تازہ تر ین

آصفہ بھٹو ،خودکشی کی کوشش ، تہلکہ خیز خبر نے کھلبلی مچا دی

لاہور (نیٹ نیوز) سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے پروٹوکول آفیسر چودھری محمداسلم نے انکشاف کیا ہے کہ سابق وزیر داخلہ جنرل (ر) نصیراللہ بابر نے محترمہ بینظیر بھٹو کی طالبان کے لیڈر بیت اللہ محسود سے ٹیلیفون پر بات کرائی تو بیت اللہ محسود نے محترمہ بینظیر بھٹو سے کہا کہ ہم خواتین کو نشانہ نہیں بناتے اور آپ کے قتل کے منصوبے کو مجھ سے منسوب کرنے کی اطلاعات میں صداقت نہیں۔ رحمان ملک اور بابر اعوان بینظیر بھٹو کے قتل کی سازش میں شامل ہیں‘ انہیں ابھی تک شامل تفتیش کیوں نہیں کیا گیا‘ نجی ٹی وی سے گفتگو میں اظہارخیال۔ پروٹوکول آفیسر نے مزید کہا کہ بینظیر نے خود کہا تھا کہ اگر میرا قتل ہوا تو اس کے ذمہ دار پرویزمشرف‘ اعجاز شاہ اور پرویزالٰہی ہوں گے۔ کراچی میں سانحہ 18اکتوبر بی بی کے قافلے پر حملے کے بعد بی بی نے خود تھانے جا کر وہاں انہی لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی تھی جس پر آج تک عملدرآمد نہیں ہوا اور اسی سابق ڈی جی آئی بی اعجازشاہ نے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا۔ ایک سوال پر چودھری اسلم نے بتایا کہ پشاور میں سابق وزیر ارباب عالمگیر کے گھر میں جنرل (ر) نصیراللہ بابر نے میری موجودگی میں بیت اللہ محسود کو فون کیا اور ان سے گفتگو میں تقریباً 8منٹ تک گفتگو کی‘ فون کا مائیک کھلا ہوا تھا جس کے بعد نصیراللہ بابر نے فون بینظیر کو پکڑاتے ہوئے کہا‘ اپنی بہن سے بات کرو تو بینظیر نے کہا کہ ”آپ مجھے مارنا چاہتے ہو“ جس پر بیت اللہ نے کہا کہ آپ ہماری بہن ہیں اور ہم عورتوں پر ہاتھ نہیں اٹھاتے۔ ذوالفقار علی بھٹو جب ہمارے علاقے میں آئے تو ہم انہیں گھر لے کر گئے۔ آپ نے بھی کام کئے‘ آپ کے وزیراعظم بننے سے ہمیں فائدہ ہوگا اور خوشی بھی۔ چودھری اسلم نے کہا کہ محترمہ بینظیر جب لیاقت باغ سے گاڑی میں روانہ ہوئیں تو ایک مرسڈیز بلٹ پروف گاڑی ان کیلئے مختص تھی لیکن بابراعوان اور رحمن ملک اس گاڑی میں بیٹھ کر محترمہ کی سکیورٹی کے ہمراہ اسلام آباد پہنچ گئے اور سازش کے تحت محترمہ کو اکیلا چھوڑا گیا اور ان کی سکیورٹی بھی واپس لے لی گئی۔ اس سارے معاملے کی اب تک تحقیقات نہیں کرائی گئی۔ ڈاکٹر عاصم کے جیل سے رہا ہوتے ہی بینظیر کے قتل کی ویڈیو منظرعام پر آ گئی۔ نجی ٹی وی (اے آر وائی) پر چلنے والے ویڈیو کلپ کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو چند چونکا دینے و الے انکشاف سامنے آ جاتے ہیں۔ ویڈیو کلپ میں دیکھا جا سکتا ہے پہلے تین گولیاں فائر کی جاتی ہیں اور پھر ساتھ ہی دھماکہ ہو جاتا ہے۔ اگر ویڈیو کو سلوموشن میں دیکھا جائے تو صاف نظر آ رہا ہے کہ بینظیر بھٹو دوسری گولی چلتے ہی نیچے کی جانب گر جاتی ہیں۔ اگر اس ویڈیو کو زوم کیا جائے تو حقائق اور بھی نکھر جاتے ہیں‘ جیسے ہی پہلی گولی چلتی ہے تو محترمہ کی گاڑی کے پیچھے لٹکا ہوا سفید جیکٹ میں شخص نیچے جھک جاتا ہے اور دوسری گولی محترمہ کے سر پر لگتی ہے اور وہ نیچے گر جاتی ہیں حالانکہ اس وقت ہوا نہیں چل رہی تھی۔ محترمہ کو دوسری گولی لگتے ہی زوردار دھماکہ ہو جاتا ہے۔ یہ تینوں فائر بتیس بور کے پسٹل سے کئے گئے تھے۔ ماہرین کے مطابق یہ فائر 5سے 8فٹ کے فاصلے سے کئے گئے۔ روزنامہ نوائے وقت کے کالم نگار مطلوب وڑائچ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ کوئی شک نہیں ہے کہ آصف زرداری کا طرز سیاست اور خیالات ”میکاولی“ سے ملتے جلتے ہیں۔ محترمہ کے بھائی شہید مرتضیٰ بھٹو اور خود محترمہ کی شہادت کے زمرے میں آصف زرداری پر سنگین الزامات عائد ہوتے رہے اور ماں کی شہادت پر آصفہ بھٹو کی طرف سے اپنے بازو کی نس کاٹ کر خودکشی کی کوشش اور خود راقم نے محترمہ کی شہادت کے بعد ہونے والے الیکشن کے بعد فیڈرل کونسل اور سی ای سی کے پہلے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ممبران کے سامنے کہہ دیا تھا کہ محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل کے چھینٹے زرداری ہاﺅس کی دیواروں پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ جب آصف زرداری اپنی جابرانہ صدارت کے 5سال پورے کر چکے تو 2013ءمیں پی پی کو شکست ہوئی۔ جیالوں نے یہ سوچ کر صبر کر لیا کہ پچھلے 5سال ہم نے حکومت نہیں کی بلکہ کسی ناکردہ گناہ کا کفارہ ادا کیا ہے کیونکہ انہیں ایک امید نظر آ رہی تھی کہ اب بلاول بھٹو اپنے نانا اور شہید ماں کے ویژن‘ سوچ اور فلسفے کو لے کر آگے بڑھیں گے اور ایک دفعہ تو ایسے ہی لگا کہ یہ ہو گا مگر جب زرداری نے دیکھا کہ پاور کا توازن ان کے ہاتھ سے نکل کر محترمہ کے بیٹے بلاول کے ہاتھ میں منتقل ہو رہا ہے تو وہ اپنے داﺅ پیچ لڑانے لگے۔ پارٹی کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ جب زرداری جیل سے ضمانت پر رہا ہوئے تو انہوں نے پارٹی پر قبضہ جمانا شروع کیا تو اس وقت پارٹی میں ایک گروپ نے زرداری کی پالیسیوں کے خلاف پیپلزپارٹی کے اندر جی سیون کے نام سے ایک گروپ تشکیل دیا جس میں مرحوم ڈاکٹر جہانگیر بدر‘ افضل سندھو‘ قیوم نظامی‘ اسلم گل‘ بدر چودھری‘ میاں خالد سعید مرحوم اور رقم شامل تھے جس کا پہلا اجلاس راقم کے گھر جوہر ٹاﺅن میں منعقد ہوا۔ عرفان اللہ مروت کی پارٹی میں شمولیت کی مذمت اور ناراضگی کیلئے بینظیر کی دونوں بیٹیوں کے ٹوئٹ سے جیالوں کو نئی زندگی ملی۔ راقم کو فون کئے گئے کہ بی بی کی نوجوان ٹیم ان کے مشن کو آئندہ نسلوں تک منتقل کر سکتے ہیں وگرنہ سیاسی چیلوں اور گدھوں کا ٹولہ جس میں آصف زرداری‘ فریال تالپور‘ سراج درانی‘ ڈاکٹر عاصم اور دوسرے لوگ پارٹی کیلئے زہر قاتل ہیں۔ بینظیر کو گاڑی سے باہر نکلنے کیلئے کس نے کہا اور کس نے گولی چلائی منظر عام پر۔ ڈاکٹر شاہد مسعود نے کہا کہ عزیر بلوچ نے گرفتاری کے بعد بڑے اہم بیانات دیئے ہیں۔ خالد شہنشاہ کے قتل کی بات بھی عزیر بلوچ نے کی ہے اور یہ وہی خالد شہنشاہ ہے جو اس وقت بینظیر کے ساتھ تھا۔ ڈاکٹر شاہد مسعود نے کہا کہ بینظیر بھٹو نے گاڑی کی چھت سے اس لئے سر باہر نکالا کہ اسے بیٹی آصفہ بھٹو کا فون آیا تھا۔ آصفہ بھٹو انہیں ٹی وی پر براہ راست دیکھ رہی تھیں‘ اس وقت انہیں ہاتھ ہلانے کیلئے غالباً باہر نکلیں۔ اسی اثناءمیں سربازی بلوچ جو عزیر بلوچ سے جڑا ہوا تھا‘ نے گولی چلا دی۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain