لاہور (سپیشل سیاسی رپورٹر) باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ پاکستان کے سابق آرمی چیف ریٹائرڈ جنرل راحیل شریف کے تمام معاملات دہشت گردی کے خلاف اسلامی ممالک کے عسکری اتحاد کو منظم کرنے کی خاطر فائنل ہو چکے ہیں اور جنرل راحیل شریف 9 جنوری کو وطن واپس آ رہے ہیں اور فوری طور پر اپنے ساتھ لے جانے کیلئے دو سے تین تک سابق آرمی لیفٹیننٹ جنرل، متعدد بریگیڈیئر (ر) اور کئی دیگر سابق فوجی افسران کو نئی کمان کیلئے بھرتی کر رہے ہیں بلکہ ایک اطلاع کے مطابق اگلے 3 ماہ کے اندر پاکستان سے کم وبیش ایک بریگیڈ کے لگ بھگ سابق آرمی افسر جمع کر کے جنوری فروری میں انہیں بھیجنے کا کام نہ صرف شروع کر دینگے بلکہ مارچ کے آخر تک یہ انتظام مکمل ہو جائے گا۔ گمان غالب ہے کہ 9 جنوری کو پاکستان واپس آتے ہی وہ اپنے کام کا آغاز کر دیں گے انہیں دہشت گردی کے خلاف اسلامی ممالک کے عسکری اتحاد کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے جس کا قیام 15 دسمبر 2015ءکو سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن نائف نے کیا تھا اس کمان کا جوائنٹ کمانڈ سنٹر جے سی سی (JCC) سعودی عرب کے شہر ریاض میں ہو گا۔ کمانڈ میں شامل مسلم ممالک کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے پہلے وہ مسلم ممالک ہونگے جس کے پاس باقاعدہ فوجی سٹرکچر موجود ہے جیسے سعودی عرب، بحرین، بنگلہ دیش، مصر، اردن، نائیجریا، عمان، ترکی، متحدہ عرب امارات اور پاکستان۔ دوسری صف میں وہ ممالک شامل ہوں گے جن کی باقاعدہ تربیت یافتہ فوج اور کمان ابھی مکمل نہیں۔ ان کے نام تنیش، چاﺅ، کومرو، کو ڈی آئی ڈی، ڈی جی مشری، اریٹیریا، گبون، کینیا، کویت، لبنان، مالدیپ، مالی، موریطانیہ، مراکش،نائیجیریا، سینیگال، سری لیون، صومالیہ، سوڈان، ٹوگو، تیونس، یمن، تیسری صف میں وہ ممالک ہیں جن کی رکنیت زیر غوراور زیر تکمیل ہے، ان کے نام یہ ہیں افغانستان آذر بائیجان، انڈونیشیا، تاجکستان وغیرہ۔ ان ممالک کی شمولیت یا عدم شمولیت کا فیصلہ اگلے چند ہفتے میں ہو جائے گا۔دہشتگردی کے خلاف مسلم ممالک کے جوائنٹ کمانڈ سنٹر کو پاکستان کے جی ایچ کیو کے رول ماڈل پر بنایا جائے گا۔ واضح رہے پاکستان باقاعدہ فوجی دستے بھی اس سے قبل سعودی عرب جاتے رہے ہیں۔ 1980ءمیں پاکستانی دستے سعودی عرب کی افواج کے ساتھ افرادی قوت کے طور پر شامل رہے تاہم اسلحہ اور سازوسامان سعودی عرب نے فراہم کیا تھا۔ 1990ءکی دہائی میں بھی یہ دفاعی معاہدہ ختم ہو گیا اور پاکستان کی بری افواج کے دستے واپس آ گئے۔ بعد ازاں صدام حسین نے جب حملہ کیا پاکستان سے کچھ فوجی دستے پھر سعودی عرب میں پہنچے تاہم اس بار پاکستان کے ریگولر فوجی دستے سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض نہیں جائیں گے بلکہ جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف سعودی عرب سے 9 جنوری کو واپس پاکستان آنے کے بعد پہلے مرحلے پر ریٹائر فوجی جرنیلوں اور ریٹائرڈ اعلیٰ افسروں کو منتخب کریں گے اور دوسرے مرحلے پر ریٹائرڈ اعلیٰ اور چھوٹے افسروں اور ریٹائرڈ فوجیوں کا ایک بریگیڈ کھڑا کرنے کی کوشش کا آغاز کر دیں گے جو دہشتگردی کے خلاف اسلامک ملٹری الائنس میں مرکزی کردار ادا کرے گا تاہم دیگر بڑے ملکوں کی افواج میں سے بھی حاضر سروس یا ریٹائرڈ افسر اور سپاہی لئے جائیں گے۔ جن تین ملکوں کو سب سے زیادہ ترجیح دی جائے گی ان میں سعودی عرب اور پاکستان کے علاوہ ترکی، مصر اور بنگلہ دیش شامل ہیں۔ واضح رہے کہ سعودی افواج کے بعض اہم شعبے میں پہلے ہی سے اعلیٰ پیشہ ورانہ تربیت کا فریضہ پاکستان انجام دیتا رہا ہے تاہم یہ خبر عام ہے کہ اس بار پاکستان سے بالخصوص دہشتگردی کے خلاف مہم مثلاً سوات اور وزیرستان میں ضرب عضب کے ریٹائرڈ ہیرو جمع کر کے دہشتگردی کے خلاف اسلامی ممالک کی جائنٹ کمانڈ میں شامل کئے جائیں گے۔ یہ افواہ بھی عام ہے کہ شاید ملتان کے سابق کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل اشفاق ندیم اور بہاولپور کے سابق کور کمانڈر جاوید اقبال رمدے جو ابھی تک پاک فوج میں موجود ہیں تاہم موجودہ آرمی چیف کے آگے آنے اور ان دونوں سپر سیڈ کئے جانے کے نتیجے میں ایسی افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں کہ اگر انہوں نے پاک فوج سے ریٹائر ہونے کا فیصلہ کر لیا تو ملتان کے سابق کور کمانڈر جنرل اشفاق ندیم جو جنرل (ر) راحیل شریف کی فوج میں ڈیوٹی کے دوران ان کے چیف آف جنرل سٹاف رہے تھے اور اعلیٰ عسکری صلاحیتوں کے حامل ہیں انہیں دہشتگردی کے خلاف اسلامی ممالک کی فوج میں جنرل (ر) راحیل شریف کا سینئر ترین اور معتمد ترین نائب کی ذمہ داری سونپی جائے گی تاہم اس بارے میں یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے کیونکہ لیفٹیننٹ جنرل اشفاق ندیم ابھی پاک فوج میں موجود ہیں اور پورٹ قاسم سے فوجی فرٹیلائزر مختلف اہم اداروں میں ان کی تقرری کی خبریں بھی گردش کر رہی ہیں، بہرحال ان دونوں لیفٹیننٹ جنرل اشفاق ندیم اور لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال رمدے نے پاک فوج سے اپنی ریٹائرمنٹ تک کسی بھی عہدے پر کام جاری رکھنے کا فیصلہ کیا تو جنرل (ر) راحیل شریف ان کی بجائے گزشتہ چند برسوں میں ریٹائرہونے والے سینئر فوجی افسروں لیفٹیننٹ جنرلوں اور میجر جنرلوں کو اپنے ساتھ لے جانے کی کوشش کریں گے۔ تاہم چھوٹے اور بڑے ریٹائر فوجیوں کے علاوہ بھی متعدد پیشہ ورانہ شعبوں میں بھی جنرل (ر) راحیل شریف کی ترجیح یہی ہو گی کہ وہ پاک فوج کے ریٹائرڈ افسران کی خدمات جوائنٹ کمانڈ سنٹر کے لئے حاصل کریں گے۔ بہرحال اگر جنرل (ر) راحیل شریف نے اگلے ماہ ہی اپنی ذمہ داری سنبھالی تو ریٹائرڈ اعلیٰ اور درمیانے درجے کے ریٹائرڈ افسروں کی بھی ایک بڑی تعداد انتہائی پرکشش معاوضوں اور بہترین سہولتوں کے ساتھ اسلامی امن فوج کی حصہ بن جائے گی۔