تازہ تر ین

فوجی عدالتوں میں توسیع, مخالفین بھی کھل کر سامنے آگئے

اسلام آباد (نامہ نگار خصوصی) قومی اسمبلی میں کو فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع دو سالوں کے لئے آئین و قانون میں ترامیم کے دو الگ الگ بلز منظور کر لیے گئے ‘ 28 ویں آئینی ترمیم کو 255 ووٹوں سے دو تہائی اکثریت سے زائد منظور کیا گیا ہے ، آرمی ایکٹ میں ترمیمی بل کو کثرت رائے سے منظور کیا گیا، بلز ہنگامی طور پر سینیٹ پاکستان کو ارسال کردیئے گئے ، دونوں اتحادی جماعتوں جمعیت علمائے اسلام (ف) اور پختونخوا ملی پارٹی نے حکومت کے ساتھ نہیں دیا ، قوم پرست اتحادی جماعت نے مخالفت میں ووٹ دیا جب کہ دینی اتحادی جماعت غیر جانبدار رہی ، جماعت اسلامی پاکستان آئینی ترمیم کے بارے میں اپنی ترامیم سے دستبردار ہو گئی ، دو تہائی اکثریت سے ہی حکومت اور پیپلز پارٹی کے درمیان طے پانے والی چاروں ترامیم کو منظور کر لیا گیا ، ترامیم کے تحت ملزمان کو 24 گھنٹوں میں عدالت میں پیش کرنے ، مرضی کا وکیل کرنے ، قانون شہادت کا اطلاق اور ٹرائل و تفتیش کے طریقہ کار میں ردوبدل کیا گیا ہے ،60 دنوں تک ملزم کو سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی اپیل کرنے کی شق کو برقرار رکھا گیا ہے ، توسیع کی مدت مکمل ہونے پر مقدمات انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں منتقل ہو جائیں گے ۔دونوں ترمیمی بلز وزیر قانون و انصاف زاہد حامد نے ایوان میں پیش کیے ۔ قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر سردار ایاز صادق میں ہوا ۔ وزیر اعظم محمد نواز شریف نے خصوصی طور پر اجلاس میں شرکت کی ۔جماعت اسلامی پاکستان نے بھی ترمیمی بلز کے حق میں ووٹ دیا ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان ، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ اور وفاقی وزیر ہاﺅسنگ و تعمیرات اجلاس میں شریک نہ ہو سکے ۔ پہلے مرحلے میں آرمی ایکٹ میں ترمیمی بل کی منظوری دی گئی اور نعیمہ کشور خان ، شیر اکبر خان ایڈووکیٹ ، جمشید دستی اور ایس اے اقبال قادری کی پیش کردہ ترامیم کو کثرت رائے سے مسترد اور آرمی ایکٹ میں ترامیم کو منظور کر لیا گیا۔ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے اراکین محمود خان اچکزئی ،عبدالقہار ودان ، نسیمہ پانیزئی اور جمشید دستی نے مخالفت کی ۔ دوسرے مرحلے میں 28 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کا عمل شروع ہوا ، بحث کے بعد دوسری خواندگی کے تحت ترامیم پیش کی گئیں ۔ جماعت اسلامی پاکستان کے صاحبزادہ طارق اللہ ترامیم سے دستبردار ہو گئے ۔ نعیمہ کشور نے ترمیم سے مذہب اور مسلک کے الفاظ حذف کرنے ، جمشید دستی نے توہین رسالت ، پاکستان کی سالمیت کو پامال کرنے اور مالی دہشتگردی کے مقدمات کو جائیدادوں کے سپرد کرنے کی ترامیم پیش کیں ۔ ایس اے اقبال قادری نے مذہب کے نام پر دہشت گردی کے مقدمات عدالتوں کے سپرد کرنے کی ترمیم پیش کی ان ترامیم کو بالترتیب 247،252 اور 253 کے ووٹوں سے مسترد کر دیا گیا ۔بعد ازاں وزیر قانون و انصاف زاہد حامد نے 28 ویں ترمیم کا بل منظوری کے لئے ایوان میں پیش کیا ۔ سپیکر قومی اسمبلی نے ووٹنگ کے طریقہ کار کا اعلان کیا جس کے تحت پانچ منٹ کے لئے گھنٹیاں بجائی گئیں تاکہ باہر موجود اراکین ایوان میں آ سکیں ۔ بعد ازاں 6.35 منٹ پر قومی اسمبلی کے ہال کے تمام دروازے بند کیے گئے ۔ دائیں طرف کی لابی میں ترمیم کے حق میں ووٹ ڈالنے والے اراکین نے رجسٹرڈ میں اپنے نام درج کروائے ۔ بائیں طرف ترمیم کے مخالفین نے اپنے ووٹ کاسٹ کیے ۔ نماز مغرب اراکین نے دونوں لابیوں میں ادا کیں ۔ 7.12 منٹ پر اسپیکر نے رائے شماری کے نتیجے کا اعلان کیا ۔ ترمیم کو 255 ووٹوں کے ساتھ دو تہائی اکثریت سے منظور کر لیا گیا ۔ آرمی ایکٹ کی مخالفت کرنے والے متذکرہ چاروں اراکین نے آئینی ترمیم کی مخالفت میں بھی ووٹ دیا ۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) غیر جانبدار رہی ۔28 ویں آئینی ترمیم میں کہا گیا ہے کہ ہرگاہ کہ غیر معمولی واقعات اور حالات اب بھی موجود ہیں جو اس امر کے متقاضی ہیں کہ بعض جرائم جو دہشت گردی پاکستانکے خلاف جنگ یا بغاوت سے متعلق ہیں کہ فوری سماعت کے لئے خصوصی اقدامات کئے جائیں اور ان معرکوں کو روکا جائے جن سے دہشت گرد یا دہشت گرد جماعتیں یا مسلح گروہ‘ جتھے اور جنگجو یا ان کے کے ارکان جو مذہب یا فرقہ کے نام کا غلط استعمال کرتے ہوئے یا ریاست کے خلاف سنگین اور انتہائی شدید دہشت گردی کے فعل کا ارتکاب کرتے ہوئے پاکستان کی سلامتی کو شدید خطرات سے دوچار کررہے ہیں اور ہرگاہ کہ پاکستان کی سلامتی اور مقاصد کو جو دستور سازوں کی جانب سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کے ابتدائیہ میں بیان کئے گئے ہیں بعد ازایں جس کا حوالہ دستور کے طور پر دیا گیا ہے کو دہشت گرد جماعتوں سے جنہوں نے مذہب یا فرقہ کے نام کا غلط استعمال کرتے ہوئے یا ریاست کے خلاف سنگین اور انتہا شدید دہشت رگردی کے فعل کا ارتکاب کرتے ہوئے یا بیرونی اور مقامی غیر ریاستی عناصر کے سبب فراہم کردہ فنڈ سے ہتھیار اٹھانے اور بغاوت کا شدید اور غیر متوقع خطرہ اب بھی موجود ہے ۔ مذکورہ دہشت گرد جماعتیں بشمول کوئی بھی ایسی دہشت گردی کی لڑائی جبکہ وہ مذہب یا فرقہ کے نام کا غلط استعمال کررہی ہوں یا ریاست کے خلاف سنگین اور انتہائی شدید دہشت گردی کے فعل کا ارتکاب کررہی ہوں مسلح افواج یا بصورت دیگر کے ساتھ لڑائی پر گرفتار ہوتا ہے یا گرفتار کیا جاتا ہے تو دفعہ 3 میں بعد ازیں متذکرہ ایکٹس کے تحت قائم کردہ عدالتوں کی جانب سے سماعت کیا جاتا ہے اور ہرگاہ کہ پاکستان کے لوگوں نے اپنے منتخب کردہ نمائندوں کے ذریعے اپنے پختہ عزم کا اظہار کیا ہے کہ دہشت گردوں کو پاکستان سے مستقل طور پر پوری طرح سے ختم اور جڑ سے اکھاڑ پھینک دیا جائے یہ قرین مصلحت ہے کہ پاکستان کی سلامتی اور سالمیت کے مفاد میں حسب ذیل خصوصی اقدامات لینے کے لئے ان کو آئینی تحفظ فراہم کیا جائے اور فوجی عدالتوں میں دہشت گردی سے متعلق مقدمات کی سماعت کو ممکن بنایا جائے۔ آئین میں ترمیم کی اغراض و وجود میں کہا گیا ہے کہ غیر معمولی حالات و واقعات جنہوں نے ملک کی سلامتی اور سالمیت پاکستان کو مختلف دہشت گرد جماعتوں‘ مسلح گروہوں‘ ونگز اور مسلح جتھوں اور ان کے ارکان سے پیدا ہونے والے سنگین خطرے کو مدنظر رکھتے ہوئے (دستور اکیسیویں ترمیم) ایکٹ 2015 (نمبر ابابت 2015) (دو سالہ انقضاءکی شق) کے ساتھ منظور کیا گیا تھا جس نے پاکستان بری فوج ایکٹ 1952کے تحت دہشت گردی سے متعلق مقدمات کی فوری سماعت کے قابل بنایا۔ ان اقدامات نے دہشت گردی کی بیخ کنی میں مثبت نتائج فراہم کئے لہذا اسی لئے یہ تجویز کیا جاتا ہے کہ دستوری ترمیم کے ذریعے ان خصوصی اقدامات کو مزید دو سالہ مدت کے لئے بدستور رکھا جائے۔پاکستان پیپلز پارٹی کی متذکرہ چاروں ترامیم کو آرمی ایکٹ اور آئینی ترمیم میں شامل کر لیا گیا ہے ۔ وزیر قانون و انصاف زاہد حامد نے ایوان میں یہ بھی اعلان کیا ہے کہ دو سال کی توسیع مدت مکمل ہونے پر مقدمات انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کو منتقل کر دیئے جائیں گے ۔ قومی اسمبلی میں منگل کی شام پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی کی تشکیل کی قرارداد کو اتفاق رائے سے منظور کر لیا گیا ، کمیٹی کو فوجی عدالتوں کی نگرانی کا اختیار حاصل ہو گا اور داخلی سلامتی کے معاملے پر خارجہ امور ،دفاع ،داخلہ امور اور دیگر اہم وزارتوں کو سفارشات بھجوا سکیں گی ۔پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی کی تشکیل کےلئے قرارداد وزیر قانون وانصاف زاہد حامد نے پیش کی ۔قرارداد کے مسودے میں پیپلزپارٹی کے پارلیمانی سید نوید قمر،تحریک انصاف کی ڈاکٹر شیریں مزاری اور آفتاب احمد شیرپاﺅ کی تجاویز کے تحت ضروری ردوبدل کیا گیا ۔ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے قرارداد پر رائے شماری کروائی جسے اتفاق رائے سے منظور کر لیا گیا ۔ قرارداد کے تحت پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی کو علاقائی سالمیت ، آزادی وخودمختاری کے تحفظ ، قومی دفاع، فوجی عدالتوں کی نگرانی ، داخلی سلامتی کے معاملے پر سفارشات مرتب کرنے اختیار حاصل ہوگا ۔ سینیٹ سے آج قرارداد کو منظور کر لیا جائے گا۔ یاد رہے کہ یہ کمیٹی حکومت اور پاکستان پیپلزپارٹی کے درمیان مفاہمت کے نتیجے میں قائم کی جا رہی ہے ۔ کمیٹی میں پارلیمنٹ کی تمام 20جماعتوں کی نمائندگی ہوگی ۔ قبل ازیںو فاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے 28ویں آئینی ترمیم کی منظوری پر حکومت کی طر ف سے اپوزیشن و اتحادی جماعتوں کا شکریہ اداکیا ہے انہوں نے کہا آج قابل رشک دن ہے ، آج بہت اچھا ،درست اور اتفاق رائے سے فیصلہ ہوا ہے ۔ قومی اسمبلی میں 28ویں آئینی ترمیم اور آرمی ایکٹ میں ترامیم کے حوالے سے بلوں کی کثرت رائے کی منظوری کے بعد اظہار خیال کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا کہ سینیٹ میں بھی (آج ) ایسا ہی طرز عمل دیکھنے کو ملے گا اور منظور ہو جائے گا، سینیٹ کو رولز معطل کر کے بل منظور کرنے کی درخواست کریں گے، قومی سلامتی کے امور کے حوالے سے پارلیمانی کمیٹی کے قیام کے حوالے سے وعدہ بھی پورا کر رہے ہیں۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain