاریخ جھوٹی لگتی ہے ایسے منفی اور پرہیزگار شخص نے بھی اپنے باپ شاہجہاں کو معزول کیا اور بارہ سال قلعے کے برج میں بند رکھا اور ایک دن اس نے پیغام بھیجا کہ میں اکیلا تھک جاتا ہوں تو کچھ بچے بھیج دیں تاکہ میں ان کو پڑھا کر اپنا وقت پاس کرسکوں تو ان کے بیٹے نے جواب بھجوایا کہ ابھی تک حکمرانی کی سوچ آپ کے دماغ سے گئی نہیں میں بچے نہیں بھیجوں گا تو اقتدار اتنی ظالم چیز ہوتی ہے شہبازشریف کو ابھی تک سمجھ نہیں آرہی وہ بیچ میں کھڑے ہوئے ہیں وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اقتدار کا پکا ہوا پھل ان کی جھولی میں آن گرے گا تو ایسے نہیں ہوگا۔ ن لیگ پر اس وقت پریشر بہت زیادہ ہے ایسے وقت میں نوازشریف کے طرز حکومت کا اعتراف کرنے والوں میں لگتا ہے کہ صرف خواجہ سعد رفیق ہی باقی بچ جائے گا۔ طلال اینڈ کمپنی کو میں سیاست کے طبلچی کہتا ہوں یہ سارے بھاگ جائیں گے۔ آپ اس سوسائٹی کا تصور بھی نہیں کرسکتے جس میں نیب عدالت میں کارروائی ہورہی ہو اور سو ڈیڑھ سو آدمی بھیج کر آپ حج کو جانے پر مجبور کردیں ایسے سسٹم کو کوئی بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ اور معاشرے ایسے سسٹم سے چل ہی نہیں سکتے۔
اسلام آباد (سیاسی رپورٹر) 16 اکتوبر کو پنجاب ہاﺅس اسلام آباد میں خبریں کے چیف ایڈیٹر ضیاشاہد نے سابق وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی سے تفصیلی ملاقات کی اور قومی اور سیاسی امور پر تبادلہ خیال کیا۔ اس موقع پر خبریں اور چینل ۵ کے تجزیہ کار اور کالم نگار محمد مکرم خان بھی موجود تھے۔ چودھری نثار علی خان نے گفتگو کے آخر میں یقین دلایا کہ میری تمام تر وفاداریاں کسی شخص یا پارٹی سے کہیں زیادہ اپنے ملک کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کے ساتھ ہیں۔ میں نے زندگی کا طویل حصہ مسلم لیگ ن میں گزارہ اور ہر مرحلے پر پارٹی قیادت کو مثبت مشورے دئیے۔ میرا ضمیر مطمئن ہے کہ میں نے اپنی پارٹی اور لیڈرشپ سے وفاداری نبھائی لیکن میری اصل کمٹمنٹ اللہ کی خوشنودی کے بعد ملک و قوم کے مفادات کی ترجمانی ہے اور جب تک میری زندگی قائم ہے میں ملک و ملت کی بہتری اور سربلندی کےلئے کام کرتا رہوں گا۔ متعدد سوالوں کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایک تفصیلی ملاقات آپ سے اور ہو گی۔ جس میں آپ سے موجودہ مسائل کے علاوہ مستقبل کے لائحہ عمل پر تبادلہ خیال کریں گے کیونکہ میں نے زندگی بھر آپ کی قومی سوچ اور عوامی احساسات کی قدر کی ہے۔ آپ سیلف میڈ صحافی اور ملک و ملت کا درد رکھنے والے دانشور ہیں اور میں مشکل سے مشکل دور میں آپ کو حق اور سچ کی بات کرنے پر خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ پارٹیاں اور لیڈر قابل احترام ہوتے ہیں لیکن ملک و قوم کی اہمیت ان سے بہت اوپر ہے۔ میرے لئے دعا کریں اور مجھے ہر مرحلے پر اپنے مشورے سے نوازیں۔ ضیاشاہد نے انہیں اپنی چاروں تازہ کتابیں پیش کیں۔ ”باتیں سیاستدانوں کی“ کے اوراک الٹتے ہوئے چودھری نثار نے کہا آپ نے ایک عرصہ ہماری پارٹی اور اس کی قیادت کی خدمت کی، کتاب میں اس کا تذکرہ کیوں نہیں۔ ضیاشاہد نے کہا کہ آپ کو یاد ہو گا کہ میری پہلی ملاقات مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف صاحب سے جنرل غلام جیلانی نے اس وقت کروائی جب وہ پنجاب کے گورنر تھے۔ انہوں نے بتایا کہ اتفاق کے مالک میاں شریف کے صاحبزادے محمد نواز شریف کو ہم سیاست میں لانا چاہتے ہیں۔ نوائے وقت سے بات ہو چکی کیونکہ مجید نظامی صاحب سے میاں شریف کے دوستانہ تعلقات ہیں روزنامہ جنگ کی طرف سے آپ ذمہ داری لیں۔ ضیاشاہد نے بتایا کہ پہلے دن کی ملاقات سے آخری ملاقات تک جو گزشتہ دنوں نااہلی کے بعد پنجاب ہاﺅس کے اسی کمرے میں ہوئی تھی۔ نواز شریف کے بارے میں دلچسپ یادداشتیں لکھنا شروع کر دیں۔ برس ہا برس سے بیشمار تذکرے آئندہ کتاب میں آئیں گے جسے لکھنا شروع کر دیا ہے۔ چودھری نثار علی خان کے سوال پر ضیاشاہد نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ کتاب کا نام ”نواز شریف …. مجھے کیوں نکالا“ رکھیں۔ کتاب چھپی تو آپ کو ضرور بھیجوں گا۔
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) روزنامہ خبریں کے چیف ایڈیٹر ضیا شاہد نے گزشتہ روز وفاقی وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات محترمہ مریم اورنگزیب سے ان کی رہائش گاہ پر تفصیلی ملاقات کی۔ یہ ملاقات اڑھائی گھنٹے تک جاری رہی۔ ملاقات کے دوران ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال، معاشی حالات اور میڈیا کے کردار بارے تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس موقع پر محترمہ مریم اورنگزیب نے اپنی رہائش گاہ پر ڈنر کا اہتمام کیا اور چیف ایڈیٹر خبریں ضیا شاہد کی طرف سے کتابوں کے تحائف پر شکریہ ادا کیا۔خبریں کے کالم نگار محمد مکرم خان، ریذیڈنٹ خبریں اسلام آباد امتیاز بٹ اور جنرل منیجر خبریں اسلام آباد عابد مغل بھی اس موقع پر موجود تھے۔
لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگوکرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ ختم نبوت قانون کے معاملے میں قومی اسمبلی کے سارے ارکان قصور وار ہیں۔ سب کو 62,63 کے تحت نااہل کر دینا چاہئے۔ ان میں اتنی بھی عقل نہیں کہ سب نے اسمبلی میں س بل پر ہاتھ کھڑے کر دیئے۔ وفاقی وزیر قانون زاہد حامد پہلے اس کا دفاع کرتے رہے کہ اس میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں، پھر خود حکومت نے اپنی غلطی تسلیم کر لی۔ اگر لوگ غصے و اشتعال میں آ کر پوچھ رہے ہیں تو یہ ہر مسلمان کا حق ہے۔ احسن اقبال کی یہ بات تسلیم نہیں کی جا سکتی کہ ”لوگ جس رائے کا اظہار کر رہے ہیں یہ ان کا حق نہیں ہے“ یہ جہاد نہیں وہ قانون پاس کرنے والے کا پوچھ رہے ہیں۔ علماءکرام نے صحیح طور پر حکومت کی غلطی کو پکڑا لیکن حکومت و علمائے کرام سے گزارش ہے کہ اس مسئلے کو فساد کی نظر نہ کیا جائے۔ کسی کو قتل کرنے کے فتوے کے حق میں نہیں ہوں۔ اگر آج احسن اقبال کی والدہ حیات ہوتیں تو وہ خود اس کے خلاف احتجاج کرتیں، وہ جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ کی رکن تھیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ لیڈر آف اپوزیشن کے معاملے پر تحریک انصاف کے پاس اتنے ممبر نہیں کہ وہ کامیاب ہو جائے۔ پی پی و ن لیگ کسی ایک نام پر متفق ہو گئے تو ٹھیک ورنہ یہ معاملہ عدالت میں جائے گا۔ خورشید شاہ کا بطور اپوزیشن لیڈرکردار مک مکا والا ہے۔ عوام کی متفقہ رائے ہے کہ اگر کوئی صحیح اپوزیشن لیڈر ہے تو وہ عمران خان ہے۔ انہوں نے کہا کہ خواجہ آصف امریکہ کو خوش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کی تجویز کے خلاف ہوں۔ انہیں یہ کہنا چاہئے تھا کہ آپ نشاندہی کریں ہم تحقیق کروائیں گے اگر درست بات ہوئی تو کارروائی کریں گے۔ اگر امریکہ حافظ سعید یا سراج الحق کے مرکز میں دہشتگردوں کی موجودگی کا کہہ دے تو کیا وزیر خارجہ وہاں بمباری کروائیں گے؟ انہوں نے کہا کہ سانحہ احمد پور شرقیہ میں جاں بحق افراد کی اجتماعی قبریں بنی ہیں۔ واقعے کے ایک ماہ کے اندر اندر ایک اسسٹنٹ کمشنر بہادر نے پولیس کی بھاری نفری کے ساتھ اس کچی بستی کو خالی کروانے کیلئے حملہ کر دیا جہاں وہ خاندان بستے تھے جن کے بچے سانحے میں جھلس کر مر گئے تھے۔ نوازشریف بطور وزیراعظم وہاں گئے۔ شہباز شریف دو دن وہاں امدادی چیک تقسیم کرتے رہے اس کے باوجود انہی معصوموں پر پولیس نے ڈنڈا چلایا۔ انہوں نے کہا کہ ملیحہ لودھی صحافی ہوا کرتی تھیں۔ جس کام کیلئے انہیں اقوام متحدہ میں بٹھایا گیا ہے اس کا تو انہیں معلوم نہیں بس ادھر ادھر کی چھوڑتی رہتی ہیں۔ بھارت ہمارے ملک میں دہشتگردی کا ذمہ دار ہے اس پر انہوں نے اقوام عالم میں کتنی لابنگ کی؟ انہوں نے مزید کہا کہ میں 16 سال تک سینسر بورڈ کا ممبر رہا۔ اس زمانے میں 3 یا 5 ممبرز کا کورم ہوتا تھا جو فلم دیکھ کر فیصلہ کرتے تھے کہ یہ نمائش کے قابل ہے یا نہیں۔ جس کورم میں میرا نام ہوتا تھا تو لوگ مجھ سے سفارشیں کرتے تھے کہ آپ نہ آیئے گا۔ مجھے سینسر بورڈ پر اس قدر اعتراضات تھے کہ سب مجھ سے خفا تھے لہٰذا میں نے خود ہی چھوڑ دیا۔ ڈین نسٹ یونیورسٹی اشفاق حسن خان نے کہا ہے کہ اسلام آباد کی چھوٹی چھوٹی مارکیٹوں میں بھی مختلف بیرون ممالک کے پھل فروخت ہوتے ہیں۔ حکومت نے 4 برسوں میں اس حوالے سے کوئی اقدامات نہیں کئے۔ یہ مالی سال بہت چیلنجنگ ہے۔ بیرونی اکاﺅنٹ کا خسارہ 18 ارب ڈالر ہو گا۔ ساڑھے 9 ارب ڈالر کی ڈیڈ سروسنگ چاہئے ہو گی۔ ماضی میں جو قرضے لئے ان کی ادائیگی بھی کرنی ہے تو اس طرح ساڑھے 27 بلین ڈالر چاہئے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں اس وقت امپورٹ 55 جبکہ ایکسپورٹ 22 بلین ڈالر ہے۔ 30 بلین ڈالر کا خسارہ ہے۔ یہ ایشو پیدا ہو سکتا ہے کہ تیل خریدنے کے لئے بھی پیسے نہیں ہوں گے۔ ماضی میں سعودی عرب ادھار تیل دے دیتا تھا لیکن اب وہ بھی نہیں دے گا۔ اسحاق ڈار کی وزارت کی کامیابی کے گن گانے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ جب کوئی حکومت کسی پروجیکٹ میں ناکام ہو جاتی ہے تو پھر وہ ایڈورٹائز شروع کر دیتی ہے تا کہ لوگوں کی توجہ اس سے ہٹ جائے۔ ممبر سینسر بورڈ سہیل بٹ نے کہا ہے کہ فلم ”نامعلوم افراد 2“ جس پینل نے سینسر کی اس میں میں شامل نہیں تھا۔ جس سین پر اعتراض اٹھایا جا رہا ہے وہ واقعی نہیں چلنا چاہئے تھا۔ چیئرمین یا سیکرٹری سینسر بورڈ مجاز ہیں کہ وہ درستگی کریں اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کریں۔ فلم پاکستانی ہو یا غیر ملکی قوائد اجازت نہیں دیتے کہ غیر اخلاقی سین چھوڑ دیئے جائیں۔
لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ چودھری نثار کو اپنے بیان ”بچے غیر سیاسی ہوتے ہیں“ کی وضاحت کرنی چاہئے۔ بچے بچے ہوتے ہیں یہ بات درست ہے لیکن اس بات سے متفق نہیں ہوں کہ ”مریم نواز کا مقابلہ بے نظیر سے نہیں کیا جا سکتا“ نوازشریف اور بے نظیر بھی پہلے دن بچے ہی تھے۔ مریم نواز عملی سیاست میں آ چکی ہیں۔ بڑے بڑے جلسے کر رہی ہیں، بڑا لیڈر بننے کے مراحل طے کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چودھری نثار کو چاہئے تھا کہ وعدے کے مطابق نوازشریف کے ساتھ چٹان بن کر کھڑے رہتے۔ وہ ایک گری ہوئی دیوار بن گئے ہیں اور الگ گروپ بنا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سابق وزیراعظم کو کسی مشکل میں نہیں دیکھ رہا وہ کافی صحیح پوزیشن میں ہیں۔ حسن نواز نے کہا تھا کہ ”پانامہ فیصلے کے بعد جس طرح لوگ سمجھ رہے تھے کہ پتہ نہیں کیا ہو جائے گا، یہ بڑا لمبا مرحلہ ہے اس کے کوئی فوری اثرات نہیں آئیں گے۔“ نون لیگ کی سیاست پھل پھول رہی ہے۔ ان پر کوئی قید و بند نہیں آنے والی، مریم نواز کبھی جیل نہیں جائیں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ این اے 120 کے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف اور نون لیگ دونوں طرف سے ثبوت کے ساتھ الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ تحریک انصاف پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ وہ اس حلقے کو چھوڑ کر خیبر پختونخوا میں بسنے والوں کے دوبارہ ادھر ووٹ بنوا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نون لیگ نے اس حلقے میں اپنے بہت سارے ووٹ خراب کئے ہیں۔ اب چھوٹی مذہبی و سیاسی جماعتیں ان کے ساتھ نہیں ہیں۔ دونوں پارٹیاں ووٹرز کو نکالنے کی بھرپور کوشش کریں گی، جیت اتنی آسان نہیں ہے۔ بظاہر نون لیگ ہارتی دکھائی نہیں دے رہی کیونکہ ان پر حکومتی مشینری کے بھرپور استعمال کا الزام ہے۔ سنا ہے کہ حلقے میں آدھی رات کو سرکاری نکریاں مل رہی ہیں، ترقیاتی کام ہو رہے ہیں۔ یاسمین راشد کے پاس پیسہ نہیں ہے، لگتا ہے کہ علیم خان اور جہانگیر ترین نے بھی اپنا بینک بند کر رکھا ہے اگر وہ پیسہ لگائیں تو پی ٹی آئی انتخاب جیت سکتی ہے۔ یاسمین راشد پر کوئی الزام نہیں ہے۔ حلقے میں سرتوڑ کوشش کر رہی ہیں اور ڈور ٹو ڈور انتخابی مہم چلا رہی ہیں جبکہ مریم نواز گھر گھر نہیں جا رہیں۔ پیپلزپارٹی کا بیان کہ ”اقتدار میں آ کر پنجاب کو سندھ جیسا بنا دیں گے“ پر تبصرہ کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا کہ ان سے درخواست ہے کہ رحم کریں پنجاب کو کبھی بھی سندھ جیسا انصاف نہ دلوائیں۔ این اے 120 کے ضمنی انتخابات میں پی پی کے امیدوار فیصل میر کی نسبت حافظ سعید کے امیدوار کا زیادہ چرچا سننے میں آتا ہے۔ پیپلزپارٹی کا لاہور کو اپنا قلعہ بنا لینے کا بیان ایسا ہی ہے جیسے ذوالفقار علی بھٹو نے بہت سارے لوگوں کو دیئے تھے کہ یہ زمین کے قلعے تمہارے ہوں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نوازشریف 35 سال سیاست میں رہے، لاہور ان کا گھر ہے۔ مریم نواز ان کی صاحبزادی ہیں، ان کا اپنا انداز ہے۔ وہ جہاں جاتی ہیں لوگ جمع ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ سابق وزیراعظم کی بیٹی ہیں۔ عمران خان کی جانب سے برما مظالم کے خلاف اقوام متحدہ کو خط لکھنے کے اقدام کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شاہ محمود قریشی وزیرخارجہ رہے ہیں شاید یہ مشورہ انہوں نے دیا ہو۔ بہر حال ایک اچھا اقدام ہے۔ کسی سیاسی جماعت نے کچھ تو کیا حکومت نے تو کچھ بھی نہیں کیا۔ اپوزیشن لیڈر نے ایک تحریک التوا جمع کرانے کی کوشش نہیں کی۔ اگر سیاسی جماعتیں کچھ کرتیں تو شاید حکومت کو بھی شرم آ جاتی۔ انہوں نے کہا کہ روہنگیا چین کے اثرورسوخ میں ہے۔ جس کی وجہ سے ہمارے پالیسی ساز تھر تھر کانپتے ہیں کہ کیا بات کریں۔ چین وہاں دوسرا گوادر بنانا چاہتا ہے۔ اگر چین دوست ہے تو کیا برما میں مسلمانوں پر مظالم کی بات نہیں کرنی لیکن حکمران ڈرتے ہیں کہ کہیں وہ برا نہ مان جائے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ برما میں مسلمانوں پر مظالم کے خلاف بھرپور آواز اٹھا رہے ہیں۔ گزشتہ روز اسلام آباد میں برما سفارتخانے کے باہر دھرنا دیا، آج اپر دیر میں اور 10ستمبر کو کراچی میں جلسہ کریں گے۔ اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو خطوط بھی لکھے، عالمی این جی اوز سے بھی رابطے کئے۔ لوگوں کو بیدار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ برما کے مسلمانوں کے ساتھ جو تعاون کر سکتے ہیں اسے جاری رکھا ہوا ہے۔ حکومتی کام حکومت ہی کر سکتی ہے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ اسلام آباد میں گزشتہ روز برما کے مسلمانوں پر مظالم کے خلاف احتجاج کیا، برما کے سفارتخانے تک مارچ کیا اور وہاں دھرنا دیا۔ جماعت اسلامی کے احتجاج میں ہزاروں ا مجمع تھا۔ حکومت نے سارا شہر کنٹینر لگا کر بند کیا ہوا تھا۔ مٹی کے پہاڑ کھڑے کئے ہوئے تھے۔ سفارتخانے کے اردگرد سخت حفاظتی انتظامات کئے ہوئے تھے۔ ہماری بھرپور کوشش تھی کہ پہلے مرحلے میں حکومت بیدار ہو اور پھر عالم اسلام ہو۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج جڑانوالہ اور اپر دیر میں بہت بڑا جلسہ ہے جبکہ 10 ستمبر کو کراچی میں برا مارچ کریں گے۔ برما میں مسلمانوں پر مظالم کے خلاف احتجاج ہمارا جاری ہے۔ ہم یہی کر سکتے ہیں کہ لوگوں کو بیدار کریں اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں سے رابطہ کریں۔ اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو بھی خطوط لکھے۔ جو ہمارے دیئے اسلامی تحریکوں سے رابطے ہیں ان کو فعال بنایا۔ راست کا کام تو ریاست ہی کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صدر اردگان اہلیہ کے ہمراہ برما گئے ہیں، گزشتہ روز ان کی اہلیہ بنگلہ دیش گئی ہے جبکہ ہمارے حکمران نہیں گئے۔ تجزیہ کار خواجہ ایوب نے کہا ہے کہ این اے 120 میں 2013ءوالا الیکشن نہیں، جنگ کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ نون لیگ نے اس حلقے میں اپنے 90 فیصد سے زائد ووٹ خراب کر لئے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات میں یہاں سے ان کو ٹکٹ ملے جن کا نون لیگ سے تعلق ہی نہیں تھا۔ یہ الیکشن این اے 122 والا الیکشن نظر آ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہزار، 2 ہزار سے پی ٹی آئی ہار بھی جائے تو وہ ہار نہیں ہو گی شاید وہ جیت بھی جائے۔ این اے 120 کے زمینی حقائق پہلے سے بہت مختلف ہیں۔
لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) خبریں گروپ کے چیف ایڈیٹر، سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیاشاہد نے حافظ آباد میں 15 سالہ معذور بچی کے ساتھ استاد کی زیادتی کے واقعے پر انتہائی دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسے درندہ شخص کا منہ کالا کر کے پورے شہر میں گھمانا چاہیے۔ وہاں کے لوگ اپنے ضمیر کو جگائیں اور اس واقعہ پر اٹھ کھڑے ہوں، کہہ دیں کہ اگر ملزم گرفتار کر کے عدالت پیش نہ کیا تو تھانوں کا گھیراﺅ کر لیں گے۔ آئین و قانون میں رہتے ہوئے مظلوم خاندان کو انصاف دلوائیں۔ چینل فائیو کے تجزیوں، تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیاشاہد کے ساتھ“ میں حافظ آباد واقعہ پر گفتگو کرتے ہوئے ضیاشاہد آبدیدہ ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ حافظ آباد واقعہ امریکہ اور روس کے درمیان سرد جنگ سے بڑی خبر ہے۔ مظلوم اور گواہوں کی موجودگی کے باوجود مقدمہ درج ہونے میں 24گھنٹے لگ گئے۔ ملزم تاحال گرفتار نہیں ہوا۔ شاید اس کے پیچھے کسی بڑی شخصیت کا ہاتھ ہو گا۔ ملزم گرفتار ہو بھی گیا تو عدالتی نظام اتنا طویل ہے کہ سماعت میں 8 سے 10 سال لگ جائیں گے اور پھر اگر عدالت اسے مجرم قرار دے بھی دیتی ہے تو وہ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں چلا جائے گا۔ یہاں جس کے پاس کوئی پیسہ اور بڑی سفارش ہو اس کے خلاف کارروائی نہیں ہو سکتی۔ قانون ظالم کےلئے نہیں مظلوم کےلئے ہے۔ ایسے کتنے ہی واقعات پیش آتے ہیں۔ کبھی کسی کے چہرے پر تیزاب پھینک دیا جاتا ہے۔ غریب والدین دباﺅ میں آ کر مقدمہ واپس لے لیتے ہیں کیونکہ وہ غریب ہیں، روٹی کھانے کے پیسے نہیں وکیل کی فیس کہاں سے دیں۔ غربت کے باعث لوگ اپنی 11, 10 سال کی بچی کو کسی کھاتے پیتے گھرانے میں ملازمہ کے طور پر ہزار دو ہزار کے عوض بیچ آتے ہیں کیونکہ انہیں کھانے کو روٹی چاہیے۔ قانون کہتا ہے کہ 11 سال کی بچی کو ملازمت پر نہیں رکھا جا سکتا لیکن سارا قانون صرف کتابوں میں ہی ہے۔ حافظ آباد جیسا کوئی واقعہ جب پیش آتا ہے تو وزیراعلیٰ شہباز شریف اس کے گھر چلے جاتے ہیں تو پھر مجرموں کو سزا کیوں نہیں ملتی، ایسے واقعات ختم کیوں نہیں ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ جب سے خبر سنی نیند نہیں آئی، دل خون کے آنسو رو رہا ہے، حافظ آباد کے لوگوں کو نیند کیسے آگئی؟ اس بچی کی عزت کی حفاظت کرنا ان کی ذمہ داری تھی۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسروں سے پوچھتا ہوں کیا آپ کی کوئی بیٹی نہیں؟ کونسا ریکارڈ ہے جس سے معلوم ہو کہ گھریلو ملازمہ بچیوں پر کیا ظلم ہو رہا ہے، کتنوں کے چہروں پر تیزاب پھینکا گیا، آج تک کسی کو سزا ملی۔ یہاں عام آدمی کےلئے کوئی انصاف نہیں۔ 20کروڑ کی آبادی میں 98 فیصد لوگ مظلوم ہیں، صرف پروردگار سے دعا ہی کی جا سکتی ہے۔ 98 فیصد لوگ عدالت کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔ ظلم کرنے والے 10 فیصد جبکہ مظلوم 90 فیصد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حافظ آباد واقعہ جیسی بے ہودگیوں کی وجہ سے فرانس میں لوگ تنگ آ کر بادشاہ کے خلاف کھڑے ہو گئے تھے۔ پھر مجرموں کی گردنیں کاٹنے میں وقت لگتا تھا تو تاریخ بتاتی ہے کہ ایک آلہ ”گلوئینز“ تیار کیا گیا، اس میں اوپر سے تلوار قسم کی کوئی چیز نیچے گرتی تھی اور گردن کو جسم سے الگ کر دیتی تھی۔ جب بے انصافی حد سے گزر جاتی ہے تو ان معاشروں میں پھر گلوئنیز لگتی ہیں۔ جس سے مجرموں کی گردنیں کاٹی جاتی ہیں۔ یہاں اسمبلی، سینٹ، عدالتیں، قانون سب موجود ہے تو پھر انصاف کہاں ہے۔ قائداعظم نے کہا تھا کہ جہاں مظلوم کو انصاف نہ ملے مجھے ایسا پاکستان نہیں چاہیے۔ اب عوام نے فیصلہ کرنا ہے کہ کیا ان کو ایسا پاکستان چاہیے؟ انہوں نے کہا کہ حافظ آباد کا ڈی پی او واقعے پر بات کرنے کو تیار نہیں، اس کو معلوم ہے کہ میڈیا سمیت کوئی بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا کیونکہ اسے بھی تو کسی تگڑے نے تعینات کیا ہوگا۔ ڈی پی او یہاں جواب نہ دے لیکن یاد رکھے کہ مرنے کے بعد جواب دینا پڑے گا، زندگی مختصر ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکمران شاید عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کے انتظار میں ہیں۔ استاد معذور بچی کو ڈیڑھ سال زیادتی کا نشانہ بناتا رہا اور دھمکیاں دیتا رہا کہ اگر گھر بتایا تو دیکھنا تیرا اور تیرے گھر والوں کا کیا حشر ہوتا ہے۔ ایسے ہی ایک حملے میں جب بچی ہسپتال پہنچی تو شور مچا۔ کسی کے اپنے اختیار میں نہیں ہے کہ وہ معذور یا غریب گھرانے میں پیدا نہ ہو۔ ایسے درندہ صفت شخص کو فوری گرفتار کر کے عبرتناک سزا دینی چاہیے۔ ایک سوال پر ضیاشاہد نے کہا کہ دنیا میں خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ ہم تیسری جنگ عظیم کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک اسرائیل کا یہ کہنا کہ غور کرینگے کہ اقوام متحدہ کے ساتھ کیسے تعلقات رکھنے ہیں، دوسری وجہ امریکہ اور روس کے درمیان سرد جنگ بڑھ رہی ہے۔ ڈی آئی جی آپریشنز ڈاکٹر حیدر اشرف نے کہا ہے کہ حافظ آباد جیسے واقعات پر پولیس حرکت میں آتی ہے لیکن کچھ قانونی تقاضے بھی پورے کرنا ہوتے ہیں۔ ایسے واقعات میں سیمپل لیکر فرانزک کرانا ہوتا ہے جس کی وجہ سے تاخیر ہوتی ہے۔ میڈیکل کروایا جاتا ہے، زیادتی ثابت ہو تو فوری مقدمہ درج کیا جاتا ہے۔ حافظ آباد سے چینل فائیو کے نمائندہ مہر فاروق نے کہا ہے کہ استاد کی زیادتی کا نشانہ بننے والی 15 سالہ بچی گونگی، بہری اور ذہنی معذور ہے۔ استاد اسے شادی کرنے کا کہتا تھا اور اس طرح حیلے بہانوں سے ڈیڑھ سال اسے زیادتی کا نشانہ بناتا رہا۔ انہوں نے کہا کہ ایف آئی آر میں 2نامزد ملزم ایک سکول ٹیچر اور ا یک چپڑاسی شامل ہیں۔ ایس ایچ او سے لیکر ڈی پی او تک کوئی اس واقعے پر بات کرنے کو تیار نہیں۔