تازہ تر ین

ویکسین

ڈاکٹرنوشین عمران
ویکسین کے ذریعے اینٹی جن مادہ جسم میںداخل کیا جاتا ہے تاکہ کسی مخصوص بیماری کے خلاف قوت مدافعت پیدا ہو۔ انفیکشن سے پیدا ہونے والے امراض سے بچاﺅ کا بہترین طریقہ ویکسین ہے۔ ویکسین اصل جراثیم وائرس سے ہی لیا جاتا ہے جسے لیبارٹری میں قدرے تبدیل کر کے اس قابل بنایا جاتا ہے کہ جسم میں دخل ہو۔ اصل بیماری نہ پیدا کرے۔ اصل وائرس کو کمزور کرکے بے اثر INACTIVE کہا جاتا ہے۔ پہلی ویکسین چونکہ گائے سے حاصل کی گئی اور لاطینی زبان میں ویکا سے مراد گائے ہے اس لئے ان حفاظتی ٹیکوں کو ویکسین کا نام دیا گیا۔ ویکسین‘ حفاظتی ٹیکے اور امیوناائزیشن ایک ہی چیز کے نام ہیں۔
ویکسین کے ذریعے اصل وائرس کی تبدیل شدہ بے اثر زندہ شکل جسم میں داخل کی جاتی ہے۔ یہ ویکسین والا جرثومہ بیماری پیدا نہیں کر سکتا صرف معمولی بخار یا ویکسین لگائے جانے کی جگہ ہلکی خارش کرتا ہے۔ البتہ جسم میں جانے کے بعد جسم کا مدافعاتی نظام اس وائرس کو پہچان کر اس کے خلاف قوت مدافعت پیدا کر لیتا ہے۔ اس ہیجان اور قوت مدافعت کے باعث دوبارہ کبھی اس مرض کا وائرس جسم میں داخل ہو تو جسم کے اندر پہلے سے اس کے خلاف پہچان اور مدافعت موجود ہوتی ہے جسم فوری طور پر وائرس کو مار دیتا ہے اور بیماری سے محفوظ رہتا ہے۔ ویکسین کو پوری طرح فعال رکھنے کے لئے ایک سے زیادہ دفعہ جسم میںداخل کیا جاتا ہے۔ اسی لئے ویکسین ایک سے زیادہ بار دی جاتی ہے۔ بعض ویکسین چار یا پانچ سال گزرنے کے بعد پوسٹر ڈوز بھی دی جاتی ہے۔ کچھ ویکسین خاصی قیمتی پروٹین سے بھی بنائی جاتی ہیں۔
دنیا میں پہلی ویکسین دو سو سال قبل میچک کے لئے چین اور انڈیا میں استعمال کی گئی۔ ایسے شواہد موجود ہیں کہ دو سال قبل طبی ماہر افراد نے جراثم کو بے اثر کر کے کچھ صحت مند افراد کے جسم میں داخل کیا اور دعویٰ کیا کہ یہ لوگ ہر وبائی امراض سے محفوظ رہے۔
پولیو کے لئے 1955ءسے ویکسین دستیاب ہے۔ دنیا بھر میں قطروں کے بجائے انجکشن ویکسین کو ترجیح دی جاتی ہے اور اب پاکستان میں بھی بالآخر انجکشن ویکسین کے استعمال کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ حفاظتی ٹیکوں یا امیونائزیشن شیڈول میں پولیو‘ ٹی بی‘ خناق‘ کالی کھانسی‘ خسرہ‘ کن پیڑے‘ جرمن میزل‘ تشنج کی ویکسین بہت عرصہ سے شامل تھیں کچھ سالوں سے سرکاری طور پر بھی ان کے ساتھ ہیپاٹائٹس‘ نمونیا کی ویکسین کو بھی لگایا جا رہا ہے۔
بعض ویکسین پرائیویٹ طور پر ڈاکٹر بچوں اور بڑوں کو بھی لگاتے ہیں۔ یہ سرکاری حفاظتی ٹیکوں کے شیڈول میں تو شامل نہیں لیکن حفاظت کے پیش نظر لگایا جاتا ہے۔ ان میں گردن توڑ بخار کے لئے انفلوائنزا‘ ہیومن پیسولوما وائرس HPV‘ ریبریز‘ روٹا وائرس چکن پاکس‘ نشنگلز‘ ویکسین شامل ہیں۔
٭٭٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain