واشنگٹن (ویب ڈیسک ) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر خبردار کیا ہے کہ شمالی کوریا کے میزائل اور جوہری پروگرام کی وجہ سے اس کے ساتھ ایک بڑی جنگ چھڑ سکتی ہے۔امریکی صدر کے سخت بیان کے برعکس ان کے وزیرِ خارجہ ریکس ٹلرسن نے کہا ہے کہ واشنگٹن شمالی کوریا سے بات چیت کر سکتا ہے۔نیشنل پبلک ریڈیو کو دیے جانے والے انٹرویو میں ریکس ٹلرسن نے کہا کہ امریکہ شمالی کوریا میں حکومت کا خاتمہ نہیں بلکہ صرف جزیرہ نما کوریا سے جوہری ہتھیاروں کی تخفیف چاہتا ہے۔امریکہ کی جانب سے متضاد بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ واشنگٹن شمالی کوریا کی جانب سے جوہری ہتھیاروں سے دستبردار ہونے اور اس کے بدلے میں رہنما کم جانگ کے اقتدار میں رہنے کے حوالے سے بات چیت کرنے پر تیار ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روائٹرز کے ساتھ ایک انٹرویو میں صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ان کی ترجیح اس تنازع کو سفارتی سطح پر حل کرنا ہے لیکن اس میں کامیابی ملنا بہت مشکل ہے۔ٹرمپ نے اس سلسلے میں چینی صدر شی جن پنگ کی تعریف کی اور کہا ہے کہ وہ شمالی کوریا پر دباو¿ ڈالنے کے لیے پوری کوشش کر رہے ہیں۔انھوں نے کہا کہ ‘وہ بہت اچھے انسان ہیں’ جو اپنے ملک سے پیار کرتے ہیں۔روائٹرز سے بات چیت میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ اس بحران کو سفارتی سطح پر حل کرنا چاہتے ہیں لیکن یہ کافی مشکل عمل ہے اور اس پر بڑا بلکہ کافی بڑا تنازع بھی ممکن ہے۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ اتنی کم عمر میں کم جانگ ا±ن کے لیے شمالی کوریا کا اقتدار سنبھالنا کافی مشکل رہا ہوگا۔امریکہ کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا کے میزائل پروگرام پر قابو پانے کے لیے وہ ہر طرح کے متبادل پر غور کر رہا ہے ۔ شمالی کوریا کے مسئلے پر بات چیت کے لیے جمعے کو ہی اقوام متحدہ میں جنرل اسبملی کا اجلاس ہورہا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کے صدارتی انتخبات میں کامیابی کے فوری بعد چین پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ شمالی کوریا پر لگام لگانے کے لیے زیادہ کچھ نہیں کر رہا ہے اور ایسی صورت میں امریکہ تن تنہا اس کے خلاف کوئی کارروائی کر سکتا ہے۔لیکن روئٹرز کے ساتھ مختلف مسائل پر خصوصی بات چ?ت کے دوران انھوں نے کہا کہ چینی صدر ‘یقینی طور افراتفری اور اموات نہیں دیکھنا چاہتے ہیں۔’