تازہ تر ین

سپریم کورٹ کا نیب کیخلاف اہم فیصلہ جاری

اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ نے چیئرمین نیب کو کرپشن کی رقم کی رضاکارانہ واپسی کا اختیار استعمال کرنے سے روکنے کا تفصیلی حکم نامہ جاری کر تے ہوئے کہا ہے کہ رقوم واپس کرنے والے اہم افسران کیخلاف فوری کارروائی کی جائے ۔بدھ کو سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس کیس کے تحریری حکم نامے میں کہاکہ نیب قانون کے سیکشن 25 اے کے تحت لوٹی گئی رقم کی رضاکارانہ واپسی کا اختیار بدعنوان عناصر کو کلینچٹ دینے کے مترادف ہے۔سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ اور چیف سیکرٹریز اس قانون سے فائدہ اٹھانے والے افسران کیخلاف فوری کارروائی کریں۔سپریم کورٹ نے نیب سے کرپشن کی رقم رضاکارانہ واپس کرنے کا گذشتہ 10 سال کا ریکارڈ 5 نومبر تک طلب کر لیا ہے۔سپریم کورٹ نے چیئرمین نیب کو رضاکارانہ رقوم کی واپسی اور پلی بارگین کے اختیارات استعمال کرنے سے روکنے کے حوالے سے تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔ پانچ صفحات پر مشتمل عدالت عظمیٰ کا فیصلہ جسٹس امیر ھانی مسلم نے تحریر کیا ہے جس میں عدالت عظمیٰ نے نیب کی طرف سے کرپشن کرنے والوں سے رقوم کا کچھ حصہ لے کر انہیں سرکاری عہدوں پر دوبارہ بحال کرنے پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ یہ خطرناک صورتحال ہے کہ نیب کی طرف سے قسطوں میں یا یکمشت وصول کی گئی رقوم متعلقہ حکومتی محکمے میں جمع نہیں کرائی جاتیں جبکہ قواعد کی آڑ میں یہ رقوم نیب کے افسران کو نوازنے کے لئے رکھی جاتی ہیں۔ عدالت نے کہا ہے کہ دوران سماعت پراسیکیوٹر جنرل نیب نے رضاکارانہ طور پر وصول کی گئی رقوم کی تفصیلات جمع کرائی ہیں اور پراسیکیوٹر نے موقف اختیار کیا ہے کہ نیب اپنے افسران میں تقسیم کے لئے رقم اپنے پاس نہیں رکھتا۔ عدالت نے نیب کو حکم دیا ہے کہ گذشتہ 10 سال کے دوران جو رقوم ادارے نے برآمد کی ہیں اور جو رقوم حکومتوں کے کھاتوں میں جمع کرائی گئی ہیں ان کی تفصیلات 5 نومبر تک عدالت میں جمع کرائی جائیں۔ عدالت نے اٹارنی جنرل اور صوبائی ایڈووکیٹ جرنلز کو بھی ہدایت کی ہے کہ وہ نیب کی طرف سے جمع کرائے گئے جواب کی نقول اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور صوبائی چیف سیکرٹریز کو فراہم کریں۔ عدالت نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور چیف سیکرٹریز کو ہدایت کی ہے کہ سرکاری محکموں کے وہ افراد جنہوں نے رضاکارانہ طور پر رقوم واپس کیں ان کے خلاف محکمانہ کارروائی کر کے آئندہ سماعت سے قبل تحریری رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائیں۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ چیئرمین نیب یا ان کی طرف سے بااختیار بنائے گئے افسر رضاکارانہ طور پر رقوم کی واپسی کے حوالے سے نیب آرڈیننس کے سیکشن 25 پر عملدرآمد نہیں کرینگے۔ عدالت نے مقدمہ کو دوبارہ 7 نومبر کو سماعت کے لئے مقرر کرنے کی ہدایت کی ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو سرکاری افسران یا ملازمین کرپشن میں ملوث پائے گئے ہیں ان کے خلاف ابھی تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی جو کہ انتہائی بدقسمتی ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ جو شخص ایک دفعہ کرپشن کرتے ہوئے پکڑا جائے وہ رضاکارانہ طور پر رقم واپس کر کے کوئی بھی سرکاری عہدہ نہیں رکھ سکتا کیونکہ رضاکارانہ طور پر رقوم کی واپسی (مس کنڈکٹ) کے ضمرے میں آتی ہے۔ عدالت نے کہا ہے کہ نیب کی طرف سے جمع کرائی گئی رپورٹ بتاتی ہے کہ سینکڑوں سرکاری ملازمین اور دیگر لوگوں نے سیکشن 25 کے تحت رقوم جمع کرائیں اور ابھی تک اپنے عہدوں پر براجمان ہیں اور ان کے خلاف کوئی بھی ایکشن نہ لینے کی وجہ سے کرپشن میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے۔ عدالت نے کہا کہ محکمانہ حکام نے بھی نیب کو ایک راستہ فراہم کر کے کرپشن میں اضافے میں معاونت کی ہے۔ یاد رہے کہ چیف جسٹس نے 9 ستمبر کو اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں پر ازخود نوٹس لے کر اس کیس کی سماعت کا آغاز کیا تھا اور چوبیس اکتوبر کو چیف جسٹس انور ظہیر جمالی، جسٹس امیر ھانی مسلم اور جسٹس شیخ عظمت سعید پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے مختصر فیصلہ سنایا تھا۔ بدھ کو عدالت عظمیٰ نے کیس کا تحریری فیصلہ جاری کیا۔


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain