تازہ تر ین

”نواز شریف کی نااہلی صرف اقامہ کی بنیاد پر نہیں ہوئی“ جسٹس (ر) وجیہہ الدین کی چینل ۵ کے مقبول پروگرام میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ آرمی پبلک سکول واقعہ نے پاکستان کی تاریخ تبدیل کر دی ہے۔ اس کے رونما ہونے سے قبل کوشش کی جا رہی تھی کہ طالبان اور دیگر دہشت گردوں سے مذاکرات کئے جائیں۔ اس میں تمام مکتبہ فکر کے عالم دین بھی شامل تھے۔ لیکن دوسری جانب سے ایسی شرائط رکھ دی گئیں کہ مذاکرات ممکن نہ رہے اس واقعہ کے رونما ہونے کے بعد آرمی نے یکطرفہ فیصلہ کیا کہ اب کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے۔ منور حسن کی سیاسی پارٹی نے اس وقت خودکشی کر لی جب انہوں نے کہا کہ ہمارا اور طالبان کا مقصد ایک ہی ہے۔ صرف طریقے جدا ہیں۔ اور طالبان کے جو لوگ مارے جاتے ہیں میں انہیں بھی شہید سمجھتا ہوں۔ راحیل شریف کے دور میں بینر اور پوسٹر لگائے گئے کہ صرف ملک کو وہی ٹھیک کر سکتے ہیں تاہم انہوں نے اس طرف توجہ نہیں دی۔ بعد ازاں بینر لگانے والوں کو پکڑا بھی گیا۔ بہرحال ملک میں ایک طبقہ ایسا ہے جو سمجھتا ہے کہ فوجی دور ہی اچھا تھا۔ کراچی میں فوج مشینیں لگا کر بیٹھی ہوئی ہے تا کہ گندہ پانی نکالا جا سکے۔ لوگ مصیبتوں سے بچنے کیلئے فوج کی طرف دیکھتے ہیں۔ کراچی میں صوبائی حکومت 9 سال سے ایک ہی سیاسی پارٹی کی ہے۔ ایم کیو ایم اور پی پی پی مل کر بھی نو برسوں سے صفائی اور نالیاں صاف نہیں کروا سکیں۔ کراچی کے میئر اختیارات کا رونا روتے ہیں تو چھوڑ کر گھر کیوں نہیں بیٹھ جاتے۔ راحیل شریف اب تو عیش کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان کی تنخواہ سن کر ڈر لگتا ہے پہلے یو این او کے سیکرٹری جنرل کے بارے سنتے تھے کہ انہیں سب سے زیادہ مشاہرہ ملتا ہے۔ راحیل شریف صاحب جس کے لئے وہاں گئے تھے ان کا کام ختم ہو چکا ہے۔ 41 اسلامی ممالک کے وزراءخارجہ کا یہاں آنا طے تھا۔ جس میں طے ہونا تھا کہ کون سے ملک سے کتنی فوج اور کتنا اسلحہ آئے گا اور یونیفارم کون سا ہو گا۔ نہ تو یہ اجلاس ہوا نہ ایجنڈا طے ہو سکا۔ اسلامی ممالک کے سربراہان یا وزراءخارجہ تو وہاں نہ آئے بلکہ آنحصرت ”ٹرمپ“ صاحب اپنی بے ہودہ زبان لے کر وہاں چلے گئے۔ اور عرب ممالک کو انہوں نے خوب وعظ کیا اور نیکی کی تلقین کی۔ اس کے دوران ہمارے وزیراعظم نہ تو تقریر کر سکے اور نہ سرکاری ملازم کے طور پر موجود رہنے والے راحیل شریف کوئی کلام کر سکے۔ طاقتور سپاہ رکھنا دنیا کو دھمکانے کیلئے ہوتا ہے۔ ہمارے بہت سے ریٹائرڈ فوجی راحیل شریف کے رابطے میں ہیں کہ ہمیں بھی وہاں لے لیں اور بڑی تنخواہ دلا دیں۔ نیب کے چیئرمین کی تقرری کا نظام ہمارے یہاں کچھ یوں ہے کہ وزیراعظم اور لیڈر آف اپوزیشن کی باہمی رضامندی سے کسی اچھے اور امین شخص کو چن لیا جائے اور نیب کا چیئرمین لگا دیا جائے۔ اس کے سامنے تمام مسائل رکھے جائیں۔ الیکشن کمیشن کا معاملہ بھی اسی طرح کا ہے۔ تمام صوبائی حکومتیں بھی اس میں شامل ہوتی ہیں چاروں صوبوں میں اگر مختلف حکومتیں ہی تو اپنے اپنے مرضی کے نمائندے مقرر کریں گی۔ نیب کے چیئرمین نے دونوں پارٹیوں کے ساتھ دوستی نبھائی ہے۔ اب ان کا دور ختم ہونے والا ہے اور چند ماہ باقی ہیں۔ آخری وقت پر وہ کیا تبدیلی لائیں گے۔ موجودہ حالات میں جوڈیشریی پر جتنا پریشر پڑ رہا ہے۔ وہ بھی اب جواب دیتی جا رہی ہے۔ سپریم کورٹ کے 5 ممبران نے پانامہ میں نوازشریف کو نااہل قرار دے دیا۔ اب ان کی بیگم این اے 120 سے الیکشن لڑ رہی ہیں انن کے پاس بھی ”اقامہ“ موجود ہے اقامہ کو چیلنج کرنے کیلئے جب لوگ ہائیکورٹ کے جج کے پاس گئے تو ان جج صاحب کے پاس بھی اقامہ نکل آیا۔ دیگر جج صااحبان نے بھی یہ سننے سے انکار کر دیا ہے۔ بیگم کلثوم نواز کے اقامے کے معاملے میں کوئی جج صاحبان بھی ہاتھ نہیں ڈالنا چاہتا۔ وہ ضرور این اے 120 کا الیکشن لڑیں گی۔ دفاعی تجزیہ کار میجر جنرل (ر) زاہد مبشر نے کہا ہے کہ پاک آرمی نے قربانیاں دے کر عوام کے دلوں میں گھر بنایا ہے۔ 65 اور71 کی جنگ کے علاوہ دیگر آپریشن میں جہاں بھی فوجی یا فوجی افسر مارا جاتا ہے۔ وہ شہید ہوتا ہے۔ ہماری تاریخ میں فوج سے بھی غلطیاں ہوئی ہیں۔ ہماری نام نہاد جمہوری حکومتیں اسٹیبلشمنٹ کا نام لے کر بہانہ بناتے ہیں۔ اصل جمہوریت موجود ہو تو کسی کی جرا¿ت نہیں کہ مارشل لا لگا سکے۔ جمہوری حکومتیں درست کام نہیں کر پاتیں اور مجبوراً فوجج درمیان میں آ جاتی ہے اس طرح مارشل لا لگ جاتا ہے۔ تجزیہ کار مکرم خان نے کہا ہے کہ پاکستان میں سوشل میڈیا کا استعمال اور اس میں تصویروں کی کانٹ چھانٹ کر کے استعمال کرنے میں شاید سب سے آگے نکل گیا ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ ضرور زیادتیاں ہو رہی ہیں۔ اس سے انکار نہیں لیکن اسے سوشل میڈیا پر اپنے انداز میں پیش کیا جا رہا ہے جو یقینا غلط ہے برما میں مذہب سے زیادہ نسل پرستی ہے۔ وہاں 5 کروڑ 20 لاکھ آبادی کا 87 فیصد بدھ مت ہیں۔ 6 فیصد عیسائی ہیں۔ 4 فیصد مسلمان ہیں اور آدھا فیصد ہندو آبادی ہے۔ یہ ایک چین کا بغل بچہ ریاست گنی جاتی ہے۔ میانمار (برما) چین کی بغل میں ہے۔ برما کے آگے تھائی لینڈ ہے۔ چین اگر ”ون بیلٹ ون روٹ“ کیلئے تھائی لینڈ تک پہنچنا چاہتا ہے تو برما کے بغیر یہ ممکن نہیں۔ مودی آج برما پہنچ گئے ہیں۔ مودی اور بنگلہ دیش حکومت وہاں کیا پیغام دے رہی ہے؟ ہم سمجھتے ہیں۔ ترکی کا پیغام خوش اؑٓئند ہے لیکن پاکستان اس میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتا۔ سفارتی محاذ پر تو ان کا ساتھ دیا جا سکتا ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام اور نسل کشی کی جا رہی ہے لیکن یہ معاملہ پرانا ہے۔ اصل ایشو یہ ہے کہ وہ انہیں شہریت نہیں دے رہے۔ ماہرقانون، جسٹس (ر) وجیہہ الدین نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے نوازشریف کے خلاف جو فیصلہ دیا ہے وہ ”اقامہ“ ہی ہے کہ احاطہ نہیں کرتا۔ بلکہ کورٹ نے وسیع بنیادوں پر فیصلہ دیا ہے۔ جس کا تعلق میاں صاحب کی اس کمپنی سے ہے۔ جو انہوں نے دبئی میں بنائی تھی۔ ”اسامہ“ گلف ممالک میں رہنے کے لئے ضروری ہے لیکن یہ یوایس کے گرین کارڈ جیسا نہیں کیونکہ گرین کارڈ ہولڈر 5 سال کے بعد وہاں کا شہری بن سکتا ہے لیکن ”اقامہ“ میں ایسا ممکن نہیں۔ گلف ممالک نے اقامہ اس لئے شروع کیا ہے کہ کہیں آنے والے یہاں اکثریت میں نہ ہو جائیں اور ہم اقلیت میں تبدیل نہ ہو جائیں۔ لہٰذا ”اقامہ“ شہریت تو ہے لیکن کسی بھی بڑی عدالت کی جانب سے اس کے دائرہ کار کو واضح نہیں کیا گیا۔ جلد اس بارے میں کوئی اہم فیصلہ سامنے آئے گا۔ معلوم نہیں جج صاحبان اقامے کیوں رکھتے ہیں۔ لیکن کلثوم نواز کے معاملے میں انہوں نے یہ مقدمہ سننے سے کیوں انکار کیا ہے۔ جج صاحب جو فیصلہ لکھتے ہیں اس میں صرف چند الفاظ لکھتے ہیں کہ ”ہم یہ مقدمہ سننا نہیں چاہتے“ اس سے زیادہ وضاحت نہیں لکھتے۔ اپنی پارلیمنٹ بھری ہوئی ہے جن کے پاس اقامے موجود ہیں اسی طرح جج صاحبان کے پاس بھی اقامے ہوں گے۔ پارلیمنٹ کوئی قانون بنا بھی دے۔ تو ہماری قوم اسے قبول نہیں کرے گی۔ سابق صدر سپریم کورٹ بار علی ظفر نے کہا ہے کہ کوئی جج بھی یہ سمجھتا ہے کہ میں اس کیس میں انصاف نہیں کر سکتا تو وہ مقدمہ سننے سے انکار کر دیتا ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک یا دو جج جو پہلے ہی سن چکے ہوں یا ان کا کسی کے ساتھ نظریاتی الحاق ہو تو وہ کیس نہیں سجتے۔ ہائیکورٹ میں تقریباً 50 کے قریب جج موجود ہیں۔ کوئی نہ کوئی تو ضرور اس کیس کو سنے گا۔ لیکن اگر اتفاق سے کوئی جج بھی اسے نہیں سنتا تو معاملہ سپریم کورٹ میں 184 کے تحت جا سکتا ہے۔ آج تک ایسا ہوا تو نہیں لیکن اگر یہ تصور کر لیا جائے کہ سپریم کورٹ بھی اسے نہیں سنتا تو آئین میں اس کا کوئی حل موجود نہیں۔ آئین کے مطابق سپریم کورٹ کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے کسی کو پسند آئے یا نہ آئے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain