تازہ تر ین

لیگی سیاستدانوں نے جامعات کو بھی نہ بخشا عہدوں کی بندر بانٹ کرپشن کے نئے ریکارڈ،وی سی جامعہ ذکریا اسلامیہ طاہر امین اور قیصر مشتاق نے کیسے مال بنایا دیکھئے چونکا دینے والی سٹوری

ملتان(نمائندہ خصوصی) سیاستدانوں کے ایماءپر اعلیٰ تعلیمی اداروں میں متعین ہو کر مالی،اخلاقی اور انتظامی کرپشن کے مرتکب وائس چانسلرنے پبلک سیکٹر کے تعلیمی اداروں کو ذاتی جاگیر اور سیاستدانوں کے ڈیروں کی طرز پرچلایا جس کی وجہ سے دنیا بھر میں پاکستان کے اعلیٰ تعلیم کے ادارے بدنام ہوئے۔ ذرائع کے مطابق سابق حکومت کے اہم وزیر احسن اقبال اور وزیراعظم کے مشیر عرفان صدیقی کے توسط سے وی سی تعینات کئے گئے۔ جماعت اسلامی اور مسلم لیگ ن میں انتخابی ہم آہنگی کی وجہ سے کئی کرپٹ عناصر کو یونیورسٹیوں میںتعینات کیا گیا جس کی وجہ سے وی سی اسلامیہ یونیورسٹی قیصر مشتاق اور وی سی زکریا یونیورسٹی طاہر امین نیب کے اگلے اہداف ہو سکتے ہیں۔ نیب کے پاس ان کے خلاف کرپشن کی کئی درخواستیں اور دستاویزی ثبوت موجود ہیں جن پر کارروائی رکی ہوئی ہے۔ پنجاب کی مختلف یونیورسٹیوں میں تعینات وائس چانسلرز کے اختیارات کوسب کیمپس کھولنے اور غیرترقیاتی اخراجات کےلئے بطور ہتھیاراستعمال کیاگیا۔ وائس چانسلرز کی اکثریت قوانین سے نابلد اور نااہل مشیروں کے ہاتھوں یرغمال ہو کر غلط کام کرتی رہی۔ وی سی زکریا یونیورسٹی پروفیسر طاہرامین نے دباﺅ کی وجہ سے مبینہ خودکشی کی کوشش کی جس کی فارنزک رپورٹ بھی ابھی تک سامنے نہ آسکی۔ کرپشن کے لحاظ سے بہاءالدین زکریا یونیورسٹی پاکستان کی بدترین جامعہ کہلائی جانے لگی جہاں پر مالی واخلاقی کرپشن کے ریکارڈ قائم کئے گئے۔نیب میں گرفتار اور شامل تفتیش وائس چانسلروں کو یونیورسٹیوں میں غیرقانونی بھرتیوں ، بااثر افراد کے لیے ڈگریوں کی لوٹ سیل، ترقیاتی منصوبوں میں کمیشن لے کر کرپشن کے الزامات کا سامنا ہے۔ نیب ذرائع کےمطابق ریمانڈ کے دوران کرپشن کے مزید واقعات بارے اعتراف جرم بھی سامنے آنے والے ہیں۔ حالیہ دنوں میں نیب کے ہاتھوں پنجاب کی پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کے سابق وائس چانسلرز کی گرفتاری اور ہتھکڑی لگی تصاویر اور کرپشن کی داستانوں سے دنیابھر میں یہ تاثر ابھرا کہ جس ملک میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کے قائدین سیاستدانوں کے نقش قدم پر چل کر ملکی وسائل کی لوٹ کھسوٹ میں ملوث ہوں ان اداروں کو ورلڈ رینکنگ میں کیسے پوزیشن حاصل ہوسکتی ہے۔ ان گرفتاریوں کی وجہ محض برا کردار نہیں ہے بلکہ ان تعیناتیوں پر آنے کا اصل محرک اوپر سے لے کر نیچے تک ہونے والی بندربانٹ ہے۔ اس کا اندازہ سابق مسلم لیگی حکومت کے دور میں پنجاب کی مختلف یونیورسٹیوں میں وی سی شپ پر کی گئی تعیناتیوں سے لگایا جا سکتا ہے۔ سول سیکرٹریٹ کے انتظامی ذرائع سے حاصل کی گئی معلومات کے مطابق مسلم لیگی حکومت کے اہم وزراءاور مشیروں احسن اقبال، عرفان صدیقی، چودھری جعفر اقبال اور رانا ثناءاللہ نے پنجاب کی متعدد یونیورسٹیوں میں وائس چانسلرز کی تعیناتی کو اپنا خصوصی استحقاق گردانتے ہوئے ایسے متعدد حاضر سروس اور ریٹائرڈ اساتذہ کی بطور وائس چانسلر تقرری کی سفارش کی جو ماضی میں جماعت اسلامی کی مختلف صفوں میں کارکن کی حیثیت سے کام کرتے رہے تھے۔ علاوہ ازیں احسن اقبال اور عرفان صدیقی نے مختلف ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ن اور جماعت اسلامی کے مابین انتخابی ہم آہنگی کو سامنے رکھتے ہوئے چند یونیورسٹیوں میں ایسے وائس چانسلرز تعینات کروا دیئے جو اس جامعہ کیلئے کبھی وائس چانسلر کی سیٹ کے لیے امیدوار ہی نہیں تھے۔ عرفان صدیقی نے اپنے بھائی شاہد صدیقی کو علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کا وائس چانسلر تعینات کرایا جو چند روز قبل باعزت ریٹائر ہو چکے ہیں۔ وائس چانسلرز کی تعینات میں مروجہ اصولوں ضابطوں اور ہدایات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے چن چن کر نااہل سفارشی اور مذہبی انتہاپسند عناصر کو پنجاب کی کئی یونیورسٹیوں کی قسمت کا مالک بنادیا جس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے نام پر ہائر ایجوکیشن کمیشن کی وساطت سے یونیورسٹیوں کے سب کیمپسز کھولے جانے لگے۔ پنجاب حکومت کے وزراءبھی احسن اقبال اور عرفان صدیقی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے اپنے علاقوں کی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کے دفاتر میں وجہ بے وجہ چکر لگاتے نظر آئے۔ پرائیویٹ سرمایہ کاروں کو ترغیب دی گئی اور ان افراد کو سامنے لایا گیا جن کی سات نسلوں کابھی اعلیٰ تعلیم تو کیا تعلیم سے بھی دور دور کا واسطہ نہیں تھا اور انہیں ان سب کیمپسز کا مالک بنا دیا گیا۔ ایک تحقیق کے مطابق غیرقانونی کیمپس کھولنے کے عمل میں پنجاب حکومت کے وزرائ، وائس چانسلرز ، رجسٹرار، سینڈیکیٹ کے ممبرز سوداکار ایجنٹس اور ان یونیورسٹیوں کے کرپٹ پروفیسرز بھی شامل رہے۔ سابق گورنر او چانسلر یونیورسٹیز ملک رفیق رجوانہ کے پاس پنجاب کی متعدد یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کی مختلف نوعیت کی کرپشن کے بارے میں متعدد شکایات پہنچتی رہی ہیں اور وہ اعلیٰ تعلیمی اداروں کے لیگل ایڈوائزر بھی رہے ہیں۔ یونیورسٹیز کے سب کیمپسز کی سینڈیکیٹ سے منظوری پر بھی سیاست کی گئی۔ جب تک سینڈیکیٹ ممبران کو ان کا حصہ بقدر جثہ فراہم نہ کیا گیا اس وقت تک یہ پراجیکٹس تعطل کا شکار رہے۔ بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کالج آف ایگریکلچر کے پروفیسر ممبر سینڈیکیٹ اس رشوت ستانی کی مثال ہیں جن کے بارے میں سب کیمپس لاہور کے مالک منیر بھٹی کہتے ہیں کہ 2کروڑ 32لاکھ روپے لے کر کیمپس کی منظوری کے دعوے کیے گئے تھے۔ دوسری طرف پنجاب کی متعدد یونیورسٹیوں کے سب کیمپسز میں مقررہ تعداد سے تین گنا زیادہ داخلوں کے ذریعے اربوں روپے کمائے گئے اور متعلقہ یونیورسٹیوں کو طے شدہ حصہ دیے بغیرمحض وائس چانسلرز، رجسٹرار، ممبر سینڈیکیٹ اور پروفیسرز کو خوش کیا گیا۔ ان افراد نے قطعاً کوئی پروا نہیں کی کہ ان کی یونیورسٹیاں بجٹ خسارے سے دوچار ہیں اور وفاقی صوبائی حکومتوں اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے فنڈز کا حصول بھی مشکل ہے۔ نیب ذرائع اس امر کی تحقیق بھی کر رہے ہیں کہ وائس چانسلرز نے اپنے ہنگامی اختیارات استعمال کرکے کیا کیا اقدامات کیے ہیں۔ تاہم یہ واضح ہے کہ وائس چانسلرز کے ہنگامی اختیارات بطور ہتھیار استعمال کرکے اربوں روپے کی کرپشن کے لیے راستہ ہموار کیا گیا۔ سرگودھا یونیورسٹی کے سابق وی سی اکرم چودھری بارے بتایا گیا کہ وہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور اور بہاءالدین زکریا یونیورسٹی سے متعدد بار کرپشن الزامات، مالی اور اخلاقی الزامات پر نکالے گئے تھے اور پنجاب یونیورسٹی میں ایک مخصوص گروپ کے سایہ میں پناہ گزین رہے جبکہ کامران مجاہد تو ہیں ہی پنجاب یونیورسٹی کی نمایاں پراڈکٹ اور ان پر الزام ہے کہ انہوں نے یونیورسٹی میں لسانی فسادات بھی کروائے۔ نیب ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ ان دو سابق گرفتار وائس چانسلرز سے کہیں زیادہ کرپشن کے کارنامے اسلامیہ یونیورسٹی کے وی سی قیصر مشتاق اور بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر طاہر امین نے سرانجام دیئے ہیں اور دونوں نیب کی تحقیقات کی زد میں ہیں جبکہ کرپشن کے لحاظ سے بہاءالدین زکریا یونیورسٹی نمایاں ہے جہاں مالی اور اخلاقی کرپشن کے ریکارڈ قائم کیے گئے ہیں۔ خاص طور پر 24گھنٹے میں 25گھنٹوں کی درس وتدریس کے بل حاصل کرنا ہے۔ ایاز رانا اور اکرم ٹھیکیدار کی ملی بھگت کے نتیجے میں یونیورسٹی کے 70فیصد سے زیادہ ڈویلپمنٹ پراجیکٹس ایک ہی کمپنی کو دیئے گئے۔ اکرم ٹھیکیدار کی بیٹی پولیٹیکل سائنس ڈیپارٹمنٹ کی لیکچرار جبکہ ایاز رانا کا بیٹا فارمیسی ڈیپارٹمنٹ میں لیکچرار جن کو 2کروڑ کے سکالرشپ دے کر ملک سے باہر روانہ کرایا گیا۔ پروفیسر طاہر امین کے دور میں ہونے والی 150سے زائد اساتذہ کی مبینہ غیرقانونی تعیناتیاں، شعبہ مینٹیننس کے الیکٹرک پراجیکٹس اور ڈائریکٹر سٹیٹ کے زیرانتظام اور کنسٹرکشن پراجیکٹ میں 24کروڑ کے مبینہ گھپلے۔ سابق اور موجودہ رجسٹرار فاروق احمد، مطاہر اقبال اور عمر چودھری کی متعدد معاملات میں کم وبیش 10 کروڑ سے زائد کی مبینہ کرپشن ایسے الزامات ہیں جو نیب ملتان کی خصوصی توجہ کے منتظر ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس ضمن میں ریمانڈ پر لیے گئے وی سی جلد ہی اعتراف جرم کرکے قوم کے لیے مزید بدنامی کا باعث بننے والے ہیں۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain