اسلام آباد (آئی این پی‘ این این آئی) قومی اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اپوزیشن کی تقاریر سرکاری ٹیلی ویژن پر براہ راست نشر کرنے کے معاملہ پر چوتھے روز بھی ڈیڈ لاک برقرار رہا‘ اپوزیشن نے گو نواز گو کے نعرے لگاتے ہوئے ایوان سے واک آﺅٹ کیا‘ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا کہ حکومت کی برداشت کے تحت اسمبلی کو نہ چلائیں ہم چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ مضبوط ہو اور جمہوری انداز میں فیصلے ہوں تاکہ ملک مضبوط ہو اور ترقی کرے‘ حکومت آئین اور قانون کے ساتھ کھلواڑ کررہی ہے اور قانون کی دھجیاں اڑا رہی ہے‘ اداروں کے ساتھ حکومت کا ٹکراﺅ ملک کے لئے سود مند نہیں ہوگا۔ حکومت جمہوری کو کس طرح لے کر جارہی ہے‘ حکومت آئین سے راستے نکال کر اپنی مرضی کی قانون سازی کی کوشش نہ کرے‘ بجٹ صرف حکومت کا نہیں ہوتا اس کی منظوری میں اپوزیشن کی شمولیت ضروری ہے‘ حکومت کی کوشش ہے کہ اپوزیشن بجٹ کا حصہ نہ بنے‘ بجٹ اجلاس ایک گھنٹہ تاخیر سے شروع ہونے کا مطلب ہے کہ کسی کو بجٹ سے دلچسپی نہیں ہے‘ بجٹ عوام دوست نہیں ہے اور اس میں غریب اور عام آدمی کو کوئی ریلیف نہیں دیا گیا۔ جمعہ کو قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر سردار ایاز صادق کی صدارت یں 48 منٹ تاخیر سے شروع ہوا۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا کہ آج ایک گھنٹہ اجلاس تاخیر سے شروع ہوا ہے بجٹ صرف حکومت کا ہی نہیں ہوتا اس میں اپوزیشن کی شمولیت ضروری ہے۔ اس سال کوشش کی گئی کہ اپوزیشن بجٹ کا حصہ نہ بنے یہ بجٹ عوام دوست نہیں ہے۔ غریب اور کسانوں سمیت کسی کو ریلیف نہیں دیا گیا۔ اجلاس کے حوالے سے تاخیر کا حکومت اخلاقی جواز پیش نہیں کرسکتی۔ اپوزیشن کا عوامی اسمبلی لگانے کا مقصد عوام تک اپنی آواز پہنچانا ہے۔ چیئرمین سینٹ پارٹی سے ہدایت پر ایوان ہی چلاتا لیکن اسمبلی حکومت کی ہدایات پر چلتی ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ پارلیمنٹ طاقتور ہو اور فیصلے یہاں سے ہوں۔ جمہوری اداروں سے فیصلے ہوں تاکہ ملک مضبوط ہو اور ترقی کرے آج آئین اور قانون دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔ آئین کے ساتھ کھلواڑ کیا جارہا ہے یہ ملک کے لئے صحت مند سیاست نہیں ہے۔ آئین سے راستے نکالے جارہے ہیں اور مرضی کی قانون سازی کی جارہی ہے ایسی سوچ سسٹم کے لئے خطرہ ہے۔ آج اداروں کو گالیاں دی جارہی ہیں‘ اداروں کا ٹکراﺅ ملک کے لےءاچھا نہیں ہے‘ ملک کو بیرونی چیلنج درپیش ہیں۔ اداروں سے ٹکراﺅ کیا جارہا ہے حکمران کبھی بھی علط نہیں ہوتا کبھی کسی نے نہیں کہا کہ شیر کے منہ میں بدبو ہے ایک سینیٹر نے یہ بیانات کیوں دیئے اس کو ایسی ہمت کیوں ہوئی پہلے ایک سینیٹر کے خلاف ایکشن نہیں لیا اب دوسرے سینیٹر نے بیان دیا کہ حساب لینے والوں کے بچوں کا ملک میں رہنا تنگ کردیں گے۔ آج پکراتے بھی خود ہیں اور چھوڑتے بھی خود ہیں بعد میں احسان جتاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فکر نہ کرو چھڑا دوںگا اور دو سال بعد سندھ کا کوئی گورنر بنوا دوں گا۔ وزیراعظم ہاﺅس کے ترجمان کی جانب سے بیان جاری کیا گیا کہ جج کے ریمارکس کی مذمت کرتے ہیں۔ جمہوریت کے لئے اس لئے لاشیں نہیں اٹھائیں اور قربانیاں نہیں دیں۔ کسی نے جمہوریت کے لئے کبوتر بھی قربان نہیں کیا ہم نے قربانیاں دیںاور لاشیں اٹھائی ہیں۔ آج جمہوریت کو کہاں لیکر جارہے ہیں۔ آپ ارکان سے تو کوکیسے ایوان میں لاتے ہیں ارکان خود کہتے ہیں کہ سات تاریخ تک دباﺅ برقرار رکھے دو سو ارب آگئے ہیں جو ان کو دیئے جائیں گے یہ پری پول دھاندلی ہے۔ سندھ اسمبلی سالہاسال لائیو چلتی ہے ساری اسمبلیوں کی کوریج براہ راست نشر کی جانی چاہئے۔ سینٹ جب چاہے فیڈ لے سکتی ہے۔ اپوزیشن کا مطالبہ ہے کہ ہماری تقریر بھی لائیو چلائیں اجلاس ایک گھنٹہ تاخیر سے شروع ہونا اس کا ثبوت ہے کہ بجٹ کسی نے قبول نہیں کیا سپیکر بے بس ہیں آپ کا احترام کرتے ہیں اس پر اپوزیشن نے واک آﺅٹ کردیا سپیکر سردار ایاز صادق نے کہا کہ کوشش کی تھی کہ مذاکرات سے معاملے حل ہوسکیں لیکن یہ نہیں ہوا اپوزیشن ارکان گو نواز کے نعرے لگاتے ہوئے چلے گئے۔ متحدہ حزب اختلاف نے آئندہ منگل دوبارہ پارلیمنٹ ہاﺅس میں ”عوامی اسمبلی“ لگانے کا فیصلہ کرلیا‘ وفاقی وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد کی اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کے ساتھ بات چیت میں کوئی پیش رفت نہ ہوسکی‘ بجٹ اجلاس کی کارروائی میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ برقرار ‘ اپوزیشن نے وزیر پارلیمانی امور کو بے اختیار بھی قرار دے دیا ہے‘ عوامی اسمبلی سے مطالبات کا اعلان کیا جائے گا‘ عوامی اسمبلی کا دوسرا اجلاس منعقد کرنے کا فیصلہ جمعہ کو اپوزیشن جماعتوں کے مشاورتی اجلاس میں کیا گیا ہے اجلاس اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کی صدارت میں ہوا۔ پاکستان پیپلز پارٹی ‘ پاکستان تحریک انصاف‘ جماعت اسلامی پاکستان ‘ ایم کیو ایم پاکستان‘ قومی وطن پارٹی اور آزاد اراکین نے شرکت کی۔ فاٹا کے اراکین نے اپوزیشن کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اپوزیشن رہنما آئندہ منگل عوامی اسمبلی میں ملکی حالات کے حوالے سے اپنے مو¿قف پیش کریں گے۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ حکومت اداروں سے لڑائی کر رہی ہے، غیر یقینی صورتحال پر ہر محب وطن پاکستانی پریشان ہے،جمہوریت کا کیا بنے گا؟جمعہ کوخورشید شاہ کا قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہنا ہے کہ کہا گیا کہ تحقیقات کرنے والوں کے بچوں پر زمین تنگ کر دیں گے، یہ دھمکیاں ان 3 ججز کو دی گئیں جوآپ کو جے آئی ٹی پر لائی۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم ہاوس کا ترجمان کہتا ہے کہ ججز کا کنڈکٹ درست نہیں، حکومت اداروں سے لڑائی کر رہی ہے، اداروں سے ٹکراو تباہی کی طرف لے جاتا ہے۔خورشید شاہ نے مزید کہا کہ ایک سینیٹر کو کس نے یہ ہمت دی کہ وہ ایسی بات کرے، کسی نے چنے چبانے کی بات کی تو نوبت یہاں تک آ گئی۔اپوزیشن لیڈر کا مزید کہنا ہے کہ دیہات میں بھی ایسا ہوتا ہے کہ پہلے پکڑو، پھر چھوڑ کر احسان کیا جاتا ہے، اس معاملے میں بھی ایسا ہی کیا گیا، 2سال بعد ان کو گورنر سندھ لگا دیں گے۔خورشید شاہ نے مزید کہا کہ ہم نے جانوں کی قربانیاں دیں، کوڑے کھائے لیکن ایسی دھمکیاں نہیں دیں، آپ ملک کو کس طرف لے کر جا رہے ہیں، جمہوریت کا کیا بنے گا۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ باتیں اس لیے کر رہے ہیں کہ ریکارڈ پر رہے کہ ہم نے خبردار کر دیا تھا، ہم سیاستدان ہیں ہم بولیں گے، ہمیں کسی کا ڈر نہیں۔ قومی اسمبلی نے ایوان بالا سے بھجوائے جانے والے 6 بل کسی ترمیم کے بغیر منظور کرلئے ہیںیہ بات جمعہ کو سینٹ اجلاس کے دور ان سیکرٹری سینٹ نے ایوان کو بتائی ۔ انہوںنے بتایا کہ منظور کئے جانے والے بلوں میں پراونشل موٹر وہیکل (ترمیمی) بل 2017ئ‘ گواہوں کے تحفظ و فوائد بل 2017ء‘ حصول زمین (ترمیمی) بل 2017ء‘ انسداد دہشتگردی (ترمیمی) بل 2017ئ‘ عوامی نمائندگی بل 2017ءاور سینٹ سیکرٹریٹ سروسز بل 2017ءشامل ہیں جبکہ کارپوریٹ بحالی بل‘ لاءریفارمز (ترمیمی) بل 2016ئ‘ انسداد دہشتگردی (ترمیمی) بل 2016ءاور پانامہ پیپرز انکوائری بل 2017ءقومی اسمبلی نے منظور نہیں کئے جبکہ ایک بل ترمیم کے ساتھ منظور کیا گیا ہے ¾ چیئرمین سینٹ نے سینٹ سے بھجوائے جانے والے بلوں کی منظوری پر ایوان کے ارکان کو مبارکباد یتے ہوئے کہاکہ اس سلسلے میں سینٹ سیکرٹریٹ سروسز بل 2017ءاور گواہوں کے تحفظ کے بل کی منظوری انتہائی اہمیت کی حامل ہے جس پر تمام ارکان اور محرکین مبارکباد کے مستحق ہیں۔اجلاس کے دور ان سیکرٹری سینٹ امجد پرویز نے بتایا کہ سینٹ کے 261 ویں اور 262 ویں سیشن کے دوران مختلف پبلک پٹیشنز موصول ہوئیں جن میں سے 4 متعلقہ قائمہ کمیٹیوں اور ایک سینٹ سیکرٹریٹ کو بھجوا دی گئی۔ 43 پٹیشنز ناقابل سماعت قرار دے دی گئیں۔ وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہاہے کہ نہا ل ہاشمی کی جس نازیبا گفتگو کا حوالہ دیا گیا ہے اس کا کوئی دفاع ¾ہوسکتا ¾اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ ہمیں وعظ نہ کریں ¾ آزادی سے فیصلے اور اپنے اداروں کا تحفظ کرنے والی عدلیہ کےلئے ہم نے بھی خون دیا ہے ¾ پاکستان کا آئین اور ادارے مضبوط پاکستان اور بقا کی ضمانت ہیں‘ ہمیں ادارے عزیز ہیں‘ عدالت جب بھی بلائےگی ہمارا سر اس کے سامنے خم ہوگا‘ نواز شریف استثنیٰ لے سکتے تھے ¾وزیر اعظم اپنی اور اپنے بچوں کی بے گناہی ثابت کریں گے‘ ہم نے عدلیہ کی بحالی کےلئے وزارتیں اور اسمبلی کی رکنیت چھوڑی تھی جن لوگوں نے اس ایوان سے ناک رگڑ کر استعفے واپس لئے وہ پھر باہر جاکر اس ایوان کو گالیاں دے رہے ہیں ¾پارلیمنٹ کا چینل ہو تو جو چاہے گا اسے دیکھے گا ¾ ہمارے چہرے عوام کے سامنے واضح ہوں گے ¾ جب ہم استعفیٰ دے رہے تھے یہ گورنر راج لگا رہے تھے‘ اب ڈرامے بازی نہیں چلے گی۔جمعہ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں قائد حزب اختلاف کی طرف سے اٹھائے گئے نکات کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ محمد آصف نے کہا کہ ہم بھی چاہتے ہیں پارلیمنٹ احسن انداز میں چلے اور اس کی کارروائی جمہوری اقدار کا مظہر ہو۔ انہوں نے کہاکہ اسمبلی کی کارروائی براہ راست دکھانے کی ذاتی طور پر حمایت کروں گا کیونکہ 20 کروڑ عوام کے نمائندوں کی کارکردگی کا عوام کو پتہ چلنا چاہیے انہوں نے کہا کہ اسمبلی کا اپنا چینل ہونا چاہیے ¾انہوں نے کہا کہ سیاستدانوں کا طبقہ ایسا ہے جسے گالی دی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کا چینل ہو تو جو چاہے گا اسے دیکھے گا اور ہمارے چہرے عوام کے سامنے واضح ہوں گے۔