تازہ تر ین

وزیراعظم کی طرف سے اخبارات کو اشتہارات کے واجبات ادائیگی کا حکم خوش آئند : ضیا شاہد ، سرکاری اشتہار صرف 2 ، 3 گروپوں کی بجائے چھوٹے اداروں کو بھی ملنے چاہئیں : ڈاکٹر جبار ، بینکوں کے ذریعے بیرون ملک جانے والا بڑا سرمایہ روکنا ہو گا : شاہد صدیقی ،چینل ۵ کے پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ میڈیا کے معاملات پر کئی مہینے سے بہت ہی خراب تھے جب سے نئی حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا ہے اس سے پہلے بھی نیوز پرنٹ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا میڈیا کا بجٹ خراب ہو گیا۔ اس سے پہلے سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس نے کہا سابقہ حکومت اپنی واہ واہ کے اشتہارات چھپواتی۔ میاں شہباز شریف کو انہوں نے 50 لاکھ کا ایک جرمانہ بھی کیا تا کہ آپ نے جو ایک ٹی وی کے پروگرام میں اپنا اشتہار دیا ہے اس کے پیسے آپ اپنی جیب سے جمع کروائیں کچھ تو اِس کی وجہ سے اشتہارات کی بندش ہو گئی بعد میں نئی حکومت آ گئی اس نے الف سے لے کر یے تک اشتہار بند کر دیئے تا کہ ہم کوئی پالیسی بنائیں گے خدا کا شکر ہے کہ آج یہ پالیسی بن گئی اچھی بات ہے یہ واجبات کا ہم نے گزشتہ دنوں جب سی پی این ای، اے پی این ایس، پاکستان براڈ اسٹرز کارپوریشن اور دوسرے جو پاکستان ایڈورٹائزنگ ایسوسی ایشن ہے ان چاروں اداروں کے مشترکہ وفد سے وزیراعظم عمران خان نے ملاقات کی اس دن بھی انہوں نے کہا تھا کہ ہم عنقریب اس کی باقاعدہ پالیسی بنائیں گے۔ اچھا ہوا کہ یہ پالیسی سامنے آ رہی ہے۔ اس میں سب سے پہلے تو یہ کہ جو سرکاری واجبات اب تک جو ذمے تھے سرکاری محکموں کے وہ ان ساری پالیسیوں کی ادائیگی کے لئے آرڈر ہوا کہ وہ اخبارات کو ادا کئے جائیں تا کہ ان کی حالات کچھ بہتر ہوں، آپ نے دیکھا ہوگا کہ پچھلے 5,4 ماہ سے اخبارات میں اشتہارات کی بندش، پچھلے پیسوں کی ادائیگی نہ ہونے سے اور فلاحی کام کم ہونے کے باعث بہت زیادہ بحران پیدا ہو گیا تھا اور لوگوں کو واجبات نہیں مل رہے تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک اچھا قدم ہے اور خوشی کا باعث ہے اخبارات کے لئے اور چینلز کے لئے بھی کہ کم از کم پچھلے واجبات جو ہیں وہ ادا کر دیئے جائیں گے۔
ضیا شاہد نے کہا جہاں تک میرٹ پر اشتہارا دینے کا معاملہ ہے تو یہ تو جعلی اے بی سی کی بنیاد پر میرٹ بنے ہوئے ہیں آپ کو بطور سی پی این ای کے سیکرٹری جنرل کے اس بات کو اٹھانا چاہئے کہ یا تو نئے سرے سے سارے اے بی سی ہو یا کم از کم پچھلی اے بی سی کی بنیاد آپ جو اشتہارات کی تقسیم ہے اس کو میرٹ کی بنیاد پر نہیں کر سکتے کیونکہ آپ از خود دیکھ چکے ہیں کہ لوگوں نے جعلی اے بی سی سرٹیفکیٹ حاصل کئے ہوئے ہیں۔
سی پی این ای کے سیکرٹری جنرل جبار خٹک نے کہا کہ اس سلسلے میں یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ پرانے واجبات جو ہیں وہ دیں گے اب اس سلسلے میں آپ کو بھی پتہ ہے کہ کچھ ڈیوز پرانے حکومت کی طرف سے ریلیز ہوئے جس کی ادائیگی صوبائی حکومت، سندھ حکومت، ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں کو ہوتی لیکن وہ میڈیا کو وہ پیسہ میڈیا کو نہیں ملا۔ آپ کو اور ہمیں نہیں ملا۔ وہ بھی ایک سوال ہے۔ ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں نے تعین حکومت خود کرتی ہے۔ حکومت ذمہ داری لیتی ہے کہ ادائیگی میڈیا کی مد میں جو ریلیز کرتی ہے وہ اس بات کو یقین دہانی کرے کہ وہ متعلقہ میڈیا تک پہنچی بھی ہے نہیں اگر نہیں پہنچی تو اس کی حکومت ذمہ دار ہو اور خود دیکھے۔ دوسری بات جہاں تک آپ نے میرٹ کا مسئلہ کہا ہے۔ میرٹ کا مطلب یہ ہے کہ آپ ایڈورٹائزنگ پالیسی بنائیں اوراس پالیسی کو بناتے وقت تمام سٹیک ہولڈرز کو وہ اعتماد میں لیں فہرست میرٹ بنائیں، جو پالیسی بنے اس کے مطابق اشتہارات کی تقسیم ہو۔ وفاقی حکومت نے، وفاقی وزارت اطلاعات نے سی پی این ای کو لکھا تھا جو اپنی ایڈورٹائزنگ پالیسی ہے اس بارے میں ہمیں بریف کریں ہم نے انہیں بہت ہی جامع قسم کی اشتہاری پالیسی دی ہے جس کا ہمیں کوئی جواب ابھی تک ملا نہیں ہے اور یہ کہ پالیسی تو بتائیں کہ ان کا میرٹ کیا ہے۔ میرٹ تو آپ بھی حمایت کریں گے ہم بھی حمایت کریں گے لیکن میرٹ کا قطعی طور پر مطلب نہیں ہے کہ دور دراز کے جو علاقائی میڈیا یا لوکل میڈیا ہے یا جو درمیانے، چھوٹے میڈیا کو نظر انداز کریں اور صرف ایک یا دو میڈیا یا تین میڈیا گروپ ہیں ان کو اشتہارات سے نوازتے رہیں اور سارا ریاستی بزنس ان کو جائے۔
ضیا شاہد نے کہا کہ میڈیا پر تقریباً 6 ماہ سے ایک افتاد آئی ہوئی ہے 3 ماہ پہلے جب سپریم کورٹ میں اشتہارات بارے کیس چلا کہ سرکاری اشتہارات ایسے نہیں ہونے چاہئیں جن پر سربراہوں کی سیاسی واہ واہ ہو۔ پچھلے دور میں سارے وزراءاعلیٰ اور وزیراعظم اور متعلقہ وزراءکی بھی تصویریں چھپتی تھیں وہ ساری تصاویر روک دی گئیں۔ وہ سلسلہ پھر بند ہو گیا۔ اب نئی حکومت آئی ہے تو اس نے آج کوئی پالیسی بنائی ہے خدا کرے یہ قابل عمل ہو اور اس پر عمل ہو لیکن اب تک اس کی بھی پوزیشن یہی تھی کہ اشتہارات کا خلا جو تھا وہ بہت ہی کم ہو گیا تھا۔
ضیا شاہد نے 7000 ارب بیرون ملک جانے دوبئی میں پاکستانیوں کی جائیدادوں بارے خبر کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ یہاں دو قسم کے لوگ ہیں جن کے پاس بے تحاشا تالتو دولت ہے اور ظاہر ہے وہ بددیانتی کی دولت ہے وہ نہ صرف دوبئی، امریکہ، برطانیہ میں، کینیڈا میں، پرس میں جائیدادیں بنا رہے ہیں، آف شور کمپنیوں میں پیسہ رکھا ہوا وہ سارا پیسہ پاکستان سے لوٹا ہوا ہے جو ناجائز ذرائع سے باہر گیا ہے جسکی وجہ سے یہاں غربت بڑھ گئی ہے، مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے اور اب بینکوں کے ذریعے پیسہ باہر جا رہا ہے اس پر فوری قابو پانا ہو گا۔ اب اگر شہزاد اکبر صاحب قابو پا لیں تو بڑا کارنامہ ہو گا۔ کہنے کو تو شہباز شریف نے بھی ایک جملہ کسا تھا کہ بھاٹی گیٹ کے جلسہ عام میں آصف زرداری کے بارے میں کہا کہ انہوں نے جتنا لوٹ کا پیسہ سوئٹزرلینڈ اور دوسرے ملکوں میں جمع کیا ہے میں ان کا پیٹ پھاڑ کر واپس لاﺅں گا لیکن بعد میں ان دونوں کی صلح صفائی ہو گئی۔
ماہر اقتصادیات ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے کہا کہ شہزاد اکبر جن بیرونی اثاثوں کی بات کر رہے ہیں اس میں کئی مرحلے ہیں۔ پہلا مرحلہ تو یہ ہے کہ مثال کے طور پر اگر کوئی پاکستانی کہتا ہے کہ میں تو برطانوی شہریت رکھتا ہوں یا میں اتنے عرصے سے پاکستان میں نہیں ہوں اور جس وقت میں نے یہ خریدا تھا یہ پاکستان سے پیسہ نہیں گیا تھا مجھے باہر سے ہی پیسہ ملا تھا اور اس کا انکم کا ذریعہ بتاتا ہے۔ اس کے بعد یہ مرحلہ آتا ہے مجھے بہت سے لوگوں نے بتایا کہ ہم تو پیدا بھی وہی ہوئے ہمیں بھی نوٹس آ گیا ہم باہر پیدا ہوا کمایا بھی وہی پر ہے یہ انہوں نے سیاسی طور پر کہہ دیا ہے بغیر تصدیق کے کہہ دیا ہے۔ دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ پیسہ لانے کے لئے آپ کو باہر کی حکومت کو قائل کرنا ہے کہ یہ دولت پاکستان سے لوٹ کر گئی تھی یہ سارے کام میں بڑا وقت لگتا ہے یہ امکان ہے کہ اس حکومت کو اس مد میں بہت زیادہ رقم نہ آئے بلکہ جو آج دولت قانونی طور پر باہر جا رہی ہے بینکوں کے ذریعے اس کا حجم اس سے کہیں زیادہ ہو گا جو باہر سے لانے کی بات ہو رہی ہے۔
ضیا شاہد نے سوال کیا کہ ماضی میں سیاست دان اس قسم کی بڑھکیں لگاتے رہے ہیں یہ موجودہ اعلانات میں کوئی سنجیدگی پائی جاتی ہے کیا واقعی کوئی کوشش ہو گی۔ شاہد حسن صدیقی نے کہا کہ اگر میں آپ کو یاد دلاﺅں کہ ایک سیاستدان کا60ملین ڈالر کا کیس تھا۔ سپریم کورٹ کی بنچ بیٹھا رکتی تھی، اور ایک وزیراعظم کو عہدے بھی چھوڑنا پڑا تھا وہ تو بات بھی اب ختم ہو گئی۔ کہ پیسہ کہاں ہے کہاں گیا۔ یہ باتیں جو ہیں ان میں بہت سی کمزوریاں ہوتی ہیں۔ سیاسی دل کا فقدان ہوتاہے پوائنٹ سکورنگ ہوتی ہے میں بہت زیادہ یہ امید نہیں ہوں میں اس بات پر قائم ہوں کہ آج کی تاریخ میں پیسہ بینکوں کے ذریعے باہر جا رہا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ جس کی باہر لانے کی توقع کی جا رہی ہے۔ پریشان کن بات یہ ہے کہ ابھی سپریم کورٹ نے بھی سوموٹو لیا تھا یکم فروری 2018ءکو نوٹس لیا تھا چیف جسٹس نے فرمایا تھا کہ یہاں سے دولت لوٹ کر باہر گئی ہے اگر وہ پاکستان آ جائے تو لوگوں کو تعلیم اور صحت کے لئے پیسے ملیں گے یہ بنیادی حقوق کا مسئلہ ہے ہم سوموٹو لے رہے ہیں انہوں نے سوموٹو لے لیا اس کے بعد سے کمیشن بھی بنے سب کچھ ہوا اسی دوران میں حکومت نے ٹیکس ایمنسٹی کا اجراءکر دیا وہ جو ٹیکس ایمنسٹی جو فیڈریشن آف پاکستان کی ڈیمانڈ پر تھی انہوں نے کہا ہم پاکستان میں حالات خراب تھے لے گئے اب ہم اس پیسے کو لانا چاہتے ہیں آپ ہمیں کوئی ایسی ایمنسٹی دیں کہ ہم اس پیسے کو پاکستان واپس لائیں لیکن جس وقت وہ ایمنسٹی آئی اس پر کہا گیا کہ اگر آپ وہ پیسہ نہیں لانا چاہئے تو باہر رکھ لیں ہمیں 5 فیصد ٹیکس دے دیں وہ آرڈیننس پاس ہو گیا۔یہ آرڈیننس پاس ہونے کے بعد 30 جون کو ختم ہوگیا مگر نگران حکومت نے آکر اس آرڈیننس میں توسیع کر دی ، حلانکہ انکے پاس کوئی اختیار نہیں تھا۔ اب اس آرڈیننس کو 4ماہ کے اندر پارلیمنٹ میں آنا چاہئے تھا مگر موجودہ حکومت اسے پارلیمنٹ میں لانے سے گریزاں ہے۔ سوال تو یہ ہے کہ جسکی معلومات تھیں اس پر ایمنسٹی دیدی اور جو ملنے والا نہیں ہے اسکے پیچھے بھاگا جارہا ہے۔ اس ایمنسٹی میں لوٹے ہوئے پیسے کو باہر ہی رکھنے کی اجازت کس نے دی اور ڈیمانڈ کس کی تھی جو بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اسی لیے مجھے اس پر بہت شبہات ہیں۔
نواز شریف اور مریم نواز کے سزا معطلی کیس میں ممکنہ پیشرفت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ایڈیٹر انچیف روزنامہ خبریں گروپ کا کہناتھا کہ میں نے اخبارات میں پڑ ھااور ٹی وی چینلز پر سنا تھا کہ یہ فیصلہ 12 نومبر کو ہو جائیگا۔ اب پتا چلا ہے کہ مزید لارجز بینچ بنے گا۔ کب یہ لارجر بینچ بنے گا اور کب اس کیس کی سماعت اور فیصلہ ہوگا۔ یہ معاملہ بھی لٹکتا ہوا نظر آتا ہے ۔ البتہ یہ ضرور طے ہوچکا ہے کہ نواز شریف کی رہائی جس آرڈر کے تحت عمل میں لائی گئی اسے چیلنج کر دیا گیا ہے ۔ اگر یہ چیلنج درست ثابت ہوا تو ہو سکتا ہے کہ عدالت نواز شریف ، مریم نواز اور کیپٹن صفدرکو دوبارہ جیل بھیج دے۔
فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کا بیان قلمبند نہ ہونے اور معاملے کو طوالت دینے کے حوالے سے ضیا شاہد نے کہا کہ یہ تمام معاملات عدالتوں کو حل کرنے ہیں لیکن عدالتی عمل ایک خاص ٹائم فریم میں چلتا ہے ، فوری طور پر عمل نہیں ہوتا۔ اس لئے یہی سمجھا جاتا ہے کہ جو معاملہ عدالت میں گیا وہ 4سے 6 ماہ تک لٹک گیا۔ ہو سکتا ہے بالآخر ایک فیصلہ آئے اور ایک اچھا تگڑا فیصلہ ہو۔ بالعموم ملزم پارٹی کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ اسے زیادہ سے زیادہ وقت ملے اوروہ آخری فیصلے کو دیر تک لٹکا سکے ۔
سینئر قانون دان رشید اے رضوی نے پروگرام میں ٹیلی فونگ گفتگو میں نواز شریف کے 12نومبر کے فیصلے میں توسیع اورانصاف کے عمل میں سستی سے عوام کی مایوسی پر کہا کہ اس قسم کی کیسز کو ترجیح دیتے ہوئے پہلے سنا جانا چاہئے کیونکہ کرپشن ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ کرپشن کے کیسز کو فوری تقویت دینی چاہئے۔ لارجز بینچ بنانے کے ایشو اور نواز شریف کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے آرڈر کے خلاف اپیل کا آرڈر ابھی میں نے نہیں دیکھا کہ اسمیں لارجر بینچ بنانے کے لیے کیا وجہ بیان کی گئی ہے۔ اگر لارجر بینچ بنایا بھی جارہا ہے تویہ کیس روزانہ کی بنیاد پر چلا کر ختم کرنا چاہئے ۔ اگر وہ بے گناہ ہیں تو رہا ہوں اور اگر انہوں نے واقعی کرپشن کی ہے تو انہیں عبرتناک سزا دی جائے تاکہ آنیوالے لوگوں کے لیے راستے بند ہوں۔
زلفی بخاری کو دوہری شخصیت رکھنے کے باوجود معاﺅن وزیر تعینات کیے جانے پر وزیراعظم کو نوٹس جاری ہونے کے حوالے سے ضیا شاہد نے کہا کہ اس میں دو نقطہ نظر پائے جاتے ہیں ۔ ایک نقطہ نظر وہ جو عمران خان کہتے ہیں کہ زلفی بخاری نے سارے پیسے باہر کمائے ہیں اور پاکستان میں کوئی کاروبار نہیں کرتے اور جو بھی انہوں نے مال متاع کمایا پاکستان سے باہر کاروبار کر کے کمایا۔ دوسرا مسئلہ یہ کہ جب ایم پی اے ،ایم این اے اور سینیٹر کو اس بنیاد پر نااہل کیا جاتا ہے کہ اسکی دوہری شہریت نکل آئی تو اگروزیراعظم کے اپنے معاﺅن خصوصی کی دوہری شہریت ہو تو بڑا مشکل ہو جائے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کیس بہت دلچسپ ہوگا اور اسکا فیصلہ بالآخر اس طرح سے کرنا پڑے گا کہ بہت مشکل ہے سپریم کورٹ اس تقرری کو سپریم کورٹ تسلیم کر لے۔ اگر اس نقطہ نظر کو مان لیا گیا تو جن لوگوں کو دوہری شخصیت پر ایم این اے ، ایم پی اے یا سینٹرشپ سے ہٹایا گیا ہے انکے ساتھ بڑی زیادتی ہوگی۔ عمران خان کا اپنا نقطہ نظر ٹھیک ہوگا کہ انہوں نے ایک ایسے شخص کو اپنا خصوصی معاون بنایا ہے جس نے اپنے پیسے باہر کمائے ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ عدالت اس نقطہ نظر کو مان لے اور ہو سکتا ہے نہ مانے ۔ فیصلہ سپریم کورٹ آف پاکستان کو کرنا ہے۔
قومی اسمبلی کے ایوان کے بعد سینٹ کو بھی مچھلی منڈی بنادینے کے حوالے سے ضیا شاہد کا کہناتھا کہ متحارک فریقوں کے آپس میں ایک دوسرے پر حملے چلتے رہتے ہیں۔ اسمیں کوئی شبہ نہیں کہ دونوں طرف بہت وزنی دلائل ہیں۔ کل میں ایک تقریب میں گیا وہاں وزیراطلاعات فواد چوہدری بھی تھے۔ میں نے بھی وہاں تقریر کی اور انہوں نے بھی کی۔ انکا نقطہ نظر یہ تھا کہ اگرہم چور کو چور نہ کہیں تو کیا کہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے کوئی اچھا سا لفظ متبادل بتا دیں کہ جس شخص نے ناجائز طورپر پیسے کمائے ہیں اسکو کیا کہا جائے۔ ایسا لفظ بتائیں جس پر کسی کو اعتراض نہ ہو۔ دوسری طرف مشاہد اللہ کا بھی یہ کہنا ہے کہ جب تک کسی مجاز عدالت سے یہ ثابت نہ ہوجائے کہ کوئی شخص چور ہے ، آپ اسے چور نہیں کہہ سکتے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ قومی اسمبلی کے سپیکر اور سینٹ کے چئیرمین دونوں حضرات اور صوبائی اسمبلیوں کے سپیکر صاحبان کو اس پر کوئی رولنگ دینی چاہئے۔ اسمبلی میں اگر الزامات نہیں لگانے تو پھر کس جگہ لگانے چاہئیں ۔ لیکن یہ الزامات کس حد تک ہونے چاہئیں ، کونسا لفظ پارلیمانی ہے اور کونسا غیرپارلیمانی، کسے ادا کرنا چاہئے اور کسے نہیں۔ اس سلسلے میں سپیکر اور چیئرمین رولنگ دیں۔
اومنی گروپ کے اربوں روپے کی گڑبڑ گھوٹالے اور 8لاکھ 35 ہزار چینی کی بوریوں کے غائب ہونے کے معاملے پر ضیا شاہد نے کہا کہ اس معاملے کو ٹیسٹ کیس بنا کر چلانا چاہئے اور بڑی سختی سے نمٹنا چاہئے۔ یہ تو کوئی سزا نہیں کہ میں کہوں کہ میں نے بینک سے جو قرض لیا ہے وہ واپس کر دیتا ہوں اور اسکے بعد مجھ پر سے سب الزام ختم، میں نہایا دھویا گھوڑا ہوں ۔ یہ غلط ہے۔ بات یہ ہے کہ جس بنیاد پر انہوں نے چینی رہن رکھی تھی وہی اٹھا کر مارکیٹ میں بیچ دی اور پیسے لے لیے۔ اسکی قیمت بھی بینک نے ادا کی تھی تو اصولی طور پر منافع بھی بینک کو لینا چاہئے تھا ۔ بینک کو تو دھیلا بھی نہیں ملا اور باہر بیٹھے ہوئے بندے نے چینی بیچ کر بے انتہا منافع کما لیا ۔ اب وہ بندہ کہتا ہے کہ اچھا میں اصل پیسے واپس کر دیتا ہوں۔ کیا آج آپکو کوئی بینک بیٹھے بٹھائے 200یا500ارب روپے دے دے گا کہ آپ اس پیسے سے کاروبار کریں ، منافع اور اصل اپنے پاس رکھیں اور بس کاغذوں پر لکھت پڑھت ہو جائے کہ آپ نے اتنے پیسے لیے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں اس قسم کی دھاندلی ہوسکتی ہے۔ یہ صرف پاکستان میں ہو سکتی ہے کہ بینک سے پیسا لیا، کاروبار کیا، فائدہ اٹھایا اور جب اتفاقاًپکڑے گئے تو کہہ دیا کہ میں پیسے واپس کر دیتا ہوں۔ یہ کوئی سزا نہیں ہے اس پر باقاعدہ سزا ہونی چاہئے۔
چوہدری پرویز الہیٰ کی ویڈیو لیک ہونے اور تحریک انصاف اور ق لیگ میں اختلاف ی باتوں پر ضیا شاہدنے کہا کہ جسے بلانا چاہئے تھا وہ اسپیکر پنجاب اسمبلی ہیں کیونکہ یہ معاملہ انہی کا شروع کردہ ہے ۔ انہی کے گھر پر میٹنگ ہوئی اور انہی کے گھر پر جہانگیر ترین نے گفتگو کی اور انہی کے سٹاف نے یہ فلم بنائی اور اس فلم کو وائرل کیا اور شور مچ گیا کہ دیکھو جہانگیر ترین کیا کہہ رہے ہیں اور چوہدری پرویز الہیٰ کیا کہہ رہے ہیں۔گورنر اور وزیراعلیٰ کے درمیان کوئی لڑائی نہیں ۔ جھگڑا سپیکر پرویز الہیٰ اور گورنر پنجاب چوہدری سرور کے درمیان ہے۔ کل ہمارے اخبار میں ایک تفصیلی رپورٹ چھپی ہے۔ یہ دراصل پنجاب میں برادری ازم کا مسئلہ ہے ۔ چوہدری پرویز الہیٰ کا تعلق جٹ برادری سے ہے ، جب وہ وزیراعلیٰ تھے تو بھی مشہور تھا کہ پنجاب کے 34 اضلاع میں سے شاید 31اضلاع کے ڈی سی اوز جٹ برادری سے تھے۔ اسی طرح سے ایس ایس پیز اور ڈی آئی جی کے عہدے پر بھی انہی لوگوں کو ترجیح دی جاتی تھی جو جٹ ہوں۔ دوسری طرف چوہدری سرور کا تعلق ارائیں برادری سے ہے۔ جس جس، ضلع میں ارائیں برادری کو کوئی تکلیف ہوتی ہے وہ قدرتی طور پر چوہدری سرور کے پاس آتے اور شکایت کرتے ہیں۔ چوہدری سرور کے پاس بطور گورنر کوئی اختیارات نہیں ہیں۔ وہ براہ راست نہ تو کسی افسر کو تبدیل کر سکتے ہیں اور نہ کسی کی جگہ پر کوئی دوسرا بھجوا سکتے ہیں لیکن اپنا اثر ورسوخ استعمال کر کے وہ معاملہ حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ عمران خان اگر ایک ایسی میٹنگ بلائیں جہاں گورنر پنجاب، جہانگیر ترین اور چوہدری پرویز الہیٰ بیٹھے ہوں تو 15منٹ میں یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔
چیئرمین نیب کی جانب سے نیب افسران کو میڈیا پر گفتگو کرنے سے روکنے کے اقدام پر ضیا شاہد نے کہا کہ چیئرمین نیب کا بہت اچھا اقدام ہے ۔ اس سے بڑی غلط بحثیں جنم لیتی ہیں۔ نیب کا اپنا ترجمان ہے جس سے کسی بھی متنازعہ بات پر موقف لیا جا سکتا ہے لیکن یہ الگ بات ہے کہ حضرت صاحب کم ہی جواب دیتے ہیںاورجواب گول کر دیتے ہیں۔ انکو اختیارات دینے چاہئیں کہ وہ کھل کر بات کر سکیں ۔ میڈیا کو سوال پوچھنے ہوتے ہیں ان کو کوئی تو بتا نے والا ہو۔ اگر انہیں کوئی نہیں بتائے گا تو وہ کسی بھی سطح پر نیب کے آدمی سے پوچھ کر کچی پکی معلومات چھاپیں گے۔ اس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ نیب ترجمان میسر ہو جو ہر بات کے جواب میں تفصیل کیساتھ متفقہ وقاع نگاری کے اعتبار سے صحیح معلومات دے تو یہ مسئلہ حل ہو سکتاہے۔نیب پر الزامات کا فیصلہ خود نیب کو ہی کرنا چاہئے۔ نیب کے ڈی جی نے کیوں ایسا انٹرویو دیا، یہی کام نیب چئیرمین بھی کر سکتا تھا۔ نیب چیئرمین خود سپریم کورٹ کے جج رہے ہیں اگر وہ خود پریس کانفرنس کرتے تو بہتر انداز میں کر سکتے تھے اور اسمیں کوئی بات ایسی نہ ہوتی جس پر کسی کو اعتراض ہوا۔ ڈی جی نیب کو اجازت دی گئی یا نہیں انکی بات پر شور مچا ہوا ہے ۔ آج سینٹ کی پرنسپل کمیٹی نے انہیں الزامات سمیت بلایا بھی کہ آئیں اور جواب دیںکہ آپ نے کیا الزامات لگائے ہیں۔
قانون و انصاف کی قائمہ کمیٹی کی جانب سے چیئرمین نیب کی طلبی پر ضیا شاہد نے کہا کہ 3 سال کے کیسز اکٹھے کر کے لانے کے لیے 3ماہ چاہئیں۔ لگتا ہے کہ ہمارے ہاں جب حکم دیا جاتا ہے تو ایسا دیا جاتا ہے جو قابل عمل ہی نہ ہو۔ اگروہ یہ کہتے تھے ڈی جی نیب کے بیان کی وضاحت کریں تو وہ اگلے دن ہی آکر کر سکتا تھا۔ اب کیا وہ اگلے ہفتے پچھلے 3 سال کے کیسز کا ریکارڈ لیکر جا سکتے ہیں۔ مجھے شک ہے ۔ چلے جائیں تو اچھی بات ہے مگر مجھے لگتا ہے کہ وہ مزید وقت لیں گے۔یہ وقت ضائع کرنے والی کارروائی ہے۔ ہمارے ہاں قائمہ کمیٹیاں مکمل اہل ہیں اور وہ آئین کے اختیار کے مطابق بلا سکتی ہیں۔ مگر انہیں اس قسم کے مطالبات سامنے رکھنے چاہئیں جو قابل عمل ہوں 3 سال کے نیب مقدمات جو انکوائری، انویسٹیگیشن کی پوزیشن میں ہیں انکی کلاسیفائیڈ انفارمیشن مقررہ وقت پر نہیں جمع کرائی جا سکے گی اس پر مزید وقت دینا پڑے گا۔
کراچی کے علاقے زمزمہ کے ایک نجی ہوٹل میںمضر صحت کھانا کھانے سے بچوں کے جاں بحق ہونے اور والدین کے ہسپتال منتقل ہونے پر ضیا شاہد نے کہا کہ جب تک حکومت عوامی زندگی کے ادارے خواہ ہوٹل یا دوسرے اداروں کی سیفٹی کو یقینی نہیں بناتی۔ کسی بھی ملک پبلک لائف کی سیفٹی کا اندازہ اسی قسم کے واقعات سے ہوتا ہے۔ آپ بچوں سمیت کھانے پینے باہر چلے گئے ہیں اور آپ کا یہ حشر ہوتا ہے تو کیا کسی اور کی جرا¿ت ہوگی کہ اس قسم کا کام کرے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain